اللہ کا نظام اور کرپشن کا خاتمہ

تحریر:عمران ایوب

اس بات سے ہر شخص واقف ہے کہ اگر اسلامی فلاحی مملکت کا قیام عمل میں آگیا تو زندگی کے کسی بھی شعبہ میں کرپشن نا ممکن بن کر رہ جائیگی ۔لیکن ہم سب اس بڑی حقیقت سے آنکھیں چرا کر کبھی کسی انسانی تخلیق کردہ فرسودہ نظام کر قیام کے لئے فضول جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں اور کبھی یہودیت کے پھیلائے ہوئے جال میں مفاد پرستی کا دانہ چگنے کے لئے جا کر پھنس کر اپنی مرضی کے اور فطرت کے عین خلاف حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر بیٹھتے ہیں ۔ ہم نے آج تک اللہ کی دھرتی پر اللہ کے قانون کے عملاََ نفاذ کے کے لئے جدوجہد پوری دلچسپی کے ساتھ شروع ہی نہیں کی۔اللہ کی دھرتی پر اللہ کے قانون کی جدوجہد کرنے کے لئے مکمل طور پر مخلص ہونا پہلی شرط ہے ۔ ہم سب اللہ کو مانتے ہیں ۔اللہ کی دی ہوئے نعمتوں کا بڑے فخر سے استعمال کرتے ہیں ۔ہمارے کرتوتوں کے باعث جب کوئی مصیبت ہم پر ٹوٹتی ہے توہم تائب بھی ہوتے ہیں اور لمبی لمبی نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے لمبی لمبی دعائیں بھی مانگ مانگ کر اپنی مصیبت و آلام کو دور کروانے کی سعی بھی کرتے ہیں ۔ لیکن ہم کبھی بھی اللہ کے ساتھ از خود مخلص نہیں ہوتے اکثر ہم نے اپنی ذمہ داریوں اور اپنے اوپر عائد دینی پابندیو ں کو مولوی سے سر تھونپا ہوا ہے ۔ہم ذہنی طور پر کچھ اس طرح ہو چکے ہیں کہ اپنی تمام دینی ضرورتوں اور جدوجہد سے ہم نے چشم پوشی کر رکھی ہے ۔موجودہ وقت میں کرپشن کے ہم خود ذمہ دار ہیں ۔دین سیدھے راستے کا نام ہے جو شخص دینی راستوں کو سمجھ گیا وہ سمجھدار کہلاتا ہے اور جو نہیں سمجھ سکا وہ فاتر العقل کہلائے گا ۔محض چند وقتی مفادات کی خاطر دائمی مفادات کو ٹھکرانے والے حضرات کس طرح اپنے آپ کو عقل مند کہلائیں گے۔پاکستان تقریباََ چالیس سالوں سے بین لاقوامی استعماری قوتوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور اب استعماری قوتیں پاکستان کے اندرونی معاملات میں پوری طرح دھنس کر مقتدر قوت کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ پاکستان دنیا کے نقشے پر اسلامی جمہوریہ کی شکل میں ابھرا تھا اس کے قیام کا ایک عظیم مقصد تھا ۔ جس طرح ترکی میں اسلام کے خلاف یہودی لابی کمال اتاترک کی صورت میں اور مصر میں یہودی لابی جمال عبدالناصر کے ذریعے اسلامی اقدار کے خاتمے کا باعث بنی اسی طرح پاکستان میں چالیس سال قبل یہودی لابی کی پوری توجہ پاکستان پر مرکوز ہو گئی تھی ۔ کیونکہ ترکی اور مصر میں بہترین اسلامی تشخص کو یہودی لابی نے اپنی پر فریبیوں کی بھینٹ چڑھا دیا تھا ۔اور ان دو جگہوں کے بعد باشعور اور انقلابی مسلمان صرف اور صرف پاکستان اورانڈیا میںموجود تھے۔ انڈیا میں موجود مسلمانوں کو ہندو حکومت کے ساتھ مل کر دل فریب جال میںبڑی آسانی سے جکڑ لیا گیا اور پاکستان کے لئے بھی یہودی لابی کو اپنے مقصد کے چند اوباش اور ہر قسم کے ”فروش“مل گئے پھر انہوں نے اپنے حلیف ہندوں کے ذریعے عظیم پاکستان کو پہلی فرست میں دو ٹکڑے کر دیا پھر اس ملک کے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کا لادینی اور بے دینی جھانسہ دے کر ان کے ایمان پر پہلی کاری ضرب لگائی پھر پاکستان کے عوام کو بے ایمان ،مکار ،جعلساز ، بے ضمیر ،مفاد پرست ، اور بد کردار بنانے کے لئے جو پروگرام شروع کئے گئے ان کو ” شعور “ کا نام دیا گیا اس طرح ملت اسلامیہ کی غیرت میں نقب زنی شروع ہو ئی لیکن پاکستان بھر کے عوام ہندوانہ اور یہودیانہ ذہنیت کے حامل نہیں ہیں بلکہ اکثریت اب بھی پاکستان کا مطلب کیا ” لااِلٰہَ اِلاللہ“ کہتی ہے اور دو قومی نظریہ پاکستان پر یقین رکھتی ہے ۔انشااللہ وہ وقت دور نہیں کہ جب شیطانی چالیں چلنے والوں کومسلم پاکستانی قوم کے علاوہ حقیقت پسند پاکستانی اقلیت بھی ٹھکرا کر حقیقی اسلامی سیاسی نظام کے قیام کے لئے متحد اور منظم ہوں گے ۔اوریقیناََاللہ بھی اپنے بندوں کا ساتھ دے گا ۔مجھے لگتا ہے کہ عنقریب اسلامیان پاکستان متحد ہو جائیں گے پاکستان اور صرف پاکستان کی باتیں کرنے والے بھی کہیں گے کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے اور اس کا آئین بھی ایک مکمل اسلامی آئین ہو گا اور ملک کا بچہ بچہ اسلامی سیاسی فکر اپنا کر وطن نذیر کو مملکت خداداد سمجھ کر زمین کے اس ٹکرے میں اللہ کے قانون انصاف اور نطام عدل کے حقیقی نظام کے نفاذ کے لئے مخلصانہ جدوجہد میں کامیاب و کامران ہو گا ۔پاکستان کسی ہندو ازم ،سوشل ازم،کیمونزم ، اور یہودی لابی کی اماجگاہ بننے کے لئے معرض وجود میں نہیں آیا تھابلکہ یہ ملک برصغیر کے مسلمانوں کی قربانیوں کی بدولت اسلام وحق ،عدل و انصاف اور توازن کے لئے معرض وجود میں آیا تھا جب اس میں اللہ کے نظام کا قیام عمل میں آ جائے گا تو ہر قسم کے کرپشن کا خاتمہ ہو جائیگا۔پاکستان میں مسلما ن آباد تھے 1969 تک عوام کی ایک ہی رائے تھی کہ اس مملکت خدا داد میں اللہ کا قانوں نافذ ہو گا 1973 کا آئین بنا تو پہلی مرتبہ پاکستان بھر کے علماءاور دینی حلقوں نے محض اس لئے اس آئین کو قبول کیا کہ اس میں پانچ سالوں کے اندر اندر پاکستان کو مکمل اسلامی ریاست بنانے کا اندیہ موجود تھا یہ آئین پاکستان بھر کے مسلم پارلیمنٹرین نے ملکر بنایا تھا ۔اور دل سے قبول کیا تھا لیکن اس وقت کی سوشلسٹ مقتدر طاقتوں نے متعدد بار اس آئین میں ترامیم کروا کہ آئین کی حقیقی حیثت کو نا صرف مشکوک کر دیا بلکہ مسخ کر دیا پھر پاکستان بھر کے مسلمانوں نے از سر نو متحد ہو کر غیر اسلامی یلغار کے خلافایک مثالی اتحاد قائم کر کے ثابت کیا کہ پاکستان میں مسلمان کسی غیر اسلامی سازش کو یا داس بیل (لوط بوٹی) کو پھیلنے نہیں دیں گے لیکن شومی قسمت کہ پاکستانی فوج کی اقتدار میں مداخلت کی طوالت نے پاکستان کے مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو خاظرخواہ سہارا نہ دیا ۔