راہ حق کے مسافر اورمیرجعفر کے پیروکار

دوجون کی صبح میراکزن خالدخان سپین سے لاہورآرہاتھا اوراس کے ساتھ سپین سے دومقامی افراد Javier TrujilloاورJose Ilavona جواس کے دوست ہیں وہ بھی اس کے ساتھ لاہورآرہے تھے۔ خالدخان اوراس کے غیرملکی دوست پاکستان میںسولرانرجی کی ضرورت اوراہمیت کے حوالے سے بنیادی معلومات حاصل کرنے اورمارکیٹ کے جائزے کیلئے آرہے تھے ۔میں اورمیرادوست احدحنیف انہیں رسیوکرنے کیلئے مقررہ وقت پرائیرپورٹ پہنچ گئے ۔ مہمانوں کورسیوکرنے کے بعدہم واپسی کیلئے ائیرپورٹ کی پارکنگ کے پاس کھڑے گاڑی کاانتظار کررہے تھے، اس دوران سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کی سابق صدراورقانون دان عاصمہ جہانگیر ہمارے پاس سے گزریں ، ایک شہری اورصحافی کی حیثیت سے مجھے جو بات شدت سے محسوس ہوئی وہ یہ تھی کہ وہاں موجودکسی شہری نے عاصمہ جہانگیر کونوٹس نہیں کیا تھا۔وہ ایک سال سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کی صدررہیں اورپچھلے کئی برسوں سے میڈیا میں ان کا آناجانارہتاہے مگر کسی نے دوقدم آگے بڑھ کرانہیں سلام نہیں کیایاان کاآٹوگراف نہیں لیاجبکہ پاس ہی کچھ لوگ ایک باوردی فوجی آفیسر کے کندھے سے اپنا کندھا جوڑکر بخوشی تصاویربنوارہے تھے ۔ہمارے ہاں لوگ جس کوپسندکرتے ہیں اس کی راہ میں آنکھیں بچھادیتے ہیں اورجس کوپسندنہیں کرتے اسے ان دیکھا کردیتے ہیں۔طندروزبیشتر میں ،میراکزن،Javier TrujilloاورJose Ilavona کے ساتھ ان کی پرزورفرمائش پر گنڈا سنگھ جوائنٹ چیک پوسٹ پرپرچم کشائی کی تقریب دیکھنے گئے ،وہاں بھی عوام کااپنے باوردی رینجرز جوسرحدوں کے محافظ ہیں،ان کیلئے جوش وجذبہ قابل دیدتھا ۔ پچھلے دنوںاچانک عاصمہ جہانگیرکی زندگی کودرپیش خطرے کے حوالے سے میڈیا پر خبرآئی جس میںانہوں نے براہ راست فوج کوموردالزام ٹھہرادیا ۔اس پرمجھے ایک کہانی یادآگئی جواپنے قارئین کی دلچسپی کیلئے سپردقرطاس کررہا ہوں۔

کوٹلہ کاہلواں ڈسٹرکٹ ننکانہ کے سرکردہ زمیندار فیروز خان نے ایک بار کسی بات پرگاﺅں کے میراثی کوجھاڑ دیا ۔اس واقعہ کے بعدچندروزتک جس کسی کابھی اس میراثی سے آمنا سامنا ہوتا تووہ اپناسینہ تان کر اس کوبڑے فخرسے بتاتا کہ میرا فیروزخان کے ساتھ جھگڑا ہوگیا ہے یوں کافی دنوں تک اس میراثی کانام زمیندارفیروزخان کے نام کے ساتھ لیا جا تارہااور فیروزخان کوخوامخواہ مختلف افراد کے روبرووضاحت کرناپڑی ۔ عاصمہ جہانگیرکی کہانی فیروزخان اورمیراثی والے واقعہ سے ملتی جلتی ہے۔عاصمہ جہانگیر کے بقول ان کی جان خطرے میں ہے اوران کے نزدیک یہ خطرہ پاکستان کے حساس ادارے ہیں ۔میں ان سے پوچھتا ہوں کہ پاکستان میں کس کی جان کوخطرہ نہیں ہے ،امریکہ اوربرطانیہ سمیت دنیاکاایساکونساملک ہے جہاں انسان قتل نہیں ہوتے۔پچھلے دنوں عدالت عالیہ لاہور کے سابق چیف جسٹس خواجہ محمد شریف کوقتل کرنے کی مبینہ سازش کابھی میڈیا میں کافی شورتھاجبکہ حقیقت میں کچھ بھی نہیں تھا،میں نے اس وقت بھی لکھاتھا کہ خواجہ محمدشریف کے قتل کی سازش محض ایک سٹنٹ ہے اور جس کواپنی زندگی اپنے فرض سے زیادہ عزیز ہے وہ اپنا منصب یاپھرملک چھوڑدے جس طرح کئی شخصیات نے خودساختہ جلاوطنی اختیار کی ہوئی ہے ۔بزدل لوگ ایٹمی پاکستان پربوجھ ہیں اوریہ دوسروں کوبھی بزدلی کادرس دیتے ہیں۔خواجہ محمد شریف کوقتل کرنے کی نام نہادسازش کاحقیقت کی دنیاسے کوئی تعلق نہیں تھا مگر انہیں ریٹائرمنٹ کے باوجود ایک شاندارسرکاری گھردے دیا گیا جہاں وہ آج بھی رہائش پزیرہیں ۔شایداسلئے سازش کی افواہ پھیلائی گئی تھی ۔ کیا سرکاری گھرملنے کے بعد ان کی زندگی محفوظ ہوگئی ہے۔

