فرعون کا انجام (قسط نمبر3)

ہزاروں سال بعد دفن رہنے کے بعد بھی یہ لاش مل گئی ہے اور کہیں سے بھی ٹوٹی پھوٹی یا خراب نہیں ہوئی ہے۔ خدا کے حکم کے مطابق ساری دنیا کو یہ سبق دے رہی ہے کہ اللہ سے اکڑنے والوں کا یہ انجام ہوتا ہے۔

حضرت موسیٰ ؑ اپنے بھائی ہارون کے ساتھ فرعون کے دربار میں پہنچے اور اس سے کہا کہ رب العالمین نے مجھے رسول بناکر بھیجا ہے اب تو بھی اسرائیل کو میرے ساتھ مصر سے جانے دے۔ فرعون نے کہا ”رب العالمین“ کیا ہے؟ حضرت موسیٰ ؑ نے جواب دیا ۔ وہ آسمانوں کا، زمین کا مالک ہے اور ان کے درمیاں جو کچھ بھی سب کا رب ہے۔ فرعون ہنس پڑا اور درباریوں سے کہنے لگا ۔ ” سن رہے ہو “۔ لیکن حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی بات جاری رکھی مشرق و مغرب اور دونوں کے بیچ جو کچھ بھی ہے سب رب کا ہے۔ اس نے زمین تمہارے لئے بچھادی ہے اور اس میں تمہارے لئے راستے نکال دیئے ہیں اور آسمان سے پانی برسا کر طرح طرح کی چیزیں اگائیں تاکہ تم کھاﺅ اور اپنے مویشی چراﺅ۔ بیشک اس میں سمجھ بوجھ رکھنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ یہ سن کر فرعون جھنجھلا گیا اور موسیٰ ؑ سے کہنے لگا ”خبردار مجھے چھوڑ کر کسی اور کو خدا مانے گا تو میں تجھے قید کردوں گا کیا تو بھول گیا کہ تو ننھا سا بچہ تھا اور میرے محل میں تجھے پالا گیا تھا۔ پھر تو نے میرے قوم کے ایک آدمی کو مار ڈالا اور تو ڈر کے یہاں سے بھاگ گیا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے جواب دیا ” ہاں وہ حرکت تو مجھ سے ضرور سرزد ہوگئی تھی مگر جس وقت مجھ سے یہ حرکت سرزد ہوئی تھی میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ مگر اب میرے رب نے مجھے اختیار بخشا ہے اور مجھے پیغمبر بنادیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں تجھ کو اپنے رب پر ایمان لانے کے نصیحت کروں اور کہوں کہ میری قوم کو آزادی دے تاکہ وہ اپنے وطن بیت المقدس میں چلی جائے۔فرعون نے جواب دیامیں نہیں جانتا کہ میرے سوا تیرا کون رب ہے ؟ نہ میں تیری قوم کو یہاں سے جانے کی اجازت دے سکتا ہوں اور تیرے پاس کیا دلیل ہے کہ تو خدا کا بھیجا ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے جواب دیا کہ میں خدا کی طرف سے معجزے لایا ہوں تو فرعون نے غصے سے دانت پیس کر کہا۔ ”اگر تو سچا ہے تو ابھی دکھا کیا لایا ہے۔“ حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے ہاتھ کی لاٹھی زمیں پر ڈال دی جو گرتے ہی ایک بڑے سانپ میں تبدیل ہوگئی۔ پھر گریبان میں ہاتھ ڈال کر نکالا تو دیکھنے والوں کو سفید چمکتا ہو ا دکھائی دیا۔