اگر جنرل ضیاءالحق 90 دنوں میں الیکشن کروا کر واپس بیرک کا رخ کر لیتے تو آج پاکستان کی دنیا میں شناخت کا ایک خوبصورت اور منفرد انداز ہوتا ۔پاکستان پیپلز پارٹی کو جنرل ضیاءالحق سابق صدر پاکستان کا کچھ اس طرح شکر گزار ہونا چاہیئے کہ ان کو ہر سال عزت و احترام کے ساتھ جنرل ضیاءالحق کا دن منانا چاہیے کیونکہ اگر جنرل ضیاءالحق اپنے صدارتی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے بھٹو کی پھانسی رکوا لیتے تو پیپلز پارٹی کا پاکستان میں وجود تک باقی نہ رہتا ۔ اگر یہ پارٹی آج تک قائم ہے اور پاکستان کے عوام میں اس کی تھوڑی سی بھی اہمیت ہے تو صرف ضیاءالحق کی اس غلطی کی بدولت ہے ۔یہ بات بلکل درست ہے کہ پاکستان کے عوام کو غیر مسلم بنانا نہایت مشکل کام ہے ۔پاکستان کے ہر شہر سے نماز کو ختم کروانے اور غیر اسلامی طور طریقوں کو عام کرنے اور اسلام کو ختم کرنے کے جو حربے یہود و ہنود کے گتھ جوڑ کی پیداواری پارٹیاں صاحب اقتدار بھی رہیں اور بار بار رہیں پھر بھی مسلم سوسائٹی کو مکمل طور پر 40 سال کی انتھک محنت کے باوجود ختم نہ کر سکیں اس سے اندازہ ہو جانا چاہیئے کہ پاکستان میں اسلام کو محفوظ رکھننے کے لئیے کوئی بڑی طاقت(Supreem power) ہے جو امریکہ ،اسرائیل ، انڈیا سے بھی بڑی ہے اور امریکہ نواز اسرائیل نواز ،انڈیا نواز جماعتوں اور حکومتوں اور امریکہ بھارت اوراسرائیل کا منحوس مشن ایک ہے دوسری طرف امریکہ ،اسرائیل اور انڈیا کی بھی ہر طرح کی دوڑپاکستان کے اور دنیا بھر کے مسلم کے خاتمے کے لئے دوڑی جا رہی ہے لیکن پھر بھی پاکستان کے غریب مسلم عوام کا خاتمہ ممکن ہو سکا اور نہ ہی پاکستان اوراسلام کا خاتمہ کرنے والوں کو اپنے اپنے مقاصد میں کامیابی ممکن ہو سکی ۔ انشااللہ ہر وہ شخص جماعت اور وہ منحوس طاقت جو پاکستان اور اسلام کو میلی آنکھ سے دیکھے گی تباہ و برباد ہو گی ۔اس میں شک و شعبے کی کوئی گنجائش نہیں کہ ماضی میں بھی جس نے بھی پاکستان اور اسلام کو میلی نظر سے دیکھا اللہ نے اس کو غارت کیا اور آیندہ بھی پاکستان اور اسلام کے خلاف کسی بھی مشن کو چلانے والوں کو تباہ و برباد کردے گا۔ اس لئے تمام بھائیوں بہنوں اور اہل نظر سے اپیل ہے کہ پاکستان میں اس ملک کی شان کے مطابق یہاں نظام عدل و انصاف ”اسلام “ کے قوانین کے عملاََ نفاذ کی جدو جہد کریں اور اس کو باقائدہ ایک مربوط سیاسی عمل کے ذریعے جاری رکھا جائے تا کہ کرپشن کا حقیقی مکمل خاتمہ ممکن ہو سکے۔اسلامی جدو جہد ہی حقیقی سیاسی جدو جہد ہے ۔مثلاََ پاکستان میں 97 فی صد لوگ کلمہ گو ہیں جو اسلام کے مضبوط عد ل و انصاف والے مکمل ضابطہ حیات کے عملی نفاذ کی انتظار میں ہیں ۔ لیکن کچھ ذمہ داروں وڈیروں، سرمایہ داروں اور اہل ثروت نے غریب مسلم آبادی کو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر کرپشن کا شکار کر رکھا ہے ۔ یعنی شیطانی عمل کو سیاست کا نام دے کر مسلم عوام کو ان ہی کی دھرتی پر ان ظالموں نے تختہ مشک بنا رکھا ہے ۔ یاد رہے کہ ان ذمہ داروں ،وڈیروں اور سرمایہ داروں کا نہ ہی کوئی مذہب ہے اور نہ ہی کوئی وطن ہے ۔ اس لئے یہ حضرات اپنے مفادات کی راہ مین ہمیشہ سے کسی قسم کی ”فروشی“ سے گریز نہیں کرتے ۔سیدھی بات یہ ہے کہ یہ لوگ نہایت کرپٹ ہوتے ہیں اور پورے ملک میں کرپشن پھیلانے کے یہی ذمہ دار ہیں اوریہی لوگ مختلف حربوں سے غریب عوام سے ووٹ لے کر اقتدار تک پہنچے ہیں اور پھر ذیادہ خوبصورت طریقوں سے کرپشن پھیلاتے،بڑھاتے ہیں۔ پاکستان کو ان لوگوں نے اپنے مفادات کی خاطر کئی مرتبہ یہود و ہنود کے پاس بیچا ۔پاکستان کی غیرت مند فوج ہمیشہ سے ان کے راستے کی رکاوٹ بنتی رہی اور اب تو ان وطن فروشوں نے اپنے حلقوں میں یہ باتیں بھی بڑی دلیری سے کرنا شروع کر دی ہیں ۔فوج بھی اب مفاد پرست بنا دی گئی ہے اور فوج بھی اب ان کے ساتھ ہے اس قسم کی باتیں یہ بے حیاءکر سکتے ہیں مگر یہ کبھی نہیں ہو سکتا پاکستان آرمی میں ایک گندہ انڈہ پرویز مشرف انہی کا آلہ کار ضرور تھا مگر وہ اپنی کوششوں کے باوجود پاکستان کی غیرت مند آرمی کو کرپٹ کرنے میں بری طرح ناکام ہوا پرویز مشرف پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک ادنیٰ کارکن تھا اور ابھی بھی پارٹی اندرون خانہ اس کومکمل طور پر سپورٹ کر رہی ہے اگر پیپلز پارٹی پرویز مشرف کی سپورٹ نہ کر رہی ہوتی تو مشرف کبھی بھی ملک سے باہر جانے میں کامیاب نہ ہوتا وہ صرف اور صرف پیپلز پارٹی کے مفادات کی خاطر مختلف روپ دھارتا رہا جب لوگ یہ بات اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی غریب مسلم عوام کی پارٹی نہیں ہے اور یہ پارٹی غریب مسلم عوام کی دشمن پارٹی ہےاس پارٹی کے پاس غریب عوام کے لئے کوئی نظام نہیں ہے پھرعوام کا رخ کسی اور مسیحاءکی طرف ہونا ایک فطری عمل ہے دوسری طرف یہود و ہنود لابی نے جب دیکھا کہ پاکستانی عوام نے ان کے چہروں کو (Reject) کر دیا ہے تو انہوں نے اپنا نیا چہرہ آزمانے کے لئے عمران خان کو میدان میں اتارنے کا پروگرام بنا لیا ہے جبکہ پاکستان کے عوام اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ اب اللہ کی دھرتی پر اللہ کے نظام کے قیام کی بات کرنے والے کے علاوہ کوئی بھی مخلص نہیں ہو سکتا۔ اللہ کے بندوں کے ساتھ نہایت بے رحمانہ کھیل ماضی میں پاکستان کی سر زمین پر کھیلا جا چکا ہے لہذا اللہ بھی احمقانہ خیالات اور فرسودگی کا ساتھ نہیں دیتا اب رب کی رضاءکی خاطر پاکستان کی بقائکی خاطر صرف اورصرف اللہ کی زمیں پر عدل و انصاف کے نظام اسلام کے عملاََنفاذ سے ہی انسانیت کی فلاح ممکن ہے اور اب عوام جو کہ اللہ کے فضل سے مکمل طور پر مسلمان ہیں اور اسلامی نظام کے حق میں ہیں کیونکہ کرپشن