عورت دورِ جاہلیت میں اور آج

مولانا محمداسرار احمد قادری نظامیسّرِی شاہ
(صدرمدرس مدرسہ مصباح العلوم عالیہ کمالیہ،اورنگ آباد ،مہاراشٹر)

الحمد للہ رب العالمین والصلوة والسلام علی سیدالانبیاءوالمرسلین وعلی آلہ واصحابہ اکرمین اجمعین ومن تبعم باحسانٍ الی یوم الدین امابعد فاعوذباللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم۔للہ ملک السموات والارض یخلق مایشا ءیھب لمن یشا اناثاً یشاءعقیماً انہ علیم قدیر(سورہ الشوریٰ 49۔50)
وجود ِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کاسوزودروں

ہر زمانے میں اورہرمذہب میں بالخصوص دورجاہلیت میں صنف نازک کو ضعیف وکمزورجنس مانا گیا ہے۔ اسے نازک ریشمی تاگوں اورکانچ کو چوڑیوں او رمصنوعی وحسین زیب وزینت کااسیر تصورکیا گیا ہے اورچاردیواری کا قیدی اورخواہش نفسانی ولذات زندگی کامکیدہ جانا گیا ہے اور مردوں کی عزت ووقار کے لئے عاروعیب اور بدنماداغ سمجھاگیا ہے۔اسے محفل عیش وطرب کا سامان اور ہوی وحوس کاکھلونہ متصورکیا گیا ہے۔ جہیز وشادی بیاہ کے ناقابل برداشت بوجھ اور وسائل معاش کے نااہل ہونے کا کلنک کا ٹیکہ جاناگیا ہے۔ا س کے بر خلاف دین اسلام اورپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو وہ مقام ومرتبہ عطاکیا جوکوئی اور مذہب نہیں دے سکا۔یہ اسلام ہی کاخاص ملکہ وخوبی اور امتیاز ہے کہ حضوررحمت عالم نورمجسم ،محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے صنف نازک کوماں کے روپ میں بیٹی کے روپ میں بہت کے روپ میں بہو کے روپ میں ان کی قدرومنزلت فرمائی اور ان کو مقدس وپاکیزہ رشتوں سے منسلک کیا۔اورمردوں کے مقابل انہیں بھی وہی حقوق دیئے جو مردوں کو دیئے گئے تاکہ وہ سماج وسوسائٹی میں مردوں ہی کی طرح زندگی بسرکرسکے اوریہ بھی سچ ہے کہ جب عورت اسلامی لباس اور حجاب کی پابندتھی اور اپنے آپ کو چاردیواری میں گوشہ نشیں رکھتے ہوئے تھی تب تک اس کی عزت وناموس اورعفت وعصمت محفوظ تھی اور جیسے ہی وہ بے پردہ اور مغربی ملبوسات میں عریاں ہوتی گئی اس کی عفت وعصمت کوتارتارکیا گیا اسے ذلیل وخوار کیا گیا ساتھ ہی اس کی قدرومنزلت جاتی رہی اور مقدس رشتوں کا لحاظ ختم ہوتاگیا ایسے میں مردوں نے اس کے رہنے کو نہ رہنے سے زیادہ بہتر سمجھا جس کے لئے دختر کشی،بچیوں کوزندہ درگورکیاجانا، ستی کیا جانا اور مادررحم میں صنف نازک مشخص ہونے کے بعد اسقاط حمل(Female Foeticide)کروانے کے طریقہ ڈھونڈنکالنے اور اس کے وجود ہی کو متزلزل کرکے رکھا دیا۔

درحقیقت مردوزن انسانی زندگی میں ایک دوسرے کے رفیق حیات اورہمسفر ہوتے ہیں۔ان دومیں کا ہرایک دوسرے کی ضرورت و حاجت ہوتا ہے۔ انسانی حیات کی ارتقاءان دونوں ہی پرمنحصر ہے نسل انسانی کی بقاءمردوزن ہی سے متصورہے۔مابین الارض والسماءپائی جانے والی چہل پہل،چمک دمک،زیب وزینت ،مسرت وشادمانی ،فرحت وآفرینی ان دونوں ہی کے دم سے ہے۔چنانچہ خالق ارض وسموات کاارشاد ہے”آسمان وزمین کا پیداکرنے والا جس نے تمہاری اپنی جنس سے تمہارے لئے جوڑے بنائے اور چوپائیوں میں سے ان کے ہم جنس جوڑے پیداکئے اور اسی طریقہ سے وہ تمہاری نسلیں پھیلاتا ہے اس کے مثل کوئی شئی نہیں اور وہ سمیع وبصیر ہے“۔(سورة الشوری آیت ۱۱)اور متعدد مقامات پر قرآن کریم نے نسل انسانی کی ارتقاءوبقاءکومردوزن سے تعبیرکیا ہے اسی طرح تخلیق کائنات کےلئے جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدافرمایا توآپ ہی کی بائیں پسلی سے آپ کی تسکین قلب اور راحت زندگی کے لئے حضرت حواعلیہا السلام کومونس بناکروجود بخشا گویا مردکے وجود کی بقاءصنف نازک ہی سے ہے ہرمرد کسی نہ کسی عورت کاباپ،بھائی،بیٹا،شوہرضرورت ہوتا ہے یہ بات اور ہے کہ خدائے واحد اپنی قدرت سے بغیروالدین کے یابغیر ماں کے یا بغیر باپ کے انسان کو پیداکرے یہ اس کی قدرت کی نشانی ہے لیکن مردکا عورت سے اورعورت کا مردکی وجہ سے پیداکیاجانا بھی اسی خالق کائنات کے قدرت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔اوراس نے نسل انسانی کی بقاءوارتقاءکے لئے مردوزن کولازم وملزوم قراردیا باوجود اس کے مردوں کاصنف ناز ک کو عاروعیب سمجھنا دخترکشی کرنا،اسقاط حمل کرنایانسل کشی کرنانظام قدرت الہٰی کے خلاف جنگ کرنا ہے۔

