آزادی کی نیلم پری

”میں جس کمپنی میں ملازمت کرتی ہوں وہ مجھے اسکارف لینے کو منع کرتی ہے ، جبکہ یہ میرے لیے ایک مذہبی حکم ہے اور اِس ملک کا قانون جو میری جائے پیدائش ہے اور جس سے مجھے بے حد پیار بھی ہے ،مجھے مذہبی اور شخصی آزادی کے تحت سر پر اسکارف لینے کی اجازت دیتاہے۔میں عدالت سے استدعا کرتی ہوں کہ مجھے میرا جائز حق دلانے میں میری مدد کرے۔“

لڑکی کی آنکھوں میں خوف اور امید کی پرچھائیاں جھلملا رہی تھیں۔ اس کے چہرے پر ان گندے لفظوں کے نشان تھے جو آزاد لوگوں نے راہ چلتے ہوئے اسے پھینک پھینک کر مارے تھے، محض اس جرم میں کہ اس نے اپنے بالوں کو ایک کپڑے سے چھپا رکھا تھا۔

عدالت میں عرضی دائر کرنے کی دیر تھی کہ عدالت میں، میڈیا میں، ذاتی دفاترمیں اور پبلک سیکٹرز میں اس طرح بحث شروع ہوئی کہ ہر خاص عام کی زبان پر یہ ایک عام بات ہوکر رہ گئی، لوگ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے، اسکارف پر گفتگو کرنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک طوفان سا کھڑا ہوگیا، ہاٹ ٹاک کے زیادہ تر شوز اسکارف اور اسکارف پہننے والی لڑکیوں کی جگ ہنسائی سے شروع ہوتے اور ان کے لیے کسی طرح کی ہمدردی کے جذبے کے اظہار کے بغیر ختم ہوجاتے۔ یہاں تک کہ اسکارف پہننے والی بے شمار لڑکیوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے بال اسکارف کی قید سے آزاد کرلئے ۔

تین چار برس کی کڑی محنت اور بحث ومباحثہ کے بعد عدالت میں بیٹھے ایک گنجے جج نے پرتکلف انداز میں اپنی بچی کھچی دوچار پلکوں کو بدقت تمام اوپر اٹھایا،سامنے بیٹھے هوئے سامعین پر نظر ڈالی اور فیصلہ سنایا۔ سامعین كو معلوم تها كہ فیصلہ كیا هوگا اور جج كو علم تها كہ یہ لوگ كس طرح كا فیصلہ چاهتے هیں۔

” نجی کمپنیوں کو نجی آزادیوں کے تحت یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے جیسے اصول وضع کریں اور ان میں کام کرنے والو ں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان اصولوں کی پابندی کریں۔ہم آزاد دنیا کے ایک آزاد ملک میں رہتے ہیں ، جمہوریت اور آزادی ہماری پہچان اور شان ہے ۔اور ہمارے لیے ضرور ی ہے کہ ہم لوگوں کی آزادیوں کو پاپند نہ کریں۔“

ابهی جج كی زبان سے نكلے هوئے آخری الفاظ پرشكوه هال میں گونج رهے تهے كہ بے شمار ہاتھ ہوا میں لہرانے لگے، عدالت ہُووووو ہاہاااااااااااااا کے بے ہنگم شور سے بھر گئی۔ گھروں میں ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھی ہوئی لڑکیاں اور عورتیں خوشی سے ناچنے لگیں، کچھ نے اپنے کپڑے تک پھاڑ ڈالے اور طوفانی رفتار سے بہتی ہوئی سڑکوں پر اتر آئیں۔ برہنگی کے جرم میں پکڑے جانے کے خوف سے انہوں نے اپنے منہ اور سر کو اسکار ف نما کپڑے سے چھپا رکھا تھا۔

عدالت کے دروازے پر برسوں سے کھڑے سیکوریٹی گارڈ کے مضبوط اعصاب غصے سے تن گئے ،اس نے نپے تلے انداز میں دو تین قدم بڑھائے اوربھری عدالت میں لڑکی کے سرسے اسکارف کھینچ لیا۔ لڑکی رونے لگی اور بہت سارے لوگ جو شخصی اور مذہبی آزادیوں میں یقین رکھتے تھے اس کے منہ پر تھوکتے ہوئے گزرنے لگے۔ لڑکی نے آسمان کے شفق زدہ کناروں کو زخمی اور میلی آنکھوں سے دیکھا اور دل ہی دل میں اپنے رب سے التجا کی۔

” یا اللہ ! ہم یہ کیسی دنیا میں آگئے ہیں جہاں آزادیاں فرضی پریوں کی مانند غیر حقیقی ہیں اور دہرے معیار کی حامل ذہنیت کی ماری ہوئی ہیں۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اورعین اسی وقت مشرق کی طرف چند ہزار میل كی دوری پر ایک عدالت میں اسی جیسی ایک اور کہانی دہرائی جارہی تھی۔

