ڈیل اور ڈھیل

امریکہ کے بارے میں مشہور ہے وہ شکاری کی کامیابی پراسے مبارکبادپیش کرتا اوریہ باورکراتا ہے کہ تمہاری کامیابی میں واشنگٹن نے کلیدی کرداراداکیا ہے ورنہ تم ناکام ہوجاتے اوراگر شکاری کاوارخطاہو جائے اورخوش قسمتی سے خرگوش کی جان محفوظ رہے توامریکہ فوراً اس کوپیغام بجھواتا ہے کہ اِس خطرناک شکاری سے تمہاری جان ہم نے بچائی ہے ورنہ تم بے موت مارے جاتے لہٰذا تم کوہمارااحسان مندہوناچاہئے ۔عہدحاضر میں وہ ملک یالوگ کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں جو دوسروں کے کندھوں کواستعمال کرنااوران پرکھڑے ہوناجانتے ہوں۔ اگرامریکہ اپنے ریاستی مفادات عزیزرکھتا ہے تواس میں کوئی برائی نہیں یہ اوربات ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار پاکستان کی بجائے صرف اپنے نجی مفادات سے سروکاررکھتے ہیں۔امریکہ انتہائی باریک بینی سے اورسوچ بچار کے بعداپناقدم اٹھاتا ہے جبکہ ہمارے حکمران پانی سرسے گزرجانے کے بعد سوچناشروع کرتے ہیں مگر اس وقت تک بہت دیرہوچکی ہوتی ہے۔اس دورمیں کسی بھی دوملکوں کے درمیان دوستی نہیں ہوتی بلکہ کاروبارہوتا ہے اوراس کاروبارمیں ہرکوئی اپنا نفع نقصان دیکھتا ہے۔ سناتھا دوستی امتحان لیتی ہے مگرآج کل تو دوستی انتقام لیتی ہے۔ہمارے حکمران امریکہ کواپنا دوست قراردیتے ہیں،ہوسکتا ہے وہ سچ کہتے ہوں مگر امریکہ کسی بھی دورمیں پاکستان کادوست نہیں رہا ۔امریکہ نے کبھی پاکستان کے ساتھ ایک دوست کی طرح سلوک روا نہیں رکھا مگرپاکستان کے بعض فرمانبردارحکمرانوں کے ساتھ امریکہ کی دوستی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں جوبھی حکمران یابحران آتا ہے توعموماً کہا جاتا ہے کہ اس میں امریکہ کاہاتھ ہے۔اگرہمارے ارباب اقتدارکی کمزوریاں اورمجبوریاں نہ ہوں اوراگرہمارے حکمرانوں اورسیاستدانوں میںاقتداراوروسائل کی ہوس نہ ہوتوامریکہ ہمارے داخلی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرسکتا۔ہرملک اپنے دشمن ملک میں فسادبرپاکرنے یااس پرغلبہ پانے کیلئے وہاں میرجعفراورمیرصادق تلاش کرتا ہے۔برادرملک ایران میں امریکہ کواپنے اہداف کیلئے میرجعفراورمیرصادق نہیں ملے لہٰذا ایران کاسٹینڈاوراپنے مفادات پرکمپرومائزکرنے سے دوٹوک انکار امریکہ اورسرائیل سمیت مقتدرقوتوں ایک چیلنج بناہوا ہے۔ایران آبادی اور دفاعی قوت کے معاملے میں پاکستان سے بہت پیچھے مگراستقامت اورمزاحمت کے حوالے سے پاکستان سے بہت آگے ہے۔ہمارے ہاں اسلامی تعلیمات کے منافی عوام کو بزدلی اورمصلحت پسندی کادرس دیا جاتا ہے ۔پاکستان میںامریکہ کاکام حکمران انجام دیتے ہیں وہ عوام سے کچھ نہیں چھین سکتا ۔ہمارے حکمران اپنااقتداراورغیرملکی بنکوں میںجمع اپنا پیسہ چھن جانے کے ڈرسے امریکہ کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیںاوربیرونی دباﺅ کے سبب درست اوردوررس فیصلے نہیں کرتے ۔عوام امریکہ یابرطانیہ کوقصورواراوراپنے احساس محرومی کاذمہ دارسمجھتے ہیں جبکہ قصورہمارے اپنے حکمرانوں کا ہے ۔

