لولاک کی اقداری اور جمالیاتی معنویت و اہمیت

اکیسویں صدی کے ما بعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک کے ادبی تناظر میں چندر بھان خیال ایک اہم اور فکر افروز شاعر ہیں۔ لولاک میں چندر بھان خیال کی نِت نئی بصیرت افروز اور جمالیاتی کیف افزا نظمیہ تخلیقیت کی تصویر نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ چندر بھان خیال بُنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں۔ اُن کا اوّلین مجموعہ کلام ”شعلوں کا شجر“1979ءمیں منظرِ عام پر آیا۔ جس میں اُن کا اقداری شعور،فنّی حسن اور شاعرانہ کمال پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ اُن کے پہلے نظمیہ مجموعہ کلام میں حقیقیت نگاری، صداقت اور رومان کا حسین اور دلکش امتزاج ملتا ہے۔نظمیہ کلام کا دوسرا مجموعہ ”گُم شدہ آدمی کا انتظار“1997ءمیں شائع ہوا۔ اس کے بعد چندر بھان خیال کی معرکہ آرا نظم سیرت نبویؑ پر مبنی ”لولاک“ 2002ءمیں منظرِ عام پر آئی اور جس کی پذیرائی ادبی حلقوں میں خوب ہوئی ہے۔ آخری شعری مجموعہ ”صبحِ مشرق کی اذاں“ 2008ءمیں شائع ہواہے۔

زیرِ نظر نظمیہ تخلیق ”لولاک“ اکیسویں صدی کے اس ما بعد جدید دور میں نئی تخلیقیت افروزوجودیاتی اور عرفانیاتی معنویت اور وقعت کی امین ہے۔ حضرت محمدؑ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے اہم سوانحی ، تواریخی،اخلاقی اور روحانی حقائق کا بیان چندر بھان خیال نے نہایت والہانہ محسوسات و تصوّرات کے ساتھ نئے اور انوکھے نظمیہ پیرائے میں بڑے ہی فنّی لطافتوں کے ساتھ ادا کیا ہے۔ جس میں حضرت محمدؑ کی شخصیت،فکر اور پیغام کی روح کو بھرپور طور پر منکشف کیا ہے۔ ”لولاک“ کو چندر بھان خیال نے چھ حصّوں میں تقسیم کیا ہے۔ نظم کی ابتدا رسول اللہ کی ولادت با سعادت سے قبل کے واقعات و حالات سے ہوتی ہے۔ بعد ازاں ولادت،نبوّت،ہجرت،جہاد اور نصرت کا بیان نئے اور انوکھے نظمیہ رنگ و آہنگ میں بڑے ہی پُر کیف اور دلکش انداز میں بیان کیا ہے۔

چندر بھان خیال کی نظمیہ تخلیق ”لولاک“ اُردو ادب میں ایک بے بہا اضافہ ہے۔ انھوں نے اپنی اس مسلسل اور طویل نظم میں سیرت کے تمام پہلوؤں کا تفصیلی خاکہ پیش کرنے کی بھرپور سعی کی ہے۔”لولاک“ سے چندر بھان خیال کی فکر کی گہرائی، گیرائی اور اونچائی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔وہ منفرد لب و لہجہ ،منفرد رنگ و آہنگ،منفرد غور و فکر اور بے پناہ شدّتِ حسیات و تصوّرات کے شاعر ہیں۔ وہ کسی بندھے ٹکے نظرئے ،رجحان اور فکر کے اسیر نہیں ہیں بلکہ وہ سوچتے ہوئے دماغ،دیکھتی ہوئی آنکھوں اور محسوس کرتے ہوئے دل سے اپنے وجدانی تجربات کو نہایت شاعرانہ انداز میں منکشف کرتے ہیں۔