”میری کمپنی کا مالک مجھے سر پر اسکار ف لینے کے لیے کہتا ہے اوراس کے لیے مجھ پر غیر قانونی اور غیر اخلاقی دباؤ بھی ڈالتا ہے ، لیکن چونکہ میرا تعلق جس مذہب سے ہے وہ مجھ پر اس طرح کی کوئی پابندی عائد نہیں کرتا۔ اس لیے مجھے شخصی اور مذہبی آزادی کے تحت سر پر اسکارف لینے کے لیے مجبور نہیں کیا جانا چاہئے۔ میری عدالت سے اپیل ہے کہ مجھے اس غیر انسانی اور غیر اخلاقی قانون سے مستثنیٰ رکھا جائے۔“

لڑکی کے تیور میں تیکھا پن تھااور اس کے چہرے پر نفرتوں کی پرچھائیاں صاف محسوس کی جاسکتی تھیں۔۔۔۔۔ نفرتیں۔۔۔ جو کمپنی کے لیے تهیں، کمپنی کے مالک کے لیے تهیں، اسکارف کے لیے تهیں۔۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔ اور پوری ایک قوم کے لیے تهیں۔

عدالت میں کبھی نہ ختم ہونے والی بحث شروع ہوئی اور میڈیا میں ایک بھونچال سا آگیا۔ پوری قوم کو انتہا پسند ، کٹر پنتھی اور خدا جانے کیا کیا کہا گیا ،یہاں تک کہ بعض بڑی طاقتوں کے درمیان مذہبی اور شخصی آزادی پر پابندی لگانے کی پاداش میں اس ملک کو میزائیل سے اڑادینے کے چرچے ہونے لگے۔

” مگرہمارے مذہب میں سرپر اسکارف لینا غلط نہیں سمجھا جاتا کیونکہ حضرت مریمؑ کے سرپر بھی اسکارف ہے اورہماری مذہبی خواتین (نن)بھی سر پر اسکارف لیتی ہیں“

جن صحافیوں نے اس طرح کے سوال اٹھائے انہیں الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگرجب اس طرح کے سوالوں کا زور بڑھنے لگا تو ایک کمزور ملک پر بنا پائلٹ کے تیاروں کے ذریعے تابڑ توڑ حملے کردیے گئے اور سارے سوال آگ، دھوو یں اور گرد کی تہوں میں ہمیشہ کے لیے دفن ہوگئے۔ یہ بنا پائلٹ کے تیارے وہی تھے جنہیں ہم اکثر نیوزچینلز پر اور چھوٹے بڑے اخبارات کے رنگین صفحات پر سمندر کے نیلے پانیوں کی فضاؤں میں اور گھنے جنگلات کی ہریالیوں کے سروں پر امن اورشانتی کے ساتھ پرواز کرتے ہوئے دیکھاکرتے ہیں ،اسے دیکھ کر اکثر ایسا محسو س ہوتا ہے جیسے یہ خون نہیں بہاتا بلکہ امن کی ہوائیں چلاتا ہے اور آبادیوں پر پھول برساتا ہے۔

لڑکی کے وکیل صفائی نے بھری عدالت میں حلق پھاڑ پھاڑ کر گھنٹوں تقریر کی ۔ آخر کار سہ رکنی ججزکے ایک پینل نے انتہائی کسمپرسی کے عالم میں ایک دوسرے کی طرف دیکھا ، سوکھے ہونٹوں پر گیلی زبان پھیری، كاندهوں پر سے كهسكتے هوئے جالی دار عباؤں كو درست كیا اور فیصلہ سنایا ۔

” ہمارا ملک شخصی اور مذہبی آزادیوں کا پرچارک ہے ، اور کسی بھی غیر مسلم لڑکی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سرپر اسکارف نہ لے۔ کسی بھی مسلم کمپنی کے لیے ضروری ہے کہ وہ غیر مسلم لڑکیوں کو مسلم ڈریس کوڈ سے مستثنیٰ رکھے۔“

اور پھر بھری عدالت میں لڑکی نے اپنے سر سے اسکارف نوچا اور اپنی کمپنی کے باس کے منہ پر دے مارا۔ عدالت میں سناٹا چھا گیا اور ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھی ہوئی لڑکیوں اور عورتوں نے اپنے سرجھکالئے۔

وہ لڑکی جس کے سر سے بھری عدالت میں اسکارف کھینچا گیا تھا اسے ایک بار پھر اپنی بے عزتی کا احساس ہوا۔ اس نے ایک بار پھر شفق زدہ آسمان کے کناروں کو دیکھا اور اپنے رب سے دعا کی۔

” یا اللہ ! ہم یہ کیسی دنیا میں آگئے ہیں جہاں آزادیاں فرضی پریوں کی مانند غیر حقیقی ہیں اور دہرے معیار کی حامل ذہنیت کی ماری ہوئی ہیں۔“
mohammad ilyas Rampuri
About the Author: mohammad ilyas Rampuri Read More Articles by mohammad ilyas Rampuri: 22 Articles with 20787 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.