سے یہ عوام مکمل طور پر تنگ ہے اور کرپشن کی چکی میں پسے ہوئے ہیں ملک میں کرپٹ عناصر نے ہوش رباءکرپشن پھیلا رکھی ہے اور کرپشن کی بدولت کارخانہ حیات بری طرح اس ملک میں متاثر ہو رہا ہے ہر طرف انارکی اوراندھیر نگری پھیل چکی ہے اس لئے اب ایک رائے بچت باقی ہے کہ آئندہ کسی غیر اسلامی وڈیرے اور غیر مسلم سرمایہ دار کو ووٹ دینے کے بجائے اب اللہ اور اس کے رسول ﷺکے پروگرام پر مکمل یقین رکھنے والے غریب لوگوں کو پارلیمنٹ کا ممبر منتخب کیا جائے پاکستان بھر کے تمام علماءمشائخ اسلامی جماعتیں اور عام غریب مسلم جب تک متحد و متفق نہیں ہوتے اسلامی انقلاب کی راہ ہموار نہیں ہوسکتی لیکن خوش خبری ہے کہ اسلامی انقلاب اب بہت قریب ہے اور ہر مکتبِ فکر سے متعلق 97 فی صدپاکستانی کلمہ گو مسلم عوام اب یہ بات اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ اسلامی انقلاب لائے جانے کہ سوا کرپشن ،ظلم و ستم ،اندھیر نگری ،ناانصافی، لوٹمار ،بربریت ،غنڈہ گردی، اقرباءپروری ،مفاد پرستی جیسی لعنتوں سے نجات ممکن نہیں اور اگر علماءنے نے بھی تکبر کیا تو عام مسلمان عوام اب اسلامی انقلاب کے لئے ایک منظم جدوجہد کاآغار کریں گے۔علماءکے تکبر سے مراد علماءکا اپنے آپ کو دوسرے عام مسلمانوں اور دیگر علماءسے بہتر ثابت کرنے کی شدت والی پالیسی ہے ۔وہ پالیسی جس کی بدولت علماءاسلام نے اپنی راہیں جدا جدا کر کے ماضی میں بھی اسلام کو شدید نقصان پہنچایا حالانکہ عبادت کے طور طریقوں کے علاوہ آپس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے پھر بھی بریلوی ،دیوبندی اور اہل حدیسثی دھڑے بنا کر علما نے عوام کو کنفیوز کیا ۔اور خود بھی اپنی اصلاح کے بجائے ہٹ دھرم ہین اس قسم کی ہٹ دھرمی کو کسی صورت بھی مکمل اسلامی نہیں کہا جا سکتا ۔اسلامی انقلاب کی خاطر موجودہ دور میں شدت پسندی کو اختیار کرنے سے غیر مسلم ایجنڈے کو سہارا مل رہا ہے ۔یہودی بہانے بازیو سے اسلام کو شدت پسند مذہب قرار دے رہا ہے ۔ہندوں ،اسرائیلیوں اور امریکیوں کے اتحاد و موقف کو کسی بھی شدت پسند گروہ کی بدولت تقویت ملتی ہے اس لئے بھی ہمیں تعلیمات اسلامی اور گھر گھر پر خلوص محنت کے ذریعے انقلاب اسلانی کی راہ کو ہموار کرنا ہے ۔

ازبس کرپشن کا خاتمہ صرف اور صرف اسلامی انقلاب سے ہی ممکن ہو سکتا ہے اور اسلامی انقلاب کی خاطر بریلوی،دیوبندی، اہل حدیثی اور دیگر مکاتب فکر کو ایک مثالی اسلامی اتحاد و اتفاق کا سیاسی میدان میں مظاہرہ کرنا ہو گا۔اسلامی سیاست کو بھر پور فروغ دینا ہو گا ۔یعنی شیطانی عمل کو سیاست کا نام دے کر امریکی ،اسرائیلی اور انڈین ایجنڈوں پر گامزن مسلم آبادی کو انہی کی دحرتی پر تختہ مشک بنانے والوں اور وڈیروں اور سرمایہ داروں۔کرپشن کے شہنشاہوں سے جان چھرانی ہوگی ۔
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 59623 views Columnist/Writer.. View More