ہمارے ”اپنے رویے“

ملک عظیم میں طرح طرح کی پریشانیاں میں مبتلا عوام اپنے مسائل کے حل کے لئے احتجاج در احتجاج کرتے رہتے ہیں اورہر وقت حکومت وقت کو کو ستے رہتے ہیں کہ وہ ان کے مسائل حل کر نے میں سنجیدہ نظر نہیں آ تی اور نہ ہی ان کی توقعات کے مطابق حکومت وقت ترقیاتی کام کر واتی ہے تا کہ ملکی عوام ترقی یافتہ ممالک کی عوام کی طرح اپنے ملک میں ان سہولیات سے فائدہ اٹھا سکے جو ترقی یافتہ ممالک کی عوام اٹھاتی ہے اور حکومتوں کی بھی شروع دن سے ہی بد قسمتی رہی ہے کہ وہ عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے امریکی غلامی اور وفاداری حاصل کر نا اپنے لئے ضروری تصور کرتی رہیں اور آ ج ملک کے حالا ت اس جگہ ہیں کہ ہر طرف بحران ہی بحران سر اٹھائے ہر آنے والی نو منتخب حکومت کو پریشانی میں مبتلا کر تے ہیں اور نو منتخب حکومت عوام کو سہولیات دینے اور ان کے مسائل کو حل کر نے کی بجائے ہر کا م کا مداوہ پچھلی حکومت پر ڈال کر خو د کو ”مظلوم “ ثابت کر نے میں جتی رہتی ہے مگر آ ج معاملہ حکومت کے آ نے اور جانے کا نہیں بلکہ اپنے ملک کی غیور عوام کے رویوں کا ہے جو اپنے ملک کی حکومتوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بننے کی بھرپور کوشیش کر تی رہتی ہے اور احتجاج ہی احتجاج اس کا مقد ر بنا دیتی ہے مگر خود اپنے گھر کے باہر گلی کی اینٹ بھی خود نہیں لگوا تی( لگاتی) ۔ گلی کے سامنے ایک اینٹ بھی اکھڑ جائے تو اسے لگانے کی بجائے حکومتی اہلکاروں اور اداروں کی محتاج بن جا تی ہے اور یہی امید لگائے رکھتی ہے کہ ”آ ج نہیں تو کل “ حکومت اسے یہ سہو لت فراہم کر دے گی کہ وہ ان کی گلی پھر سے پکی کر دے گی اس سے اور بدقسمتی کیا ہو گی کہ ہر وقت حکومت کو کوسنے والے اپنے گھر کے سامنے ایک اینٹ نہیں لگا سکتے اور کو ئی ان سے یہ تو پوچھے کہ جس طرح یہ ہرکام کا ملبہ حکومت پر ڈال دیتے ہیں اورہر کا مکے پچھلے امریکی ”ہاتھ“ تلاش کر تے ہیں کیا یہ لوگ خود ملک سے وفادار ہیں؟؟؟ غیور تو ہیں مگر اما نت دار بھی ہیں؟؟محنتی ہیں مگر ٹانگ کھینچے میں بھی کسی کا ثانی نہیں رکھتے اورتو اور اپنے گھر کو تو صا ف کر لیتے ہیں مگر ہمسائے کے گھر کے سامنے اپنے گھر کی گندگی کا ڈھیر لگانا اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں( راقم نے تو یہاں تک دیکھاہے کہ آ ج کل گلیوں میں ہر گھر کے آ خر میں ناکاسی آ ب کی نالیوں میں ایک ایک اینٹ رکھی گئی ہے کہ پچھلے گھر کی گندگی ہمارے گھر کے سامنے والی نالی میں نہ آ ئے ) بات ابھی یہاں ختم نہیں ہو ئی کوئی یہ تو بتائے کہ ہم اپنے ملک کے 18کروڑعوام کے مسائل کا رونا روز سیاسی جماعتوں کے جلسے و جلسوں میں عوام کی تعداد دیکھ کر کرتے ہیں کیا ان مسائل میں ہمارے محبوب دل لیڈر شامل ہیں ؟؟ کیا وہ سرمایہ دار لیڈر اپنی ملوں اور فیکٹریوں سے غریب عوام کے مسائل کے حل کے لئے کوئی عملی اقدامات بھی اٹھا تے ہیں یا صرف جلسوں میں عوام کو جھوٹے دلا سے دیتے ہیں شاید ان سب باتوں کا جواب ناں میں ہی ہو گا چلیں لیڈروں کی بات چھوڑیں بات پھر عوام پر لے آ تے ہیں عوام اپنے ”رویے “تو دیکھے جو آ ج تک بے ایمانی سے بھرپور نظر آ تے ہیں عوام اپنے محبوب ملک کی عوام کو (نسل کو) کو ن سے غذا صحت بخش اور خالص فراہم کر رہی ہے مرچوں میں بورا ہم ڈالتے ہیں ۔ جعلی ادویات ہم فخر سے بناتے اور بیچتے ہیں مو ت کو ا ٓسان ہم نے کر دیا ہے ۔ غیر معیار ی مصالحہ جات ، چائے کی پتی، گھی، کوکنگ آ ئل غرض ہر چیز میں ملا وٹ ہم کر تے ہیں کیا ان بے حسیوں ، بے رحمیوں کی ذمہ داری بھی ہماری حکومت وقت پر عا ئدہو تی ہے؟؟ نا بابا جی نا! یہ ”ہمارے اپنے رویے “ ہی ہیں کہ ہم نے اپنے لئے دولت کو سا نس سے بھی زیادہ ضروری قرار دینا شروع کر دیا ہے اور اسے پا نے کی ”جستجو“ میں جا ئز و ناجائز کا تصور ختم کر دیاہے اور اپنے کا موں کا پتہ نہیں ہوتا دوسروں پر کڑ ی تنقید ہمارا فرض اولین بن گیاہے غرض دوسرے کی آ نکھ کا بال نظر آ تا ہے مگر اپنی کا شہتیر بھی نہیں آ تا اور اسی لئے فرمان ہے کہ
”جیسی قوم ہو گی ویسا اسے حکمران ملے گا“

آ ج ہم اخلاقی بحران میں گرفتار ہو چکے ہیں اور ہر اچھے بر ے کی تمیز کے بغیر اپنے لئے دولت کے انبار لگانے کی جستجو میں مگن ہیں اور اپنے رویوں کی وجہ سے معاشرے کو گروہوں میں بانٹے جا رہے ہیں جس سے ملک میں انتشار اور انارکی پھیلنے میں شدت آ تی جا رہی ہے اس لئے اگر ہم اپنے ملک میں حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں اپنے ملک کو ترقی یافتہ اور باحیثیت قوم کے فرد کا خواب دل میں لئے بیٹھے ہیں تو آج سے ہمیں با حیثیت قو م کے فرد کی طرح عہد کر نا ہو گا کہ ہم اپنے دل میں موجود تمام کی تمام اخلاقی برائیاں ختم کر تے ہیں اور بحضور ا للہ تعالٰی ان سے معافی مانگتے ہیں اور پچھلے کئے ہو ئے گناہو ں اور غلطیوں کی معافی مانگتے ہو ئے ایک نئے پاکستان کے لئے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کر نا شروع کر یں انشااللہ بارش کے ایک قطرے سے شروع ہو نے والی بر سا ت جیسے کھیت کو زندگی دیتی ہے اسی طرح ہمارے معاشرے میں موجودبرائیوں کا خاتمہ ہو جا ئے گا اور ایک چمکتا ہوا نیاءپاکستان ہم اپنی آ ئندہ آنے والی نسلوں کو تحفے میں دے سکیں گے بشرطیہ کہ ” ہمارے اپنے رویے “ملک سے وفادار ہوں-
Muhammad Waji Us Sama
About the Author: Muhammad Waji Us Sama Read More Articles by Muhammad Waji Us Sama: 118 Articles with 120369 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.