سانحات، حادثات اور ہماری روایات

بدقسمتی سے ہمارے ہاں جس وقت تک پانی سرکے اوپرسے نہ گزرے ہمیں اور ہمارے ارباب اقتدارکوہوش نہیں آتا۔پشاورسمیت کسی بھی شہرمیں بم دھماکہ یاخودکش حملہ ہوتا ہے تو صوبائی حکومت کے ترجمان کے حوالے سے اس شہرمیں سکیورٹی ہائی الرٹ کرنے اورارباب اقتدارسمیت سیاستدانوں کی طرف سے ہینڈآﺅٹ پرتاریخ کی تبدیلی کے بعد مذمت کی خبرفوراًمیڈیا میں آجاتی ہے ۔تاہم اس کے دوچارروزبعدپھراسی یاکسی اورشہرمیں دھماکہ ہوتا ہے توایک بارپھر سکیورٹی ہائی الرٹ کرنے کامژداسنایاجاتا ہے تواس کامطلب یہ ہے کہ ہائی الرٹ محض چندگھنٹوں یاصرف چندروزکیلئے ہوتا ہے ۔حکومت بتائے سکیورٹی مستقل بنیادوں پرہائی الرٹ کیوں نہیں کی جاتی ۔سکیورٹی ہائی الرٹ کرنے کیلئے بم دھماکے یاخودکش حملے کاانتظارکیوں کیا جاتا ہے۔عوام بھی تازہ سانحہ رونماہونے کے بعدپراناسانحہ بھول جاتے ہیں۔عوام کاحافظہ انتہائی کمزوراورہاضمہ بہت فعال ہے ،اسلئے کرپشن میں ملوث ہونے کے باوجودبیشتر سیاستدان باربار اسمبلیوں میں آجاتے ہیں۔عوام کوووٹ کی پرچی پرمہرلگاتے وقت ایک منٹ لگتا ہے جبکہ ان کے ووٹ سے منتخب ہونیوالے نمائندے اورحکمران پورے پانچ برس کیلئے ان کی تقدیراورتوقیرکے مالک بن جاتے ہیں لہٰذااچھی طرح سوچ بچارکے بعدفیصلہ کیا کریں ۔نیب میں سالہاسال مقدمات کی سماعت ہوتی ہے کروڑوں روپے صرف ہوتے ہیں مگرایک دوکے سواباقی مقدمات کاکوئی نتیجہ نہیں نکلتا ۔ہم بڑی سے بڑی بات کوبھولنااورکرپشن کے بڑے سے بڑے سکینڈل کاہضم کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ہمیں اپنے معاشرے میں رائج فرسودہ روایات بدلناہوں گی ورنہ ہماراجغرافیہ بدل جائے گا۔