وجوہات دخترکشی سے متعلق تفصیل حسب ذیل ہے

ایام جاہلیت میں صنف نازک کے ساتھ بڑاظالمانہ وجابرانہ سلوک برتا جاتا تھابچیوں کی پیدائش کومنحوس سمجھاجاتا تھا،لڑکی پیدا ہوتواسے زندہ درگورکردیا جاتا تھا اس لئیے کہ اس وقت میں بھی ایک ایسی دلسوزوبا اورحیاءسوز طریقہ عورتوں سے متعلق عام تھا کہ وہ منکوحہ عورت کو جب ایام حیض سے فارغ ہوتی تواس کا شوہر اس کوکسی بہادر جواں مرد اورسخی وفیاض آدمی کے یہاں روانہ کرتا تھا اور اس کو اجازت دیتا کہ وہ اس کے ساتھ ہمبستری کرے جس سے اس کامقصد یہ ہوتا تھا کہ ایک نامور آدمی کے نطفے سے اس کی بیوی کے شکم سے جوبچہ پیدا ہوگا وہ بھی نامور اورمشہور ومعروف شخصیت کاحامل بنے گا اورخودکواسے نامور بیٹے کاباپ بننے کااعزاز حاصل ہو جائے گا۔ اسی طرح آٹھ نومرد ایک عورت کے پاس اکھٹا ہوتے اور اس کی رضامندی سے اس کے ساتھ مجامعت ومقاربت کرتے اگر اس سے حمل ٹھہرجاتا اور بچہ پیداہوتاتوچندایام کے بعدان آٹھ نومردوں کو بلا بھیجتی تھی اور ان میں سے کسی کے اختیار میں نہ ہوتا کہ وہ آنے سے انکارکرے جب اس کے پاس جمع ہوجاتے تووہ کہتی کہ جو کچھ تم نے کیا اسے تم جانتے ہی ہواور اس فعل سے مجھے جو بچہ پیداہوا ہے پھران میں سے جس کسی کانام چاہتی لے کرکہتی کہ یہ تیرابچہ ہے اوراس بچے کو اس آدمی کی نسل سے جوڑدیاجاتایہ اس وقت ہوتا جب کہ وہ لڑکا ہواور اگرلڑکی بیٹی ہوتوپھروہ انہیں بلاتی ہی نہیں بلکہ اسے زندہ درگورکرادیتی تھی۔ اسی طرح دورجاہلیت میں پوشیدہ نکاح ،نکاح متعہ،نکاح بدل اور نکاح شغارکے مراسم بھی تھے۔جو بہت زیادہ حیاسوز اور بے شرمی کے طریقے تھے۔نکاح متعہ میں گواہوں کے بغیر مردوزن مقررہ وقت کے لئے مختص کردہ مال کے عوض شادی کرلیتے تھے اورمیاں بیوی کی طرح زندگی بسرکرتے تھے اور نکاح بدل کر دومردآپس میں اس بات سے راضی ہوتے تھے اور ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ تواپنی زوجہ کو میرے پاس بھیج دے میں اپنی منکوحہ کو تیرے پا س بھیج دونگا اورنکاح شغار کہ ایک مرد اپنی بیٹی کی شادی کسی مردسے اس شرط پر کرتا تھا کہ کہ وہ مرداپنی بیٹی اس کے نکاح میں دے دیگااور دونوں اپنی بیویوں کے مہر نان نفقہ ادانہیں کریں گے یہ سب مراسم دورجاہلیت کے حیاءسوز اور بے حیائی وبے شرمی کے تھے۔ اسی طرح اس وقت بھی اس بات کو باپسندکیا جاتا تھا کہ ان کی بیویاں یاان کی بیٹیاں کوایسی نازیباحرکت کرے جس سے ان کی عزت وناموس اور خاندان کی شان داغدارہو جائے اور یہ کلنک کا ٹیکاسارے عرب میں ان کی ذلت ورسوائی کا سبب بنے ان ہی وجوہات کی بناءصنف نازک کی قدرومنزلت عزت ووقعت ختم ہوتی گئی اور عورت کو عیب وعاربدنماداغ سمجھاجانے لگا اوربچی کی پیدائش کو نحس اورکلنک کا ٹیکہ تصورکیاجاتا تھا اورلڑکی کے پیداہونے پر ماتم ونوحہ کاتانتا لگارہتا رتھا باپ کاچہرہ مارے غم ورنجیدگی کے کالاپڑجاتا عاروعیب اورشرم کی وجہ سے لوگوں سے اپنا چہرہ چھپتاچھپاتا پھرتا تھا۔

