لوڈ شیڈنگ،توانائی کانفرنس اور ”ڈنگ ٹپاﺅ پالیسیاں“

قیام پاکستان سے ہی پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے ان دنوں سب سے بڑ ا مسئلہ مہاجرین کی آ باد کاری تھی اس کے ساتھ ساتھ آ نے والے لٹے پٹے قافلوں کے لئے ضروریات زندگی کی فراہمی اور رہائش کی فراہمی ہماری نومنتخب حکومت کو کرنا تھی ان مسائل کے ساتھ ساتھ ساتھ ہماری حکومت کو انگریز سرکار نے وہ زخم بھی دیئے جن کی بناء پر نہ تو پاکستان اپنے قدموں پر کھڑا ہو سکتا تھا اور نہ ہی اپنا الگ تشخص زیادہ دیر تک برقرار رکھ سکتا تھا اور ہندو بھی انہی مسئلوں اور کمیوں کی وجہ سے پاکستان پر فقرے کستے تھے کہ ”یہ پاکستان وکستان کچھ نہیں بس یہ مسلمانوں کا ایک جذباتی فیصلہ ہے جب مشکلات کا انبار ان کے سر پر پڑ ے گا تو ان کے ہو ش ٹھکانے آ جائیں گے اور پھر سے” متحدہ ہندوستان “میں شامل ہو جائیں گے “ کیو نکہ انگریز سر کار نے ہندو بنیوں سے مل کر ایک طرف تو پسماندہ پاکستان ہمارے حوالے کیا تو دوسری طرف نہ تو ہمارے حصے کے حساب سے بنک دیئے نہ فیکٹریاں نہ ریلوے کا سامان اور نہ ہی ریلوے اس کے ساتھ ساتھ نہ تو اسلحہ اور نہ ہی اسلحہ بنانے والے کارخانے پورے دیئے نہ حکومتی مشینر ی اور نہ حکومت پاکستان کے حصے میں آ نے والا خزانہ دیا بلکہوہ بھی وہ کھا گئے اور جو ”صندوق“ خزانے کا کہہ کر بھیجے گئے ان میں سے مٹی اور بجری نکلی جو انگریز اور ہند و بنیئے کی ایک مہذب چال تھی مگر اس کے باوجود قائد اعظم اور ان کے رفقاءکا رنے بھرپور دل جو ئی اور جا ن فشانی سے کام کر تے ہوئے نہ تو ان مہاجرین کوبکھر نے دیا اور نہ ہی ان کو گروپوں میں تقسیم ہو نے دیا بلکہ ایک سچا اور پکا لیڈ ر ہو نے کا بھرپور ثبوت فراہم کیا اور ملک کے اتنظامی امور چلانے کے لئے اپنے ہی لوگوں کو ہمت دی اور چھوٹے عہدوں پر فائر لوگوں کو اچھی پوسٹ پر نوکری دی انکو ہر ممکن مدد فراہم کی اور ان لوگو ں کو ممکن حد تک جگہ بھی فراہم کی اور اسی کمی اور بے سر و سامانی کے عالم میں کسی افسر کو کرسی نہ ملی اور کسی کو قلم نہ ملا بلکہ لکھنے کے لئے مرغ کا پرَ ملا مگر پھر بھی جدوجہد اور ہمت سے پاکستان کی ابتدائی مشکلات ومسائلپر قابو پالیا گیا اور ان مشکلات پر قابو پانے کے لئے ہمارے لیڈ ر اور بابائے قوم محمد علی جناح نے اپنی بیماری کی حالت میں کام جاری رکھا اور اسی بیماری کی حالت میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے مگر ان کے بعد میں آ نے والے لیڈ روں نے ان کے نقش قدم پر چلنا مناسب نہ سمجھا اور نہ ہی وہ عزت و وقار اور تشخص برقرار رکھ سکے جس کی وجہ سے عوام میں پریشانیاں اور اشتعال انگیزی پھیلنے لگی اوپر سے حکومتی اقدامات جو عوام کو ریلیف فراہم کر نے کے لئے ہو نے چاہیئں تھے وہ بھی عوام کش بننے لگے اور آ ج 64سال کا ”بوڑھا پاکستان“ خو د اپنے اوپر اور اپنی عوام کی حالت دیکھ کر خون کے آ نسورو رہاہے کہ کیا یہی وہ طرز حکمرانی ہے جس کے لئے ہمارے آباﺅ اجداد نے قربانیاں دی ہر کسی نے اپنا خون جگر ،عزت ،بچے اور مال و جان دے کر مجھے حاصل کیا اور اپنی عوام کو اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کا حوصلہ اور حکم دیا نہیں ۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ بلکہ اس وقت تو ملک میں جو طرز حکمرانی قائم ہے وہ ہندو