فرعون نے جب یہ معجزے دیکھے تو حیران رہ گیا اور اپنے درباریوں سے کہنے لگا یہ تو کوئی بڑا جادوگر ہے اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہارے ملک سے نکالنا دینا چاہتا ہے۔تمہاری اس بارے میں کیا رائے ہے۔درباریوں نے کہا کہ جناب شاہی فرمان جاری کیا جائے کہ ملک کے تمام شہروں سے بڑے بڑے جادوگر آئیں، یہ جادوگر اس شخص کے جادو کا ایسا جواب دیں گے کہ یہ لاجواب ہوجائے گا۔ فرعون کو یہ رائے پسند آئی اور موسیٰ ؑ سے کہنے لگا تیرے جادو کا تو ہم جادو سے ہی جواب دیں گے۔چنانچہ ملک بھر میں اعلان کرادیا گیا تقریباََ چار ہزار مشہور و نامور جادوگروں جمع ہوگئے ہر جادوگر اپنے فن میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔جب یہ سب جمع ہوگئے تو فرعون نے ان سے کہا کہ ہم تمہاری ایک عرصہ سے پرورش کررہے ہیں اب اس وقت جب ہم پر مصیبت آن پڑی ہے تو تم لوگ اپنے علم اور جادو سے موسیٰ ؑ کو روک دو بلکہ شرمندہ کرکے ہمارے ملک سے باہر نکال دو۔ جادوگروں نے کہا کہ اگرہم کامیاب ہوگئے تو ہمیں کیا انعام ملے گا ۔ فرعون نے جواب دیا کہ تمہیں بڑ ے بڑے انعام ملیں گے اور تم سب کو میرے دربار میں بڑا عہدہ ملے گا ۔ مقابلہ کے لئے تہوار کا دن مقرر ہوا۔

چنانچہ جب تہوار کا دن آیا تو سب جادوگر ایک میدان میں جمع ہوئے اور موسیٰ ؑ سے کہنے لگے کہ تم اپنا جادودکھاﺅ گے یا ہم اپنا جادو دکھائیں۔ موسیٰ ؑ نے جواب دیا کہ تم پہلے اپنا جادو دکھاﺅ۔ لیکن ساتھ ہی ان جادوگروں کو یہ نصیحت بھی کی کہ دیکھو اپنے جادو سے اللہ کے معجزے کا مقابلہ نہ کرو ۔ ورنہ یاد رکھو ، اللہ کا عذاب تم پر ٹوٹ پڑے گااور یہ بھی یاد رکھو کہ اللہ پر بہتان باندھنے والا کبھی جیت نہیں سکتا۔موسیٰ ؑ کی اس تقریر سے جادوگروں کے دل پر بڑا اثر ہو ا اور ان میں پھوٹ پڑگئی یہ دیکھ کر فرعون کے درباری دوڑے اور ان جادوگروں کو الگ لیجاکر کانا پھوسی کرنے لگے کہ دیکھو موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ بھی جادوگرہی ہیں اور وہ اپنے جادو کے ذریعے تمہیں تمہارے ملک سے نکالنے آئے ہیں۔ایک ہوکر بہادری سے میدان میں آجاﺅ۔

تمام جادوگر ایک مرتبہ پھر ایک ہوگئے اور اپنے تمام جادوئی آلات ،رسیا ں اورلکڑیاں جن کی تعداد تقریبا چار ہزار تھی ایک ساتھ میدان میں چھوڑ دیئے جو دیکھتے ہی دیکھتے سانپ ، اژدھے اور بچھو بن کر پھیل گئے، موسیٰ ؑ دل ہی دل میں ڈرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا اے موسیٰ ؑ ان سے بالکل نہ ڈرو تم ہی ان پر غالب رہو گے۔اپنے ہاتھ میں موجودلاٹھی زمیں پر ڈال دو ۔ لاٹھی زمین پر ڈالتے ہی ایک بہت بڑا اژدھا بن گئی اور یہ بھیانک اژدھا ، پھنکارتا او ر بل کھاتا ہو ا لپکا اور جادوکی سب رسیوں اور لکڑیوں کو جو سانپ اور اژدھے بند گئے تھے اس طرح نگل گیا کہ جیسے وہ تھے ہی نہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ ان جادوگروں کے وہ آلات اور اوزار جو جادو کے کام آتے تھے وہ بھی اژدھے نے نگل لئے۔ ہارے ہوئے جادوگروں نے جب یہ دیکھا تو تو سجدے میں گر پڑے اور بلند آواز سے کہنے لگے ”ہم ایمان لائے موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ کے رب پر“ ۔ فرعون نے جب اپنے جادوگروں کا یہ اعلان سنا تو غصہ سے لال ہوگیااور دانت پیس کر کہنے لگا ۔ میری اجازت کے بغیر ہی تم موسیٰ ؑ کو مان گئے ۔ یہ ضرور تم سب کا استاد ہے اسی نے تم سب کو جادو سکھایا ہے۔ تم سب نے مل کر میرے خلاف یہ سازش کی ہے ۔ میں تمہیں اس کا مزا چکھاﺅں گا۔ میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور ایک طرف کے پاﺅں کٹوا ڈالوں گا۔ پھر تم سب کو پھانسی پر لٹکادوں گا، تمہیں پتہ چل جائے گا میرا دیا ہو ا عذاب زیادہ سخت ہے یا موسیٰ ؑ کے رب کا۔لیکن جادوگروں کے دل ایمان سے بھر چکے تھے ۔ کہنے لگے کہ ہم نے اپنے رب کی نشانیاں دیکھ لیں ہیں اور ہم اپنے خدا پر ایمان لے آئے ہیں اب ہم تجھے خدا نہیں مان سکتے، اللہ ہی سب سے اچھا ہے اور وہی باقی رہنے والا ہے ۔ پروردگار ہمارے دلوں کو مضبوط بنادے اور ہمیں اس حال میں موت دے کہ ہم تیرے فرمانبردار ہوں۔یہ سن کر فرعون کا غصہ اور بھی بڑھ گیا ، لیکن ڈرا بھی کہ کہیں اس معجزے کے وجہ سے تمام مصری قوم موسیٰ ؑ کی طرف نہ ہوجائے۔ اپنی قوم سے چلّا چلّا کر کہنے لگا۔ ”لوگوں بتاﺅ کیا مصر کی یہ نہریں جو میرے پاﺅں تلے پڑی بہہ رہی ہیں ، میری نہیں ہیں ، کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے۔میں بہتر ہوں یا یہ آدمی جس کے منہ سے بات تک صحیح نہیں نکلتی۔ یہ کچھ نہیں ہے ۔ میں ہی تمہارا سب سے بڑا رب ہوں۔