قبیلہ مضر ،خزاعہ اور قبیلہ تمیم تواپنی لڑکیوں کو زندہ درگورکردیتے تھے تاکہ کوئی ایسا مردان سے ان کی بیٹی کا رشتہ نہ مانگے جوانکی برابری اورکفوکانہ ہویافقروفاقہ اور افلاس سے خستہ حال نہ ہو۔جس سے نجات پانے کے لئے ان کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب لڑکی چھ سات برس کی ہوجاتی توباپ جنگل میں جاکر اس کے لئے گہرا گڑھا کھود آتا پھر اپنی بیوی سے کہتا کہ اس بچی کو غسل کراﺅ،خوبصورت عمدہ کپڑے پہناﺅ،زیب وزینت کراﺅ،خوشبو سے مہکاﺅ پھروہ اسے لے کر جنگل کی طرف چل پڑتا۔ اور اس گڑھے کے کنارے اپنی ننھی سی معصوم لخت جگر کوکھڑاکرتا اورکہتادیکھواس گڑھے میں کیا ہے جب وہ دیکھنے کے لئے جھکتی تواسے دھکادے کر اس گڑھے میں گرادیتا وہ معصوم ننھی سی جان اباابا کہہ کر چلاتی رہتی اور وہ سنگ دل سفاک باپ اسے بڑی بے دردی سے مٹی میں ڈال کر دفن کردیتا۔اس طرح عورت وصنف نازک کے ساتھ ظالمانہ وسفاکانہ برتاﺅ کیاجاتا ان معصوم بچیوں کاگلا گھونٹ دیاجاتااو رکوئی ان کی دلدوز اور جگر کوپارہ پارہ کردینے والی چیخوں پر توجہ نہی دیتا۔چنانچہ قرآن کریم اسی ظالمانہ رسم سے متعلق ارشاد فرماتا ہے۔”وَیَجعَلُونَ للِّٰہِ البَنَاتِ سُبحَانَہُ وَلَھُم مَایَشتَھُونَ وَاِذَابُشِّرَاَحَدُ ھُم بِالاُ نثٰی ظَلَّ وَجھُہُ مُسوَدَّاوَھُوَ کَظِیم۔یَتَوَارٰی مِنَ القَومِ مِن سُوئِ مَابُشِّرَ بِہِ اِیُمسِکہُ عَلیٰ ھُونٍٍٍ اَم یَدُ شُہُ فِی التُّرَابِ اَلَاسَآئَ مَایَحکُمُونَ “ (سورة النحل 58۔59)اور وہ اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں اور وہ اس سے پاک ہے(سبحانہ)اوران کے لئے تووہ بیٹے ہیں جنہیں وہ پسند کرتے کرتے ہیں۔ اور جبن ان میں سے کسی کواطلاع دی جاتی ہے بیٹی کی پیدائش کی توغم سے اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور (رنج وغم سے)بھرجاتا ہے لوگوں کی نظروں چھپتاپھرتا ہے اس بری خبرکی وجہ سے جواسے دی گئی ہے اوراب یہ سوچتا ہے کہ وہ اس بچی کو اپنے پاس رکھے رسوائی وذلت کے ساتھ یااسے مٹی میں دفن کردے آہ کتنا برا ہے وہ فیصلہ جووہ کرتے ہیں۔قرآن کریم نے اس آیت مبارکہ میں عربوں کی زبوں حالی کو بیان فرمایا جوان کے سماج میں رائج تھی یہ سنگدلی کے واقعات اورصنف نازک کے ساتھ ظالمانہ وجابرانہ برتاﺅ اکثرعرب میں پایا جاتا تھا کہ وہ لفظ صنف نازک ہی سے نفرت وتعصب رکھتے تھے او ر کسی کواپنا داماد بنانے یا عز ت وناموس اور خاندانی وقار کی بقاءکی خاطر بچیوں کے زندہ درگورکےئے جانے کو زیادہ پسند کرتے تھے چنانچہ اس متعلق میں اسلام پھیلنے کے بعد اپنے سابقہ اعمال پر رنج وملال کااظہارکرتے ہوئے ایک صحابی رسولﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اور زوروقطار رونے لگے حضور رحمت عالم نورمجسم ﷺ نے رونے کی وجہ دریافت کی کہا سب خیر تو ہے آخرمیں اس قدر زور و زارو قطاررونے کی کیا وجہ ہے؟وہ صحابی کہنے لگے عرب کے دستورکے مطابق دور جاہلیت میں میں اپنی بیٹی کو زندہ درگورکرنے کےلئے لے جارہا تھا وہ بچی مجھے بہت عزیزتھی میں اس سے بہت محبت کیا کرتاتھا۔اس کی والدہ نے مجھ سے برسوں تک چھپائے رکھا تھا اتفاق سے میں نے اسے دیکھ لیا شفقت پدری جوش میں آئی اورمیں نے اسے اس کے حال پر چھوڑدیا اس کے بعد میری بچی مجھ سے کافی مانوس ہوگئی میں بھی اسے پیارکرنے لگا جوں جوں وقت اورزمانہ گزرتا گیا میرے دل کی دھڑکن بڑھنے لگی اور قلب کی حرکت تیزہونے لگی کہ اگر یہ لڑکی جوان ہوگئی اور قبیلہ کے لوگوں میں اس کی خبر پہنچ گئی توکیا ہوگا؟پھر میں نے اپنے دل کو مضبوط کیااوربچی کو گودمیں لے کر جنگل وبیابان مرگ کی طرف چل پڑا۔راستے میں اختلاج قلب بڑھتا جارہا تھا میں نے مٹی کھودنا شروع کیا۔میری بچی مجھ سے باربارسوال کرتی تھی اورمیراپسینہ پوچھتی تھی جیسے جیسے میرے کپڑوں کو مٹی لگتی تھی بچی باربار پوچھتی تھی اباجان آپ کومٹی لگ رہی ہے ....صحابی فرماتے ہے قبر تیارتھی اورمیرا صبرکاپیمانہ لبریز ہوچکا تھا ۔میں نے بچی کو قبرمیں اتارنا چاہا کہ بچی اپنی والدہ کو زبان حال سے پکاررہی تھی کہ آہ! ائے رحمت وشفقت والی ماں آہ! ساری رات جاگ کر مجھے میٹھی نیندسلانے والی ماں آہ اب توکہاں ہے؟جبکہ آہنی چٹانوں کے نیچے میری نرم ونازک پسلیاں زیروزبر ہورہی ہے جسم سے خون کے فوارے پھوٹ رہے ہیں۔ ننھاسا معصوم بدن زخموں سے چورچوراورلہولہان ہورہاہے۔آسمان وزمین میری اس حالت پر اشک بہارہے ہیں یہ لمبے لمبے ٹاپو شجر وحجر سب خموش کھڑے دختر کشی اورنسل کشی کامنظردیکھ رہے ہیں ۔میری ماں آجاتوکہاں ہے....آخرکاربچی کودفن کردیا گیا۔ اس واقعہ کو سننے کے بعد حضوررحمت عالم نورمجسم محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم اشکبار ہوگئے سکتہ چھاگیا ۔بالآخر آپ نے ان کی مغفرت کی دعا فرمائی۔

