جواب شکوہ۔۔۔ حرمت قلم وقرطاس کے نام۔۔۔

قلم وقرطاس کی حرمت مسلّم ہے قطع نظر اس سے کہ ورق قلم کسی سیاہی سے رنگین ہو یا خالی ۔ ذی شعور آدمی کبھی کسی صاف کاغذ کی بے حرمتی نہیں کرسکتا۔ کیونکہ قلم وکاغذ ہی حصول تعلیم کا اولین زینہ ہے۔ جب تک کوئی دل سے آلات علم کی تعظیم نہیں کرتا ۔تو وہ شخص کبھی زیور تعلیم سے آراستہ ہو نہیں سکتا ۔ جب خالی کاغذ کی اہمیت اس قدر ہے تو اگر اس کاغذ پر کسی عبارت کے نقوش ہوں تو اس کی عظمت میں دوگنا اضافہ ہوجاتا ہے ۔ پھر اگر وہ لکھے گئے نقوش قرآن کی کسی آیت کا ترجمہ ہو، حدیث کے کسی حصہ کی تشریح ہو ، کسی صحابی ؓ کا قول ہوتو اس نقوش کی وجہ سے کاغذ کی تعظیم کو چار چاند لگ جاتے ہیں وہ کاغذ دوسرے کاغذوں پر فخر کرتا ہے کہ دیکھو میرے نصیب کو کہ آقا مدنی کریم ﷺ کے زبان مبارک سے نکلنے والے مقدس الفاط میرے سینے پر نقش کئے گئے ہیں۔ وہ کاغذ دوسرے کاغذوں کے سامنے سینہ چوڑا کر کے کہتا ہے کہ دیکھومیرے سینہ پر خاتم الانبیاء کے چاند سے صحابہ ؓ کے اقوال تراشے گئے ہیں۔ دوسرے کاغذ بھی اس پر رشک کرتے ہیں ، تعظیماً اس کاغذ کے سامنے نظریں نیچے کرتے ہیں ، اس کے تقدس کا اقرار کرتے ہیں اور بزبان حال یہ کہتے ہیں کہ اے کاش ! ہم پربھی قدرت مہربان ہواور کوئی آیت وحدیث تو درکنار ہمارے سینہ پر بھی کوئی صرف نصیحت کی ایک بات ہی لکھ مارے اور ہم بے حال کاغذوں کے ان بنڈلوں سے اٹھ کر احتراماً کسی کے ہاتھوں میں آجائیں ، کسی کی نظر کا محل ٹھہریں ، خود کو کسی کے دیکھنے کے قابل بنائیں ، کسی کی توجہ کا مرکز ومحور قرار پائیں ، کسی کو نصیحت پہنچانے کا ذریعے اور وسیلہ بنیں ۔۔۔اے کاش کبھی ایسا ہوجائے !

ستم ظریفی تو دیکھئے ، ظلم پر ظلم تو دیکھئے ، انصاف کے امید واروں سے سرِ بازار ناانصافی کا تماشا تو دیکھئے ، راہبروں کی رہزنی کی ادائیں تو دیکھئے ۔ خود کو تختہ مشق بنا کر جنہیں چلنا سکھایا آج انہی کی طرف سے ہمیں پابند سلاسل کرنے کی صدائیں تو سنئے ۔ خود کو بے کار بنا کر جنہیں کار آمد بنا یا ہمارے ساتھ آج ان کا رویہ تو دیکھئے ۔ ہمارے سینوں پر ہمارے منشاءکے خلاف لکھا جارہا ہے صاحب قلم کے ذوق کمال کو دیکھئے ۔۔۔!ہمارے سینوں کو داغ دار کرکے جنہوں نے لکھنا سیکھاآج ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو ہمارے دردِ دل کو لوگوں کے سامنے آشکار کر سکے ،ہم پر بے معنیٰ خطوط کھینچ کر الفاظ کے پیچ وخم سے آشنا ہونے والا کوئی شہسوار ایسا نہیں جو ہمارے حق میں بول سکے ، ہمارے روگ کی کیفت کوجان سکے ؟بزبان حال شاید کاغذ یہ بھی کہہ گیا۔

بدن سے روح جاتی ہے تو بچھتی ہے صفِ ماتم مگر کردار مر جائے تو کیوں ماتم نہیں ہوتا؟

