کچھ ”اردو زبان“ کی یادِ رفتگاں

جس موضوع پر راقم الحروف نے لکھنے کا بیڑا اُٹھایا ہے اس پر شاید اب تک سینکڑوں میں تحریریں لکھی جا چکی ہونگی۔ اور اس زبان سے بے پناہ لگاﺅ رکھنے کے باعث کچھ لکھنے کی جسارت کرنے جا رہا ہوں ۔ شاید کہیں گونہ گوں کوتاہی کا مرتکب ہو جاﺅں لیکن اپنی تحقیق اور معلومات کے مطابق حقیقتِ اردو زبان کو قرطاسِ قلم کی جسارت کرنے جا رہا ہوں........ امید ہے کہ اردو زبان سے دلی لگاﺅ رکھنے والے ہر فرد کیلئے یہ ایک دلچسپ تحریر ثابت ہوگی۔

ویسے تو اردو زبان ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی و مفاہیم ” لشکر“ کے ہیں۔ یوں اس زبان کو لشکری زبان سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ جب سکندر اعظم نے 326 قبلِ مسیح میں برصغیر پر حملہ کیا تو اس وقت غالباً یہ میٹھی زبان کا وجود ہوا۔ سکندرِ اعظم کے لشکر میں بہت سے علاقوں کے سپاہیوں اور جنگجوﺅں کی کثیر تعداد شامل تھی اور ان تمام سپاہیوں اور جنگجوﺅں کو آپسی بات چیت کرنے میں نہایت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا اس لیئے ان سب نے مل کر مشترکہ زبان کے طور پر ”اردو “ زبان دریافت وضع کی جو دراصل بے شمار مختلف زبانوں کا مجموعہ ہے۔ اس زبان کی پیدائش میں زیادہ تر عربی اور فارسی الفاظ کا ذخیرہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس زبان میں ترکی، یونانی، جرمن، سنسکرت، ہندی، لاطینی، یونانی زبانوں کے الفاظ بھی بکثرت پائے جاتے ہیں۔ جدید دور کے اردو زبان میں بہت سے الفاظ انگریزی کے بھی شامل کئے جا چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس زبان کو استعمال کرنے والوں میں 103 ملین سے زیادہ لوگ شامل ہیں۔ جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہی ہے کہ اس کی حروفِ تہجی کی مجموعی تعداد صرف اور صرف 37 ہے۔ رسم الخط کے لحاظ سے اردو خطِ نستعلیق کی لکھائی میں مقبول ہے۔اس بات میں کسی کو کوئی شک نہیں کہ” اردو“ پاک عرضِ وطن کی سرکاری اور قومی زبان ہے۔

ویسے تو ہماری پسندیدہ اور قومی زبان کا نام ”اردو “ پچھلی صدی ہی میں اس کے لیے تجویز ہوا اور جلد ہی پورے برصغیر میں اپنی بھرپور تجلیات کے ساتھ معروف ہوا۔ جیسا کہ آپ نے اوپر پڑھا کہ ترکی زبان میں لشکر کے معنیٰ اردو کے ہیں اور لشکر ہی کی طرح مختلف زبانیں بولنے والوں کے جمع ہو جانے سے اسے اردو کہا جانے لگا ،لشکر میں جو مشترکہ زبان”اردو “ معرضِ وجود میں آیا اس کی بھی یہی وجہ تھی کہ اس میں مختلف بولیاں بولنے والے لوگ جمع ہوگئے تھے۔

مسلم حکمرانوں اور سرکاری ملازمین سے کہیں زیادہ جن افراد نے مشترکہ زبان ”اردو “ کو دور دور تک پھیلانے کا کام کیا وہ صوفی حضرات تھے جو عوام کو روز مرہ کی بولی جانے والی زبان میں دین و دنیا اور اخلاق کی اعلیٰ تعلیم دیتے تھے۔ تقریباً تمام بزرگانِ دین بڑے بڑے علاقوں کے عوام الناس کو اپنی آسان اور دلنشین گفتگو سے متاثر کیا کرتے تھے، اور دور دراز علاقوں میں دورے کرکے علم کو فروغ دیا کرتے تھے۔ یوں ان حضرات نے جہاں لوگوں کے اخلاق سدھارنے میں اپنی کوششوں کو فروغ دیا وہیں ان میں ایک مشترک زبان سمجھنے اور بولنے کا ذوق بھی پیدا کر دیا۔ چنانچہ اردو کی تاریخ میں قدیم ترین نمونے انہی درویشوں کے اقوال کی صورت میں ملتے ہیں۔ ایسے نمونے بابائے اردو مولوی عبد الحق کی مختصر کتاب ” اردو کی ابتدائی نشو ونما میں صوفیائے کرام کا حصہ “ میں بھی درج ہیں۔