ابھی سیاچن میں برفانی تودے کے نیچے دبے ہمارے فوجی بھائیوں کیلئے ہماری منتظر آنکھوں کاپانی خشک نہیں ہواتھا کہ نجی طیارے کی تباہی کااندوہناک سانحہ رونماہوگیا۔ہم پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کامیابی کیلئے توبڑے جوش اورجنون کے ساتھ دعامانگتے ہیں مگرڈاکٹرعافیہ کی رہائی کاایشو ہویاسیاچن میں برفانی تودے کے نیچے دبے فوجی جوانوں کی بازیابی کامعاملہ ہم صرف بیانات پراکتفاکرتے ہیں۔نجی طیارہ تباہ ہونے کے نتیجہ میں شیرخواربچوں سمیت127 قیمتی انسانی جانوں کاضیاع بلاشبہ قومی سانحہ ہے۔ اقتدارکے اعلیٰ ایوانوں کے سواپورے ملک میں سوگ منایاجارہا ہے۔ طیارہ تباہ ہونے کے بعدبدقسمت طیارے کی تکنیکی صحت سمیت طرح طرح کی اطلاعات منظرعام پرآرہی ہیں،مگرسوال یہ پیداہوتا ہے کہ ان باتوں کے حوالے سے بروقت ایکشن کیوں نہیں لیا گیا۔اب ایک طرف مختلف سوال اٹھائے جارہے ہیں تودوسری طرف سیاستدان ایک دوسرے پرانگلیاں اٹھارہے ہیں ۔فضائی سروس کی مانیٹرنگ کرنے اوراس کے معیارکویقینی بنانے پرمعمور متعلقہ ادارے کیا کررہے ہیں ۔فضائی حادثہ پیش آنے کے بعد محض لکیریں پیٹ کر کیاوفاقی حکومت اوراس کے ماتحت اداروں کی مجرمانہ غفلت اور نااہلی چھپ جائے گی۔بدقسمت طیارہ تباہ ہونے کے نتیجہ میں مارے جانیوالے مسافروں کے غمزدہ ورثااپنے پیاروں کالہوکس کے ہاتھوں پرتلاش کریں۔ ماضی میں بھی قومی اورنجی طیاروں کے ساتھ حادثات پیش آتے رہے ہیں اورپچھلے دنوں دونجی طیارے ایکسیڈنٹ سے بال بال بچے ہیں۔اب تک مختلف فضائی حادثات کے نتیجہ میں مجموعی طور پرسینکڑوں مسافر مارے گئے ہیں لیکن آج تک کسی بھی تباہ شدہ طیارے کی تحقیقات منظرعام پرنہیں آئیں۔آج تک کسی طیارے کی تباہی پرکوئی وفاقی وزیریاحکمران شخصیت نے استعفیٰ نہیں دیا۔ بھوجاائیرلائن کے مالک فاروق بھوجاسمیت ان کے پارٹنرز کانام ای سی ایل میں ڈالنا کافی نہیں ۔جوافرادبھوجاائیرلائن کوآپریشن کی اجازت دینے میں ملوث ہیں ان پرہاتھ کون ڈالے گا۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شرک کے بعد دوسرے بڑے گناہ سودسمیت شراب اورشباب سمیت ہروہ برائی کھلم کھلا پنپ رہی ہے جس کی دین حق اوردین فطرت اسلام اجازت نہیں دیتالہٰذا اگرآفات اورحادثات نے مادروطن پاکستان کارخ کرلیاہے تواس پرحیران یاپریشان ہونے کی ضرورت نہیں یہ ہمارے اجتماعی اعمال کاشاخسانہ ہے۔جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت اپناقبلہ خانہ کعبہ کی بجائے واشنگٹن کوبنائے گی توپھرہمارے ملک میں عذاب اورسیلاب توضرورآئیں گے ۔من حیث القوم ہمیںاجتماعی توبہ استغفاراورملک کیلئے اہل اورایماندار قیادت منتخب کرنے کی ضرورت ہے۔ایسالیڈرجوگفتاراورکرداردونوں کاغازی ہواورجس کی ڈوریاں امریکہ کے ہاتھوں میں نہ ہوں ۔پاکستان کی بقاءاورپاکستانیوں کی بہبودکارازخودداری اور خودانحصاری میں پوشیدہ ہے۔بابائے قوم ؒ کی قیادت میں ہمارے باپ دادانے قیام پاکستان کیلئے قربانیاں دیں مگر آج اس کی آزادی اورخودمختاری ایک سوا لیہ نشان بن کررہ گئی ہے۔عیش پرست حکمرانوں نے پاکستان کوامریکہ اورآئی ایم ایف سمیت پرائے ملکوں کامقروض کردیا ۔پاکستان کاخزانہ خالی ہے جبکہ حکمرانوں کی تجوریاں بھری ہوئی ہیں ۔وہ اپنا سرمایہ بھی پاکستان کے بینکوں میں رکھناگوارہ نہیں کرتے جبکہ غیرملکی ثروت مندافراد کوپاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دے کرانہیں بیوقوف بناتے ہیں۔جس ملک میں بجلی نہ ہواورمقامی افراداپناکاروبار مختلف ملکوں میں منتقل کررہے ہوں وہاں سات سمندرپار سے کون سرمایہ کاری کیلئے بحرانوں اوربدامنی کی سرزمین پاکستان کارخ کرے گا۔

ایک ایسے وقت میں جب پوراملک سوگ میں ڈوباہوا ہے ۔وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے اپنے مخصوص جذباتی اندازمیں بیان دیا ہے کہ ''مجھے پھانسی قبول ہے مگرپارٹی سے بیوفائی نہیں کروں گا''، وزیراعظم کی پارٹی سے مرادصدرآصف علی زرداری ہیں۔وزیراعظم کوایساکیوں نہیں لگتا ہے کہ وہ پارٹی اوراپنے شریک چیئرمین آصف زرداری کے ساتھ وفاداری کیلئے ملک وقوم سے بیوفائی کاارتکاب کررہے ہیں۔ موصوف ایوان صدرمیں بیٹھے اپنے پارٹی شریک چیئرمین کے اعتماد پرپورااتر نے کیلئے اٹھارہ کروڑپاکستانیوں کے اعتماد پرکاری ضرب کیوں لگارہے ہیں۔ان کی وفاﺅں کامرکزمادروطن کی بجائے فردواحدکیوں ہے۔وہ صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ اگرانہوں نے عدالتی حکم کی روشنی میں صدرکیخلاف سوئس حکام کومکتوب لکھا توآصف زرداری پارٹی سربراہ کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ان کی رخصتی کاپروانہ جاری کردیں گے ۔ وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کایہ بھی کہنا ہے کہ ذوالفقار بھٹوکامشن پوراکریں گے ،اگرہرکسی نے اپنے اپنے لیڈرکامشن پورا کرناہے تو پھربابائے قوم قائداعظم ؒ اورشاعر مشرق حضرت اقبال ؒ کامشن کون پوراہوگا۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126856 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.