آخر حکومت نے ذلت اور رسوائی کا کیا ہدف رکھا ہے؟

مجھے یہ اندازہ لگانا مشکل ہورہا ہے کہ موجود ہ حکومت اور حکومت میں شامل جماعتوں نے اپنی ” ذلت اور رسوائی“ کا کیا ہدف رکھا ہواہے کہ جسے حاصل کرنے کے بعد ملک اور قوم کو اپنے چنگل سے آزاد کردے گی۔

مہذب معاشرے میں تو یہ تصور ہی نہیں کہ مقدمات قائم ہونے، الزامات لگنے اور گرفتار ہونے کے بعد کسی بھی عہدے کے لئے اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے یا عہدے پر رہا جائے ،ہمارے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تو عدالت پہنچے ، سزا کا حکم سنا اور تاریخ میں پہلی بار ججز کے سامنے ہی مجرم کی حیثیت سے سزا مکمل کی اور مسکراتے ہوئے واپس سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر فاتحانہ انداز میں وزیراعظم ہاﺅس پہنچ گئے نہ انہیں شرم آئی نہ ان کے ساتھیوں کو اور نہ ہی ان کے حمایتوں کو!

یہ ہے پیپلز پارٹی کی حکومت جس کے ساتھیوں میں بنیاد پرست علماءجمعیت علمائے پاکستان (ف)ملک کے نامور چوہدری برادران ،غیرت مند پھٹانوں کی نمائندہ پارٹی ہونے کی دعویدار عوامی نیشنل پارٹی اور ملک اور قوم کے لیئے جانوں کی قربانی دینے کی تسلسل سے دعویٰ کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ بھی شامل ہے۔

شائد گیلانی صاحب اور ان کے تمام حما یتوں و ساتھیوں کاخیال ہوگا کہ وزیر اعظم کو توہین عدالت پرکم ازکم چھ ماہ قید کی سزا ہوگی ،عدالت کے حکم پر پولیس انہیں کورٹ سے براہ راست جیل لے جائے گی اور پھر وہ جیل میں رہ کر (جیسے مجرم گیلانی کی طرف سے دیگر اوروہ خود ہی کہہ چکے تھے)وزیراعطم کے فرائض انجام دیں گے اور ضرورت کے تحت جیل کو عارضی وزیر اعظم ہاؤس یا کیمپ ڈکلیئر کردیا جائے گا اس طرح وہ چھ ماہ ”عزت“ کے ساتھ گزار کر فاتحانہ انداز میں جیل سے باہر آئیں گے اور حکومت کے بقیہ ایام گزارنے میں مصروف ہوجائیں گے۔

توہین عدالت کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرنا میری صحافتی ذمہ داروں میں شامل نہیں ہے میں عدلیہ کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرنے پر یا اس پر عدالت ہی کا سہارہ لینے پر یقین رکھتا ہوں ہاں البتہ میں مجرم یوسف رضا گیلانی کو یہ ضرور یاد دلانا چاہوں گا کہ عدالت زیادہ سے زیادہ سزا دینے کا اختیار رکھتے ہوئے انتہائی کم سزا دی تو اس پر اللہ کا اور عدلیہ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کیونکہ بہرحال عدلیہ نے اس ملک کی عزت کا بھی خیال رکھا اور یہ چھوٹ کسی یوسف گیلانی کو نہیں بلکہ وزیراعظم کے عہدے کو دی گئی ہوگی ؟اس کا مطلب یہ نہیں کہ عدالت کے فیصلے پرتبصرہ کیا جائے اور کہا جائے کہ مجھے 32 سال کی نہیں بلکہ ۵ سکینڈکی سزا ملی ہے میرا خیال ہے کہ اس طرح کے بیانات توہیں عدالت کا باعث بن رہے ہیں اور عدالت ان پر سخت نوٹس لے سکتی ہے۔

وزیراعظم گیلانی کو توہین عدالت کی سزا ملنے کے بعد قوم کے حساس دل رکھنے والے اپنے آپ کو مجرم سمجھ رہے ہیں اور شرمندہ ہیں کہ بہرحال یہ قوم کا انتخاب ہیں ۔

سزا کے بعدوزارت عظمیٰ سے یوسف رضا گیلانی کے استعفیٰ نہ دینے اور مجرم قرار پانے کے باوجود ڈھٹائی سے وزیراعظم کی سیٹ سے چمٹا رہنا کوئی سیاسی روایت نہیں ہے اور نہ ہی یہ بات سیاسی اور اخلاقی طور پر درست سمجھی جارہی ہے ہاں اس سے ہٹ دھرمی اور نفسیاتی مرض کی نشاندہی ضرور ہورہی ہے ، یہ شک کرنا غلط بھی نہیں ہوگا کہ یوسف رضا گیلانی نفسیاتی مریض ہیں کیونکہ جس شخصیت نے انہیں وزیر اعظم کی حیثیت سے چنا تھا وہ ہیں آصف رداری ان کے اپنے طبی دستاویزات کے مطا بق وہ نفسیاتی مریض رہ چکے ہیں۔

ایک نفسیاتی مریض کسی اور کو سمجھے یا نہ سمجھے یہ بات تحقیق سے ثابت ہے کہ وہ دوسرے پاگل یا نفسیاتی مریض کو ضرور پہچانتا اور سمجھتا ہے۔

