نماز کے دو اہم مسئلے(قرات اور آمین)

محترم قارئین کرام

اسلام ایک ایسا مذہب ہےجو امن سلامتی،اخوت،عبادت،ریاضت،رفاقت،دیانت، کی چاشنی سے مرقع ہے اسلام میں داخل ہوتے ہی مسلمان اسلامی تعلیمات کا پابند ہوجاتا ہے۔اسلام کے اصول و قوانین کے مطابق اپنی زندگی احسن انداز میں گزارنے والا بن جاتا ہے۔اسلام کے بنیادی ارکان میں سے نماز بہت اہم عبادت ہے جس کے ذریعے بندہ اپنے معبود حقیقی سے محو گفتگو ہوتا ہے۔نماز کو دین کا ستون قرار دیا گیاہے،نماز سے روزی میں برکت ہوتی ہے،نماز سرکار علیہ السلام کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے سب سے بڑھ کر مسلمان کے لئے یہ بات ہے کہ نمازی کو کل بروز قیامت اللہ عزوجل کا دیدار نصیب ہوگا۔آج ہم اس اہم رکن یعنی نماز کے دومسئلوں کے متعلق جانیں گے۔
(1)مقتدی کا امام کے پیچے قرات کرنا درست ہے یا نہیں؟
(2 )نماز میں آمین بلند آواز سے پڑھیں یا آہستہ آواز سے؟

جب امام قرات کرے تو مقتدی کو خاموش رہنا اور سنا ضرورری ہے ۔ قرآن و حدیث کی نصوص اس کے بارے میں واضح طور پر موجود ہیں ۔ چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے ، واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون ( پارہ ٩ آیت ٢٠٤ سورۃ الاعراف ) '' اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے '' اس آیت کی تفسیر جلالین میں ہے ۔ قیل فی قراء ۃ القراٰن مطلقا '' یہ حکم قرآن کی مطلق قراء ت کے بارے میں ہے ۔ '' یونہی تفسیر صاوی میں ہے ۔ انھا انزلت فی ترک الجہر بالقراء ۃ خلف الامام '' یہ آیت امام کے پیچھے جہری قرات کے ترک میں نازل ہوئی۔ '' تفسیر مدارک میں ہے ظاہر ہ وجو ب الاستمتاع والانصات وقت قراء ۃ القراٰن فی الصلٰوۃ وغیرھا وقیل معناہ اذا تلا علیکم الرسول القراٰن عندنزولہ فاستمعوا لہ وجمہور الصحابۃ رضی اﷲ عنہم علی انہ فی استماع الموتم قیل فی استماع الخطبۃ وقیل فیھما وھو الاصح ۔ '' اس آیت کا ظاہر یہ ہے کہ قرات سننا واجب اور خاموش رہنا بھی واجب ہے قرآن کی تلاوت کے وقت نماز ہو یا غیر نماز ، بعض نے کہا یہ آیت خطبہ کے بارے میں نازل ہوئی ا ور جمہور صحابہ کرام کا موفف یہ ہے کہ مقتدی کے خاموش رہ کر سننے کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی، ا و رصحیح یہی ہے کہ خطبہ اور نماز کی قرات دونوں کو خاموشی سے سننے کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ۔ درمنثور میں ہے ، عن ابن عباس واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا یعنی فی الصلٰوۃ المفروضۃ عن مجاہد قال قرء رجل من الانصار خلف النبی ؐ فی الصلٰوۃ فانزلت ۔ عن عبد اﷲ ابن مغفل انہ سئل اکل من سمع الاقراٰن یقرء وجب علیہ الاستماع والانصات قال لا انما نزلت ھذہ الایۃ فی قراء ۃ الامام فاستمع لہ وانصت ۔ عن ابن مسعود انہ قال فی القراء ۃ خلف الامام انصت للقراٰن کما امرت فان فی الصلٰوۃ شغلا و سیکفیک ذاک الامام۔ عن علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال من قرء خلف الامام فقد اخطاء الفطرۃ ۔ عن زید بن ثابت قال القراء ۃ خلف الامام۔ عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اﷲ ؐ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذا کبر فکبروا واذاقرء فانصتوا ۔ عن جابر ان النبی ؐ قال من کان لہ امام فقراء تہ لہ قراء ۃ '' ان عبارتوں سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ، عبد اللہ بن مغفل ، عبد اللہ بن مسعود حضرت علی اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کے نزدیک امام کے پیچھے قرات کرنا جائز نہیں۔ پھر فرمان رسول ؐ بھی مذکور ہوا کہ امام قراء ت کرے تو خاموش رہو۔ نیز فرمایا کہ امام کی قراء ت ہی مقتدی کی قرات ہے۔ ا ور یہی موقف تقریباً ستر سے زائد صحابہ کرام سے منقول ہے۔