بنیئے اور انگریز کی طرز زندگی کی طرز پر نظر آتا ہے قیام پاکستان سے قبل ہندو بنیئے حرام کمائی کر تے ہوئے اور قرض دے کر عوام کو ذلیل کر تے تھے مگر آ ج اپنے ہی ملک میں مسلمان حکمران گیس بجلی کی لو ڈ شیڈ نگ سے اپنی عوام کوتنگ کر رہے ہیں اور ہر آ نے والے نے اپنے تو 5سال پورے کر لئے مگر ملکی عوام کے مسائل جو ں کے توں رہے بلکہ ان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوا اور موجودہ حکومت بھی اپنے سے پچھلی حکومت کو ہر بات کا الزام دے کر خود کو صرف عوام کی پارٹی کہہ کر مسائل سے توجہ ہٹانے میں مصروف عمل نظرآتی ہے اور پرویز مشرف کو کوستی نظرآ تی ہے کہ انھوں نے اس ملک کے لئے کچھ نہیں کیا بلکہ وہ ایک ڈکٹیٹرتھے جو ملک کو کمزور کر گئے مگر عوام یہ پوچھتی ہے کہ ساڑھے چار سال سے آپ نے ملکی مسائل کے حوالے سے کیا کیا ہے ؟

اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رکھنے والی ہے کہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں ایک گھنٹے بجلی کی لو ڈ شیڈ نگ ہو تی تھی تو اگلے دو گھنٹے بجلی ملتی بھی تھی جس کی وجہ سے صنعتوں میں کچھ جان تھی مگر موجودہ حکومت میں اگر ایک گھنٹہ بجلی ملتی ہے تو یا تو وہ کم ووٹ ہو تی ہے یا اگلے 5/5گھنٹے بند رہتی ہے جب کہ عوام کا یہ بھی کہناہے کہ اگر مشرف ڈکیٹر تھا تو اس دور کے حالات آ ج کے حالات سے ہزار گنا بہتر تھے بلکہ ایک ڈکٹیٹر اور بھی تھا جسے دنیا ایوب خان کے نام سے جانتی ہے اور یہ تمام ملکی ترقی، ڈیم اور معاشی و اقتصادی ترقی جتنی ان کے دور حکومت میں ہو ئی تھی وہ آ ج تک کسی کے دور میں نہیں ہو ئی اور باقی تمام حکمران صرف بیانوں سے ہی عوام کو ترقی کے ثمرات بتاتے رہے اور موجودہ حکومت نے بھی ان مسائل کی طرف کو ئی توجہ نہیں دی بلکہ اپنے پاس موجود وسائل کو بھی صحیح طور پر استعما ل نہیں کیا جس سے حالات دن بدن بدتر سے بدترین ہو تے جا رہے ہیں اور حالیہ ہو نے والی توانائی کانفرنس بھی مکمل طور پر ناکام نظرا ٓ ئی جب اس کانفرنس کے بعد پورا ملک 20گھنٹے سے زیادہ تک اندھیرے میں ڈوبا نظر آیا اور اس کے ساتھ ساتھ موجودہ توانائی کانفرنس میں بتائی گئیں تجاویز جن پر ہماری حکومت نے عمل درآمد کا حکم نامہ جاری کیاہے تمام کی تمام وقت گزاری اور ”ڈنگ ٹپاﺅ پالیسیاں“ محسوس ہو تی ہیں کیو نکہ عوام کے مطابق جب ہمارے مالیاتی ادارے دو دو دن بند رہیں گے تو ہم ساری دنیا سے کٹ جا ئیں گے جس کی وجہ سے ہمار ے ملک کے لین دین پر بہت بھیانک اثرات مرتب ہو نگے اس کے ساتھ ساتھ صنعتوں کو گیس نہیں ملے گی تو ان کی چمنیوں سے دھوں کہاں سے نکلے گا اس کے ساتھ ساتھ ملک کی تمام مارکیٹیں شام آ ٹھ بجے بند کر دینا کو ن سی حکمت عملی ہے جب کہ گرمی میں لوگ شام کے بعد اپنے بچوں کے ساتھ شاپنگ کرنا زیادہ پسند کر تے ہیں اور دوکاندار حضرات بھی اسی وقت کے انتظار میں ہو تے ہیں جب کہ بل بورڈ ز اور سائن بورڈز کو بجلی کی فراہمی روک تو لیں مگر اشتہاری اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو جب زیادہ منافع نہیں ہو گا تووہ ہمارے ملک کو ٹیکس کہاں سے زیادہ ادا کر یں گی جب کہ ان سے زیادہ ٹیکس حاصل کر نے کے لئے ہمیں بھرپور کوشیش کر نی چاہیئے اس کے ساتھ ساتھ صارفین کو انرجی سیور دینا کون سے اس مسئلے کو حل کر نے کی طرف اقدام ہے یہ تو