عقیدہ حیات النبی اور جمعیت علماء اسلام

عقیدہ حیات النبی ﷺ اور مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ
مولانا نور محمد تونسوی
جمعیت علمائے اسلام پاکستان؛اکابرعلمائے اہل السنۃ والجماعۃ دیوبندرحمہم اللہ کی مذہبی اور سیاسی جماعت ہے اس کے امیر اول امام الاولیاء شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃاللہ علیہ جبکہ دوسرے امیر شیخ الاسلام حافظ الحدیث والقرآن حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی رحمۃاللہ علیہ تھے اور اس جماعت میں مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود ، حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی اور حضرت مولانا عبدالحق رحمۃاللہ علیہم اکوڑہ خٹک جیسے اکابر علماء شامل تھے ۔ اللھم نور مراقدھم واغفرھم وارحمھم وادخلھم الجنۃ الفردس۔

جب چودھویں صدی کے اواخر میں سید عنایت اللہ شاہ نے عقیدہ حیات النبی ﷺ کے انکار کی بنیاد ڈالی اور عذاب قبر کی صحیح صورت کا انکار کیا تو اس نومولود فتنہ کی سرکوبی کے لیے اس دور کی جمعیت علمائے اسلام کے علمائے کرام نے باقاعدہ مشورہ کیا کہ عقیدہ حیات قبر کے موضو ع پرایک کتاب تحریر کرکے شائع کر دی جائے اور یوں سادہ لوح عوام کے ایمان بچانے کی کوشش کی جائے چنانچہ بالاتفاق کتاب لکھنے کے لیے امام اہل السنۃ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃاللہ علیہ کا نام تجویز کیا گیا تو مولانا ممدوح نے اس موضوع پر ایک مکمل اور مدلل کتاب تالیف فرمائی اور اس کتا ب کا نام} تسکین الصدور فی تحقیق احوال الموتی فی البرزخ والقبور{رکھاگیااور جب یہ کتاب تیارہوگئی تو جمعیت کے سرکردہ جید علمائے کرام نے جامعہ خیر المدارس ملتان میں بیٹھ کر باقاعدہ حرف بحرف مولفِ کتاب سے اس کتاب کو سنا ۔تجاویز پیش کیں اور مفید مشورے دیے جوقبول کئے گئے اورپھر اس کتاب کو شائع کیا گیا لہذا اس کتاب کا ایک ایک مسئلہ اور ایک ایک عقیدہ بلکہ ایک ایک حرف جمعیت علمائے اسلام کا پسندیدہ اور مصدقہ بلکہ سماعت فرمودہ ہے اس کتاب میں چارعقائد کو بڑی تحقیق اور عرق ریزی کے ساتھ کتاب وسنت اور فہم سلف صالحین کی روشنی میں مسلک اہل السنۃ والجماعۃ کے مطابق ثابت کیا گیاہے ۔
1 عذاب قبر کی صحیح صورت
2 عقیدہ حیا ت الانبیاء خصوصا حضور اکرم ﷺ کی حیات طیبہ
3 عام موتیٰ کا سماع فی الجملہ
4 توسل بالصالحین

قارئین کرام! اس کتاب کا بالاستیعاب باربار مطالعہ کرنا اور اپنے پاس رکھنا ہر سنی مسلمان کے لیے از حد ضروری ہے یہ کتاب وقت کی ایک ضرور ت ہے جس کو جمعیت علمائے اسلام کے اکابر نے محسوس فرمایا اور ایک عظیم الشان کتاب تالیف کرائی جس سے لاکھوں فرزندانِ توحید کے ایمان محفوظ ہوئے اور ہوتے رہیں گے ۔ اللہ تعالٰی مولف کتاب کو اور جو علمائے کرام اس کی تالیف کا باعث بنے ان سب کو امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کی طرف سے بہترین جزائے خیر عطا فرمائے اور ان کے اس صدقہ جاریہ کو قیامت تک جاری وساری فرمائے ۔ آمین یارب العالمین