مزید احادیث مبارکہ سنئے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ کہ سرکار ؐﷺ نے فرمایا ، اذا صلیتم فاقیموا صفوفکم ثم لیومکم احدکم فاذا کبر فکبروا واذا قر أ فانصتوا '' جب تم نماز پڑھنے لگو تو اپنی صفوں کو درست کرلو پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کروائے پس جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قراء ت کرے تو تم خاموش رہو۔ '' ( مسلم شریف جلد ١ ص ١٧٤ ، ابن ماجۃ ص ٤٦١ ، مسند احمد جلد ٤ ص ٤١٥ ) دوسری حدیث ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی کریم ؐ نے فرمایا انما الامام لیوتم بہ فاذا کبر فکبروا واذا قرء فانصتوا '' امام اسی لئے ہوتا ہے کہ اسکی اقتداء کی جائے پس جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قراء ت کرے تو خاموش رہو '' ( مسند احمد جلد ٢ ص ٣٧٦ ، ابو داؤد ص ٨٩ ، نسائی ص ١٤٦ ، ابن ماجہ ص ٦١ ، طحاوی ص ١٠٦ )اور امام مسلم نے مسلم شریف ص ١٧٤ میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا۔

ان حدیثوں میں امام کے پیچھے قراء ت کی ممانعت کی گئی ہے بعض کہتے ہیں کہ ان احادیث میں قرات سے منع کیا گیاہے۔ ا ور فاتحہ پڑھنا قرات نہیں کہلاتا۔ ان سے پوچھا جائے اگر اسے قرات نہیں کہتے تو کیا گنگنانا کہتے ہیں ۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ فاتحہ پڑھنا قرات ہی کہلاتا ہے لہٰذا جب فاتحہ پڑھنا قرات ہے اور امام کے پیچھے قرات کرنے سے منع کیا گیا ہے تو فاتحہ پڑھنا بداھۃ منع ہوگیا۔

بلکہ صریح حدیث ہے کہ فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی لیکن امام کے پیچھے ہو تو نہ پڑھے ۔ چنانچہ ترمذی شریف ، موطا امام مالک او رطحاوی میں ہے ۔ من صلی رکعۃ لم یقرء فیھا بام القران فلم یصل الا ان یکون وراء الامام ۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا ''جس نے ایک رکعت بھی بغیر سورۃ فاتحہ کے پڑھی اسکی نماز نہ ہوئی مگر یہ کہ امام کے پیچھے ہو ۔''
( ترمذی ص ٤٢ ، موطا امام مالک ص ٣٠ ، طحاوی شرح معانی الآثار ص ١٠٧ )

نیز حدیث مبارک ہے، عن عمار بن حصین رضی اﷲ عنہ قال صلی بنا رسول اﷲ ؐ صلٰوۃ الظہر او العصر فقال ایکم قر ء خلفی فقال رجل انا ولم ارد بھا الا الخیر قال قد علمت ان بعضکم خالجنیھا '' حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی فرمایا ہمیں رسول اللہ ؐ نے نماز ظہر یا نماز عصر پڑھائی ۔ پھر فرمایا تم میں سے کس نے میرے پیچھے قرات کی تھی ایک آدمی نے عرض کی میں نے اور میں نے خیر ہی کا ارادہ کیا تھا۔ فرمایا میں نے جانا کہ کوئی مجھ سے قرات میں جھگڑ رہا ہے۔''
( مسلم جلد ١ ص ١٧٢ ، نسائی جلد١ ص ١٤١ ، مسند احمد جلد ٤ ص ٤٩٩ ، ابوداؤد جلد ١ ص ١٢٠ ، بیہقی جلد ٢ ص ١٦٢ ، مصنف ابن ابی شیبہ جلد ١ ص ٣٧٦ )

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام کے پیچھے قرات کرنا امام سے جھگڑنا ہے اور اس سے منع کیا گیا۔ لہٰذا امام کے پیچھے قرات کرنا منع ہے اور لا صلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب ( صحیح بخاری و مسلم کی یہ حدیث ) خبر واحد ہے اور نص قرآنی کے خلاف ہے لہٰذا ساقط ہے اور اس سے اولی یہ ہے کہ حدیث میں تاویل ہے کہ وہ حدیث تنہا نماز پڑھنے والے اور امام کے لئے ہے کیونکہ حدیث میں اجمال تھا ۔ دوسری احادیث نے اس کی تفسیر کردی۔ اور حدیث کی بہترین شرح وہ ہے جو خود دوسری حدیثوں سے ہوجائے۔ مزید تفصیل کے لئے جاء الحق مصنفہ مفتی احمد یار خان نعیم کا مطالعہ کیجئے۔