ویسے تو اردو زبان کی ابتداءکے بارے میں متضاد آراءپائی جاتی رہی ہیں مگر امکان اس بات کا ہے کہ یہ 1000 سنِ عیسویں میں وجود میں آگئی تھی البتہ اس کے ارتقائی مدارج میں کافی وسعت پائی جاتی ہے۔

جب مسلمان فاتحین صوبہ سندھ میں حملہ آور ہوئے اور یہاں پر ان کی حکومتیں قائم ہوئیں تو یہاں کے رہن سہن اور مسلمان فاتحین کے درمیان ”اختلاط “ کے ثبوت آج بھی سندھی زبان میں عربی کی آمیزش ہمیں محسوس ہوتا ہے مگر مسلمان فاتحین میں عربی افراد اور کچھ ایرانی افراد بھی تھے۔ یوں مشترکہ زبان عربی اور فارسی سے ملکر ” اردو “ وجود میں آئی۔ حقیقت میں تو یہ ایک احساس ہے لیکن اس کی صداقت کا کوئی ثبوت مہیّا نہ ہو سکا۔

ثبوت و شواہد کے بنیا د پر پرکھا جائے تو غالب گمان ہوتا ہے کہ اردو کی باقاعدہ ابتداءغزنوی کے دور میں سر زمینِ پنجاب سے ہوئی جس کا کہیں کہیں ثبوت میسر ہے۔ ویسے بھی ہر دور میں باقاعدہ طور پر بادشاہوں، امراﺅں اور سلاطین نے ” اردو “ کی پرورش پر اپنی خصوسی توجہ صرف کی ہے لیکن علاقائی زبانوں کی آمیزش نے اردو زبان کو پھیلاﺅ کے ساتھ ساتھ علاقائی چاشنی اور شیرینی بھی تحفتاً دے دی۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں اردو اپنے عروج کو پہنچی جہاں لکھنو ”اردو “ کے فروغ کا ایک اہم مرکز ثابت ہوا۔

اس زمانے کے اتار چڑھاﺅ کے دوران مقامی بولیاں ایک تو بہت مختلف تھیں کہ جب کئی صدی بعد مشہور دانشور اور شاعر امیر خسرو نے مقامی زبانوں کا جائزہ لینا شروع کیا تو اس وقت زبانوں کو علاقوں کے بجائے شہروں کی طرف منسوب کیا گیا اور انہوں نے اپنی ایک نظم میں کوئی اٹھارہ زبانوں کے نام لیے تھے۔

اردو کی نشو نما کا کام مختلف مراحل میں طے ہوا ۔ دکن، دہلی اور لکھنو ، برِصغیر میں اردو فاتحینِ مسلمان کی بدولت ہندوستان کی شمالی علاقہ جات میں پہلے روشناس کرائی گئی، یہ زبان منفرد اور آسان ذریعہ گفت و شنید تھا جسے سب ہی نے باآسانی تسلیم کیا۔ ایک حوالے کے مطابق برصغیر کی سرکاری زبان 1700 ءتک فارسی تھی لیکن 1700 ءمیں اردو کو مجموعی اور متفقہ طور پر سرکاری زبان کا بدل تسلیم کر لیا گیا۔ جبکہ اردو اور اردو ادب کی تاریخ اس سے بھی قبل کی ہے۔ ویسے تو اردو ادب کے پالنے کیلئے دکن، دہلی، اور لکھنو کا ہی نام لیا جاتا ہے جہاں اس کی پرورش لوح و قلم کا سہرا قطب شاہ کے بعد ، ولی محمد ولی دکنی، سراج اورنگا آبادی، خواجہ میر درد، مرزا اسد اللہ خاں غالب، داغ دہلوی کے سر ہے ۔ یہ وہ نام ہیں جنہوں نے اردو ادب کو بھی اپنی پوری ذمہ داری سے پروان چڑھانے کی سعی کی۔

