عوام کی تذلیل ،آئینی مدت کی تکمیل

ہفتے کے روز ملک کے بڑے شہروں میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کے خلاف زبردست پُرتشدد مظاہرے ہوئے جن میں جلاﺅ گھیراﺅ کے بعد ایک شخص ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے۔دوسری طرف بجلی کی ماری عوام کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید 7.62 روپے فی لیٹر اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو نے پہلی مرتبہ ملک کو ایک متفقہ آئین دیا اور عوام کو سیاست کا سر چشمہ قرار دیا ۔وزیراعظم کا فرما ن بجا لیکن اُنھیں بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جمہوریت صرف عوام کے ووٹوں سے برسراقتدارآنے اور آئینی مدت اقتدار پوری کرنے کا ہی نام نہیں ،یہ پورا نظام ہے جس میں آئین و قانون کی عمل درآمدی اور عوام کے مسائل کو اولین ترجیح قرار دیا جاتا ہے۔صرف اِسی طرح حکمران عوام کے اعتماد پر پورا اُتر سکتے ہیں ،موجودہ حکومت عوام کے مسائل حل نہیں کر پائی اِسے اس کی طرف بھرپور توجہ دینا ہو گی کیونکہ آج کے ماہرین کا کہنا ہے کہ معیشت ہی سیاست کا رُخ متعین کرتی ہے۔جو ملک معاشی طور پر کمزور ہو وہاں جمہوریت نہیں چل سکتی۔بلاشبہ عوام نے آپ پر اعتماد کرتے ہوئے آپ کو ایوان اقتدار تک پہنچایا لیکن آپ نے لوڈ شیڈنگ کے طوفان ،جان ومال کے عدم تحفظ،غربت و افلاس کے خاتمے ،روزگار کے مواقع مین اضافہ کرنا اور عوام کے روزمرہ کے مسائل حل کرنے کی ٹھوس منصوبہ بندی کرکے اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے، یہی وجہ ہے کہ بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی قوم جمہوریت کی اہل ہی نہیں ہے،اس حوالے سے عوامی حلقوں میں یہ تاثر تقویت پکڑ رہا ہے کہ موجودہ حکمران نہ جمہوریت پسند ہیں نہ عوام کے ہمدرد ، کیا یہ حقیقت نہیں کہ حکمران نہ ہی قانون نہ ہی عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کر رہے ہیں؟جمہوریت کے نہایت اہم ستون میڈیا پر آئے روز ہونے والے حملے کیا جمہوری نظام کا حصہ ہیں؟ اگر عوام نے ووٹ دے کر آپ کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا تو آپ کو بھی عوام کو ساتھ لے کر چلنا چاہیئے۔عوام نے تو اپنا فرض ادا کر دیا لیکن آپ نے ہی انہیں نظر انداز کر دیا۔اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے کی بات بھی صرف ایک حد تک درست ہے۔ملک کی ایک اہم اور بڑی سیاسی جماعت کے ساتھ آپ کا اتحاد برقرار کیوں نہ رہ سکا؟ مختلف اداروں خاص طور پر عدلیہ کے ساتھ آپ کی محاذ آرائی اور کشمکش ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ماضی میں بعض اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کا گراف روز بروز بلند ہوتا جا رہ ہے۔عدلیہ اگر کسی نااہل بیوروکریٹ کو اس کے منصب سے ہٹانے کا حکم دیتی ہے تو آپ اسے اس سے بڑے عہدے پر فائز کر دیتے ہیں۔متعدد سرکاری محکموں میں کرپشن اور قومی وسائل سے لوٹی ہوئی رقوم وصول کرنے کا کہا جاتا تو آپ اس پر بھی عمل نہیں کرتے ۔اس حوالے سے یہ استفسار ہر گز مناسب نہیں کہ آخر رواداری سے آپ کی مراد کیا ہے،اتحادیوں کو ناراض نہ کرنا اور ساتھ لے کر چلنا بجا اور درست لیکن اگر اس سے ملک بھر کی عوام کے مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جائے تواسے رواداری کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ اگر آپ کی رواداری حقیقت پر مبنی ہوتی تو ملک کی سب سے بڑی جماعت آپ کی اتحادی ہونے کے باوجود آپ سے الگ نہ ہوئی ۔