حضرت موسیٰ ؑکی فتح کے بعد فرعون کو ان کی بات مان لینے چاہیے تھی لیکن غرور او ر تکبر کی وجہ سے اس نے موسیٰ ؑ کا مطالبہ نہ مانا بلکہ بنی اسرائیل کی قوم پر اپنے ظلم و ستم اور بڑھادیئے۔ایک مرتبہ پھر فرعون کے حکم پر بنی اسرائیل کے لڑکوں کا قتل عام شروع ہوگیا۔ اس ظلم پر بنی اسرائیل کی قوم چلّا اٹھی اور موسیٰ ؑ پر سے کہنے لگی کہ ہم پر پہلے بھی بڑے ظلم و ستم ہوئے ہیں اور اب آپ کے آنے کے بعد بھی ہم کو ستا یا جارہا ہے۔ مو سیٰ ؑ نے ان کو ڈھارس دی اور کہا ” اے میری قوم کے لوگو! اللہ سے مدد مانگو اور اپنے دل کو مضبوط رکھو ۔ یاد رکھو یہ زمیں آدمیوں کی نہیں ۔ اللہ کی ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے زمیں کا مالک بنا دیتا ہے ۔ اللہ پر بھروسہ رکھو اگر تم واقعی اللہ پر ایمان لاچکے ہو۔ یہ تقریر سن کر بنی اسرائیل کے لوگوں نے کہا ” ہا ں ہمارا بھروسہ اللہ ہی پر ہے ۔ اے ہمارے رب ہمیں اپنی رحمت سے اس ظالم قوم کے چنگل سے نکال لے۔