دخترکشی کے یہ واقعات عرب کے علاوہ روئے زمین کے ہرخطہ میں ہرقوم میں کسی نہ کسی صورت میں پائے جاتے تھے۔رومة الکبریٰ جواپنی تہذیب وتمدن میں دنیا بھر میں مشہور ومعروف ہے وہاں عورت کو شیطان کاآلہ کارکہاجاتا تھا۔ یورپ وامریکہ جس کی ظاہری شان وشوکت اورمنصوعی جاوجلال سے آج ہر کوئی متاثرومرعوب بنابیٹھا ہے یہاں عورت کی قدر ومنزلت شروع ہی سے نہ تھی عورتوں پر مردوں کی کلی حکومت اور مکمل گرفت تھی۔ یہ تصورعام تھاکہ مردحاکم او رعورت محکوم وہ آقا تویہ غلام وباندی ہے غرض عورت کوضرورت پڑنے پر رہن اورگری رکھاجاتا تھا۔عورت کو خیرات وصدقات بھی دیئے جاسکتے تھے اس کی بلی اوربھینٹ چڑھاواوقربانی چڑھائی جاتی تھی۔شوہرکے مرنے کے بعد ستی یعنی شوہرہی کے ساتھ زندہ جلادیاجاتا تھا وراثت سے مطلق محروم تھی۔عیسائت میں عورت کو گناہ کی ماں اوربدی کی جڑسمجھاجاتا تھا۔مسیحی وراثت میں اس کی ہرچیز کا مالک اس کاشوہر ہوتا تھا۔ طلاق وخلع کی قطعاً اجازت نہ تھی اورنہ دوسری شادی کر سکتی تھی۔اس طرح کے سفاکانہ اورظالمانہ مراسم صنف نازک کے حوالے سے قوموں قبیلوں،ملکوں اورمذاہب میں پائے جاتے تھے۔

