فلسطینی مسلمانوں کی وقعت گِدھ سے بھی کم

ایک خبر کے مطابق اقوام متحدہ کے ایک ادارےUNDP نے پاکستان میں گدھ کی تیزی سے ختم ہونے والی نسل کو بچانے کے لیے اقدامات شروع کیے ہیں، گدھ کی تیزی سے ختم ہونے والی نسل کے تحفظ کے لیے سندہ کے صحرائی علاقے ننگر ہار میں ایک گدھ ریسٹورنٹ قائم کیا جارہا ہے جہاں ان گِدھوں کو آلودگی سے پاک گوشت فراہم کیا جائے گا تاکہ ان کی شرح اموات میں کمی کی جاسکے۔اس ادارے کے مقامی سربراہ کے مطابق پاکستان میں سفید پشت گدھ کی نسل ختم ہونے پر اس ادارے کو تشویش ہے،خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گدھ رسٹورنٹ کا تجربہ یو این ڈی پی نے پہلے نیپال اور ہندوستان میں کیا اور اب اس کا تجربہ پاکستان میں کی کیا جارہا ہے،خبر میں اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ میونسپل انتظامیہ ننگر ہار نے حالیہ کتا مار مہم میںڈی ڈی ٹی کو بطور زہر کا استعمال کیا اور ان مردہ کتوں کا گوشت کھانے سے بڑے پیمانے پر سفید پشت گدھ ہلاک ہوئے ہیں۔

یہ ایک خبر ہے اور اس خبر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ جانوروں کے لیے کتنا درد رکھتی ہے لیکن اسی اقوام متحدہ کو ارضِ فلسطین پر گذشتہ دس روز سے جاری اسرائیلی جارحیت نظر نہیں آرہی ہے اور اطلاع کے مطابق اب تک اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں دو سو بچوں سمیت سات سو فلسطینی مسلمان شہید ہوچکے ہیں،غزہ کی آبادی کو ملیا میٹ کردیا گیا اور صرف سات اور آٹھ جنوری کی درمیانی شب میں چالیس فضائی حملے کیے ہیں اور اسرائیل کے صرف چھ فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔اسرائیل نے تمام حملے شہری آبادی پر کیے اور یہاں تک بربریت کا مظاہرہ کیا کہ ایک اسکول میں پناہ گزین بچوں پر بھی بمباری کی جس کے نتیجے میں چالیس سے زائد بچے شہید ہوگئے۔

اس کھلی جارحیت کے باوجود اور نو عمر بچوں کی شہادتوں کے با وجود اقوام متحدہ اور اسلامی ممالک سوائے مذمت کے کچھ نہیں کرسکے ہیں۔الٹا اقوام متحدہ اور امریکہ نے حماس کو اس صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا کہ وہ اپنے راکٹ حملے بند کردے۔

اوپر دیے گئے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ صرف چھ اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے ہیں وہ بھی جب زمینی حملہ ہوا اور دو بدو لڑائی میں یہ اسرائیلی جہنم واصل ہوئے، دو سال تک غزہ کا محاصرہ کیا گیا اور اب اس جارحیت کے باوجود حماس پر الزم عالمی ضمیر کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ امریکہ کے نو منتخب مرتد صدر بارک اوبامہ نے پہلے تو اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف قرار داد پیش نہیں ہونے دی بلکہ حماس کو مجرم ٹہرایا،اور اب بھی صرف اسرائیل کر مشورے دیے جارہے ہیں کہ وہ جنگ بند کردے اور امریکہ نے واضح طور پر اس حیوانیت اور جارحیت کے خلاف مداخلت سے انکار کردیا ہے جبکہ اسی امریکہ بہادر نے ایک غلط اطلاع پر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے،اور امریکہ پر مبینہ حملے کے الزام میں افغانستان کی طالبان حکومت کو ختم کر کے قبضہ کرلیا ہے۔اور جو جارحیت اسرائیل نے کیے اگر کسی مسلم ملک نے کی ہوتی تو اب تک اس کا تیا پانچہ کیا جاچکا ہوتا اور امریکہ بڑھ کر اس ملک پر قبضہ کرچکا ہوتا (بہت سے لوگ امریکی صدر کا نام بارک حسین اوبامہ لکھتے ہیں جو کہ غلط ہے کیوں کہ اس مرتد نے واضح طور پر اسلام سے بیزاری کا اعلان کیا ہے اس لیے اسے بارک حسین اوبامہ نہ کہا جائے صرف بارک اوبامہ کہا جائے)۔یہاں ہم نے غیر مسم ممالک کا تذکرہ جان بوجھ کر نہیں کیا ہے کہ ان سے ہمیں یہ امید ہی نہیں ہے کہ وہ کچھ کریں گے ہمیں تو ان مسلم ممالک کے حکمرانوں سے شکایت ہے کہ وہ بھی اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے بجائے صرف مذمت ہی کر رہے ہیں اور اطلاعات کے مطابق مصر اور لبنان تو مذمت بھی نہیں کر رہے بلکہ اس جارحیت کی انہوں نے باقاعدہ اسرائیل کو اجازت بھی دی ہے اور یہ جارحیت ان ممالک کے سربراہان سے مشاورت کےبعد کی گئی ہے