عرب تہذیب و ثقافت کی بابت چندر بھان خیال کا مطالعہ بہت وسیع اور وقیع ہے۔ انھوں نے اپنی نظمیہ شاعری کے ذریعہ رسول اللہ کی وجدانیات اور عرفانیات کو کے نہایت فصیح ،بدیع اور بلیغ انداز میں بیک وقت بیاں اور نہاں کیا گیا ہے۔ ان کی نظمیہ خارجی ساخت سے زیادہ داخلی ساخت معنی افروز ہے۔ نظم کی ابتدا چندر بھان خیال نے رسول کی ولادت سے قبل عرب اور اہلِ عرب کے حالات سے کی ہے۔چندر بھان خیال نے” لولاک“ میں نبی کی ولادت کا ذکر بڑے آن بان اور شان کے ساتھ کیاہے۔ جاہلیت کے تاریک عہد کے پسِ منظر میں نبیؑ اکرم نے اپنے پیغمبرانہ سیرت اور کردار و عمل سے عرب کے لوگوں کو بیدار کیا اوراللہ کے سچّے دین کی طرف مائل کیا۔ نبیؑ نے پوری کائنات میں امن و امان کے پیغام کو پھیلایا۔سر زمینِ عرب کو رسول کے آنے کا انتظار تھا۔ چاہے انسان ہو یاچرندوپرند،زمین و آفتاب ہو یاندی وپہاڑ،شجرہو یا گُل سب کو محمدؑ کی ولادت کی خبر تھی۔پوری کائنات اُن کے آنے کا استقبال کر رہی تھی۔ ولادت کے باب میں چندر بھان خیال نے وجدانی تصوّرات کے پیکر میں رسول کے آنے کی تصویر بڑے ہی والہانہ انداز سے پیش کی ہے۔ اس ضمن میں چند اشعار خاطر نشان ہو:
صاحبِ کتاب آیا،لے کے پھر شہاب آیا
آ گیا یقیں سب کو اہلِ انقلاب آیا
شش جہات نے چوما،کائنات نے چوما
چاند جیسے چہرے کو سب صفات نے چوما
داعیوں کی بستی میں سر اُٹھائے پھرتا تھا
نقشِ حق چٹّانوں پر وہ بنائے پھرتا تھا
اور ریت کے ٹیلے سب پٹھار پتھریلے
باغ باغ لگتے تھے راحتوں کی لذّت سے
تھا فضا میں اُجلا پن اک نئی بشارت سے
وادیاں دھڑکتی تھیں قربتوں کی حدّت سے
اور ایک دن دیکھا شوہرِ حلیمہ نے
نونہال کا سینہ علم کا سمندر ہے
ہر کسی کو گھیرے تھے جلف کے گھنے سائے
سانپ جیسے مستی میں پھن اُٹھا کے لہرائے
مے پرست ہونٹھوں کی اس قدر بلا نوشی
انگ انگ بے خود اور بے حجاب ہو جائے
اک نبی کی آمد پر مسکرا اُٹھیں آنکھیں
شان میں محمدؑ کے گیت گا اُٹھیں آنکھیں
ایک ایک پتھّر اور ہر شجر تھا سجدے میں
آسمان پر سورج بیقرار تھا کب سے
چاند اور ستاروں میں اضطرار تھا کب سے
کب سے راہ تکتی تھی وادیوں کی خاموشی
اور سکوت شہروں کا دست بستہ بیٹھا تھا
کب رسول آئیں گے پربتوں نے پوچھا تھا
کب اذاں گونجے گی یہ سوال گونجا تھا
پھر بحیرا بول اُٹھا طفل ہے یہی جس میں
سب علامتیں روشن منتظر نبیؑ کی ہیں