موجودہ زمانہ میں بھی صنف نازک کو کچھ اسی طرح تصورکیاجارہا ہے۔ فی زمانہ دخترکشی کے لئے زندہ درگورکرنا تونہیں رہا بلکہ شکم مادرمیں لڑکی کی تشخیص ہوجانے پر اسقاط حمل کے ذریعہ بچی کوملیا میٹ کیا جارہا ہے سابقہ زمانہ میں لڑکی کی پیدائش سے چھ سات برس کی عمر کی ہوجانے کے بعد زندہ درگور کیاجاتا تھا اور آج لڑکی کو دنیا میں قدم رکھنے بھی نہیں دیا جارہا ہے شکم مادرہی سے اس کاوجود ختم کردیا جارہا ہے۔درحقیقت لڑکی کی پیدائش اللہ کی ایک نعمت ہے۔ رسول اللہﷺ کی طرف سے رحمت ہے اوراسلام کی برکت ہے ۔یہ اسلام اور رسول رحمت ﷺ ہی کی مرہون منت ہے جس نے عورت کوبلند مقامات اور اعلیٰ مراتب اورقابل تعظیم رشتوں میں منسلک کرکے ارفع مدراج پرفائز فرمایا اور بچیوں کے لئے والدین کے دل وماغ اورقلوب واذہان میں شفقت ورحمت الفت ومحبت اورجاں نثاری وفدائیت کے جذبات ومحرکات کے بیج بوئے اور انہیں وہ حقوق عطا کئے جوکسی اور مذہب نے انہیں نہ دیئے اورفرمایا کہ تمام انسان ایک نسل سے ہے اورایک دوسرے کاخون اورگوشت وپوست ہے ارشاد ربانی ہے۔” یَااَیُّھاَ النَّاس اِتّقُوارَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِن نَفسٍ وَّاحِدةٍ وَخَلَقَ مِنھَا زَوجَھَاوَبَثَّ مِنھَا رِجَالَاً کَثِیرًا وَنِسَآئَ ا“ائے انسانوں تم اپنے پروردگار اور خالق حقیقی سے ڈروجس نے تم کوایک ہی جان سے وجودبخشا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایااور ان دونوں سے بہت سے مرد اورعورتیں دنیامیں پھیلائے“اس آیت مبارکہ میں اللہ جل مجدہ الکریم نے تمام انسانوں سے خطاب فرماتے ہوئے تین اہم حقیقتوں کااظہارفرمایا اولاً تویہ یہ تم سب انسانوں کی اصل ایک ہے یعنی ایک مرداورایک ہی عورت(آدم وحوا) سے تمہاری تمام نوع کووجود بخشا گیا۔ثانیاً یہ کہ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود تمہاراقوموں ،قبیلوں،جماعتوں میں تقسیم ہوجانا یہ ایک فطری امر ہے۔ثالثاً یہ کہ انسان اورانسان کے درمیان بلندی وبرتری ،فضیلت ورفعت ہوسکتی ہے یعنی انسانوں کے باہمی حقوق اور خصوصیت کے خاندانی نظام اور اجتماعی نظم کے لئے مردوزن کومساوی حقوق عطاکئے اور عورتوں سے متعلق اسلام اور محسن انسانیت رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی مراعات اورحقوق عطاکئے اوران کی حسن تربیت پر جنت کا مثردہ او رناردوزخ سے نجات کافرمان نافذ کیا ہے۔