فرعون کی نافرمانی اور اس کے ظلم و ستم کی وجہ سے اس سے مصر پر جب کوئی نئی بلا آتی تو فرعون موسیٰ ؑ سے کہتا کہ اپنے خدا سے دعا کر و، جب یہ بلا دور ہوجائے گی تو میں اسرائیلیوں کو تمہارے ساتھ جانے دوں گا۔ مگر جب موسیٰ ؑ کی دعا سے یہ بلا چلی جاتی تو فرعون مکر جاتا ۔ ایک مرتبہ یہ عذاب نازل ہوا کہ پورے مصر میں ایک رات میں ہر گھرکے اندر پہلوٹی کے تمام بچے مرگئے جن میں مویشی بھی شامل تھے۔ لیکن بنی اسرائیلیوں کے کوئی بچہ نہیں مرا۔ اس عذاب کے سامنے فرعون کو ہار مانا پڑی ۔ اس نے حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ کو بلایا اور کہا کہ تم یہاںسے اپنی قوم اپنے سامان اور جانوروں کے ساتھ یہاں سے چلے جاﺅ۔ چنانچہ بنی اسرائیلی اپنے تمام سامان کے علاوہ مصریوں کے سونے چاندی کے برتن اور قیمتی کپڑے جو انھنوں نے عاریتا مصریوں سے لئے تھے لی کر وہاں سے روانہ ہوگئے۔ جب فرعون کو معلوم ہو ا کہ بنی اسرائیل کے لوگ مصریوں کی دولت بھی ساتھ لے گئے ہیں تو بہت ناراض ہوا۔ اور اپنی فوج کے ساتھ اسرائیلیوں کے پیچھا کرنے کے لئے روانہ ہوا۔ اسرائیلیوں کے پاس بہت زیادہ ساما ن تھا بہت تیز نہیں جاسکتے تھے جبکہ فرعون کی فوج رتھوں اور گھوڑوں پر مشتمل تھی ۔ اسرئیلی ابھی زیادہ دور نہیں جا پائے تھے کہ فرعون اپنی فوج کے ساتھ وہاں پہنچ گیا۔ اسرائیلی غلامی میں رہنے کی وجہ سے بے حد ڈرپوک ہوچکے تھے فرعون کی فوج کو دیکھ کر کانپنے لگے اور موسیٰ ؑ کے کہنے لگے دشمن سر پر آگیا ہے ۔ موسیٰ ؑ نے کہا میرا اللہ میرے ساتھ تم بالکل نہ گھبراﺅ ۔ انشااللہ فرعون ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ اللہ کے حکم اس وقت جبرئیل ؑ نازل ہوئے اور کہنے لگے اے موسیٰ ؑ اپنا عصا دریائے نیل پر مارو ۔ جیسے ہی موسیٰ ؑ نے اپنا عصا دریائے نیل پر مارا دریا کے پانی کے دو ٹکڑے ہوئے ، بیچ میں سوکھا ایک راستہ بن گیا اور دونوں طرف پانی اس طرح کھڑا ہوگیا جیسے آمنے سامنے دو اونچے اونچے پہاڑ ہوں۔ موسیٰ ؑ اپنی قوم کو لیکر اس راستے سے مصر سے باہر سینا کی زمیں پر پہنچ گئے جو دریائے نیل کے پار تھی۔

فرعون بھی اپنے لشکر کے ساتھ اس سوکھے راستے میں داخل ہوگیا ، وہ سمجھ رہا تھا کہ اب اسرائیل بھاگ کر کہاں جائیں گے میرے سپاہی انھیں جلد ہی پکڑ لیں گے۔لیکن جیسے ہی فرعون نے اپنا لشکر لیکر دریائے نیل کے بیچ میں پہنچا ۔ جو پانی اس راستے کے دائیں بائیںدیواروں کی طرح کھڑ ا تھا دوبارہ آپس میں مل گیا ، اس کا لشکر ڈوبنے لگا ، جب فرعون خود بھی ڈوبنے لگا تو کہنے لگا میں بھی ایمان لاتا ہوں اس اکیلے خدا پر جس پر بنی اسرائیل ایمان لاچکے ہیںاور میں بھی فرمانبرداروں میں سے ہوں۔اللہ کے حکم پر جبرئیل ؑ نے کہا ۔ اے فرعون تو ساری عمر اللہ کا نافرمان رہا اور اب خدا کے عذاب کو دیکھ کر ایمان لاتا ہے ، تو فساد کرنے والوں میں سے تھا۔ اب تیری سزا یہ ہے کہ مرنے کے بعد تیر ی لاش نہ تو مچھلیاں کھائیں گی اور نہ تیری لاش خراب ہوگی ، تاکہ آنے والے انسان تیری لاش دیکھ کر عبرت حاصل کریں۔فرعون اور اس کا لشکر دریائے نیل میں غرق ہوگیا۔ مگر دریائے نیل کی موجوں نے فرعون کی لاش کو خشکی پر لاکر پھینک دیا ، مصری قوم کے لوگ اس کی لاش اٹھا کر لے گئے اور اپنے رسم و رواج کے مطابق فرعون کی لاش کو شاہی قبرستان میں دفنا دیا گیا۔ہزاروں سال بعد دفن رہنے کے بعد بھی یہ لاش مل گئی ہے اور کہیں سے بھی ٹوٹی پھوٹی یا خراب نہیں ہوئی ہے۔ خدا کے حکم کے مطابق ساری دنیا کو یہ سبق دے رہی ہے کہ اللہ سے اکڑنے والوں کا یہ انجام ہوتا ہے۔
M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 303777 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.