امریکہ نے توہین عدالت کے ارتکاب میں سزایافتہ یوسف رضاگیلانی کی حمایت کافیصلہ یقیناکسی مفاد کے بغیرنہیں کیاہوگا ۔اس بات کابھی غالب امکان ہے کہ وہائٹ ہاﺅس کی طرف سے عدلیہ کے ساتھ اظہاریکجہتی کاپیغام بھجوایا گیا ہواوراپوزیشن کوبھی کہا گیا ہو''قدم بڑھاﺅاپوزیشن امریکہ تمہارے ساتھ ہے''کیونکہ امریکہ کوافغانستان میں درپیش مزاحمت اوروہاں سے محفوظ واپسی کے حوالے سے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اورخلفشار بہت سوٹ کرتاہے ۔کیونکہ اس قسم کی آئیڈیل صورتحال میں امریکہ اوراس کے اتحادی باآسانی نیٹوسپلائی بحال کرنے کیلئے حکومت پاکستان کورضامندکرسکتے ہیں اوربدلے میں ڈرون حملے بندکرنے کی ضمانت بھی نہیں دیناپڑے گی اورسلالہ حملے کے حوالے سے معذرت کاتوسوال ہی نہیں اٹھتاسوامریکہ نے اپنی شرائط پر ڈیل کرنے کیلئے وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت کوغیرمعمولی ڈھیل دی ہے۔جبکہ ہمارے حکمران صرف اس بات پرہی بہت خوش ہیں کہ ان کے سرپرامریکہ کاہاتھ ہے اوردنیا کی کوئی طاقت ہمیں نہیں ہٹاسکتی ۔نیٹو کی سپلائی کے ایشوپردفاع پاکستان کونسل،جماعت اسلامی اورچنددوسری مذہبی پارٹیوںکے سوا کسی قابل ذکرسیاسی جماعت نے دوٹوک موقف اختیار نہیں کیا۔عدلیہ کے ساتھ اظہاریکجہتی،کرپشن اورلوڈشیڈنگ کیخلاف احتجاجی مظاہرے بڑی اہمیت کے حامل ہیں مگرنیٹوسپلائی کی ممکنہ بحالی پرعوام اورعوامی نمائندے کیوں خاموش ہیں۔

سزایافتہ ہونے کے باوجودیوسف رضاگیلانی کاحالیہ دورہ برطانیہ بھی اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ دنیا کی مقتدر جمہوری قوتوں کے نزدیک پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی کوئی حیثیت یا اہمیت نہیں کیونکہ وہ اپنے مفادکیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔وہ مہذب ملک جہاں معمولی الزام لگائے جانے پرمنتخب حکومت اورریاست کے اعلیٰ اوراہم ترین عہدیدار اپنے اپنے منصب سے فوری مستعفی ہوجاتے وہاں ایک سزایافتہ مجرم یوسف رضاگیلانی کوبھرپورپروٹوکول دیا جاتاہے کیونکہ انہیں ابھی ان سے مطلب ہے ۔نیٹوسپلائی کی بحالی کیلئے امریکہ اوربرطانیہ کویوسف رضاگیلانی کی آئینی حیثیت پراٹھائے جانیوالے سوالات اوراعتراضات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔پیپلزپارٹی اوراس کی اتحادی پارٹیوں نے اپنے طورپرنیٹو سپلائی بحال کرنے کافیصلہ کرلیا ہے ،باضابطہ اعلان کسی بھی وقت کردیا جائے گا۔کہاجاتا ہے باوردی صدرپرویزمشرف نے کسی مشاورت کے بغیر پاکستان کوپرائی دشمنی کی آگ میں جھونک دیا تھا تواب منتخب حکمران بھی کسی مشاورت کے بغیراورپارلیمنٹ کوبائی پاس کرتے ہوئے اہم فیصلے کررہے ہیں۔ ایٹمی پاکستان کے حکمران امریکہ کے ترجمان بنے ہوئے ہیںاوروہ نیٹوسپلائی کی بحالی کے حق میں وکالت کررہے ہیں ۔کیا 48ملکوں نے جوکہا وہ کوئی حدیث ہے ،اس کامطلب وہ48ملک جوچاہیں جواشارہ کریں گے پاکستان وہی کرے گا۔کیا ہماری خارجہ پالیسی کوئی موم کی ناک ہے جوبیرونی دباﺅپرکسی بھی طرف موڑدی جائے۔کسی بھی آزادملک کی فارن پالیسی کامحوراس کے اپنے داخلی اورخارجی مفادات ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں امریکہ کے مفادات کوخارجہ پالیسی کامحوربنایاجاتا ہے۔