ملک کی اپوزیشن مسلم لیگ نواز جو کہ سب سے بڑے صوبے پنجاب کی تن تنہا مالک بنی ہوئی ہے وزیر اعظم کو سزا ملنے کے بعد گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دینے کے لئے اس بار کچھ زیادہ ہی جذباتی نظر آتی ہے لیکن ان کے غصے اور اشتعال کا کوئی بھروسہ نہیں ماضی کی طرح میاں نوازشریف انتہائی جذباتی تقریروں اور جلسوں کے بعد اچانک لندن جاسکتے ہیں انہیں اپنا چیک اپ یا پھر کسی کی عیادت کرنے کے لئے بیرونِ ممالک کا دورہ کرنا پڑسکتا ہے ویسے بھی میاں شریف اینڈ کمپنی وقت سے پہلے پنجاب کو ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتے اور اب تو عمران خان نے بھی ان کی تحریک کے لیئے اپنی سونامی کو ان کے مجمعے میں لے جانے کے لیئے یہ ہی شرط لگادی ہے کہ پہلے اسمبلیوں سے استعفیٰ دیں۔عمران خان کو بھی یہ ہی خدشہ بلکہ یقین ہے کہ وہ وقت ضائع کرنے کے لیئے فرینڈلی اپوزیشن کے اسکرپٹ پر عمل پیرا ہیں۔

تاہم کراچی کے علاقے لیاری کی صورتحال حکومت کے لیئے کچھ نہ سہی اس علاقے سے پیپلز پارٹی کا جنازہ نکلنے کی خبر دے رہی ہے جو پارٹی کے لیئے ذلت اور رسوائی سے کم نہیں ہے ویسے ا س حوالے سے چھوٹے موٹے منظر تو بہت عرصے سے جیالے دیکھ رہے ہیں لیکن اب ان کو یقین ہوگیا ہے کہ وزیر داخلہ کے روپ میں ملک کے سیکٹر انچارج اے آر ملک نے اپنا کام پورا کرکے پیپلز پارٹی کو لیاری سے ختم کردیا ہے۔

اگر یہ بات سچ تسلیم کرلی جائے کہ انہوں نے ایسے اقدامات کیئے ہیں جس کے باعث حکومت میں رہتے ہوئے پی پی پی کا ایک بہت بڑا اور دیرینہ حلقہ اور وہاں کے لوگ پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیارکرنے پر مجبور ہوگئے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کیوں کیا گیا؟ وزیرداخلہ اس معاملے میں ہمیشہ کیوں سرگرم اور متنازعہ رہے؟کہیں وہ اس لیاری کو کسی اور جماعت کے کنٹرول میں تو نہیں دینا چاہتے تھے یا ہیں؟ اس بارے میں آئیندہ کبھی تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی۔

ذلت اور رسوائی کے دلدل میں جانے والے حکمرانوں کا تذکرہ کالم کا اصل مقصد ہے اس تناطر میں مجھے سیاست سے دور رہنے والے اور فوج کوسیاست سے دور رکھنے کا عزم کرنے والے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا ذکر مجبوراََکرنا پڑرہاہے میں ان کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے کئی مواقعے ملنے کے باوجود اس طرح کا روایتی ایکشن نہیں لیا جو اس سے قبل فوج کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹ کر لیا جاتا رہا حالانکہ اب جو حالات اس ملک کے ہیں وہ ماضی میںکبھی بھی نہیں رہے ۔

جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے تو 1999ءمیں یہ کہکر ملک کا نظام سنبھال لیا تھا کہ ” آئین بچانا ضروری ہے یا ملک بچانا“ جبکہ آج یہ صورتحال ہے کہ اگر آئین کے تحفظ میں رہے تو موجودہ حکمران جو اپنا اور قانون کا مذاق اڑانے کے لیئے کوئی موقعہ ضائع نہیں کرتے خدانخواستہ ملک کو شدید نقصان سے دوچار نہ کردیں ۔

ملک کے اداروں کا نقصان اصل میں ملک کا ہی نقصان ہے جو موجودہ حکومت بلاجھجک کررہی ہے جبکہ اداروں کی جو صورتحال ہے اس نے آرمی چیف کوبھی تشویش میں مبتلا کردیا ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں”سب پر لازم ہے کہ آئینی دائرے میں رہیں اور ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں سب کے لیئے انصاف ہو“۔

بہت سے دانشوروں اور صحافیوں کاخیال ہے کہ آرمی چیف کایہ بیان کو حکومت کے لیئے وارننگ ہے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حالیہ اعلٰی سطحی ملاقاتوں میں آرمی اپنی پالیسی واضع کررہی ہے جبکہ حکومت کو متنبہ کرنے کا سلسلہ بھی شروع کردیاگیا ہے لیکن حکومت اور حکمران طاقت کے نشے میں مست ہیں انہیں ملک اور قوم کی فکر ہے اور نہ ہی اپنی عزت اور وقار کی، یہ مقبولیت سے گرتے ہوئے مشہور اور اب بدنامی کے دن گذاررہے ہیں شائد یہ حکمران اور ان کے تمام ساتھی ”گیدڑ کی سو دن کی زندگی “پر یقین رکھتے ہیں،لیکن ابھی بہت محب وطن شیر ہیںجن سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ گیدڑوں کو مزیدچانس نہیں دیں گے ۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152763 views I'm Journalist. .. View More