اور ابھی یہ مسلم دنیا کے عوام اپنے حکمرانوں کا دو رخہ پن اور منافقت بھی دیکھیں گے کہ ابھی کل ہی عاشورہ کا دن گزراہ ہے تمام مسلم ممالک کے دوغلے،بزدل اور امریکہ کے کاسہ لیس حکمران حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ کی قربانی کی مثال پیش کریں گے اور اپنے اپنے بیانات میں ان کو زبردست خراج تحسین پیش کریں گے اور کہیں کہ حضرت امام حسین نے حق اور سچ کی سر بلندی اور دین اسلام کی سربلندی کے لیے شہادت قبول کی مگر باطل کی غلامی قبول نہیں کی اور خود ان تمام منافق حکمرانوں نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف صرف مذمت ہی کی ہے اور یہ بھی ایک المیہ ہے کہ یہ مذمت بھی انفرادی طور پر پیش کی گئی اور او آئی سی کے پلیٹ فارم سے کوئی ممذمت بھی نہیں کی گئی اور او آئی سی صرف
Oh I See کہہ کر رہ گئی

ایک بات یاد رکھیں تمام مسلمان صرف مذمت یا مظاہروں سے کسی بھی جارح قوت کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے اس لیے کہ یہ تمام چیزیں تو باضمیر یا باقاعدہ حکومتوں کے لیے ہوتی ہیں بے ضمیر اور عالمی بدمعاشوں اور غنڈوں کا حل صرف جہاد ہی میں ہے۔اور مسمانوں سے زیادہ مغرب اس بات کو جانتا ہے اس لیے اس نے ایک سہہ جہت پالیسی شروع کردی ہے کہ ایک طرف مسلم نوجوانوں کو راگ ورنگ، لہو لعب اور عیاشی میں مگن کردیا ہے اور یہ کیبل نیٹ فحش سی ڈیز،اور آج کل سب سے بڑھ کر موبائل فون کے ذریعے بے مقصد مصروفیت میں مبتلا کردیا ہے دوسری طرف جہاد کو دہشت گردی قرار دیدیا ہے اور مجاہدین کو دہشت گرد بنا دیا ہے تاکہ اس کی آڑ میں مجاہدین کے ٹھکانوں کو ختم کردیا جائے افسوناک اور خطرناک بات یہ ہے اس کی یہ چال حد سے زیادہ کامیاب رہی ہے اور آج عالمی طور پر مجاہدین کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے اور مسلم ممالک کے عوام کی اکثریت اس پروپگینڈے کا شکار ہوچکی ہے اور تیسری طرف اس نے تمام عالم اسلام میں اپنےایجنٹوں کے ہاتھوںمیں حکومتیں دیدیں ہیں تاکہ اپنے عزائم کو بہ آسانی تکمیل تک پہنچا سکے اور یہ ایجنٹ عالم اسلام کے اوپر ہونے والی جارحیت پر اول تو کوئی ردِ عمل نہییں دکھاتے اور اگر مارے باندھے کچھ کرنا بھی پڑے تو ایک مذمتی بیان جاری کر کے مطمئین ہوجاتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی اجتماعی معاملے پر عوام کو تقسیم کیا جائے اور ان کو یہ باور کرایا جائے کہ ہمیں تو دراصل اپنی فکر کرنی چاہیے نہ کہ تمام دنیا کی فکر کریں اور اس کام میں ان کا ہاتھ وہ نام نہاد دانشور بٹاتے ہیں جو اٹھتے بیٹھتے مسلمانوں کو امریکہ اور اسرائیل اور عالمی طاقتوں سے ڈراتے رہتے ہیں ۔اب یہ ہمارا اور آپ کا کام ہے کہ ہم اپنے دشمن کو پہچانیں۔

کیا ہم اب بھی اپنے دشمن کو نہپیں پہچانیں گے؟کیا ہم اب بھی اسی بے حسی کا شکار رہیں گے کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے؟میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ سنا کر اپنی بات ختم کرونگا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مسلمان امت کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ اگر جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم کا درد محسوس کرتا ہے۔

کیا ہم نے اور آُپ نے فلسطین کا درد محسوس کیا؟
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1458046 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More