کراچی واٹر اینڈسیوریج بورڈ یا کرپشن کی دوکان

پیپلز پارٹی کا دورِ حکومت تیزی سے اپنی ہی کرپشن کی دلدل میں دھنسا جارہا ہے،سزایافتہ وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی اور ان کے کرپٹ ہمنوا اب جلدہی جانے کو ہیںتاہم یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ یہ واحد سیاہ دور ہے جس میں حج جیسے مقدس فریضہ کے معاملات میں بھی بدعنوانی کی گئیںاگرچہ اس کیس میںذمہ دار وفاقی وزیر اپنے الزامات کی سزا بھگت رہے ہیںلیکن اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ حکمرانوں نے کرپٹ لوگوں کا سخت محاسبہ بھی کیا ، کیونکہ حکمران تو ہر عوامی کام کی طرف صرف اس لئے متوجہ رہے اور شائد ہیں بھی کہ انہیں اس میں ” آمدنی “ کایقین تھا اور ہے۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کے اپنے مخلص اور دیرینہ رہنماﺅں کو ان کے ہدف کے مطابق شائد ہی کچھ ملا ہو کیونکہ یہاں ریکارڈ پر تو وزیراعلیٰ قائم علی شاہ ہیںلیکن وزیراعلیٰ کے اصل اختیارات کوئی ٹپی صاحب استعمال کررہے ہیںیہ صاحب انتہائی بااثر ہیں اور ہونگے بھی کیوں نہیں ماضی کے مسٹر ٹین پرسنٹ نے براہ راست ان پر پورا ہاتھ رکھا ہوا ہے یوں کہا جائے کہ ان صاحب کا بس نہیں چلتا کہ اپنے آپ کو صدر ہی کہہ دیں۔

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ پوری کراچی کو پانی کی فراہمی اور نکاسی کا ذمہ دار ادارہ ہے یہ ادارہ کرپٹ عناصر کے لیئے ہمیشہ سے سونے کی چڑیا کے مترادف رہاجبکہ اس کے منصوبے سونے کی کان کے مساوی رہے ملکی اورغیر ملکی فنڈز سے جس قدر کرپشن اس ادارے میں کی گئی ہے شائد ہی اس قدر کسی اور ادارے میں ہوئی ہو!

کرپٹ عناصر نے اس ادارے کے قیام یعنی1982 کے بعد سے اب تک اربوں روپے کے پروجیکٹ زمین میں دفن کیئے ہوئے ہیں اس ادارے کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں جتنا زیادہ کرپشن کا ماہر انجینئر یا افسر ہوگا اس قدر ہر ایک کی آنکھ کا تارہ ہوگا حکومت کسی کی بھی ہو کرپٹ افسران ان تک پہنچنے کا راستہ جانتے ہیں یہ افسران کہتے ہیں کہ ” ہمیںبس کے فٹ بورڈ پر پیر رکھنے کی جگہ مل جائے سیٹ ہم خود حاصل کرلیں گے “۔یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ کرپٹ انجینئر ز کو حکومتی شخصیات نے ”سینئر“ قرار دیکر ایم ڈی تک تعینات کردیا ۔

اگر کوئی اتھارٹی واٹر بورڈ کے تمام منصوبوں کی تحقیقات کرے تو اربوں روپے کی کرپشن اور کرپٹ عناصر کا پتہ لگایا جاسکتا ہے لیکن ایسا کئے جانے کا بہت کم امکان ہے کیونکہ وطن عزیز میں بدعنوان عناصر کی ڈوریں منتخب اور بااثر افراد سے جاملتی ہیں۔

پیپلز پارٹی کے چار سالہ دور کے دوران واٹر بورڈ کو سونے کی کان جان کر پھوڑے اور بیلچے کی مدد سے رقم اکھٹا کرنے والوں میں صرف ادارے کے ایم ڈی اوردیگر افسران ہی نہیں بلکہ صوبائی حکومت کی ذمہ دار شخصیات اورخود ساختہ وزیراعلیٰ بنے بیٹھے ٹپی صاحب بھی براہ راست ملوث ہیں۔

میں صوبائی وزیر سراج درانی کو بھی اس لئے الزام دیتا ہوں کہ انہوں نے ایک جونیئر افسر کو ایم ڈی بناکر نہ صرف قوائد وضوابط کا مذاق اڑایا ہے بلکہ سینئر افسران کی دل شکنی کی ہے ایسا عمل عموا کرپشن کی راہ ہموار کرنے کے متراد ف ہوتا ہے، یہ کون نہیں جانتا کہ موجودہ ایم ڈی واٹر بورڈ مصباح الدین ”نیب زدہ“افسر ہیں ۔انہیں احتسا ب عدالت سے سزا بھی ہوچکی تھی تاہم فصلے کے خلاف کی گئی اپیل کے باعث وہ بری ہوگئے تھے۔

مجھے نہیں معلوم کہ حکومت نے ان میں کیا خوبی دیکھی کہ انہیں ایم ڈی کے عہدے پر فائز کردیاگیا۔ادارے کا سربراہ اگر بہتر ہو تو ادارہ ترقی کرتا ہے اور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی پر لوگوں کی نذر میں قابل تعریف بن جاتا ہے۔مگر واٹر بورڈ کے پمپنگ اسٹیشنز اگر بجلی کی لوڈشیڈنگ کی لپٹ میں آئے تو وہ اس کرپٹ دور میں،ہائینڈرینٹ کی کروڑوں روپے ماہانہ آمدنی خسارے کا باعث بنی تو اسی دور میں ،ادارہ اپنے کنٹرول میں برسوں سے موجود سینکڑوں ایکٹر اراضی سے محروم ہوا تو وہ بھی حکمرانوں کے چہیتے افسران کے دور میں اور تو اور ادارے کے مرکزی دفتر میں آتش زدگی کا واقعہ جس میں اہم ریکارڈ جل گیا وہ بھی ان ہی کرپشن زدہ ایام میں۔