٢۔ آمین آہستہ کہا یا بلند ـآواز سے کہنا مسلمانوں کے مبانی اختلافی مسئلہ ہے جس میں غلو نا مناسب ہے غیر مقلد ین فروعی مسائل میں مسلمانوں کو الجھا کر اپنی گمراہی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔لہٰذا ان سے ان موضوعات پر بحث نہ کیجائے ۔ بلکہ ان سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ اگر بات کریں تو یہ جواب دیں کہ تم ہمارے علماء کے پاس چلے جاؤ اور ان سے جاکر بات کرو۔

آمین کے متعلق مسئلہ یہ ہے آمین احناف کے نزدیک آہستہ کہنا چاہیے ۔ یہی احادیث سے ثابت ہے۔ چنانچہ بخاری شریف جلد ١ صفحہ ١٠٧ میں ہے آمین دعا ہے اور اس کا معنی ہے اِسْتَجِبْ یا اللہ قبول فرما ( مفرادات راغب ص ٢٧ ) اور دعا کے متعلق اراشاد ہے ادعوا ربکم تضرعا و ھنیۃ انہ لا یحب المعتدین '' اپنے رب کو عاجزی سے اور آہستہ پکارو بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ '' ( سورۃ الاعراف آیت نمبر ٥٥ ) تفسیر جلالین میں ہے ۔ ادعوا ربکم تضرعا حال تذللاً و خفیۃ سرا انہ لا یحب المعتدین بالتشدد و رفع الصوت '' اپنے رب کو تضرع یعنی عاجزی سے اور خفیہ یعنی آہستہ پکارو بیشک وہ حدسے بڑھنے والو کو پسند نہیں کرتا یعنی شدت اور بـآواز بلند پکارنے والوں کو ''

نیز دعا میں اخفاء بہتر ہے کیونکہ یہ اخلاص کی علامت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اذ نادی ربہ نذاء خفیا '' یاد کرو جب زکریا نے اپنے رب کو پوشیدہ طور پر ندا کی '' ( مریم آیت ٣ )

نیز بخاری شریف میں ہے : قال رسول اﷲ ؐ اذا امن الامام فامنوا فانہ من وافق تامینہ تامین الملئکۃ غفر لہ ماتقدم من ذنبہ '' جب امام آمین کہے تو تم آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے موافق ہوجائے اس کے اگلے گناہ معاف کردیے جائینگے ۔ ''
( بخاری شریف جلد١ ص ١٠٨ ، مسلم ، ترمذی، ابوداؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ، موطاامام مالک، مسند احمد )

نیز حدیث مبارک ہے رسول اللہ ؐ نے فرمایا ، اذا قال الامام غیر المغضوب علیھم ولاالضالین فقولوا امین فانہ من وافق قولہ قول الملئکۃ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ '' نبی کریم ؐ نے فرمایا ، جب امام ولاالضالین کہے تو تم آمین کہو کیونکہ جسکا قول فرشتوں کے قول کے موافق ہوجائے اسکے اگلے گناہ معاف کردیے جائینگے۔''
( بخاری جلد ١ ص ١٠٨ ، ابو داؤد ، نسائی ، مالک )

ان احادیث سے غیر مقلدین آمین بالجہر ثابت کرتے ہیں حالانکہ فرشتوں کی آمین سے موافقت کی بات اس وقت درست ہوگی جب ہمیں فرشتوں کی آواز سنائی دے عین ممکن ہے کہ آہستہ آواز میں آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوجائے۔ جیسا کہ اس حدیث میں آہستہ امین کہنے کا ثبوت ہے حدیث یہ ہے کہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے فرمایا انہ صلی مع النبی ؐ فلما بلغ غیر المغضوب علیھم ولاضالین قال آمین واخفی بھا صوتہ '' انہوں نے نبی کریم ؐ کے ساتھ نماز پڑھی پس جب آپ ؐ غیر المغضوب علیھم والاالضالین پر پہچتے تو آمین کہا اور آہستہ آواز سے آمین کہی ۔ ( مسند احمد ، ابوداؤد طیالسی ، ابو یعلی موصلی ، طبرانی ، دارقطنی ) اور حاکم نے اسے مستدرک میں روایت کیا اور کہا اسکی اسناد نہایت صحیح ہے۔

نیز مندرجہ ذیل حدیث سے بھی اس مؤقف میں قوت پیدا ہوجاتی ہے۔
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے قال سمعت رسول اﷲ ؐ قرء غیر المغضوب علیھم ولاالضالین اٰمین و خفض بہ صوتہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ ؐ کو ولاالضالین پڑھتے دیکھا کہ آپ نے آمین کہی ا و رآواز آہستہ رکھی۔ '' ( ابو داؤد ،ترمذی ، ابن ابی شیبہ )

ان تمام احادیث کی روشنی میں یہ ثابت ہوگیا کہ کہ امام کے پیچے قراء ت کرنا منع ہے اور آمین آہستہ کہنا حدیث سے ثابت اور یہی افضل ہے۔
اتممتُ بفضلہ

وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم وعنایت سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 350482 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.