عدالت سے عداوت

نادارافراد میں کھانا تقسیم کیا جارہا تھا اوربڑی تعدادمیں لوگ معیاری کھانے سے اپناپیٹ بھر رہے تھے ۔ہرشخص اپنا حصہ لے کرآگے بڑھ جاتا ،اس دوران ایک شخص نے دوافراد کاکھانا مانگا توتقسیم کرنیوالے نے اس کاسبب دریافت کیا تومانگنے والے نے بتایا کہ ایک حصہ اپنے کھانے کیلئے جبکہ دوسرا اس غریب اور مجبور شخص کیلئے جوایک طرف کونے میں بیٹھاروکھی روٹی پانی کے ساتھ کھا رہا ہے توکھانا تقسیم کرنے پرمامورشخص نے جواب دیا یہ کھانااسی شخص کی طرف سے تقسیم کیا جارہا ہے اوروہ ہمارے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ہیں ۔ہمارے ہاں بھی بڑے صاحب ثروت لوگ نادارانسانوں کیلئے دسترخوان سجاتے ہیں مگرکوئی ہے جوحضرت ابوبکر ؓ کی طرح سوکھی روٹی پانی کے ساتھ کھاتا ہو۔کیابحریہ دسترخوان سجانے والے ملک ریاض نے کبھی اپنے دسترخوان سے کھاناکھایا ہے ،وہ بدنصیب تودولت کی فراوانی کے باوجودروٹی تک نہیں کھاسکتے۔

اگردوافرادآپس میں دوست ہوں اوران دونوں کادشمن مشترک ہوتوان کے درمیان دوستی مزید گہری ہوجاتی ہے ۔صدرآصف زرداری اوربحریہ ٹاﺅن کے روح رواں ملک ریاض کی دوستی بارے ہرکوئی جانتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملک ریاض حسین کی دوستی سابق فوجی آمر پرویز مشرف اور صدرآصف زرداری کے کئی سیاسی دشمنوں کے ساتھ بھی ہے۔شایدہی پاکستان کاکوئی ایسا قدآور سیاستدان یانامور صحافی ہوجس نے ملک ریاض سے کسی نہ کسی صورت میں فائدہ نہ لیا ہو۔کسی داناکاقول ہے ''جوسب کادوست ہوتاہے وہ کسی کادوست نہیں ہوتا''۔ملک ریاض دولتمندہونے کے ساتھ ساتھ تعلقات اوراثرورسوخ والے بھی ہیں اوریہ تعلقات انہوں نے اپنی کسی ذاتی قابلیت کی بنیاد پرنہیں بلکہ دولت کی طاقت سے بنائے ہیں۔بلاشبہ دولت میں بڑی طاقت ہے،دولت سے انسانی ضمیراورجسم خریدااورنوچاجاسکتا ہے مگراس دولت سے آپ سچائی، صحت ،عزت اورزندگی نہیں خریدسکتے ورنہ کوئی دولتمندبیمار اورکوئی امیرکبھی رسوانہ ہوتا ۔دنیا ٹی وی کے پروگرام کی اندرونی رودادمنظرعام پرآنے کے بعد بھی اگرکوئی خودکوپارسا اوربیگناہ سمجھتا ہے توپھردنیا میں اس سے بڑا بیوقوف کوئی نہیں۔

جس طرح پاکستان اوربھارت کی فلموں میں ایک کرداردکھایا جاتاہے جوامیروں کولوٹتاہے اورغریبوں میں لٹاتا ہے مگریہاں معاملہ فلمی کہانی سے بالکل الٹ غریبوں کولوٹ کربااثراشرافیہ پرلٹایا جاتا ہے ۔کسی کومہنگااپارٹمنٹ دے کر،کسی کوپلاٹ اورکسی کوبلٹ پروف گاڑی دے کر جبکہ بحریہ دسترخوان کے نام پربیچارے مزدوروں اورمحنت کشوں کی محرومیوں کامذاق اڑایا جاتا ہے جودوپہرکاکھاناتناول کرنے کیلئے گھنٹوں کھلے آسمان تلے چلچلاتی دھوپ اورشدیدسردی میں بیٹھتے ہیں اورطویل انتظار کے بعدان کی باری آتی ہے اورکئی وہاں سے خالی پیٹ واپس لوٹ جاتے ہیں ۔ ملک ریاض حسین نے معذورافراد کووہیل چیئراورنقدرقوم دیتے ہیں اوراس کی تصویر کے ساتھ خبر لگاتے ہیں جبکہ انہوں نے کئی بڑی شخصیات اوران کے بیٹوں کوبلٹ پروف گاڑیاں دی ہیں مگران میں سے کسی کوگاڑی دیتے ہوئے تصویرنہیں چھاپی ۔درحقیقت ملک ریاض حسین کے یہ نذرانے ایک طرح سے انوسٹمنٹ کے زمرے میں آتے ہیں ۔وہ بااثرشخصیات کوخوش کرکے اپنے کئی کام نکلواتے ہیں جبکہ غریبوں کو ایک وقت کی روٹی دے کر موصوف نے خود کو ان کا ان داتا سمجھناشروع کردیا ہے ۔

کیا صدرآصف علی زرداری کے دوراقتدارمیں ان کے معتمداوربااثردوست ملک ریاض حسین جوکئی ریٹائرڈ جرنیلوں کوماہانہ تنخواہ اورمختلف مراعات دیتے ہیں،کیا ان کوڈاکٹر ارسلان افتخار سمیت کوئی بلیک میل کرسکتا ہے دوسری بات یہ کہ بلیک میل وہ ہوتا ہے جس کے دل میں کوئی چور ہویاجوبراہ راست کسی چوری یاغیراخلاقی معاملے میں ملوث ہو اورتیسری بات انہوں نے اس وقت میڈیا سمیت مختلف شعبہ جات میں اپنے وفاداراورتنخواہ دارافراد کی وساطت سے یہ نیوز بریک کیوں نہیں کی۔ملک ریاض حسین نے اپنے موقف کے حق میں جودستاویزی شواہد عدالت میں پیش کئے ہیں اگرکچھ دیر کیلئے انہیں سچ مان لیا جائے توحقیقت صاف صاف سمجھ آجاتی ہے کہ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس افتخار چودھری کے فرزند ڈاکٹرارسلان افتخار کے ساتھ دوستی قائم کی گئی اورپھردوستی کی آڑ میں انہیںٹریپ کیاگیا ورنہ یوں ایک ایک خریداری کی رسید اوربیرون ملک آنے جانے کے ہوائی ٹکٹ کاریکارڈ جمع نہیں کیا جاتا ۔میں سمجھتا ہوں کہ ملک ریاض کوبلیک میل نہیں کیا گیا بلکہ ملک ریاض نے جان بوجھ کر ڈاکٹر ارسلان کی آڑ میں چیف جسٹس افتخار چودھری کوبلیک میل کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی پراب انہیں بدنام کیا جارہا ہے۔اگرملک ریاض کامیاب ہوجاتے توصدرزرداری کے ساتھ ساتھ پرویز مشرف کوبھی فائدہ پہنچتا جوچیف جسٹس افتخار چودھری کے ہوتے ہوئے وطن واپسی کاسوچ بھی نہیں سکتے اورمبشرلقمان پرویز مشرف کی پیداوار ہے۔ملک ریاض کے موقف میں بار بار تبدیلی بھی غورطلب ہے۔زبان ملک ریاض کی ہے مگرلفاظی کوئی اورڈرافٹ کرتا ہے جس میں خودعدلیہ کاسامنا کرنے کی اخلاقی جرات نہیں ہے۔شروع میں انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس افتخار چودھری کااس معاملے میں کوئی تعلق نہیں اورمیںانہیں کرپشن کیخلاف امید کی کرن سمجھتا ہوں اورمیں نے ان کے حق میں کالم بھی لکھا مگراب ملک ریاض نے کسی ٹھوس ثبوت کے بغیرچیف جسٹس افتخار چودھری کے کردارپرانگلی اٹھائی ہے ۔ ملک ریاض نے جوش میں جو کچھ کہا وہ ہوش میں نہیں کہا جاسکتاتھاشایداسلئے ان کی وکالت کرنیوالے زاہدبخاری کو اپنے موکل کی پریس کانفرنس سے لاتعلقی کااعلان کرنا پڑامگر اس کے باوجود لاہورہائیکورٹ بار نے بارروم میں ان کے داخل ہونے پرپابندی عائدکردی ہے جس کاکوئی جوازنہیں بنتا ۔آئے روزماتحت عدالتوں میں باوردی پولیس اہلکاروں پرتشدد کرنیوالے وکلاءیاڈاکوﺅں ،جواریوں ،شرابیوںاورزانیوں کی وکالت کرنیوالے وکلاءکے داخلے پرتوکبھی کسی بارروم میں داخلے پر پابندی عائد نہیں کی گئی توپھر زاہد بخاری کوکس ناکردہ گنا ہ کی سزادی جارہی ہے۔یقینایہ فیصلہ تعصب اورانتقامی جذبے کے تحت کیا گیاہے۔کسی ایڈووکیٹ کوکسی ملزم کی وکالت کرنے سے نہیں روکا جاسکتاکیونکہ آئین اورقانون ہرملزم کواپنے دفاع کاحق دیتا ہے ۔اگرملک ریاض کے دفاع کیلئے کوئی ایڈووکیٹ اپنی خدمات پیش نہ کرتا تو اس صورت میں عدالت عظمیٰ کوان کیلئے کسی ایڈووکیٹ کابندوبست کرناپڑتا ورنہ عدل وانصاف کے تقاضے پورے نہ ہوتے ۔

ملک ریاض نے اپنے موقف میں جوتین چارسوال اٹھائے ہیں ان کی وضاحت میں عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار نے جوکہاہے اس کی روسے معزولی کے دنوں میں چیف جسٹس افتخار چودھری نے ملک ریاض سے ایک سے زائدبار ملاقات کی یقینا اس کاکوئی جواز نہیں تھا ،اس وقت بھی عدالت عظمیٰ میں بحریہ ٹاﺅن کے مقدمات زیرسماعت تھے اورملک ریاض کی صدرزرداری سے دوستی کسی سے پوشیدہ نہیں تھی۔پچھلے دنوںچیف جسٹس افتخار چودھری نے قسم اٹھاکر بتایا کہ انہیں اپنے بیٹے کے کاروبار بارے کچھ معلوم نہیں، تویہ سوال اٹھتا ہے کہ ایک باپ کی حیثیت سے انہیں اپنے بیٹے کی گھر سے باہرکی سرگرمیوں، بیٹے کے دوست احباب اورکاروباری معاملات سے آگاہ ہوناچاہئے تھا،اگروہ باخبرنہیں تھے تواس سے ان کی کمزوری اورغیرسنجیدگی ظاہرہوتی ہے۔جب اللہ تعالیٰ نے انسان کواتنابڑا منصب دیا ہو تواسے اپنے اہل خانہ کے بارے میں اورزیادہ حساس اورفرض شناس ہونا چاہئے کیونکہ ہمارے معاشرے میں اگر نیک اورقابل بچوں کاکریڈٹ ماں باپ کوملتا ہے توبچوں کی غیراخلاقی اورسماج دشمن سرگرمیوں پر ڈ س کریڈٹ بھی ماں باپ کوملتا ہے ۔بلاشبہ قانونی طورپرباپ اپنے بیٹے کے قول وفول کاذمہ دار نہیں ہوتامگراخلاقی طورپرضرورجوابدہ ہوتا ہے۔

کہا جارہا ہے کہ ملک ریاض توصرف ایک مہرہ ہیں ،عدلیہ کیخلاف سازش کے پیچھے صدرآصف زرداری کاہاتھ ہے ۔''پیچھے ''سے یادآیا صدرزرداری نے اس قسم کاہرکام خود پیچھے رہ کرکیا ہے ۔پنجاب میں گورنرراج لگایا تواس وقت سابق گورنرسلمان تاثیر آگے اورصدرزرداری پیچھے تھے ۔گورنرراج کے دوران جس وقت گورنرہاﺅس لاہور میں ارکان پنجاب اسمبلی کی خریدوفروخت کابازار سجایاگیاتھاتواس وقت میاں منظوروٹوفرنٹ پرجبکہ اس بار بھی صدرزرداری خودپیچھے تھے ۔