اس ما بعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک کے منظر نامہ پر چندر بھان خیال زندہ،تابندہ ، پائندہ،کیف پرور اور فکر افروز شاعر ہیں۔ انھوں نے حضور حضرت محمدؑ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے سراپا کی تعریف امِّ معبد کے حوالے سے بڑے ہی پُر کیف انداز اور جمالیاتی بصیرت کے ساتھ منعکس کیا ہے۔ نبیؑ کے سراپے کا نقشہ چندر بھان خیال نے یوں کھینچا ہے:
چہرئہ پُر نور پر تابانی شمس و قمر
دن میں اجلا پن بکھیرے،رات کو روشن کرے
چودہویں کے چاند جیسا رات کی آغوش میں
دن میں جب دیکھو تو اُگتا آفتاب ایسا لگے
سر مگیں آنکھوں میں مستقبل کی روشن جھلکیاں
کالی پلکوں پر تھرکتا اک تمدّن شاندار
ابروئے باریک میں پوشیدہ سب کون و مکاں
امِّ معبد نے نبیؑ کا یوں کیا حلیہ بیاں
چہرئہ پُرنور جس کو جھانکتی زلفیںسیاہ
ابر جیسے عرشِ خوش پیغام سے لپٹے ہوئے
نرم اور شیریں لبوں پر گفتگو کی سادگی
جیسے الفاظِ دعا احرام سے لپٹے ہوئے
رنگ گورا،گول چہرے پر دمکتے سب نقوش
پُر اثر انداز سے ہر شئے پہ چشمِ ملتفت
لمبی گردن،پیٹ ہلکا اور سینہ سخت جاں
امِّ معبد نے نبیؑ کا یوں کیا حلیہ بیاں
درمیانہ قد نگاہوں کو بہت اچھّا لگے
سر سے پا تک پیکر پاکیزگی معلوم ہو
خوشبوئیں اوڑھے ہوئے مضبوط محنت کش بدن
جب چلے قدموں تلے دھرتی جھکی معلوم ہو

چندر بھان خیال نے نبیؑ کی صاف گوئی ،نرم گفتاری ،انکساری اور مخلصانہ اخلاق کی حقیقی تصویر کشی نظمیہ پیرائے میں بڑے ہی عقیدت آگیں اور والہانہ انداز سے پیش کیا ہے۔جو صداقت کا بہترین نمونہ ہے۔ اس سلسلے میں لولاک کے چند اشعارخاطر نشیں ہو:
مختصر دو ٹوک لیکن بات بالکل صاف صاف
نرم گفتاری مگر آواز بھاری پن لئے
جھوٹ اور مہمل بیانی سے نہ کوئی واسطہ
مدعا جو بھی ہو پر انداز بھاری پن لئے
انکساری کا سمندر اور بزرگی کا پہاڑ
اپنے باطن میں سمیٹے عاجزی اور عزم سے
لب ہلیں تو روشنی کا ایک دریا ہو رواں
امِّ معبد نے نبیؑ کا یوں کیا حلیا بیاں
اپنے گھیرے میں لئے رہتے رفیق و ہم نوا
یک سوئی کے ساتھ ارشادات سنتے آپ سے
حکم کوئی دیں تو سر گرمِ عمل ہو جائیں سب
اور پیامِ رب کی تشریحات سنتے آپ سے
شفقت و اخلاق سے آراستہ حسنِ سلوک
پیشوائی کا طلسم ایسا کہ سمتیں تابناک
ہر عمل،ہر قول سے ظاہر نبوت کے نشاں
امِّ معبد نے نبی ؑ کا یوں کیا حلیہ بیاں