محترم جناب محمد وجیھہ السماءصاحب نے چند روز قبل ویب سائٹ” اردو پوائنٹ“ پر ”علماءکرام راہنمائی کریں “ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا۔اس مضمون کی چند سطور قارئین سے سامنے پیش کی جاتی ہیں ۔

علماءکرام سے گزارش ہے کہ وہ متفقہ طور پر اس مسئلہ میں ہماری رہنمائی کریں ۔تاکہ ہم اپنے لیے راہ چن سکیں ہم لوگ جو صحافت کے پیشے سے منسلک ہیں وہ اپنے کالموں اور خبروں ، اخبارات میں جگہ جگہ محمد اور اﷲ تعالیٰ کا استعمال (لکھتے ہیں ) کرتے ہیں جب بھی کسی شخص کے نام کے ساتھ محمد آتا ہے تو ہمیں اپنے صفحات (جو خبریں لکھنے اور فیکس کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں )میں لکھنا پڑتا ہے اور کمپوزنگ کے بعد اسے ضائع کردیتے ہیں اور اخبارات میں اسلامی مضامین بھی باکثرت لکھے جاتے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم نہ تو ان صفحات کی عزت کاکوئی احترام کرپاتے ہیں اور نہ ہی ان کے لیے کوئی حل تلاش کر پاتے ہیں ۔ ہاکرز اخبارات دکانوں کے شٹروں کے نیچے پھینکتے ہیں ۔ اور ردی اخبارات کو روٹی بیچے اور دیگر اشیاءکی صفائی کے لیے استعمال کرتے ہیں اور آخر کار اسے گندگی کے ڈھیروں پر پھینک دیا جاتا ہے ۔ اب آپ لوگوں سے سوال یہ ہے کہ ہمیں یہ بتایا جائے کہ ہم اپنے نبی ﷺ اورا ﷲ پاک کے نام کی حرمت کو کیسے مکمل طور پر بحال رکھ سکتے ہیں ۔ یا کوئی ایسا عمل ہے کوئی ایسا لفظ ہے جس کو محمد کے نام کی حرمت کے لیے استعمال کیاجائے جیساکہ 786 کو بسم اﷲ کے برابر سمجھا جاتا ہے ۔اور علماء کرام ایسی راہنمائی نہ کریں جیساکہ آج تک دین اسلام کی سر بلندی کے لیے کم خدمات سرانجام دی ہیں اورانتشار زیادہ پھیلایا ہے ۔

محترم موصوف کا نام ” محمد وجیھہ السماء“ ہے نام تو انہوں نے بھی بڑا مقدس چنا ہے ۔ اگر موصوف کے نام سے لفظ” محمد “ کو ہٹا دیا جائے اور اس کے بدلے 786 کی طرح عدد لکھا جائے تو موصوف کا نام اس طرح لکھا جائے گا۔ ” 92 وجیھة السماء“ پھر نیا مسئلہ کھڑا ہوجائے گا کہ لفظ ”وجیھة “کے آخر میں تاءتانیث ہے جو کہ مونث کی علامت ہے تو اس سے جنس مشتبہ ہونے کا خطرہ ہے ۔ پھر وجیھة کا لفط اور السماءکا لفط بھی قرآن پاک میں آیا ہے تو یہ بھی مقدس ہوئے لہٰذا موصوف کے پورے نام کا عدد ہی لکھنا پڑے گا۔ تو پھر موصوف کا نام اس طرح سے لکھاجائے گا۔ ”92-29-133 “۔ مسئلہ یہاں بھی ختم نہیں ہوتا بلکہ اور بھی لوگ ہوں گے ان کے نام بھی ایک دوسرے سے میچ کھاتے ہونگے تو پھر A.B.C کے کوڈ وغیرہ بھی شروع میں دینا پڑیں گے ۔ پھر اگر موصوف کے نام کے ساتھ شروع میں کوڈ دیا جائے تو نام اس طرح سے لکھا جائے گا۔”MWA 92-29-133 “ جو کسی ٹرک کے نمبر پلیٹ سے کم نہیں !