کہاجاتا ہے کہ ڈاکٹر ذوالفقارمرز ا کا متحدہ قومی موومنٹ کیخلاف ''سیاسی جہاد''بھی صدرآصف زرداری کی آشیر باد کانتیجہ تھا ۔رحمن ملک کوکئی بارناراض متحدہ قومی موومنٹ کومنانے کیلئے بھیجاگیا یہاں بھی صدرزرداری پیچھے رہ کرہینڈل اورمانیٹر کرتے تھے۔مولانافضل الرحمن کے ساتھ مذاکرات میں بھی سامنے کوئی اورہوتا ہے مگرپیچھے صدرزرداری ہوتے ہیں۔سابق وفاقی وزیرقانون بابراعوان کے ہاتھوں سے ملک بھر کی باررومزمیں رقوم تقسیم ہوئیں تواس اقدام کے پیچھے بھی صدرزرداری تھے ۔بابراعوان فرنٹ لائن پرآکرمسلم لیگ (ن) کی قیادت اور پنجاب حکومت پرسیاسی حملے کرتے تواس کاروائی کی پیچھے بھی صدرزرداری کاہاتھ ہوتا تھامگر بابراعوان کااستعمال کرنے کے بعد انہیں ناکارہ سمجھ کرکباڑخانے میں پھینک دیاگیامگروہ ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں جوکسی وقت بھی دوبارہ سیاسی افق پرابھرنے اورچھاجانے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگران دنوں وہ کسی مصلحت کے تحت خاموش ہیں۔ہوسکتا ہے عنقریب صدرزرداری کواپنے پرانے فاداراورسمجھدار دوست بابراعوان کی ضرورت پڑ جائے۔صدرزرداری کو رحمن ملک نہیں بابراعوان جیسے مشیر کی ضرورت ہے۔جولوگ خود کواستعمال ہونے کیلئے پیش کرتے ہیں ان کاانجام دوسروں کیلئے عبرت کاسامان بن جاتا ہے۔ ملک ریاض نے اپنی مرضی ومنشاءسے خودکو پیش کیا ہے یاانہیں دھکا دیا گیا یہ توآنیوالے دنوں میں طے ہوجائے گا۔مگروہ تنہا اورکمزورشواہد کی بنیاد پرعدالت پرغالب نہیں آسکتے ،پیپلزپارٹی کبھی آن ریکارڈان کاساتھ نہیں دے گی ۔شطرنج کے کھیل میں کھلاڑی بسااوقات کتنی کتنی دیرسوچ بچار کے بعد ایک چال چلتا ہے مگراس کا مدمقابل ایک سکینڈ میں اسے بازی ہرادیتا ہے۔ہم کوئی بھی چال چلتے ،سازش کرتے یاجال بنتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ ہرایکشن کاری ایکشن ضرور ہوتا ہے لہٰذا ضروری نہیں کہ ہم جوسوچ کرکسی کیخلاف انتہائی قدم اٹھاتے ہیںتواس کانتیجہ ہماری سوچ کے مطابق ہی نکلے۔جس طرح مبشر لقمان نے سوچا تھا وہ ملک ریاض کوکلین چٹ دیں گے تواس کے بدلے انہیں ملک ریاض سے ایک شاندار گھر ملے گا۔ ملک ریاض نے عدلیہ کے ساتھ جولڑائی شروع کی ہے وہ ان کی لڑائی نہیں لہٰذا وہ عدالت کیخلاف دوسروں کی عداوت کاایندھن بننے کیلئے اپنی دولت اور اپنا کندھا پیش نہ کریں کیونکہ صدرزرداری اوران کے اتحادی کبھی ان کے بچاﺅکیلئے اپنا سیاسی مستقبل داﺅپرنہیں لگائیں گے۔عدالت سے عداوت کامطلب آئین کیخلاف بغاوت لیا جائے گا ۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126734 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.