رؤف کلاسرہ اور نذیر ناجی صاحب

رؤف کلاسرہ اور نذیر ناجی صاحب کی خدمت ادب کے ساتھ

روزنامہ جنگ مورخہ ١٩ جنوری کی اشاعت میں جناب رؤف کلاسرہ صاحب کا آرٹیکل (میری دادی اس لیے تو نہیں ماری گئی تھی ) پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں انہوں نے پہلے تو برطانوی رکن پارلیمنٹ جیرالڈ کوفمین کو خراج تحسین پیش کیا ہے کہ اس نے یہودی ہونے کے باوجود اسرائیل کی فلسطین پر جارحیت کی مذمت کی ہے اور حق بات کی ہے۔ اور اس کے بعد انہوں نے حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا اور ان کو معطون کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس کی قیادت نے جانتے بوجھتے ہزاروں لوگوں کو ہلاکت میں ڈالا اور حماس نے جذباتیت کا شکار ہوکر ایک طاقتور دشمن سے ٹکر لے لی ہے اور ان کی قیادت کو صرف اس بات سے مطلب ہے کہ اسرائیل کو ایک بار پھر ظالم ثابت کردیا جائے چاہے اس کے لیے فلسطینیوں کی پوری نسل ماردی جائے۔اور لب لباب اس آرٹیکل کا یہ تھا حماس کی قیادت نے جانتے بوجھتے ہزاروں لوگوں کو ہلاکت میں ڈالا اور یہ لوگ سیرت نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتے ہیں۔ ایسے ہی اعلیٰ و ارفع خیالات کا اظہار جناب نذیر ناجی صاحب بھی اکثر و بیشتر کرتے رہتے ہیں۔اور صرف یہ دو اصحاب ہی نہیں بلکہ نام نہاد دانشوروں کی ایک فوج ظفر موج ہے جو کہ مسلمانوں کو اللہ کے بجائے امریکہ اور بھارت اور ہر طاقتور سے ڈرنے کا سبق دیتے رہتے ہیں۔اور ان کی باتوں کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ جہاد، یا مزاحمت کی بات کرتے ہیں دراصل ان کو کوئی شعور نہیں ہے۔اور پہلے ہمیں اپنی معیشت اور تجارت کو بہتر بنانا چاہیے اور اسی طرح کی دوسری باتیں، اور پھر ان باتوں کے حق میں سیرت نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مثالیں پیش کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ جناب رؤف کلاسرہ اور نذیر ناجی صاحب میرے بزرگ ہیں اور میں ان کے سامنے طفل مکتب ہوں اور ان کے علم اور مطالعے پر مجھے کوئی شبہ نہیں ہے، لیکن سیرت کا کچھ مطالعہ جو ہم کیا ہے اس سے ہم نے جو حاصل کیا وہ ہم آپ سامنے پیش کریں گے۔

نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکے میں تیرہ سال تک صبر و تحمل کے ساتھ دعوت دین کا کام کیا اور اس دور میں مسلمانوں نے تمام تکالیف برادشت کیں لیکن زرا غور کیجیے سن ٢ ھجری میں جب کہ مدینہ میں ایک مسلم ریاست وجود میں آچکی ہے اور اس نئی ریاست میں ابھی استحکام نہیں آیا ہے کیوں کہ ایک تو منافقین کا مسئلہ درپیش ہے اور دوسری طرف یہودی بھی ہمسائے ہیں۔اسی دوران بدر کا معرکہ پیش آتا ہے اور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں،یہ بات دھیان میں رہے کہ اسلامی ریاست ابھی نو آموز ہے، طاقت کا کوئی توازن نہیں ہے ایک طرف تین سو تیرہ مسلمان ہیں اور دوسری طرف ایک ہزار کا لشکر ہے یعنی ایک اور تین کی نسبت ہے اور یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ مسلمانوں کے لشکر میں تمام افراد بالغ بھی نہیں تھے بلکہ کچھ نو عمر بچے بھی اس لشکر میں شریک ہیں کفار کے پاس سو گھوڑے ہیں جب کہ مسلمانوں کے پاس صرف دو گھوڑے ہیں لیکن ان تمام باتوں کے باوجود آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاد کو ترجیح دی اور پھر اللہ نے مسلمانوں کو فتح نصیب کی۔ میں اس واقعہ سے یہ سمجھتا ہوں کہ جب مسلم ریاست وجود میں آجائے تو اس کے بعد دین اسلام پر اگر مشکل وقت آجائے تو پھر کوئی حیلہ بہانہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ دستیاب قوت کے ساتھ باطل سے ٹکرا جانا چاہیے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔

آئیے آپ کو ایک اور واقعہ سناتا ہوں یہ سن ٦ ھجری ہے کفار مکہ اور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوجاتا ہےاس معاہدے میں ایک شق یہ بھی ہے کہ جو مسلمان مکہ سے مدینہ آئے گا اسے واپس نہیں کیا جائے۔ عین اسی دوران حضرت ابو جندل رضیٰ اللہ تعالیٰ عنہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے مکہ سے کفار چنگل سے فرار ہو کر آتے ہیں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم معاہدے کے مطابق ان کو واپس کردیتے ہیں۔

کچھ عرصے کے بعد ایک اور صحابی حضرت عتبہ بن اسید مکہ سے بھاگ کر مدینہ آتے ہیں۔ قریش مکہ کے دو نمائندے آکر نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کو حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں آپ معاہدے کے مطابق ان کو واپس کرتے ہیں وہ واپس جاتے ہیں لیکن مدینہ اور مکہ کے درمیان ایک جگہ مقام حلیفہ میں ایک کافر کو قتل کرکے واپس مدینہ آتے ہیں اُس کافر کا دوسرا ساتھی بھی مدینہ آکر دوبارہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت عتبہ کی حوالگی کا مطالبہ کرتا ہے تو حضرت عتبہ نے حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ معاہدے کے مطابق آپ مجھے واپس کر چکے ہیں اس لیے آپ کے اوپر اب اس بات کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اور پھر یہ صحابی سمندر کے کنارے مقام عیص میں اپنا مسکن بنالیتے ہیں جب مکہ میں کفار کے شکنجے میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کو علم ہوتا ہے کہ یہاں ایک ٹھکانہ ہے تو وہ بھاگ بھاگ کر وہا ں آنے لگتے ہیں اور کچھ عرصے میں وہاں ایک مختصر سی جمیعت اکھٹی ہوگئی اور پھر ان تمام مسلمانوں نے قریش کے تجارتی قافلوں پر حملے شروع کردیے اورآخر کار جو شق مسلمانوں پر سب سے زیادہ بھاری تھی وہی ان کے کام آئی اور قریش اس شق سے دستبردار ہوگئے۔اور ان مسلمانوں کو باقاعدہ مدینہ میں رہائش کی اجازت دیدی گئی۔اب میں اس واقعے کے بعد ایک سوال پوچھنا چاہوں گا کہ حضرت عتبہ بن اسید کافر کو قتل کرکے واپس آئے اور اس کافر ساتھی نے جب دوبارہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنا مطالبہ دہرایا تو کیا وہ صحابی نبی اکرم کے معاہدے کی پاسداری نہیں کرتے؟اور کیا نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو واپسی کا حکم نہیں دے سکتے تھے؟ لیکن دراصل اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب مسلم ریاست اور اس کے ذمہ داران اگر کسی ناگزیر معاہدے یا مجبوری کے باعث اگر خود کفر کے خلاف کچھ نہ کرسکیں تو پھر مسلم عوام اس بات کے مکلف ہوں گے کہ وہ ظلم اور کفر کے خلاف جدو جہد کر سکتے ہیں وہ کریں اور ریاست کو ان کی حوصلہ افزائی نہیں تو حوصلہ شکنی بھی نہیں کرنی چاہیے۔
اور لیجئے ایک اور مثال پیش کردی جائے یہ جو لوگ کہتے ہیں نہ کہ پہلے معیشت مضبوط کی جائے۔معاشی استحکام حاصل کیا جائے اور اس کے بعد مقابلے کی بات کی جائے۔ان کی نظر سے شائد سیرت کا یہ پہلو نہیں گزرا ہے