غارِ حرا میں حضرت نبیؑ کے بیکراں روحانی استغراق کے باعث اُن کے عرفانی مکاشفہ میں حضرت جبریل امین کی آمد ہوئی۔وہ اللہ کی جانب سے پہلی وحی لے کر نبیؑ کریم کے پاس آئے تھے۔ اس ضمن میں چندر بھان خیال نے مکاشفاتی صداقت کونہایت عارفانی انداز میں پیش کیا ہے ۔ یہ معرفت افروز پیش کشی اُردو ادب میں نایاب تو نہیں البتہ کمیاب ہے۔چندر بھان خیال کی نظمیہ پیکر تراشی کے چند اشعار خاطر نشان ہو:
یہ غارِ حرا بھی شاہد ہے انساں کی نئی اونچائی کا
تحقیق کے تیشوں کی گرمئی افکار کی بزم آرائی کا
سینتیس برس کی عمر ہوئی جب نیک صفات محمدؑ کی
اس غار میں جا کر بیٹھ گئے اور فکر جہاں فرمانے لگے
اور دیکھ کے آپ کی محویت خلوت کو پسینے آنے لگے
اس گوشئہ تنہائی کی طرف عرفان کے جلوے جانے لگے
لفظوں کی تجلّی سامنے تھی بجلی سی فضا میں لہرائی
”دیکھو،یہ پڑھو“ اک بھاری صدا کانوں میں محمدؑ کے آئی
کی آپ نے ہمّت اور پوچھا”میں کیسے پڑھوں اور کیا میں پڑھوں“
یہ پوچھ کے پھر خاموشی سے اظہارِ کرامت پڑھنے لگے
پھر ہاتھ دبا کر آپ ؑ کا جب جبریلؑ عبارت پڑھنے لگے
لفظوں کی تجلّی سے ظاہر سن سن کے ہر آیت پڑھنے لگے
”لو نام اُس ربّ کا اور پڑھو جو خالق و مالکِ دنیا ہے
اک خون کے جامد قطرے سے انسان کو جس نے پیدا کیا
ہاں! ربّ ہی تمہارا خالق ہے،ہر جان کو جس نے پیدا کیا
سب علم دئے اور سیکھنے کے سامان کو جس نے پیدا کیا“
آیات یہ نازل ہوتے ہی ہر سمت اُجالوں کی بارش
ایمان کا نغمہ گونج اُٹھا ہر جانب ساری فضاؤں میں
جنگل جنگل،پربت پربت،صحراؤں اور دریاؤں میں
پہنائے فلک میں دور تلک سہمی سہمی سی دشاؤں میں
اعجاز کی حدّت میں لپٹے شعلہ شعلہ الفاظ نئے
لہراتے رہے،گرماتے رہے گھنٹی کی صداؤں کی صورت

جب نبیؑ مکہّ سے مدینہ ہجرت کرتے ہیں اور مدینہ پہنچتے ہیں تو وہ اسلامی تعلیم اور اخلاقیات پر زور دیتے ہیں۔ انھوں نے اپنے قوم کے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے انسانیت اور آدمیت ،دوستی اور بھائی چارے اور دینی تعلیم سے لوگوں کو روشناس کرایا۔اُسی جگہ پر آج مسجدِ نبویؑ تعمیر ہے۔ جہاں کافی بڑی تعداد میں لوگ ہر سال زیارت کے لئے جاتے ہیں اور منھ مانگی مُراد پاتے ہیں۔ چندر بھان خیال نے رسولؑ کی تعلیمات کو نظم کے پیکر میں ڈھال کر بڑی کامیابی اور ہنر مندی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
خیر مقدم اک تمدن اور اک تہذیب کا
اک سماجِ نو کی خاطر غیب کی ترغیب کا
آدمی بٹ جائے رنگ و نسل کی بنیاد پر
یہ کبھی اللہ کو منظور ہو سکتا نہیں
آدمی تو آدمی سے دور ہو سکتا نہیں
حکم ہے اس کا کہ جس نے سب کو پیدا کر دیا
آدمی کو آدمی سے پیار کرنا چاہئے
آپسی امداد پر اصرار کرنا چاہئے
سچ کا سب کے سامنے اظہار کرنا چاہئے
ہاں! مساوات و محبّت کے بنا یہ آدمی
رب کے فیضِ اصل سے محروم ہے سنسار میں
فیصلہ پھر ہو گیا اللہ کے دربار میں
اونٹنی بیٹھے نبیؑ کی جس کے سبزہ زار میں
وہ زمیں قیمت ادا کرکے خریدی جائے اور
ایک مسجد کی بنا ہو اس مقامِ پاک پر
در حقیقت ہو چکا تھا فیصلہ افلاک پر
آدمی قابض ہو سارے علم اور ادراک پر
با جماعت ہو عبادت اور اس کے ساتھ ساتھ
روز مرّہ زندگی پر بھی رکھی جائے نگاہ
مسجدِ نبویؑ کا مطلب ایک ایسی درس گاہ
بخش دے جو علم کی دولت سبھی کو بے پناہ