مغلوں کی آمد کے بعد زبانِ ہندوی اسی طرح مختلف علاقوں میں بہت ہی سُست رفتاری سے اپنا سفر طے کر رہی تھی کہ ایسے میں شمالی ہند پر ایک تازہ دم اجنبی قوم (مغل) بابر کی قیادت میں حملہ آور ہوئی اور ایک صدی سے کچھ ہی زیادہ گزرنے پائی تھی کہ اس کا سِکّہ پورے برصغیر میں چلنے لگا۔ اسی وجہ سے زبانِ ہندوی کی مختلف صورتیں آپس میں اور زیادہ قریب آنے لگیں۔ شاہ جہاں کا دورِ حکومت مغلوں کے انتہائی عروج کا زمانہ تھا اور مغل تہذیب پورے برصغیر میں اپنے قدم جما چکی تھی۔ مغلوں کا تخت دہلی اور کچھ کچھ عرصہ کے لیئے آگرہ رہتا تھا۔ زبان کے معاملے میں بھی دہلی کو سند کی حیثیت رہی ہے اور خالص اردو کا رواج (معلومات اخذ کرنے کے بعدپتہ چلتا ہے کہ) وہیں سے جا ملتا ہے۔

پاکستان میں آج بھی کسی نہ کسی سطح پر انگریزی کا تسلط برقرار ہے۔ عام سرکاری اسکولوں بشمول کالے، پیلے اور نئی روشنی اسکولوں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلباءو طالبات کا ذریعہ تعلیم اصل میں اردو ہی ہے۔ ایک ادنیٰ ملازمت تو ان اسکولوں سے تعلیم حاصل کرنے والا شاید حاصل کر لے گا مگر اعلیٰ ملازمت کا حصول پاکستان میں بھی بغیر انگریزی تعلیم کے کلّی نا ممکن ہے۔ گو کہ عوام کی فلاح و بہبود ، اقلام کی ترقی اور اس جیسے لاتعداد معاملات کیلئے قومی زبان نہ صرف لازمی جزو ہے بلکہ اس کا حقیقی طور پر رائج ہونا بھی بے حد ضروری اور لازمی عنصر ہے۔

”اردو “ زبان ہماری شناخت اور قومی ورثہ ہے اس کی حفاظت اس ملک کے ہر امیر و غریب، تعلیم یافتہ افراد ہوں یا غیر تعلیم یافتہ ، سیاستدان ہوں یا زندگی کے کسی بھی شعبے سے ان کا تعلق ہو ، ان پر لازم و ملزوم ہے۔ کیونکہ جو افراد اپنی قومی زبان کی اہمیت کو نہیں سمجھتے وہ ہمیشہ اور ہر موڑ پر خصارے میں رہتے ہیں۔ میں اپنے مضمون کا اختتام ہندوستان کی ایک شاعرہ کے اس شعرپر کرنا چاہوں گا جس سے ”اردو “ کی اہمیت کا اندازہ لگانا ممکن ہو سکے گا۔اس شعر کے پڑھنے کے بعد”اردو“کے لیے میرا ایمان ہے کہ آپ چاہیں گے ، کاش! کالم نویس یہ پوری غزل ہی تحریر کر دیتا، مگر پوری غزل کیلئے جگہ کی قلت آڑے آتی ہے اور یوں قلم کے زور کو توڑتے ہوئے ہاتھوں کی انگلیوں کو جنبش کا سہارا لینا پڑا۔
کیا بتاﺅں یہ زبان ہے میرے لیئے کیا

سر پہ رکَھا ہو جیسے دستِ خدا
جیسے مل جائے مجھے آپ کی دعا

شہرتوں نے جیسے مجھے ہولے سے چُھوا
میرا خاندان پہچان ہے یہی

میری آن بان اور شان ہے یہی
آئے ہر گام میرے کام اردو

تجھے نئی صدی کا سلام اردو
اور کیا دعائیں دوں میں تجھکو سَکھی

میں تو خود تیری ہی پناہ میں پلی
اور ہو جہاں میں تیرا نام اردو

تجھے نئی صدی کا سلام اردو
Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 340164 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.