مہاجر صوبہ ضروری ہے؟

پاکستان جبکہ دنیا کی نظر میں ایک ناکام ترین ریاست بن چکا ہے۔ جہاں مہنگائی، کرپشن، بدامنی اور بے روزگاری کا دور دوراں ہے۔ جہاں بلوچ ہم سے ناراض اور بلوچستان علیحدگی کے مطالبے کررہا ہے۔ ، ایسے میں کچھ عرصہ پہلے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی صاحب نے پنجاپ میں مزید صوبے بنانے کا اعلان کردیا اور ایم کیو ایم اس منشور کو سب سے پہلے اسمبلی میں لا کر ایک کارنامہ گردانتی رہی ہے۔ اب ٹھیک چند مہینوں میں ایک اور آواز کراچی کی سڑکوں سے ہمارے کانوں میں رینگ رہی ہے کہ "ضروری ہے ضروری ہے مہاجر صوبہ ضروری ہے" جس کے سرکردہ نئے چہرے ہیں۔ ایسے افراد اس تحریک کا حصہ ہے جن کا نام کبھی سنا تک نہ تھا اور یقینا ایسے لوگ براہ راست ہمت نہیں کرسکتے ان کے پیچھے کوئی طاقت ہی ملوث ہے۔ ایسی صورت حال میں عوام کو کم از کم عقل اور دانش کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیئے اور محض جذباتیت اور دلفریب نعروں سے متاثر ہوکر یک طرفہ فیصلہ کرنے سے گریز کرنا چاہیئے۔

ملک جبکہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ملک کرپشن کے لئے ضرب المثل بن چکا ہے۔ غریب گندم چوری کرتے کرتے گندم کے آٹے کی بوریوں کے نیچے ہی آمرتا ہے۔ کراچی میں روز دس پندرہ بندوں کا ٹارگٹ کلنگ میں مرنا حیرانگی کی بات نہ ہو ۔ ٹارگٹ کلنگ شہر کا خاصہ ہو۔ بھتہ جہاں کا ستارہ امتیاز ہو۔ طلبہ کی نظر میں استاد کی قیمت قائد اعظم کی تصویر چھپے چند نوٹوں کے مساوی ہو۔ جہاں سوئی اور ٹوتھ پک سے لے کر انسان کے ضمیر اور ایمان تک بکاؤ مال ہو۔ جہاں شہر کی پولیس موٹر سائیکل والوں کو پچاس پچاس روپے رشوت کے لئے تنگ کرے اور حالات خراب ہونے پر یہی پولیس سڑکوں سے ایسے غائب ہو جیسے گنجے کے سر سے بال۔ جہاں کے مقتدی اماموں کو نمازیں پڑھاتے ہوں۔ جہاں پولیٹکس پر تنقید کرنا ہی حب الوطنی کی علامت سمجھا جاتاہو اور اس کو گٹر یا کوڑا کرکٹ کہہ کر کردار ادا کرنے سے گریز کیا جاتا ہو۔ ہر کوئی خود کو عقل کل سمجھتا ہو لیکن اصل میں خود سب سے بڑا بے وقوف ہو۔ جہاں پیٹرول کی قیمت بمبو درخت کے تنے کی طرح قد آور ہوتے ہوں۔ جہاں فٹ پاتھیں ٹھیلے والوں کی ملکیتیں ہوں۔ جہاں بس کنڈکٹر دو روپے معاف کروانا تو جانتے ہوں پر معاف کرنا ان کو نہ آتا ہو۔ جہاں ہر کوئی ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کو تیار رہتا ہو۔ جہاں بے غیرتی کو غیرت سمجھا جاتا ہو۔ بددیانتی کو ٹوپی اور اس سے حاصل ہونے والے حرام فائدے کو اپنا حق سمجھا جاتا ہو۔ جہاں بجلی جاتی نہیں بلکہ آتی ہو۔ جہاں فروٹ خریدنا غریبوں کے لئے خواب کی مانند ہو۔ جہاں آٹا کی قیمت مزدور کی یومیہ اجرت سے زیادہ ہو۔ جہاں گوشت اور دالوں کی قیمتوں میں کوئی تفریق نہ باقی رہتی ہو۔ جس ملک کا ایک صوبہ پہلے ہی الگ وطن بن گیا ہو اور ترقی کی دوڑ میں اپنے مادر وطن سے کئی آگے نکل جانے کے بعد شکرانے کے نوافل ادا کرتا ہو۔ دوسرا صوبہ اپنی ترقی کی راہ میں اسی چیز کو رکاوٹ محسوس کرتا ہو کہ وہ پاکستان کا حصہ ہے اسی لئے وہ بھی علیحدگی کے لئے کوشاں ہو ۔ جہاں ہر طرف ظلم، نفرت اور طلسم کی آگ لگی ہو وہاں پر صوبہ کا مطالبہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے کہ کسی کے باپ کا انتقال ہوگیا ہو اور وہ پراپرٹی میں ایک گھر چھوڑ گیا ہو۔ اب اس گھر پر کسی وجہ سے آگ لگ گئی اور دونوں بھائی آپس میں وراثت کلیم کررہے ہیں ۔ ایک کہتا ہے میں بڑا ہوں اس لئے اس پر میرا حق ہے دوسرا کہتا ہے تیری شادی پر اباجی نے تجھے یہ دیا تھا وہ دیا تھا اتنا سونا دیا تھا اتنا کیش دیا تھا لہذا اب اس گھرپر صرف اور صرف میرا حق ہے کہ اچانک سے آگ لگے گھر کی عمارت دھڑم کرکے گرتی ہے اور وہ ان مباحثوں اور مطالبوں سے سوائے ہاتھ ملتے رہنے کے کچھ حاصل نہیں کرپاتے۔

اگر ہم بھی ان بھائیوں کی طرح اپنا حق اور مطالبے پر دلیلیں دیتے رہے اور ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہے اور وطن عزیز میں لگی آگ نہ بجھائی تو وہ وقت دور نہیں کہ یہ پاک سرزمین ہی باقی نہ رہے کہ جس کی تقسیم کے مطالبے ہم کرسکیں۔
ڈاکٹر محمد محسن
About the Author: ڈاکٹر محمد محسن Read More Articles by ڈاکٹر محمد محسن: 15 Articles with 35918 views مسیحائی آسان کام نہیں، بس خدا سے دعا ہے کہ اس بوجھ کو احسن انداز میں اٹھاسکوں.. View More