نورانی قاعدہ عموماً بچے ہی پڑھتے ہیں اور احتیاط کا مادہ ان میں بہت کم ہوتا ہے ۔موصوف اگر کہیں نورانی قاعدے کا ورق گرا پڑا دیکھ لیں تو پھر نورانی قاعدے پر بھی پابندی لگانی چاہیے یا پھر ان حروف تہجی کے بھی کوڈ لکھنے چاہیے ؟اس کے علاوہ کسی سیرت کی کتاب کا ورق انجانے میں گرگیا تو یہ تو ایک نیا مسئلہ کھڑا ہوجائے گا جب تک کہ ساری دینی کتابوں پر پابندی نہ لگ جائے ۔دوسری بات جو موصوف نے لکھی ہے کہ 786 کو بسم اﷲ کے برابر سمجھا جاتا ہے تو یہ بھی موصوف کی غلطی ہے کیونکہ 786 اور بسم اﷲ میں برابری کا کوئی عنصر نہیں بلکہ ہر حروف تہجی کا ایک عدد متعین ہے تو ان اعداد کو نکال کر جمع کرنے سے 786 بنتا ہے ۔ یہ صرف ان حروف کا عدد ہے برابری والی اس میں کوئی بات نہیں۔آخری بات جو موصوف نے لکھی ہے کہ علماءکرام نے دین اسلام کی سر بلندی کے لیے خدمات کم سر انجام دی ہیں اور انتشار زیادہ پھیلایا ہے ۔تو موصوف سے ہمدردانہ اپیل ہے کہ اپنے دماغ کا کسی اچھے معالج سے علاج کروائیں کیونکہ جس طرح موصوف کی دیگر باتوں کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر ۔ اسی طرح یہ بات بھی بے سرو پا ہے۔

عوام تک اپنی بات پہنچانے کا موثر ترین ذریعہ تو اخبارات ورسائل ہی ہیں ۔ اگر ان کے ذریعے ہم دینی پیغامات ، حق سچ کی بات نہیں پہنچائیں گے تو بھلا وہ کون سا چراغ ہے جس کے ذریعے سے عوام تک اﷲ اور اﷲ کے رسول کی بات پہنچائی جائے ؟ آپ کایہ جذبہ سراہنے کے قابل ہے لیکن پورا مضمون پڑھنے سے قاری کو یہ تاثر ملتاہے گویا کہ آپ اﷲ ورسول کے نام کو ہی نقوش میں دیکھنے کے قائل نہیں ! کیونکہ ممکنات میں سے ہے کہ کبھی بلا قصد وارادے کے ہی اﷲ ورسول کے پاک ناموں کے تقدس کو برقرار نہ رکھا جاسکے ۔

جہاں تک مقدس اسماءکے حرمت کا تعلق ہے تو کوئی ذی شعور آدمی اس کے تقدس کو پامال نہیں کرتا۔ قصداً کوئی اﷲ ورسول کے نام کو زمین پر نہیں پٹختا۔ہمارے ہاں کباڑی ہے جس کا کام ہی لوہا ، ٹکڑے اور ردی لینا ہے لیکن اگر ردی میں غلطی سے بھی کسی اخبار کا اسلامی صفحہ چلا جائے تو وہ اس صفحہ کو الگ کردیتا ہے ۔جب ایک جاہل کباڑیے میں ان مقدس اسماء کے احترام کا یہ حال ہے تو پڑے لکھے طبقے سے ان اسماءکی بے حرمتی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ہاں البتہ بعض لاپرواہ قسم کے لوگ اس میں بے احتیاطی کرتے ہیں ان کو متنبہ کرنے کی ضرورت ہے ، انہیں اس گناہ کا احساس دلانے کی ضرورت ہے ۔ اگر ہم لاپرواہ لوگوں کو احساس دلانے کے بجائے ان مقدس اسماءکو لکھناہی چھوڑدیں ۔ اسلامی صفحات کو ہی اخبارات ورسائل سے نکال دیں تو یہ کہاں کی عقلمندی ہے ۔ اس کی مثال تو ایسی ہے جیسے ”گاڑی “ جس سے لاکھوں لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن اکا دکا واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے کسی کی جان ضائع ہو جاتی ہے تو اس حادثہ کے رونما ہونے کی وجہ سے ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ ڈرائیوروں کے لائسنس کو سختی سے چیک کیا جائے ، کوئی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں ، روڈ پار کرنے والوں کے لیے اور برج بنائے جائیں ۔ اس کے بجائے گاڑیوں پر ہی پابندی لگادی جائے! لاکھوں لوگوں کے فائدے سے قطع نظر صرف ایک شخص کے نقصان کومد نظر رکھ کر!
Saleem Ahmed Usmani
About the Author: Saleem Ahmed Usmani Read More Articles by Saleem Ahmed Usmani: 24 Articles with 20335 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.