جہاں ملک کے محافظ محفوظ نہیں وہاں عام آدمی کس طرح محفوظ ہوسکتا ہے۔جس وقت ملک کوپرائی دشمنی کی آگ میں جھونک دیا گیاتھا اورہمارے ہزاروں فوجی جوانوں نے جام شہادت نوش کررہے تھے اس وقت عاصمہ جہانگیر نے امریکہ اورنیٹوکیخلاف آوازکیوں نہیں اٹھائی۔جب ڈرون حملے سے معصوم بچوں سمیت خواتین اورضعیف العمرافراد مارے جاتے ہیں اس پرعاصمہ جہانگیر صدائے احتجاج کیوں بلندنہیں کرتیں۔ فوجی آمر پرویز مشرف این آراو کے تحت ملک سے فرارہوگیا مگرپاکستان اس کے بغیر بھی اپنی بقاءکی جنگ لڑرہا ہے اورانشاءاللہ کامیابی سے ہمکنارہوگا۔ عوام کے نزدیک آج بھی فوج ان کی ہمدرد اورمحافظ ہے کیونکہ پرویز مشرف نے جوکچھ کیا وہ اس کاذاتی فعل تھا۔اچھے برے لوگ ہرملک ،معاشرے اورادارے میں ہوتے ہیں لیکن اجتماعی صورتحال کودیکھتے ہوئے رائے قائم کی جاتی ہے ۔اگرکسی فوج کی کامیابی کاکریڈٹ اس کے سپہ سالار کوجاتا ہے تواس کی ناکامی کاڈس کریڈٹ بھی اس کے جرنیل کوجاتا ہے۔پاکستان اوراس کے لوگ اس معاملے میں خوش قسمت ہیں کیونکہ فوجی آمرپرویز مشرف کی رخصتی پر اب افواج پاکستان کی کمانڈجنرل اشفاق پرویزکیانی کے ہاتھوں میں ہے جوایک زیرک اورنڈرجرنیل ہیں اورجمہوریت کے تسلسل میں ان کاتعمیری کردارفراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ڈرون حملے ہونا افواج پاکستان کی نہیں وفاقی حکومت کی نااہلی اورناکامی ہے ۔پاکستان کے دفاعی ادارے ڈرون حملے گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر وفاقی حکومت نے ان کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں ۔وزیراعظم یوسف رضاگیلانی فرماتے ہیں امریکہ کے معافی مانگنے سے سلالہ کے شہداءزندہ نہیں ہوجائیں گے توکیا پرویز مشرف کی گرفتاری سے بینظیربھٹو زندہ ہوجائیں گی۔