جب اہلِ مکّہ نبیؑ اکرم اور اُن کے ماننے والوں کے خون کے پیاسے ہو گئے اور اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے تودفاع کے طور پر انھوں نے اپنی اور اپنے ماننے والوں کے تحفظ اور بقا کے لئے نبیؑ اکرم نے جہاد کے عظیم تر تصوّر کودفاعی سطح پر مجبوراً پیش کیا اور جہاد کے رفیع مقصد،اہمیت اور افادیت پر انھوں نے زور دیا ہے۔ نبیؑ کے جہاد کا مقصد عہد حاضر کے جہاد سے نہیں ہے۔جہاد کا جو مفہوم اس دور میں بیان کیا جاتا ہے وہ بے بنیاد اور غلط ہے۔ نبی ؑکا جہاد اقوام کی فلاح اور بہبود کے لئے تھا۔ جس پر عمل کر کے انسان برائیوں سے پاک اور ایک بہتر انسان بن سکتا ہے۔ جہاد کا مقصد برائیوں کو دور کرنا اور فلاح و بہبود کے لئے ہوتا ہے۔ رسول کے جہاد کا مقصدپوری کائنات میںامن و امان ،دوستی ،محبّت ، اخوت،انصاف،کردار و اعمال کی تابانی اور بھائی چارے کو بڑھاوا دینا تھاتاکہ پوری کائنات میںقوم دین و ایمان کے راستے پر چلے اور انسانیت کا پرچم لہرا سکے۔ رسول کے جہاد کے مقصد کو بڑی وضاحت کے ساتھ چندربھان خیال نے شعری پیکر میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں چند اشعار ملاحظہ ہو:
اس جنگ و جہاد کا مقصد ہے باطل کی مکمّل پسپائی
گمراہ بشر کی راہبری،حق ِراہ کی ہمّت افزائی
بے دین کی دہشت گردی سے اُکتائے ہوئے دیں داروں کو
امن اور اماں کے سائے میں تبلیغ و سفر کی آزادی
اس جنگ و جہاد کا مقصد ہے توحید کو رفعت مل جائے
بے ہودہ رواجوں کی حامل آواز کو عبرت مل جائے
صحبتوں کا مقدس اُجلاپن،شاموں کی مبارک شوخ ادا
بیمار عقیدوں کی زد سے محفوظ رہے موسم موسم
اس جنگ و جہاد کا مقصد ہے انصاف کے گیسو لہرائیں
ہرفرد کی سانسوں کو رب کے پیغام ،خوشی سے مہکائیں
تفریق و تنفّر کی لعنت اور بارِ مظالم ِدنیا کو
اب اور نہ بانٹ کے رکھ پائے سود اور زیاں کے خانوں میں
تنظیم و تعاون کا جذبہ بیدار ہو سب انسانوں میں
اخلاص و وفا،برکاتِ رضا سب چھوٹے بڑے کاشانوں میں
اس قدر اٹھے ہر سینے میں ایثار و شہادت کا طوفاں
اوراقِ زمیں سے مٹ جائے تخریب صفت بدعنوانی
اس جنگ و جہاد کا مقصد ہے کردار و عمل کی تابانی
حکمت کی حقیقت کی شہرت،تخلیقِ جہانِ سبحانی
محتاج کو راحت کا ساماں،پسماندہ گروہوں کو وقعت
طاقت کے نشے میں ڈوبے سبھی سلطانوں کو عبرت حاصل ہو
اس جنگ و جہاد کا مقصد ہے اسلام کی ہلچل بڑھ جائے
وحدت کے اُجالے میں ہر سو ایّام کی ہلچل بڑھ جائے
مغرور تجارت پیشہ کی منحوس سیاست سے عاجز
معصوم و ملائم لوگوں کو چھٹکارا ملے وحشی پن سے
خوف اور ہراس کے پہرے سب اٹھ جائیں گھروں کے آنگن سے
قرآن پہ ایماں لے آئیں دنیا میں سبھی اُجلے من سے
اللہ کی طاقت اور عظمت،سرکار کی سبقت ثابت ہو
اُگ آئے زمیں کے سینے پر اقبالِ مکمّل کا عالم