اس متعلق میں حضرت سیدہ عائشہ صدیقی رضہ اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ ”قَالَ رَسُولُ اللہِ مَن ابتَلیٰ مِنَ البَنَاتِ بِشَی ئً فَاَ حسَنَ اِلَیھِنَّ کُنَّ لَہَ سِترًامِنَ النَّارَ“ یعنی جس کے پاس بچیاں پیداہوئیں اور اس نے ان کے ساتھ حسن سلوک کا برتاﺅ کیاتووہ اس کے لئے عذاب جہنم سے آڑبن جائیں گی۔اور حضرت سیدناانس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”قَالَ رَسُولُ اللہِ مَن عَالَ جَارِ یَّتَینِ حَتَّی تَبلُغَاجَآئَ یوَمَ القِیَامَةِ اَنَا وَھُوَوَ ضَمَّ اَصَابِعَہُ“یعنی جس نے د وبچیوں کی پرورش کی یہاں تک وہ بالغ ہوئیں وہ قیامت کے دن آئے گااورمیں اوروہ اس طرح ہونگے یہ ذکرکرتے ہوئے آپ نے اپنی انگلیوں کو ملالیا(رواہ مسلم)حضرت سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہے ”قَالَ رَسُو لُ اللہِ مَن کاَنَ لَہُ بِنتُ فَاَدَّ بَھَافَاَحسَنَ اَدَبَھَاوَعَلَّمَھَافَاَحسَنَ تَعلِیمَھاَ وَاَسبَغَ عَلَیھاَ مِن نِعَمِ اللہِ الَّتِی اَسبَغَ عَلَیہِ کَانَت لَہُ سِترًاوَحِجَاباً مِنَ النَّارِ“ یعنی جس کس کی ایک لڑکی ہو اس نے اس کی تربیت کی اوربڑے اہتمام سے اسے علم وادب کے زیور سے آراستہ وپیراستہ کیااور جومہربانیاں اللہ تعالیٰ نے اس پر کی وہ اس نے اپنی بیٹی پر بھی کیں تووہ بچی آتش دوزخ سے اس کے لئے پردہ وآڑہوگی(قرطبی)اسی طرح ابن ماجہ کی ایک روایت ہے جس شخص کی دو لڑکیاں ہواوروہ جب تک اس کے پاس رہیں وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا رہے تووہ اس کے جنت میں داخل ہونے کا سبب بنیں گی۔ اورامام ابوداﺅدکی روایت مروی ہے کہ جس شخص کے یہاں لڑکی پیدا ہواور وہ اسے زندہ دفن نہ کرے نہ ذلیل کرے، نہ بیٹے پر ترجیح دے تواللہ اس کو جنت میں داخل فرمائے گااورایک روایت فرماتے ہے جس شخص نے تین لڑکیوں کی پرورش کی انہیں ادب سکھلایاان کی شادی کی اوران کے ساتھ حسن سلوک کرتا رہا تواس کے لئے جنت ہے(ابوداﺅد)اوریقینا حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے قدم مبارک کی برکت سے مکہ کی بہ نسبت مدینہ طیبہ میں لڑکیوں اورعورتوں کے ساتھ حسن سلوک کابرتاﺅکیاجاتا چنانچہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ کی ایک روایت نقل فرمائی کہ ہم مکہ مکرمہ میں عورتوں کو بالکل سچ اورعارسمجھتے تھے مدینہ طیبہ میں نسبتاً ان کی قدر تھی لیکن جب اسلام آیااورخدانے ان کے متعلق آیات کانزول فرمایا توہمیں ان کی قدرومنزلت معلوم ہوئی اورتعلیم نبوی علیہ التحیة والتسلیم کی ہمہ گیری کااندازہ وپیمانہ کرنے کےلئے حضور رحمت عالم ﷺ کی یہ حدیث پاک بھی قابل مطالعہ ہے۔اِنَّ النَّبِیَّ قَالَ لِسُرَاقَةَ بنِ جُعشَمَ الَااَدُلُّکَ عَلیٰ اَعظَمِ الصَّدَقَةِ اَو مِن اَعظَمِ الصَّدَقَةِ قَالَ بَلیٰ یَارَسُولَ اللّٰہِ!قَالَ اِبنَتُکَ المَر دُودَةُ اِلَیکَ لَیسَ لَھَاکَاسِبُ غَیرُکَ“(ابن ماجہ) کہ حضورحمت عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا ائے سُراقہ بن جعشم کیامیں تمہیں سب سے بڑے صدقہ پرآگاہ نہ کرو۔ توعرض کیا ضرورمہربانی فرمایئے فرمایا تیری وہ بیٹی جو (طلاق پاکریا بیوہ ہوکر)تیری طرف چلے آئے اورتیرے سوااسکاکوئی کمانے والا نہ ہو ۔

الغرض اس حوالے سے بے شمار احادیث مبارکہ موجودہیں جن میں سے چند ذکرکی گئی ۔حضوررحمت عالم ﷺکے بیش بہاارشادوفرامین اوراپنی دختران عالی وقار کے ساتھ آپ کابے انتہا پیاراورہرموقع پران کی قدرومنزلت اورعزت افزائی اسی طرح ازواج مطہرات اور دختران طیبات کو حجاب وپردے میں رہنے کاحکم اور اس کی پابندی حتی کہ انہیں اپنی آواز کو بھی پردے میں رکھنے کا حکم اور صحابیات کو بھی مذکورہ احکام کی پابندی کی تلقین اور غیرمجارم کی نظروں سے محفوظ رہ کراپنی نظروں کو بھی نیچی رکھنے کا پابندکرنا اوراپنے عزت وناموس کی حفاظت وغیرہ یہی وہ اسباب ومحرکات تھے جن کی وجہ سے لڑکیوں اور عورتوں کے متعلق اہل عرب اور دیگراقوام کے نظریات میں انقلاب آیابلکہ دنیابھرمیں عورتوں اور بچیوں کی قدرومنزلت ،شان وشوکت عزت وفدائیت بلندسے بلندترہوگئی۔

