آرمی کے سابق کلرک ریاض ملک کا اب کیا ہوگا؟

اللہ کانظام یہ ہے کہ جب وہ کسی کو چھوٹ دیتا ہے تو ایک حد تک اور جب وہ پکڑتا ہے تو پھرہلچل مچ جاتی ہے بڑے بڑے بت گرجاتے ہیں،زمین پر خود کو سب کچھ سمجھنے والے اپنی حقیقت تسلیم کرنے لگتے ہیں ایسے لوگ کسی مرض میں مبتلا نہ بھی ہو تب بھی علاج کے بہانے ملک سے باہر بھاگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ان کے پاس سب کچھ ہوتا ہے لیکن نہ اپنی زمین ہوتی ہے نہ اپنا وطن ہوتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنے آپ کو سہی ثابت کرنے کے لیئے مکروہ چالیں چلتے ہیں۔

ریاض ملک حسین عام آدمی نہیں ہیں وہ تو شائد عام طورپرعام لوگوں سے ملتے بھی نہیں،وہ پاکستان کے بارویں امیرترین شخص ہیں ان کے کل اثاثوں کی تعدادآٹھ سوملین ڈالر ہے،ضرورت پڑنے پر یا حکمرانوں کے اشارے پر وہ روپے پیسے کو پانی کا طرح بہادیتے ہیں،وہ کبھی کبھار ”خود ساختہ مہان “ہونے کا ثبوت بھی چھوڑجاتے ہیںابھی چند روز پرانی بات تو ہے ریاض ملک حسین نے ملک کے صدر آصف زرداری کے کہنے پر صومالی قزاقوںکےلئے سولہ کروڑ روپے ادا کردئیے تاکہ وہ یرغمالیوں کو رہا کرسکیں،گو کہ انہوں نے بھتہ اداکرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

یہ رقم آصف زرداری خود بھی اپنے ذاتی اثاثوں سے ادا کرسکتے تھے کیونکہ ریکارڈ کے مطابق آصف زرداری ملک کے دوسرے امیر ترین شخص ہیں۔۔۔۔(بہرحال حکم چلانے میں جو مزا آتا ہے وہ کم از کم بھاری رقوم کو بغیر کسی منافع کے خرچ کرنے سے کیسے آسکتا ہے )۔

ملک ریاض حسین جدی پشتی امیر نہیں ہیں وہ تو 18/19سال کی عمر میں ایک معمولی سے کلرک تھے لیکن وہ معمولی ادارے کے نہیں بلکہ آرمی کے شعبہ انجینئرنگ کے کلرک تھے، یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ کس کے ماتحت تھے کہ اس نے انہیں وہ گر سیکھائے جو شائد وہ خود نہیں سیکھ پایا ہوگا!

1980/82میں عام بلڈر کی حیثیت سے بزنس شروع کرنے والا ملک ریاض حسین کس طرح آج ملک کی امیر ترین شخصیات میں شامل ہوگیایہ معاملہ ابھی جواب طلب ہے شائد آنے والے دنوں میں ”ڈھول کا پول کھل جائے“۔

ملک ریاض صرف آصف زرداری کی گڈ بک میں شامل نہیں ہیں بلکہ وہ اس سے قبل مرزا اسلم بیگ ،چوہدری برادران اور متعدد سیاست دانوںاور بیوروکریٹس کے بھی چہیتے رہے ہیں،ملک کے بااثر ادارے کے تو متعد ریٹائرڈ افسران ان کے اپنے ملازم ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ ملک ریاض کا قد اونچا کرنے اور انکی کمزرویوں کو چھپانے کے لیئے اخبارات اور ٹی وی سے وابستہ صحافیوں اور دیگر لوگوں کا بھی پورا تعاون شامل رہاہے اوراسی تعاون اور مشورے نے اب ملک ریاض کو اس بند گلی میں پہنچادیا ہے جہاںسے آگے جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس جناب افتخار چوہدری جنہیں حال ہی میں انٹرنیشنل کونسل آف جیورسٹ نے ورلڈ جیورسٹ ایوارڈ 2012دیا ہے اور جنہوں نے پاکستان میں عدلیہ کے وقار کو بلند کیا بلکہ ملک میں آزاد عدلیہ کی احیاءکی ہے کے بیٹے ارسلان افتخار کے خلاف الزامات لگاکر ملک میں ایک نیا ایشو کھڑا کیاگیا ہے یہ تو ہر کوئی جانتا اور سمجھتا ہے کہ موجودہ حکومت نئے ایشوز کریٹ کرنے میں کس قدر ماہر اور فعال رہتی ہے۔

وطن عزیز میں جب ملزم شخص صدر اور مجرم وزیراعظم رہ سکتا ہے اور قدم قدم پر کرپشن کے بریکر ہوں تو کوئی بھی کسی پر بھی شک کرسکتا ہے ،لیکن کیچڑ اچھل کر اسی پر واضع ہوجاتا ہے جو خود پاک صاف ہو۔

چیف جسٹس پر جو گذررہی ہے وہ کوئی نئی اورانوکھی بات نہیں ہے فرعون کے گھر موسیٰ اور رحمن کے گھر شیطان پیدا ہوتے رہتے ہیں۔

چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری کو قرآن اور سنت کے مطابق جو فیصلے کرنا تھے انہوں نے کیئے اور ایک سچے اور پکے مسلمان ہونے کا ثبوت دیکر اسلامی روایات کو زندہ کیا۔اس دور میں جب ہر آدمی اپنے آپ کو اور اپنے بیٹوں کو ہر الزام اور ہر قانون سے بچانے میں مصروف ہے وہاںچیف جسٹس افتخار چوہدری کا اپنے بیٹے کے خلاف الزامات پر ازخود نوٹس لینا اور ذاتی طور پر اپنے لخت جگر کو گھر سے نکال دینا انتہائی قابل تعریف اقدام ہے ایسے اقدامات تو ہمارے یہاں خواب بنتے جارہے تھے۔

ارسلان کا مقدمہ عدالت میں ہے اس پر بہت تبصرے ہورہے ہیں جو میرے خیال میں غلط ہیںلیکن میں اس کیس پر تبصرہ نہیں کرونگا بلکہ میں صرف یہ ہی لکھنا چاہوں گا کہ یہ معاملہ اٹھانے والے ،اس پر غیر معمولی طور پر شور شرابہ کرنے والے اور اس کے پیچھے جو بھی عناصر ہیں وہ کسی بھی طور پر ملک اور قوم کے مخلص نہیں ہیں،انہیں نہ ملک کی اور نہ ہی اپنی عزت کا خیال ہے وہ تو بس چالیں چلتے ہیں یا ریس کے گھوڑوں کی طرح صرف اشارے جانتے ہیں انہیں سوار سے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی ۔لیکن کبھی کبھار ریس لگانے والا بھی گھڑ سوار سے زیادہ ذلت کے ساتھ پورے مجمے کے سامنے میدان میں گر پڑتا ہے۔

جسٹس افتخارچوہدری نے اپنے بیٹے کے خلاف کارروائی کا آغاز کرکے نہ صرف عدلیہ کابلکہ اپنا اور ملک کا وقار اور شان میں بھی اضافہ کیا ہے الیکن دیکھنا یہ ہے کہ عدلیہ کے خلاف ناکام سازش کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے؟
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152767 views I'm Journalist. .. View More