یہ واقعہ ہے سن نو ھجری کا مکہ میں اس وقت قحط سالی چل رہی تھی سخت گرمیاں ہیں اور مکہ کی معشیت کا انحصار صرف ان کھجوروں پر ہے جو کچھ ہی عرصے میں پکنے والی ہیں اس اثناء میں اطلاع ملتی ہے کہ رومی لشکر مدینہ پر حملہ کرنے والا ہے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کو مدینہ سے دور ہی روکا جائے۔اور لشکر کی تیاری کا حکم دیدیا جاتا ہے یہ دراصل بڑی آزمائش کا وقت تھا، سخت گرمی پڑ رہی ہے،قحط سالی کے بعد کچھ امید ہوچلی ہے کہ کھجوریں پکنے کے بعد یہ صورتحال تبدیل ہوجائے گی اور معاشی حالت کچھ بہتر ہوجائے گی۔ اہل ایمان اس آزمائش میں سرخرو ہوتے ہیں اور تیس ہزار کا لشکر مدینہ سے تبوک کی جانب روانہ ہوتا ہے۔اور مسلمانوں کی ہیبت اور جذبہ جہاد سے رومی سلطنت کا عظیم الشان ایک لاکھ کا لشکر مقابلے پر ہی نہیں آتا اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تبوک میں ایک ماہ کے قیام کے بعد واپس مدینہ آتے ہیں۔اس غزوہ میں منافقین اور مومنین کا کردار کھل کر سامنے آگیا تھا۔اس واقعہ سے مجھے یہ سبق ملتا ہے کہ معیشت اور حالات کی سختی اپنی جگہ لیکن اگر اسلام کو خطرہ لاحق ہو تو یہ سب باتیں ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ اور معیشت اور معاشی وجوہات کو بہانہ بنا کر جہاد سے منہ نہیں مورڑنا چاہیے۔

یہ چند مثالیں میں نے سیرتِ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیش کی ہیں ان تمام مثالوں کو سامنے رکھیں اور پھر یہ فیصلہ کریں کہ کیا آپ کا حماس کو مورود الزام ٹہرانا ٹھیک عمل ہے۔ کیا حماس نے ایک قابض قوت کی کھلی جارحیت کی مزاحمت کر کے غلط کیا ہے؟اور حکمت کا تقاضہ یہی ہے کہ کسی بھی قابض اور ظالم قوت کو مصلحت، حکمت طاقت کا توازن نہ ہونے کا جواز پیش کر کے جارحیت اور ظلم کی چھوٹ دیدی جائے؟ اور کیا یہ حقیقت نہیں ہے ہے کہ حماس نے آپ جیسے کرم فرماؤں کی تنقید کے بعد بندوق چھوڑ کر انتخابات کا راستہ اپنایا تھا اور ظالم اور جابر قوتوں اور یہودیوں کو یہ بھی گوارہ نہ ہوا۔اور کیا یہ حقیقت کلاسرہ صاحب کی نظروں سے اوجھل رہی تھی اسرائیل نے ایک سال سے زائد عرصے سےغزہ کا محاصرہ کیا ہوا تھا اور ایک سال تک حماس صرف افہام و تفہیم اور مذاکرات کے ذریعے ہی ان مسائل کوحل کرنا چاہ رہا تھا ؟یقیناً یہ تمام باتیں اور حقائق جناب رؤف کلاسرہ اور دیگر اہل علم اور صحافی حضرات کے علم میں تھیں اس کے باوجود انہوں نے حماس کو مورود الزام ٹہرا کر دراصل غلطی نہیں بلکہ بد دیانتی کی ہے۔

اور آخر میں میں ان تمام حضرات سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ آپ حضرات کو افہام و تفہیم سے متعلق تو نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات اور آیات قرآنی تو مل جاتی ہیں لیکن کیا کبھی آپ کی نظر سے جہاد،اور منافقین کے متعلق کوئی آیت پرھنے کا اتفاق نہیں ہوا؟میں آخر میں ایک حدیث نبوی سنا کر اپنی بات ختم کرونگا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کے تین درجے ہیں پہلا درجہ یہ ہے کہ اگر کسی برائی کو دیکھے تو اپنے ہاتھ سے روکے اگر ہاتھ سے نہ روک سکے تو پھر زبان سے روکے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو پھر کم ازکم دل میں اسے برا جانے اور فرمایا کہ یہ ایمان کا کمزرو ترین درجہ ہے ۔

نوٹ: اس آرٹیکل کی تیاری میں علامہ شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی صاحب کی تصنیف سیرت النبی صلیٰ اللہ علیہ آلہ وسلم سے مدد لی گئی ہے
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1457947 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More