دخترکشی یابچیوں کازندہ درگورکیا جانا یا گلا گھونٹ کرہلاک کردینا یازہردیکر ماردینایاناک ومنھ پرریت کی پوٹلی رکھ کر لڑکی کوہلاک کردینا یامادررحم ہی میں اسقاط حمل کرکے موت کے گھاٹ اتاردینا یہ اتنا بڑا فعل قبیح اور عمل شنیع وگناہ عظیم ہے کہ رب ذوالجلال بروزقیامت ان سفاک ،جابر، سنگدل،بے رحم والدین سے اپنے غیض وغضب کی وجہ سے کلام نہ فرمائے گا۔ بلکہ اس متعلق میں ان زندہ درگورمظلوم بچیوں سے خطاب فرمائے گا پوچھے گا۔”وَاِذَا المَووُدَةُ سُئِلَت بِاَیِّ ذَنبٍ قُتِلَتُ“(سورة التکویر۸۔۹) اورجب زندہ درگور کی ہوئی بچی سے پوچھاجائے گا کہ وہ کس جرم میں قتل کی گئی “خداوندقدوس نے یہ نہیں فرمایا کہ اس کے سنگدل باپ سے سوال کیا جائے گا۔کیونکہ یہ باپ جس نے اپنی معصوم ننھی سی جان بے گناہ بچی پرایسا ظلم کیا ہے جونگاہ رب کائنات میں اس قابل ولائق ہی نہیں کہ اس کو خطاب کیا جائے۔چنانچہ روح المعانی میں اس حوالے سے کہا گیا۔”اظھار کمال الغیظ والسخط لوائدھاواسقاطہ من درجة الخطاب والمبالغة فی تبکیتہ“یعنی اس انداز سے اپنے غصہ اور ناراضگی کی انتہاکااظہارکیا گیا کہ اس کو مخاطب بنائے جانے کے درجہ ہی کو گرادیاگیا اور اس کو رسواءکرنے سے مبالغہ سے کام لیا“اور اگرظالم سے اس کے ظلم کے متعلق پوچھاجائےگا تووہ ہزارحیلے بہانے تراشنے لگتا اس لئے زیادہ بہتر یہی تھاکہ مظلوم سے سوال کیا جائے تاکہ وہ اپنے غم واندوہ کی حالت زار بیان کرے اورپیرکرم شاہ ازہر نے اپنے تفسیرضیاءالقرآن میں اس کی ایک اور حکمت یہ بھی بیان فرمائی کہ ”دنیا میں کئی مظلوم ہوتے ہیں جنہیں ظلماًقتل کردیا جاتا ہے لیکن ان کا انتقام لینے کے لئے تلواربے نیام ہوجاتی ہیں یاکم ازکم ان کی مظلومیت پر رنج وغم کے آنسوتوبہائے جاتے ہیں اوریہ بچی ایسی مظلومہ تھی جس پرظلم اس کا ماں باپ نے کہا اس کی مظلومیت پر کسی نے صدائے احتجاج بھی بلندنہ کی۔ ان کی جواں مرگی پر کوئی آنکھ نمناک تک نہ ہوئی بلکہ الٹا اطمینان کی سانس لی گئی، اس کے قاتل پر تحسین وآفرین کے پھول نچھاور کئے گئے۔اسے غیرت منداوراپنے خاندان کی عزت وناموس کاپاسبان ومحافظ کاخطاب ملا،کیا مظلومیت میں اس کا کوئی ہمسر ہے؟نہیں ہر گز نہیں ۔۔اگر ایسی مظلومہ معصوم ستم رسیدہ بچی کی دلجوئی اس کا پروردگاربھی نہ کرے تواورکون کرے گا“اسی لئے اس آیت میں خطاب اورقیامت کے دن بھی مظلومہ زندہ درگوربچی ہی سے کیا گیا۔

والدین کے لئے اولاد ایک نعمت ہے بالخصوص لڑکی جنت میں لے جانے کا سبب اور رحمت ہے۔ذراغورکرو اگراولاد نہ ہوتو کتنے مصائب کاسامنا کرنا پڑتا ہے طرح طرح کے طعنے کسے جاتے ہے۔اولاد دینانہ دیناخداکے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہئے دے اور جسے چاہئے نہ دے اس کی مرضی پر منحصر ہے اسی طرح لڑکا ہویا لڑکی یہ بھی خدا ئے خالق کائنات کی مرضی کے مطابق ہوتی ہے وہ چاہے توکسی کو صرف لڑکے عطا کرے اور کسی کو صر ف لڑکیاہی دے یاکسی کو دونوں ملاجلا کر عطا کرے اورکسی کو چاہے توبانجھ ہی رکھ دے یہ اسی کااختیارہے ۔چنانچہ ارشادخداوندی ہے۔”لِلّٰہ مُلکَ السَّمَوَاتِ وَالاَ رضِ یَخلقُ مَایَشٓائَ یَھَبُ لِمَن یَّشٓائَ کَانَاثًا وَیَھَبُ ُ لِمَن یَّشٓائَ الذَّکُوِ رہ اَو یَزُ وِّجُھُم ذُکرَانًا وَّ اِ نَاثَاوَیَجعَلُ مَن یَّشآ ئُ عَقِیماً اِنَّہُ عَلِیمُ قَدِیرُ“(سورة الشوری 49۔50) ترجمہ اللہ تعالیٰ زمین وآسمان کامالک ہے جو کچھ چاہتا ہے پیداکرتا ہے جسے چاہے لڑکیاں دیتا ہے جسے چاہے لڑکے دیتا ہے وہ سب کچھ جانتااور ہر چیز پرقادر ہے“یعنی اللہ کی مرضی سے ہی لڑکایا لڑکی کی تولد ہوتی ہے اس کااختیارخالق کائنات نے اپنے قبضہ میں رکھا ہے ۔مذکورہ آیت میں صراحت سے بیان کیا گیا کہ اولاد سے متعلق لوگوں کے درمیان چار انواع ہیں۔(۱)وہ لوگ جنہیں صرف بچیاں ہی دیتا ہے۔(۲)وہ لوگ نصیب کرتا ہے۔(۳)وہ لوگ جنہیں لڑکے اور لڑکیاں دونوں نصیب کرتا ہے۔(۴)وہ لوگ جو بانجھ ہیں اولاد پیداکرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے اوراولاد نہیں ہوتی۔یہ سب اس خالق کائنات مالک ارض وسموات کی قدرت کے کرشمے ہیں اسی کے اختیار اورقبضہ میں ہے انسان کوا س میں کوئی دخل اور اختیار حاصل نہیں اور یہ بھی حق حاصل نہیں کہ لڑکے کی عطا ہی پر خوش ہواور لڑکی کی ولادت پر ناراضگی وخفتگی کااظہار کرے یا اسے اسقاط حمل کے ذریعہ سے دنیا ہی سے مٹادے اللہ کی مخلوق کو زندگی کے حق سے محروم کرنے کا کسی کو اختیار اورحق حاصل نہیں وہ خدائے واحد علیم بھی ہے قدیر بھی ہے خوب بہتر جانتا ہے کہ کس کو کیادینا ہے اورکس کو کیا نہیں دینا ہے یامکمل محروم رکھنا ہے۔