اگر آپ صرف چند اتحادی جماعتوں کو ان کے مفادات کو تحفظ فراہم کر کے انہیں ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں تو اسے وسیع تو قومی مفادات میں رواداری کا نام ہر گز نہیں دیا جا سکتا۔یہ ہر قیمت پر اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کی ایک کوشش ہے۔آپ نے پاکستان اور بھارت کے ایک ساتھ آزاد ہونے اور وہاں جمہوریت کے استحکام کی بھی بات کی ہے لیکن وہاں عوامی مفادات کو اولین ترجیح دینے اور جمہوریت کو مستحکم کرنے کا عالم یہ ہے کہ بھارتی وزیر ریلوے نے کرایوں میں معمولی اضافے کے خلاف بعض سیاسی جماعتوں کے ردعمل کے بعد اپنے عہدے سے استعفٰی دے دیا،جبکہ ہمارے یہاں اکثر وزراء کے طور طریقے محض اقتدار بچانے اور حکومت کو خوش کرنے کیلئے ہیں ،لہٰذا ماضی کا رونا رونے سے بہتر ہے کہ آپ مستقبل کی طرف دیکھیں،موجودہ صورتحال کو ٹھیک کریں اور قومی اداروں کو مضبوط کریں۔ادارے مضبوط ہوں گے تو ہی جمہوریت مضبوط ہو گی،صرف باتوں سے آئین کی حدود کے اندر رہنے کا عملی مظاہرہ ممکن نہیں۔بلاشبہ ماضی میں متعدد مرتبہ مارشک لاء لگتا رہا لیکن آپ کے چار سالوں میں تو انتہائی سنگین صورتحال میں بھی مارشل لاءنہیں لگا نہ اس کے لگنے کا کوئی امکان ہے۔عسکری قیادت نے ویسے بھی حکومت پر کوئی دباﺅ نہیں ڈالا ۔پیشن گوئی کے حوالے سے جو طاقت حکومت کو ختم کر سکتی تھی اس نے بھی ایسا نہیں کیا اور مارشل لاءکے نفاذ کی روایت اور طاقت کو ہر گز استعمال نہیں کیا،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ کی حکومت 5 سال کی آئینی مدت پوری کرنے والی ہے لہٰذا آپ کو عوام کے مسائل کے حوالے سے اپنا فرض ادا کرنا ہو گا۔بظاہر اداروں سے محاذ آرائی آپ کی پالیسی کا حصہ بن چکی ہے۔چنانچہ آپ نے ججوں کی بحالی کو یہاں تک لٹکائے رکھا کہ اپوزیشن کو اس کیلئے لانگ مارچ کرنا پڑا۔اگر آپ اقتدار سنبھالنے کے فورا بعد انہیں بحال کر دیتے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا۔بھارت میں جمہوریت کے استحکام کا اہم سبب حکومت کی طرف سے تمام اداروں کا احترام، ان کے معاملات میں عدم مداخلت اور ان کے احکامات پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے،لیکن ہم معذرت کے ساتھ یہ کہنا چاہیں گے کہ ایگزیکٹو بار بار اپنی حداد سے تجاوز کی مرتکب ہو رہی ہے۔آپ سے بار بار یہ کہتے آ رہے ہیں کہ آپ اپنی کارگردگی کا ریکارڈ دیکھیں،آپ کے اچھے کاموں سے کسی کو انکار نہیں لیکن عوامی مسائل کو آپ نے سنگین سے سنگین تربنا دیا ہے۔محض کاغذی اصلاحات ا ور آئینی ترامیم عوامی مسائل کا حل نہیں ،عام آدمی کا تو مہنگائی،بےروزگاری جیسا ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہو پایا،آپ کو عوامی مسائل کے حل کیلئے تمام صلاحیتیں اور توانائیاں بروئے کا ر لانا چاہئیں تھیں لیکن آپ نے محض کاغذی اصلاحات کو اولین ترجیح قرار دینے کے ساتھ ساتھ عدکیہ سمیت کئی اداروں کے معماملات مین مداخلت کا رویہ اپنایا ،اب بھی آپ کو برسر زمین حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے عوام کے مسائل پر بھرپور توجہ دینے اور انہیں پائیدار بنیادوں پر حل کرنے کو مستقل پالیسی کے طور پر اختیار کرنا ہوگا۔
Naseer U Din
About the Author: Naseer U Din Read More Articles by Naseer U Din: 3 Articles with 2559 views Naseer-u-din is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in Urdu language. His most notable column "SACH KA SAAMNA.. View More