جمہوریت گھر کی لونڈی

والد گرامی ایوان بالا کے معزز رکن ہیں، وہ ہمیشہ اسمبلی میں رہتے ہیں، وزارتیں ان کے ہاتھوں تقسیم ہوتی ہیں، پنجاب کے سینئر وزیر بھی رہے، پنجاب کی گورنری کا تاج بھی ان کے سر پر سجا، اگر کوئی انہیں سردار نہ کہے تو ان کی طبعیت میں گرانی کے عناصر پیدا ہوجاتے ہیں، صرف برا ہی نہیں مناتے بلکہ بے دھڑک سردار کہلوانے پر اصرار کرتے ہیں۔ ن لیگ میں ان کو بہت اہمیت حاصل ہے، عام طور پر ضمنی الیکشن میں ان کو نگران مقرر کیا جاتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ موجودہ اسمبلیوںکے چار سالہ دور میں یہ تجربہ کافی تلخ رہا، جس ضمنی الیکشن میں آپ تشریف لے گئے ، اس امیدوار کی لٹیا کنارے نہیں لگی، خیر یہ بھی بڑی مہارت ہے۔

ایک بیٹا پنجاب اسمبلی کا معزز ممبر ہی نہیں معزز وزیر بھی ہے، 2008ءکے الیکشن کے بعد جب میاں برادران ابھی اپنی جلاوطنی کاٹ کر واپس آئے تھے اور ان کی الیکشن میں آئینی حیثیت کا معاملہ متنازعہ تھا، پنجاب اسمبلی میںن لیگ کی اکثریت بن گئی تھی، ایسے میں انہی صاحب کو عبوری دور کے لئے پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا۔ ان پر ایک فنکارہ کے ساتھ شادی رچانے کا الزام بھی ہے، اس ضمن میں انہیں مقدمہ بازی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، لیکن بڑے لوگ اس قسم کے مشاغل سے کبھی بدنام نہیں ہوتے، نہ ہی ان کی مقبولیت میں کمی واقع ہوتی ہے، نہ ہی انہیں عوام یا قانون کی نظر میں گرنے کا خطرہ ہوتا ہے، تاہم وہ آئے روز کی چخ چخ سے بچنے کے لئے استعفوں کا آپشن استعمال کرتے رہتے ہیں۔

دوسرا بیٹا معزز ممبر قومی اسمبلی ہے، وہ علاقے کے معاملات کو اسلام آباد پہنچانے کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ تیسرابیٹا ماہِ رواں کے آغاز میں ہی ایک ضمنی الیکشن میں پنجاب اسمبلی کا رکن منتخب ہوا ہے۔ یوں ایک ہی گھر کے چار افراد ایوان بالا سے لے کر صوبائی اسمبلی تک میں موجود ہیںاور اپنی نمائندگی کا حق اداکررہے ہیں، جوکہ ایک ریکارڈ ہے۔ ہمار ا خیال ہے کہ قارئین کرام اس تفصیلی تعارف کے بعد اس خاندان کے مزید تعارف کا مطالبہ نہیں کریں گے، وہ جان گئے ہونگے کہ یہ ڈیرہ غازی خان کا سردار خانوادہ سردار ذوالفقار علی کھوسہ اور ان کے تینوں صاحبزادوں پر مشتمل ہے۔

وقت نے مہلت نہیں دی ورنہ جنوبی پنجاب ہی سے ایک اور مثال بھی قائم ہونے کو تھی ، کہ یوسف رضاگیلانی ملک کے وزیراعظم ہیں، ایک ضمنی الیکشن میں ان کے برادرِ خورد کو ایم پی اے بنوایا گیا، وزیراعظم کے ایک صاحبزادے پنجاب اسمبلی کے ایک اور ضمنی الیکشن کے ذریعے کامیاب ہوئے تھے، دوسرے کو بھی ایک ضمنی الیکشن میں کامیاب کرواکر قومی اسمبلی میں بھیجا گیا۔اب حالات بدل گئے ہیں، خود گیلانی صاحب کی خبر نہیں، اگر دواور ضمنی الیکشن ہاتھ لگ جاتے تو دختر نیک اختر کا بھی نمبر لگ جاتا کہ اسے بھی موصوف میدان سیاست میں اتار چکے ہیں، خاتون اول کو بھی موقع دیا جاسکتا تھا، لیکن افسوس کہ وقت کسی کا نہیں ہوتا۔

اس مکمل غلامانہ ذہنیت کے باوجود ہم پاکستانی جمہوریت کے دعویدار ہی نہیں علمبردار بھی ہیں، وہ لوگ جنہوں نے اقتدار کو اپنے گھر کی لونڈی تصور کررکھا ہے، وہ کوئی سیٹ بھی اپنے گھر سے باہر جانے نہیں دینا چاہتے، وہ بھی جمہوریت کے سب سے بڑے چیمئن ہیں، ان کو کوئی کرپشن سے روکے تو گویا جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی سازش ہوگئی، انہیں کوئی آمریت پر تنقید کانشانہ بنائے تو جمہوریت کو کمزور کرنے کا الزام لگ جاتا ہے۔ کیا جمہوریت یہی ہے کہ من مرضی پر کوئی سراٹھا کے بات نہ کرے، استحصال پر کوئی احتجاج نہ کرے ، حق مارے جانے پر کوئی چیخ وپکار نہ کرے؟ کیا ہر سیاسی جماعت آمریت کی بدترین شکل نہیں؟ کیا وڈیرہ شاہی اور حکمرانوں کی خوشامد اپنا رنگ نہیں دکھاتی؟

کالم آخری مراحل میں داخل ہوا تو خبر ملی کہ قومی اسمبلی والے کھوسہ بیٹے نے اپنی سیٹ سے استعفیٰ دے دیا ہے، وجہ علاقے کی صحیح خدمت نہ کرسکنا اور والد صاحب سے سیاسی اختلافات بیان کئے جاتے ہیں۔ کیا اس سے یہ اندازہ لگایا جائے کہ اب جمہوریت اونچی دیواریں پھلانگ کر جاگیرداروں اور وڈیروں کے مضبوط قلعوں میں نقب لگانے کو ہے؟
Anwer Gray Wal
About the Author: Anwer Gray Wal Read More Articles by Anwer Gray Wal: 10 Articles with 32403 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.