نبیؑ نے اپنے آخری پیغام میں عوام کو جو نصیحت کی ہے وہ پوری کائنات کے لئے معنی خیز ہے۔ جہاں ایک طرف کفّار ِمکہّ کے قتلِ عام کا حکم صادر ہوتا ہے تو دوسری طرف حضور عوام کو پیغام دیتے ہیں کہ بوڑھوں کو نہ مارو،بچّوں کو نہ مارو،عورتوں کو نہ مارو،جو تمہیں دیکھ کر گھر کا دروازہ بند کر لیں ان کا دروازہ نہ کھٹکھٹاؤ،جو تمہیں دیکھ کر نظر نیچی کر لیں تم ان سے نظر بچا لو۔ حضور کے عالمِ انسانیت کے لئے امن و آشتی کا جو روح افزا اور برتراعلیٰ پیغام ہے اُس کو چندر بھان خیال نے بڑے ہی فکرانگیز اور پُر اثر انداز میں شعری پیکر میں ڈھال کر عوام کے سامنے بڑی سادگی کے ساتھ پیش کر دیا۔اس ضمن میں چند اشعار خاطر نشیں ہو:
رہو گے دین کے پابند دنیا میںتو دیکھوگے
ریاکاری،فریب و مکر سے تم دور ہو کوسوں
جہاں میں صرف راست پر جاری سفر رکھنا
مری ہر بات کو تم لوگ دل سے باندھ کر رکھنا
سبھی اولادِ آدم ہیں،سبھی کا حق بھی یکساں ہے
کسی بھائی سے اس کا مال جبراً چھین مت لینا
کُشادہ دامنِ دل، صاف اور ستھری نظر رکھنا
مری ہر بات کو تم لوگ دل سے باندھ کر رکھنا
غلاموں یعنی اپنے خادموں سے پیار کرنا تم
ہمیشہ بھائی جیسے اُنس کا اظہار کرنا تم
کبھی احساس اُن کو کمتری کا ہونے مت دینا
سلوکِ سخت سے اپنے نہ ان کو خوار کرنا تم
یہ قرآں روشنی سے راہ میں انسان کی،سن لو
اسی قرآں میں موجود حل سارے مسائل کا
کلامِ پاک کو ہر حال میں تم معتبر رکھنا
مری ہر بات کو تم لوگ دل سے باندھ کر رکھنا
میں انساں ہوں مجھے ایک دن دنیا سے جانا ہے
خدا سے وصل ہی انسان کا اصلی ٹھکانا ہے
مری سنّت کا مقصد آگہی کی رہنمائی اور
تمہاری زندگی کی راہ کو آساں بنانا ہے
نبیؑ کوئی نہ میرے بعد اب آئے گا دنیا میں
بڑھے جانا کتاب اور میری سنّت کے سہارے تم
جدھر اللہ کی مرضی قدم اپنا اُدھر رکھنا
مری ہر بات کو تم لوگ دل سے باندھ کر رکھنا

چندر بھان خیال کے نئے الوہی اور قُدسی تخیّلات،تصوّرات اور تفکرّات نے نئے عہد کی نظمیہ تخلیقیت اور معنویت کے اُفق پر نئی تابانی پیدا کردی ہے جس کی غیر معمولی اقداری اور جمالیاتی معنویت اور اہمیت اُردو ادب میں جاوداں کردار کی امین ہو گی۔
Ajai Malviya
About the Author: Ajai Malviya Read More Articles by Ajai Malviya: 34 Articles with 73400 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.