عاصمہ جہانگیر اس قدر اہم نہیں ہیں اورنہ پاکستان کی باگ ڈوران کے ہاتھوں میں ہے توپھر پاکستان کاکوئی حساس ادارہ انہیں قتل کرنے کی سازش کیوں کرے گا۔میں سمجھتا ہوں محض وہم کی بنیاد پریوں کسی فردیاادارے پراپنے قتل کی سازش کاالزام عائدنہیں کرنا چاہئے کیونکہ ہوسکتا ہے آپ کے دشمن کابھی کوئی دشمن ہوجواپناوار کردے اورقتل کے شبہ میں آپ کا بیگناہ دشمن گرفتار کرکے کیفرکردارتک پہنچادیا جائے،لہٰذا سستی شہرت کیلئے اس قسم کے سٹنٹ سے گریز کرنابہترہے۔کاش عاصمہ جہانگیر نے حساس اداروں پرانگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک لیا ہوتا۔ان دنوں بھی فیس بک پران کی وہ شرمناک تصویرموجود ہے جس میں وہ پاکستان دشمن بال ٹھاکرے کوہندوﺅں کے مخصوص اندازمیں پرنام کرتے ہوئے دیکھی جاسکتی ہیں۔بال ٹھاکرے کی پاکستان اورافواج پاکستان کیخلاف زہرافشانی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔اگربھارت کی کوئی شخصیت اس طرح پاکستان میں کسی فوجی آفیسر کوسلیوٹ کرتی اوراس کی فوٹوبن جاتی توبال ٹھاکرے کے حامی اب تک اس کی راکھ گنگا میں بہا چکے ہوتے۔ڈاکٹرشکیل آفریدی کے غدارہونے میں کوئی دورائے نہیں ہے ،اس کوسزاملنے پرعاصمہ جہانگیر کوشدیددھچکا لگا ہے اورانہوں نے فوراً اپنے بیان میں ڈاکٹرشکیل آفریدی کے ساتھ اظہاریکجہتی کرتے ہوئے اس غدارکوسنائی جانیوالی سزاکی پرزورمذمت کی جبکہ ڈاکٹرعافیہ صدیقی پرہونیوالے ظلم اورتشدد کیخلاف ا ن کی زبان آج تک نہیں کھلی۔جس وقت دوبیگناہ پاکستانیوں کوسرعام قتل کرنےوالے ریمنڈڈیوس کورہااورامریکہ روانہ کیا گیا تھا اس وقت عاصمہ جہانگیر کوان مقتول نوجوانوں اوران کے پسماندگان کے انسانی حقوق کیوں یاد نہیں آئے ۔میں سمجھتا ہوں عاصمہ جہانگیر سے وینا ملک پھربھی اچھی ہے جس نے پاکستان کی بدنامی کے بعد پاکستان کارخ نہیں کیاجبکہ عاصمہ جہانگیر کوجس پاکستان نے عزت اورشناخت دی وہ اس کے دشمنوں کی زبان بولتی ہیں۔ہمارے کچھ اپنے جوپچھلی کئی دہائیوں سے مغرب کے وظیفہ خور ہیں اوروہ محض حق نمک اداکرنے کیلئے پاکستان کی سا لمیت کے ضامن حساس اداروں کوتنقید کانشانہ بناتے ہیں مگر ان کی پروپیگنڈا مہم سے دفاعی اداروں کی ساکھ کبھی راکھ کاڈھیر نہیں بن سکتی ۔چارفوجی آمروں کے ماورائے آئین اقدامات کے باوجود پاکستان سے عشق کرنیوالے پاک فوج سے والہانہ محبت کرتے ہیں ۔پاکستانیوں کواپنے دبنگ جرنیل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ ساتھ فوجی جوانوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اورمادروطن کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ پرپورااعتماد ہے۔بعض نام نہاد این جی اوز صرف مغربی ملکوں کی تنخواہ دار نہیں بلکہ ان کی وفادار بھی ہیں ،انہیں معلوم ہے مضبوط فوج کے ہوتے ہوئے ایٹمی پاکستان کوکمزوریازیرنہیں کیا جاسکتالہٰذا انہوں نے فوج کوٹارگٹ کرلیا ہے مگراٹھارہ کروڑ لوگ افواج پاکستان کے ترجمان ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کی رگوں میں میرجعفر اورمیرصادق کاخون دوڑتا ہے اوریہ جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھیدکرتے ہیں۔

گرمی ہویاسردی سرحدپرکھڑے ایک ایک فوجی جوان کا سینہ پاکستان اورپاکستانیوں کیلئے مضبوط ڈھال کاکام کرتا ہے۔جب دشمن کے فوجی ہماری پاک سرزمین پر حملہ کرتے ہیں توہمارے فوجی جوان اپنا فولادی سینہ تان کران کی گولیوں کاسامنا کرتے ہیں۔فوج میں وہی آتا ہے جس کی آنکھوں میں شہادت کے خواب جھلملاتے ہیں اورجومادر وطن کیلئے مرنے مارنے کاجذبہ اورحوصلہ رکھتا ہے ۔کیا ہم سیاچن کی حفاظت پرمامور فوجی آفیسرزاورجوانوں سے زیادہ غیرمحفوظ یاخطرے میں ہیں جہاں سے ان کی بحفاظت واپسی یقینی نہیں،جواپنے ضعیف ماں باپ اوربیوی بچوں سے ہزاروں میل دورسرحدوں کی حفاظت میں مصروف ہیں تاکہ ہم چین سے میٹھی نیند سوئیں اورپرسکون زندگی گزاریں ۔سیاچن کے وہ شہید جو ہماری پرسکون نیند کیلئے خود ابدی نیندسوگئے اوراپنے عزیزواقارب سے ہمیشہ کیلئے بچھڑ گئے بلاشبہ ہم ان مقدس ارواح کے مقروض ہیں اوریہ وہ قرض ہے جوکبھی ادانہیں ہوسکتا۔ فوجی جوان چندروپوں کیلئے کسی حکومت وقت کی ملازمت اختیار کرتانہیں بلکہ وہ ریاست کامحافظ اورشوق شہادت سے سرشارہوتا ہے ،کوئی حکومت کسی راہ حق کے مسافر کی خدمات اورکمٹمنٹ تودرکنار اس کے خون اورپسینے کی ایک بوند کامعاوضہ ادا نہیں کرسکتی ۔ہمار ی پاک فوج پرکسی دشمن ملک کا ایجنٹ انگلی اٹھائے توپاکستان کاکوئی غیرتمند فردخاموش نہیں رہ سکتا ۔ جوقوم اپنے شہیدوںِغازیوں اورسپاہیوں کی قربانیوں کوفراموش کردے پھر تاریخ اورتقدیرا س سے روٹھ جاتی ہے۔ہماری افواج ہمارے وطن عزیز کے ماتھے کاجھومر ہیں ، کوئی میرجعفر کاپیروکار سستی شہرت کی خاطر اوراپنے بیرونی آقاﺅں کی ڈکٹیشن پر ہمارے دفاعی اداروں کانام بدنام کرے ہم کسی کواس بات کی اجازت نہیں دیں گے ۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126737 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.