جب حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدررحمۃاللہ علیہ نے اس کتاب کی تالیف مکمل کرلی تو باقاعدہ جمعیت علمائے اسلام کے سرکردہ علمائے کرام نے اس کو مولانا کی زبان سے حرف بحرف سنا پھر اس کی اشاعت کی نوبت آئی چنانچہ شیخ الحدیث رحمہ اللہ تسکین الصدور کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: ۲ربیع الاول۱۳۸۲ھ مطابق ۴ اگست ۱۹۶۲ء میں جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی اجلاس میں جو لاہور میں منعقد ہوا اور جس میں ملک بھر کے سینکڑوں ذمہ دار علمائے کرام تشریف فرماتھے اور ان مسائل پر بھی خوب گرما گرم بحث ہوئی بالآخر بالاتفاق یہ طے ہواکہ ان مسائل کی ترتیب اور تدوین اور ان کو باحوالہ مدلل ومبرہن کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے اور وہ ان مسائل پر علمی مواد جمع کرے اور اس کے بعد ذمہ دار حضرات کی رائے سے ان کو شائع کیا جائے چنانچہ اس کمیٹی کے لیے پانچ حضرات منتخب ہوئے۔
۱: حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃاللہ علیہ
۲: حضرت مولانا مفتی محمود رحمۃاللہ علیہ
۳: حضرت مولانا مفتی محمدشفیع سرگودھوی رحمۃ اللہ تعالی
۴: حضرت مولانا عبدالحق رحمۃاللہ علیہ }اکوڑہ خٹک{
۵: راقم راثیم} امام اہل السنۃ شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدررحمہ اللہ{

اور اس کمیٹی کا ناظم راقم کو منتخب کیا گیا باوجو نااہلی عدیم الفرصتی اور علالت کے ناچارالامرفوق الادب کے قاعدہ کے تحت اکابر کا حکم اور فیصلہ تسلیم کرنا پڑا ۔ آخر مشہور مقولہ ہے حکم حاکم مرگ مفاجاۃ ۔ ان جملہ اکابرکی ہدایات اور حکم کے مطابق راقم نے ان مسائل کوجمع کیا اور ان کو اطلاع دی کہ مجموعہ مرتب ہوچکا ہے اس پر اظہار رائے کے لیے کوئی جگہ اور وقت متعین کریں۔بالآخر۲۷۔۲۸نومبر۱۹۶۷ء کی تاریخیں منتخب ہوئیں اور ملتان خیرالمدارس جگہ متعین ہوئی ۔
مقدمہ تسکین الصدور ص۷۰
مولانا محمد سرفراز خان رحمۃاللہ علیہ مزید لکھتے ہیں:
ملتا ن کے اجلاس میں جن حضرات نے شرکت کی اور اول سے آخر تک راقم کتاب سناتا رہا اور یہ بزرگ سنتے رہے اور بعض بعض مقامات میں اصلاح بھی کرتے رہے اور آخر میں بعض مسائل پر بحث بھی ہوئی اور ان کی ہدایت پر عمل کیا گیا وہ یہ ہیں ۔
1 حضرت مولانا خیر محمد رحمۃ اللہ تعالٰی
2 حضرت مولانا مفتی محمود رحمۃاللہ علیہ
3 حضرت مولانامفتی محمد عبداللہ رحمہ اللہ ملتان
4 حضرت مولانامحمد عبداللہ دام مجدھم جامعہ رشیدیہ ساہیوال
5 حضرت مولانا محمد علی جالندھری رحمۃ اللہ علیہ
6 حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ
7 حضرت مولانا قاضی مظہر حسین رحمۃ اللہ علیہ چکوال
8 حضرت مولانا محمد نذیر اللہ خان دام مجدھم گجرات
9 راقم رثیم یعنی}مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ{
10 اور گاہے گاہے حضرت مولانامحمد اسحاق کوہاٹی نائب مفتی خیرا لمدارس ملتان بھی اس میں حصہ لیتے رہتے ۔
تسکین الصدورص۷۲
حضرت مولانا مفتی محمودصاحب رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ بالاحقائق کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
زیر نظر کتاب تسکین الصدور مصنفہ مخدوم محترم مولانا محمدسرفراز خان صاحب کا بغور مطالعہ کیا مولانا موصوف نے جمعیت علمائے اسلام مغربی پاکستان کے فیصلہ کے مطابق اس کتاب کی تالیف کی ابتداء فرمائی اور مسودہ کی تکمیل کے بعد ملتان کے مجلس علماء کے ایک اجتماع میں اس مسودہ کو پڑھ کر سنایا میں خود اس مجلس میں شریک تھا بعض مقامات میں انہیں ترامیم کے لیے مشورہ بھی دیا جو مولانا نے بخوشی قبول فرمایا آخر منظوری کے بعدحضرت مولانا اسے پھر سے مرتب کر کے کتابت وطباعت کی زینت سے آراستہ فرمایا ۔ فجز اھم اللہ احسن الجزاء

