23 مارچ اور کشمیری قوم

لاریب....خطہ کشمیر ایک فردوس ارضی ہے جہاں رنچن شاہ کے عہد کے سوا کبھی کشمیریوں نے سکھ کا سانس نہیں لیا،حضرت شاہ علی ہمدانؒ فارس سے جو پیغام سرمدی لیکر ایران صغیرمیں وارد ہوئے تھے اس پیام ابدی نے خطہ کشمیر میں رام کی جگہ خدائے واحد و شاہد کی دن میں پانچ بار اللہ اکبر کی صداﺅں کو رفعتیں عطا کیں،وشنو اور شیو دیوتاﺅں،کالی اور کوہالہ دیویوں کے شوالوں اور استھانوں کی جگہ کشمیر کے سینے پر دختران کعبہ کی رونمائی ہوئی،ویدوں، گیتاﺅں اور پرانوں کے اشلوکوں کو قرآنی نغمات رباّنی نے رباّنی مخلوق کے قلب و اذہان سے محو کر دیا۔ورفعنا لک ذکرک کے مضراب پر دیکھتے ہی دیکھتے زعفرانوں کے یہ کوہ و دمن للّہ عارفہؒ، سید بلبل شاہؒ، شیخ نورالدینؒ اور حضرت شاہ ولیؒ سے لیکرتاجدار کھڑی شریف حضرت میاں محمد بخشؒ تک یہ قدوسی نفوس من تو شدم،تو من شدی،من تن شدم تو جاں شدی،تا کس نہ گوید بعد ازاں من دیگرم تو دیگری کے ترانے اور گیت گنگنانے لگے۔

کشمیر کی تہذیب و ثقافت قبل از تاریخ کے دراوڑ عہد سے بھی کہن سالہ ہے،معلوم تاریخ کا آغاز سودرشن دور سے ہوتا ہے،اس گنبد افلاک نے کشمیریوں کا حق اقتدار 600قبل مسیح سے لمحہ موجود تک مسلسل تاراج ہوتے دیکھا ہے،لکشمی اور کالی کے پجاری جس طرح ہند میں اورنگزیب عالمگیر کے ابّ و جدّ اکفر آعظم کو مغل آعظم کا درجہ دیتے ہیں اسی طرح برہمنیت 715ءکے راجہ تارا پیڈ اور راجہ للتا پیڈ کو کشمیر میں وہدانت کے احیا کے سرخیل کا درجہ دینے پر مجبور ہیں مگرصدیوں حکومت کرنے والے کار کوٹ بنسی،خمار، پروگیت،لوئر کوٹ کے بعد اوپیادیو خاندانوں نے کشمیریوں کو کیا دیا؟انہی خاندانوں کے اقتدار کے دوران ٹیکسلا کے ایک خونخوار انسان نما درندے مہر گل نے کشمیر سے بہنے والی وتستا ندی (درےائے جہلم)کو اپنی بیٹی کی سہاگ رات کی رنگینیوں کو دوبالا کرنے کیلئے اتنے کشمیریوں کو ذبح کیا کہ ہمالیہ کے کوہساروں سے بہنے والے تمام دریاﺅں نے قبائے لالہ رنگ زیب تن کر لی....کشمیری خلاﺅں میں کسی بھگوان کو تلاشنے لگے....بالآخر نالہ سحر کا جواب قدرت نے دے ہی دیا....اور....چودھدویں صدی کے تیسرے عشرے میں سلطان صدرالدین المعروف رنچن شاہ کی وہ پہلی اسلامی حکومت قائم کی جس نے کشمیر میں اس اسلامی تہذیب و تمدن کا سنگ بنیاد رکھا جس کی مقبوضہ کشمیر کے ہر ہر قریہ اور قصبہ میں راونو کرشن، محمود و سومنات اور اہرمن و یزدان کے مابین جاری شورش محشر اسی کا نتیجہ ہے۔طلوع اسلام کے بعد کشمیر میں میری،چک، مغل اور افغان حکمرانوں نے لگ بھگ پانچ صدیوں تک حکومت کی مگر نظر ایسے آتا ہے کہ کشمیریوں کی اس سیاسی تاریخ کے نصف پر غیر ملکی آقا قابض رہے ہیں اور جو نصف کشمیریوں کے حصہ میں آیا بھی ہے اس میں سوائے اپنوں کی سازشوں اور اپنوں کے خلاف اپنوں کی غداریوں کے سوا کچھ حاصل وصول نظر نہیں آتا۔1947ءتک کے آخری 128برسوں میں دربار لاہور کے نمک حرام گلاب سنگھ سے ہری سنگھ تک اہلیان کشمیر ڈوگرا راج کی اس صلیب پر چڑھے کہ جس نے مہر گل اور چنگیزو ہلاکو کی بد روحوں کو بھی شرمندہ کر دیا۔