بچگانہ سی بات لگتی ہے پن بجلی کے منصوبوں کو شروع کر نا ایک مستحق اقدام ہے جب کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا واجبات کی فوری ادائیگی کا فیصلہ بھی ان مشکلات کو سمجھنے اور حل کر نے کی طرف قدم مانا گیاہے جب کہ دوسرے ذریعے سے بجلی پیدا کر نے کے اقدام کو بھی عوام قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے نجلی شعبے کو اس طرف راغب کر نا بھی اپنے ملک کے لئے اور اس عوام کے لئے بہترین فیصلہ ہے۔ان تمام پالیسیوں میں سے کچھ تو ڈنگ ٹپاﺅ اور کچھ ملک کے مفاد میں بہترین فیصلہ تسلیم کیا جا رہا ہے مگر اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری حکومت ملک کے مسائل کو حقیقی طور پر سمجھے اور ان کو حل کر نے کے لئے جامع پالیسی اپنائے اور اپنے ملک کے عظیم تر توانائی کے منصوبے کالا باغ ڈیم جس کی فیزبلٹی رپورٹ پرکروڑوں روپے خرچ ہو چکے ہیں کو شروع کرے اس کے ساتھ ساتھ توانائی کے منصوبوں میں کرپشن کر نے والوں کو سامنے لائے اور ان کے پیٹوں سے پیسے نکلوا کر ان پیسوں کو واپڈا، آ ئی آ ئی پی پیز کو دے اسی کے ساتھ ساتھ اس پیسے کو بجلی پیدا کر نے کے لئے تیل فراہم کر نے والے ادارے پی ایس او کو بھی دیا جا سکتا ہے نہروں پر چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنا کر ہزاروں واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے اور یہ جلدی بھی مکمل ہو سکتے ہیں اور یہ کام صوبوں خود کر یں یہ ان کے لئے بہترین اقدام ہو گا شمسی توانائی اور پا نی کے ساتھ بجلی پیدا کر نے کے ساتھ ساتھ ونڈ انرجی حا صل کر نے کے لئے اقدامات کر نے چاہیئں اور اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ثمر مبارک کے دیئے گئے پروگرام سے کوئلے سے بھی ہزاروں میگا واٹ بجلی پیداہو سکتی ہے اور ان سب سے بڑ ھ کر ہمارے ہمسایہ ملک چین جس کے بارے میں ہمارے دونوں اطراف کے حکمران پاک چین دوستی کو کوہ ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری قرار دیتے ہیں اس سے بھی سستی ترین بجلی خریدنی چاہئے تاکہ عوام کو سستی بجلی فراہم کی جا سکے اور اس سے مہنگائی کے عذاب کو بھی کم کرنے میں مدد ملے گی کیو نکہ چین اوپر بیان کئے گئے تمام منصوبوں سے بھی سستی بجلی دینے کا کہہ رہا ہے تو پھر دیر کس بات کی ہے اس سے جلد از جلد خریدنی چاہیئے۔اور ان سب سے آ خر میں ہماری وفاقی و صوبائی حکومتوں کو اپنے غیر ضروری اور غیر ترقیاتی کاموں سے اپنا خزانہ بچانا ہو گا جیسے کہ ہمار ے حکومتی اشتہارات جو دن بدن اخبارات میں چھپتے رہتے ہیں ان کو کم سے کم کرنا ہو گا اور اس رقم کو بھی توانائی بحران سے بچانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے جیساکہ توانائی کانفرنس کے بعد کے اشتہارات(توانائی کانفرنس کے حوالے اوراس کے فیصلوں کے حوالے سے اشتہارات) کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے اشتہارات بھی شامل ہیں جن کی ایک دن کی ما لیت کروڑوں میں ہو تی ہے ا سے بچا کر اس پیسے کو بھی توانائی بحران سے نکلنے کے لئے استعمال کیا جا سکتاہے٭٭٭٭٭٭
Muhammad Waji Us Sama
About the Author: Muhammad Waji Us Sama Read More Articles by Muhammad Waji Us Sama: 118 Articles with 120371 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.