حضرت مولانانے بالکل مثبت علمی اندازمیں اہل السنۃ والجماعۃ کے متفقہ عقائد کو بڑی متانت اور سنجیدگی کے ساتھ کتاب وسنت اور اقوال فقہاء متکلمین امت کے جامع استدلا لات سے مسلمانوں کے سامنے پیش فرمایا کسی مخالف کی تشخیص وتعیین یا اس پرتنقید وتنقیص سے کامل احتراز کیا ۔ عبارت سلیس صاف اور عمدہ اختیار کی گئی ہے جس کے پڑھنے سے مطالب خود بخود ذہن میں ڈھلتے جاتے ہیں اس دینی عظیم خدمت پر مولانا موصوف کی خدمت میں ہدیہ تبریک پیش کرکے دعا کرتا ہوں کہ اللہ حضرت کی اس تالیف کو قبول فرما کر عامۃ المسلمین کے لیے مفید بنائے اور اسے زائغین کی ہدایت کا ذریعہ بنا کر حضرت موصوف کی فلاح دینوی ونجات اخروی کا سبب بنادے۔وماذلک علی اللہ بعزیز
محمود عفااللہ عنہ
خادم قاسم العلوم ملتان وناظم عمومی کل پاکستان جمعیت علمائے اسلام ۲۶ربیع الثانی۱۳۸۹ھ
تسکین الصدور ص۳۶

مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ شیخ التفسیر حضرت مولانا محمد عبداللہ بہلوی نوراللہ مرقدہ کی کتاب }القول النقی فی حیات النبی ﷺ {کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

یہ امر مسلم ہے کہ آپ پر موت طاری ہوئی لیکن ساتھ ساتھ یہ امر بھی علمائے اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک مسلم اورمجمع علیہ ہے کہ بحالت موجود یعنی عالم برزخ میں آپ ﷺ جسمانی حیات سے زندہ ہیں آپ کی روح مبارک کا تعلق آپ کے جسد عنصر ی کے ساتھ ایسا قائم کردیا گیا ہے اس دنیاوی جسد اطہر کے ساتھ۔}جسے اللہ تعالٰی نے زمین پر حرام کردیاہے{تمام افعال وحرکات مثل سمع بصرو بطش ومشی وکلام وغیرہا پر قادر ہیں یہ عقیدہ کہ آپ کا جسد اطہر ساکن مصامت قبر مبارک میں صحیح وسلامت موجود ہے اوراس سے افعال وحرکات کا صدورنہیں ہوتا عقیدہ فاسدہ ہے اورتمام علمائےاہل السنۃ والجماعۃ کے عقیدہ اورعلماء دیوبندکے مسلک کے خلاف ہے ۔حضرت العلامہ العارف باللہ مولانا محمد عبداللہ صاحب مدظلہ العالی نے یہ رسالہ لکھ کر اہل حق کے اقوال کواس ترتیب کے ساتھ جمع کر دیا ہے کہ منصفین طالبین حق کے لیے کافی ووافی ہے میں نے رسالہ کامطالعہ کیا ہے مجھے اس کے مندرجات سے اتفاق ہے اللہ تعالی موصوف کو جزائے خیر عطافرمائے اور رسالہ ہذا کوقبول فرما کر عامۃ المومنین کے لیے ذریعہ ہدایت اور حضرت موصوف کے لیے ذریعہ ترقی درجات گردانے۔
الاحقر الافقر
ا بوالفضل محمود عفا اللہ عنہ خادم الافتاء والتدریس بقاسم العلوم ملتان ۷۷۔۲۱۔۶ہجری
القول النقی ص۳۲
حضرت مولانا مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ ؛مولانا عبدالعزیز شجا ع آبادی ؒ کی کتاب }دعوت الانصاف فی حیات جامع الاوصاف{ کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

حضرت مولاناعبدالعزیز صاحب شجا ع آبادی کی تصنیف دعوت الانصاف فی حیات جامع الاوصاف کو مختلف مقامات سے دیکھا ماشاء اللہ مسئلہ حیات النبی ﷺ اورسماع صلوۃ وسلام عندالقبرالشریف پر اسلام وجمہور اہل السنۃ کے متفقہ فیصلہ کے مطابق تحریر فرمایاحوالہ جات پیش کئے اور صحیح مسلک کوحوالہ جات سے ایسا ثابت کیا جو اخلاف ومعاصرین کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگا اللہ تعالی قبول فرماوے اور حضرت مولانا کو ایسی تصانیف کرنے کی توفیق مزید بخشے ۔واللہ الموفق۔
الاحقر الافقر محمود عفااللہ عنہ
خادم مدرسہ قاسم العلوم ملتان۱۷ربیع الاول ۱۴۰۰ھ
دعوت الانصاف فی حیات جامع الاوصاف۹

پس معلوم ہواکہ ماضی قریب کی جمعیت العلماء کے تمام اکابر اصاغر اور عہدیداران واراکین تسکین الصدور کے تمام مندرجات عقائد ومسائل سے حرف بحرف متفق تھے بلکہ ان سب اکابر علمائے کرام کی دل کی آواز تھی جس کو شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ ضبط تحریر میں لائے۔
muhammad kaleem ullah
About the Author: muhammad kaleem ullah Read More Articles by muhammad kaleem ullah: 107 Articles with 110384 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.