گلگت بلتستان کی مقامی زبانوں کی حالت زار پر رحم کرے

حال ہی میں گلگت بلتستان کے تعلیمی اداروں میں چائنیز زبان کو اختیاری درجہ دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔جو کہ ایک طرح سے خوش آئند بھی ہے کیونکہ ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے ہمارے جغرافیائی ،ثقافتی اور تجارتی روابط میں مزید اضافہ ہوگا۔لیکن جہاں صوبائی حکومت نے چائنیز زبان کو اختیاری حیثیت سے نصاب میں رائج کرنے کا فیصلہ کیا ہے وہاں اپنے مقامی زبانوںک و بھی دیگر اقوام اور صوبوں کی طرح لازمی مضمون کے طور پر نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔جس پر ابھی تک حکومتی سطح پر یا قومی وادبی حلقوں کی طرف سے خاطرخواہ توجہ نہیں دیا گیا ہے۔گلگت بلتستان کے تعلیمی اداروں میں چائنیز زبان کو اختیاری مضمون کا درجہ دینا گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ حکمران اپنی ثقافت کوچھوڑکر دیگر ممالک کے ثقافت کی فروغ میں سرگرم عمل ہیں۔دیگر صوبوں کی طرح گلگت بلتستان میں مقامی زبانوں کو لازمی قرار دیا جائے۔

اگر دیگر صوبوں میں پشتو، پنجابی،سندھی،بلوچی و دیگر مضامین پڑھائے جاتے ہیں تو یہاں کی مقامی زبانوں کو بھی ترجیح دیا جائے ۔مقامی زبانوں کو ترجیح نہ دینے کی وجہ سے دنیاکی بیشتر زبانیںاپنی وجود کھو چکی ہیں اسی طرح گلگت بلتستان کی مقامی زبانیں عدم توجیہی کی وجہ سے اپنی انفرادیت کھو رہی ہیں۔مقامی زبانوں کوتعلیمی اداروںمیںلازمی قرار دیکر انہیںبچانے کی کوشش کی جائے۔کیونکہ یہ قومی شناخت ہے اور جب شناخت ہی ختم ہو جائے تو یہاں کے قوم کی بین الاقوامی سطح پر بھی شناخت ختم ہوجائے گی۔ہمارے حکمران اس سلسلے میں بے بس نظر آرہے ہیں۔اس سلسلے میںانتظامی حکومت کو چاہیے کہ کوئی موثر پالیسی مرتب کرے اور فرسٹ ایڈ کے طور پرگلگت بلتستان میںتعلیمی اداروں میں مقامی زبانوں کو لازمی مضمون قرار دیتے ہوئے سرکاری سطح پر اقدام اٹھائے تاکہ اس سے گلگت بلتستان کے عوام کی شناخت کے حوالے سے اچھا اقدام ثابت ہو ۔

ساتھ ہی گلگت بلتستان کے کلچر کے حوالے سے بھی حکومت نے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے ہیں۔صرف ایک گروپ نے کلچر کے نام سے بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔لیکن انکی بھی حوصلہ افزائی نہیں ہو رہی ہے۔جبکہ سیاحت وثقافت کا اتنا بڑا ادارہ ہے انکا فرض بنتا ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے کلچر کے فروغ کےلئے موثر اقدامات کریں۔کلچر بھی ختم کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔سابقہ حکومت نے کلچر کے حوالے سے باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ گلگت بلتستان کے کلچر کے فروغ وحفاظت کےلئے چھلمس داس میں میوزیم بنایا جائیگا۔لیکن اب تک کلچر کے حوالے سے میوزیم نہیں بنایا گیا ہے۔جبکہ گلگت بلتستان میں اس وقت آثار قدیمہ بھی ختم ہورہے ہیں۔اور کئی جگہوں پر ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔ لیکن حکومت نے گلگت بلتستان کے آثار قدیمہ کی حفاظت کےلئے تاحال کوئی موثر اقدام نہیں اٹھایا ہے۔

اس حوالے سے ہمارے دانشور ،ادیب اور بالخصوص میڈیاکے نمائندے عوام تک اس حوالے سے شعور بیدار کرنے میں اپنا کردار ادا کریںاور گلگت بلتستان کا ہرباشعور فرد کوانفرادی طور پر ثقافت کی فروغ کےلئے میدان میں اترنا پڑے گا۔حالانکہ بیرون ممالک سے ان آثار قدیمہ کے حفاظت کےلئے امدادی اداروں نے مالی معاونت بھی کی ہے اور سیاحت وثقافت کے شوقین آثار قدیمہ کو دیکھنے گلگت بلتستان کا رخ کرتے ہیں اور اس کی مد میں حکومت کو اور عوام کو فائدہ بھی ملتا ہے۔لہٰذا گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت ان تمام چیزوں کو نظر انداز کرنے کے بجائے اہم اقدامات اٹھائے جو کہ گلگت بلتستان کے عوام کا اثاثہ ہے۔اب ہمیں اس نیند سے جلدبیدارہوناپڑے گا جس میں خوابِ ثقافت کا دور تک کوئی امکان نہیں۔
Ishtiaq Hussain Gilgiti
About the Author: Ishtiaq Hussain Gilgiti Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.