مجھے سمجھ نہیں آتا کہ لوگ اللہ کی طرف سے ملنے والی چھوٹ کو کچھ اور کیوں سمجھنے لگتے ہیں اور سدھرنے کے بجائے مزید کیوں بگڑ جاتے ہیں،ہمارے ملک کی جو حالت ہے وہ ہماری قوم اور حکمرانوں کے روئیے کی عکاسی نہیں تو اور کیا ہے؟بحثیت قوم شائد ہمیں جینے کا بھی حق نہیں لیکن دوسروں کے حقوق چھیننے کے لیئے ہم انتہائی چوکنا رہتے ہیں۔

جس ادارے کا میں ذکر کررہا ہوں وہاں کے افسران اپنے دفاتر اور گھروں میں اپنے ادارے کا پانی بھی نہیں پینا چاہتےوہ پانی جس کی وجہ سے وہ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں، ان کی میزوں پر منرل واٹر کی رنگ برنگی بوتلیں ان کی کارکردگی کا مذاق اڑاتی رہتی ہیں اور یہ ” کھوکھے اور پیٹی“کے حصول میں مصروف رہ کر شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے دعوے کرتے ہیں۔

گلشن اقبال میں واقعہ سی او ڈی فلٹرپلانٹ کے آس پاس کی کروڑوں روپے کی واٹر بورڈ کی اراضی اگر آج کسی اور کے قبضے میں چلی گئی ہے تو اس میں لینڈ مافیا سے زیادہ واٹر بورڈ کے متعلقہ بینا افسران کا قصور ہے جو آنکھیں کھلے رکھنے کے باوجود ”انکھوں کے ساتھ زبانیں“ بھی بند رکھنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔

واٹر بورڈان دنوں زیرزمیں پانی کوپینے کے قابل بنانے کے لیئے چھ ارب روپے کی لاگت سے ایک بڑے منصوبے پر کام کررہا ہے ،منصوبہ شیڈول کے تحت اس سال مارچ تک مکمل ہوجانا چاہیئے تھا جبکہ اس پر کام کا آغازگذشتہ سال مئی میں ہوا تھا ۔اربوں روپے کے اخراجات کے باوجود ابھی تک یہ اس قابل بھی نہیں ہوسکا کہ اسے دیکھنے سے یہ یقین ہوجائے کہ یہ کبھی مکمل ہوسکے گا!اہم بات یہ ہے کہ ٹرانپیرنسی انٹرنیشنل نے اس منصوبے کا ٹھیکہ دینے کے حوالے سے منصوبے کے ابتداءہی میں اعتراض کردیاتھا کہ اس میں سنگین نوعیت کی خلاف ورزیاں کی گئیں ہیں۔دوسری طرف ماہرین کو اعتراض ہے کہ جس بڑی رقم سے یہ منصوبہ مکمل کیا جارہا ہے اس کے مساوی اخراجات سے ماضی میںیومیہ ایک سو ملین گیلن پانی کی فراہمی کا منصوبہ مکمل کیا جاچکا ہے جبکہ اس منصوبے سے شہرکو یومیہ صرف دس ملین گیلن پانی مل سکے گا۔

منصوبے کے لیئے جس تیزی سے فنڈز ٹھیکیدار فرم کو جاری کئے جارہے ہیں اگر اسی رفتار سے منصوبے پر عمل درامد بھی ہوتا تو کچھ سمجھ میں آتا کہ کام ہورہا ہے،اطلاعات کے مطابق اس منصوبے کا ٹھیکہ دیتے وقت بھی سنگین نوعیت کی خلاف ورزی کی گئیںاور ٹھیکیدار کو بل کا اجراءکرتے وقت بھی ایسا ہی کچھ کیا جارہاہے ،واٹر بورڈ کا سربراہ ایسا کرنے پر مبینہ طور پر اس لیئے مجبور ہے کہ وہ ایم ڈی کی سیٹ پر حکمرانوں کی پوری آشیرباد کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔

مصباح فرید کو ایم ڈی تعینات کرتے وقت صوبائی وزیر سراج درانی نے کہا تھا کہ وہ ادارے کے سینئر ترین انجینئر ہیں جبکہ انجینئر مشکورالحسن، فرید سومرو، علی محمد پلیجو، عمران آصف، قطب شیخ ،افتخار احمد خان ، جمیل اختراورعبدالرحیم کٹھی ان سے سینئر ہیں۔

ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ کراچی واٹر بورڈکو نجی شعبے کے حوالے کرنے کے لیئے بھی تیاریاں کی جارہی ہیںسستے پانی کی فراہمی کے ادارے کی پرائیوٹائزیشن ہوئی یا اس پر کسی قسم کا کام جاری ہے تو یہ عمل ملک کے سب سے بڑے شہر کے ساتھ” بڑی سازش“سے کم نہیں ہوگا اور اس کام میں شہر دشمن قوتیں ہی سرگرم ہوسکتی ہیں ویسے بھی دنیا بھر میں پانی کی فراہمی اور سیوریج کی نکاسی کی ذمہ داری حکومت پر ہوتی ہے ۔

یہ بات درست ہے کہ ماضی میں بھی اس ادارے کی نجکاری کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن اسے پوری قوت  سے ختم کردیا گیا اس لیئے مجھے یقین ہے کہ آئندہ بھی اس طرح کے منصوبے کو شروع ہونے سے قبل ہی دفن کردیا جائے گا۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152754 views I'm Journalist. .. View More