پاکستان کی وزیرخارجہ حناربانی کھر اوروفاقی وزیراطلاعات قمرزمان کائرہ حالیہ پریس کانفرنس میں فرماتے ہیں ''سلالہ حملے کوبھول کرآگے بڑھناہوگا'' ۔دنیا کاکوئی ملک اپناماضی بھول کراپنے مستقبل کوروشن اورمحفوظ نہیں بناسکتا۔کیا بھارت نام نہاد ممبئی حملے سے چشم پوشی کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کرے گا۔کیا امریکہ ورلڈٹریڈسنٹر کے واقعہ کوفراموش کرتے ہوئے افغانستان سے واپس جائے گا ۔کیا پیپلزپارٹی ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی اوربینظیربھٹو کے قتل کوفراموش کرکے آگے بڑھ سکتی ہے۔اگرسلالہ حملے میں ان کاکوئی اپناعزیزشہید ہواہوتاتومیں دیکھتا یہ کس طرح اس قسم کی تجویز دیتے۔وفاقی حکومت کے اس استدلال میںکوئی وزن نہیںہے ،کل حکمران ہمیں کشمیرکی تحریک آزادی اورکشمیر کے شہیدوں کوفراموش کرنے کامشورہ دے سکتے ہیں ۔امریکہ نے تواپنے ایک مجرم ریمنڈڈیوس کوہمارے عدالتی نظام کے رحم وکرم پرنہیں چھوڑاتوہم اپنے سلالہ چیک پوسٹ کے شہیدوں کوکیوں فراموش کردیں۔صرف پاکستان کو کیوں اپنی جغرافیائی سرحدوں پراشتعال انگیزحملے اوراپنے محافظوں کی شہادت کوبھول جانے کادرس دیا جاتا ہے۔امریکہ نے توسلالہ حملے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر معذرت کرنابھی گوارہ نہیں کی توپھر اس کی بربریت کوکس طرح معاف کردیا جائے۔آقااپنے غلام سے معافی نہیں مانگا کرتے ۔کسی کی غلطی تو نظرانداز کی جاسکتی ہے مگر زیادتی کومعاف نہیں کیا جاسکتا۔سلالہ پرحملے اورہمارے فوجی جوانوں کی شہادت کاواقعہ غلطی سے پیش نہیں آیا بلکہ یہ امریکہ کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کاشاخسانہ تھا کیونکہ وہ جانتا ہے اسے پاکستان کی طرف سے کسی قسم کے سخت ری ایکشن کاسامنا نہیں کرناپڑے گااورپاکستان کے حکمران اورسیاستدان میڈیا کی حدتک اس واقعہ کی مذمت کرنے کے بعدشہرخموشاں کی طرح خاموش ہوجائیں گے۔پاکستان میں ایک کے بعدایک وزیرخارجہ تو تبدیل ہوتے رہے ہیں مگر خارجہ پالیسی کبھی نہیں بدلی ۔پاکستان کوجب کبھی امریکہ کی ضرورت پڑی توامریکہ نے پاکستان کو مایوس کیا جبکہ پاکستان نے کبھی روس کوافغانستان میں شکست دینے اوروہاں سے بھگانے کیلئے اپناسب کچھ جھونک دیا اورکبھی افغانستان میں امریکہ کی جنگ کاایندھن بنامگر ہرباراس کی دوستی کاجواب دشمنی سے دیاگیا ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ نیٹوسپلائی بحال کرنے کیلئے پارلیمنٹ سمیت جمہوری قوتوں کے ساتھ مشاورت کی جائے ۔قومی قیادت اورپارلیمنٹ کوبائی پاس کرنے سے ملک میں موجود سیاسی عدم استحکام شدت اختیار کرجائے گا۔ حکومت پاکستان نیٹوسپلائی کی بحالی کیلئے پارلیمنٹ کی قرارداد کے مطابق ڈرون حملوں کی بندش اورپاک ایران گیس منصوبے سمیت امریکہ سے اپنی شرائط منوائے ۔سلالہ حملے کے حوالے سے امریکہ کوباضابطہ معذرت اورشہیدوں کاخون بہاادا کرنے پرمجبورکیا جائے ۔ یوسف رضاگیلانی عدالتی فیصلے کیخلاف اپنا اپیل کاآئینی حق استعمال کرنے کیلئے وزارت عظمیٰ کے منصب سے باضابطہ مستعفی ہوں ۔اگرپیپلزپارٹی نے عدلیہ پرسیاسی حملے بند نہ کئے تواس کشیدگی سے کوئی جمہوریت دشمن قوت یاکوئی دشمن ملک فائدہ اٹھاسکتا ہے۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126699 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.