موجودہ دورمیں دور جاہلیت ہی کی طرح انسان لڑکیوں کے تولد ہونے سے متفر نظرآرہا ہے کہی وہ لڑکوں کے مقابل لڑکیوں کوبوجھ اور بے فیض سمجھ رہا ہے کہی لڑکی کی پرورش ونگہداشت اور اس کے شادی جہیز کے اخراجات کوناقابل برداشت بوجھ جان رہا ہے۔ کبھی شادی کے بعد لڑکی کادوسرے کے گھر جانا او ر کسی کواپنا داماد بنانے کو بے عزتی او رعارسمجھ رہا ہے توکہی شادی سے قبل لڑکی عزت وعفت کی حفاظت کا مسئلہ بناہوا ہے توکہی مناسب رشتہ نہ ملنے پرلڑکی کی غیر کفومیں شادی کرنے پر خاندان وبرادری میں ناک کٹ جانے کا خدشہ منصورکررہا ہے توکہی جسم فروشی کے قبیح وشنیع کاروبار او رکمسن بچیوں کے ساتھ زنابالجبر کے جرائم میں اضافہ کی وجہ سے تشویش میں بڑاہواہے۔جس سے نجات پانے کے لئے موجودہ دورکا انسان دور جاہلیت ہی کی طرح مادر رحم میں بچیوں کا قتل(Female Foeticide)اور پیداوہونے کے ایک سال کے اندراس کاقتل(Infanticide)کاطریقہ اپناتے ہوئے ہے۔لیکن کیاان تمام چیزوں سے نجات پانے کے لئے دخترکشی ہی اس کاحل ہے؟....

نہیں ہرگزنہیں ....اس مسئلہ کا حقیقی او ریقینی حل مذہب اسلام اورحضورعالم محسن انسانیت ﷺ کی تعلیمات میں ہے۔ آج بھی اگرانسان عورتوں اوربچیوں کی صحیح اسلامی پرورش ونگہداشت کرے۔ انھیں احکام اسلام اوردینی تعلیم وتربیت سے آراستہ وپیراستہ کرے۔ انھیں اسلامی لباس اور پردے و حجاب کاپابندرکھے انہیں اجنبی وغیر محارم مردوں سے دور رکھے انہیں تنگ وچست اورمغربی عریاں لباس سے سختی کے ساتھ اجتناب وگریز،انہیں فحش لیٹریچر اورعریاں وبرہنہ ماحول سے بچائے، انہیں ہروقت ہر لمحہ صحابیات وازواج مطہرات اور اسلام کی نیک بیبیوں کے کرداروواقعات گوش گزار کرتے، انہیں اسلامی ماحول میں مکمل ڈھال دے، انہیں بالخصوص بے حیائی وبرائی کی باتوں سے بچائے اور خودبھی بچے،انہیں مغربی تہذیب وتمدن کادلدادہ نہ بنائے،انہیں اپنے عزت وناموس اورعفت وعصمت کی حفاظت کی اہمیت کو بتلائے،انہیں آزاد مزاج تفریحی مقامات اورآزاد مزاج کالج اور تعلیمی اداروں سے تعلیم نہ دلوائے بلکہ اسلامی ودینی یادینی مزاج عصری مدارس سے تعلیم دلوائے،اگر ایسا ہوگا توبالضرور گھر کی عزت گھر ہی میں رہے گی ان کے عزت اور خاندان کے ناموس ووقارکی بھی حفاظت ہوگی اور وہ گھردیگر گھروں پر برتری وفوقیت رکھے گا ۔ہرکس وناکس اس سے رشتہ طلب کرے گا وہ جہیز کا بوجھ بھی نہ بنے گی اوردخترکشی جیسے عظیم گناہ سے بھی محفوظ رہے گا۔
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیںاسی علم کو ارباب نظر موت
بیگانہ رہے دین سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق ومحبت کے لئے علم وہنرموت

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مسلمانان عالم کو دختران اسلام کی قدرومنزلت کرنے اوراسلام کی تعلیمات سے آراستہ وپیراستہ کرانے کی توفیق عطا فرمائے اوردخترکشی جیسے فعل قبیح وگناہ عظیم سے محفوظ رکھے۔آمین بجاہ رحمتہ للعالمین ﷺ
Misbah Israr
About the Author: Misbah Israr Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.