23 مارچ 1940ءمسلمانان برّصغیر کی تاریخ،تدبیر،تقدیراور قسمت کا ایک سنگ میل ہے،لاہور کے منٹو پارک میں مسلمانان ہند کو اپنے نشان منزل نظر آنے لگے،اسلامیان ہند کا لہو گرم تو تھا ہی،اس تاریخی قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد جہان رنگ و بو بھی تھرتھرانے لگا،نظرئیہ پاکستان کو حقیقت کا روپ دینے والی ہر راہ میں آرزوﺅں کے دیپ روشن ہونے لگے،کشمیر پر مسلط ڈوگرہ راج کےپنجے تلے کراہنے والے محکوم و مجبور اس ہنر مند اور انقلابی افکار کی حامل ملت نجیب نے بھی انگڑائی لی کہ نعرہ پاکستان ہرہر کشمیری کے دل کی دھڑکن بن گیا،مدیر زمیندار مولینا ظفر علی خان کی موجودگی میں 1940ءمیں مسلم کانفرنس کے جلسہ میں چوہدری غلام عباس کے سر پر دستار صدارت رکھی گئی،اسی سال کشمیر میں مسلم لیگ کا قیام بھی عمل میں لایا گیاجس کے پہلے صدر مسلم کانفرنس سے بغاوت کرنے والےسردار سکندر حیات نہیں بلکہ پروفیسرایم اے عزیز اور سیکرٹری پروفیسراسحاق قریشی تھے،1940ءمیں ہی سرینگر میں مسلم سٹوڈنٹس یونین کا قیام بھی عمل میں لایا گیا جس کے پہلے صدر خواجہ احمداللہ اور جنرل سیکرٹری کے ایچ خورشید بنے، قرارداد پاکستان کی منظوری کے ایک ماہ بعد 24اپریل1940ءکو انجمن ازادی پونچھ کے وفد نےوائسرائے ہند لارڈ لنگنتھگو سے لاہور میں ملاقات کر کے پونچھ کا سابقہ درجہ بحال کرنے کا مطالبہ دہرایا۔

کشمیریوں کو غلام بنانے کی بے شمار وجوہات ہیں،سرزمین کشمیر کا خلد بریں سے بڑھ کر حسن فطرت،دنیا بھر کی ہر قوم سے زیادہ ذہانت و فطانت،کشمیری خواتین کے نرم گداز انگلیوں سے بنی دستکاریاں،محنت و جستجو مغلوں اور افغانوں کو یہاں کھینچ کر لاتی ہے،جب طویل ترشب غلامی کی تاریکیاں بڑھتی ہی چلی جائیں وہاں تدبیریں غیر فعال اور شمشیریں کند ہو جایا کرتی ہیں....مگر....یہ غلامانہ شبینے اس سحر سے ضرور خوفزدہ رہتے ہیں جب ذوق یقیں مردان حر کو جرات ایمانی کی تجلّی سے آشنا کر دیتی ہے کہ وہ اپنے لہو سے خود اپنی تقدیر نوک شمشیر سے لکھتے ہیں....مگرحیف....مجاہدین نے اپنا آج ہماری کل پر قربان کر کے جس کشمیر کو آزاد کرایاوہاں کشمیری پنڈت کی دھوتیوں سے زیادہ حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں،آزادی کا بیس کیمپ محروم یقیں ہے،جس اسلام آباد پر کشمیر کا دارومدار ہے وہاں کے ایوانہائے اقتدار میں عوامی نمائندوں کی خرید و فروخت کا ایک ابلیسی بازار گرم ہے، بھارتی سنگینوں کے سائے تلے جی جی کر سسکنے والے اور سسک کر جینے والے کشمیری آزادی کی آس لئے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں لیکن ہم اپنے مآل سے بے خبر اصحاب اخدود کی طرح دہکتی آتش سوزاں کی طرف دھیرے دھیرے بڑھ رہے ہیں،ایسی غفلت اوربے حسی آخر کیا گل کھلانے والی ہے؟کہیں ایساتو نہیں کہ
بہ فیض مصلحت ایسا بھی ہوتا ہے زمانے میں
کہ رہزن کو بھی میر کارواں کہنا ہی پڑتا ہے
Mohammed Obaidullah Alvi
About the Author: Mohammed Obaidullah Alvi Read More Articles by Mohammed Obaidullah Alvi: 52 Articles with 59273 views I am Pakistani Islamabad based Journalist, Historian, Theologists and Anthropologist... View More