کیا ہندوستان میں جمہوریت زندہ ہے؟

کردار کشی کے کھیل میں گزشتہ دنوں یکے بعد دیگرے دو فیصلے منظر عام پر آئے ۔ ایک فیصلہ حکومت کے حق میں جبکہ دوسرے نے حکومت کے و قار کی چولیں ہلادیں۔ سپریم کورٹ نے 2 جی اسپیکٹرم تقسیم معاملے میں تمام 122 لائسنس منسوخ کر دئے جبکہ ٹرائل کورٹ نے وزیر داخلہ پی چدمبرم کو صاف بری کر دیا، انہیں جیل میں بند سابق وزیر مواصلات اے راجا کے ساتھ ملزم بنانے سے صاف انکارکر دیا۔ دونوں ہی فیصلے اہم ہیں۔اگر چدمبرم کو کلین چٹ نہیں ملتی تو حکومت کیلئے اقتدار میں رہنادوبھر ہو جاتا اور چدمبرم کا اپنے عہدے پر قائم رہنا ممکن نہ ہوتا۔ حالانکہ سیکولرازم مخالف درخواست گزار سبرامنیم سوامی نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اعلی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور انہیں امید ہے کہ آخر میں کامیابی پائیں گے لیکن یہ اب مستقبل کی بات ہے۔

2 جی تقسیم کا معاملہ نے متعددسنگین سوال پیدا کردئے ہیں۔ سوال یہ کہ حکومت میں فیصلے کیسے ہوتے ہیں؟ اتحاد کی حکومت کس طرح سے کام کرتی ہے؟ ملک کے کچھ صنعتی گھرانے کتنے طاقتور ہیں کہ وہ بدعنوان وزیروں اور افسروں کے ساتھ مل کر پورے نظام میں نقب زنی کر سکتے ہیں؟ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر لکھا بھی ہے کہ کچھ قوی اپنے کو قانون سے اوپر سمجھتے ہیں اور من چاہے فیصلے کروا لیتے ہیں۔یہ کون نہیں جانتا کہ منموہن سنگھ کی حکومت ڈی ایم کے کی حمایت پر قائم ہے جبکہ ڈی ایم کے نے اپنی حمایت کی پوری قیمت وصول کرلی ہے۔یہ پارٹی شروع سے ہی وزارت مواصلات اپنے قبضے میں رکھنا چاہتی تھی۔ منموہن سنگھ کی گذشہ حکومت میں اے راجاسے قبل ڈی ایم کے کوٹے سے ہی دیا ندھی مارن وزیر مواصلات تھے۔ ان کے دورمیں بھی 2 جی کے مسئلے پر تنازع ہوا تھا۔اسپیکٹرم تقسیم کا جب مسئلہ درپیش آیا تھا تو یہ بات سامنے آئی تھی کہ آخر اسپیکٹرم کی قیمت کیسے طے ہو؟ اسپیکٹرم کی ڈیمانڈ کو دیکھتے ہوئے اس کے تقسیم پر کیا پالیسی اختیار کی جائے؟ حکومت نے اس کا فیصلہ کرنے کیلئے وزراءکے ایک گروپ کوتشکیل بھی کیا تھا جس سے ناراض ہوکر مارن نے ایک خط وزیر اعظم کو لکھ کر انہیں اپنے وعدے کی یاد دہانی کروائی تھی کہ اسپیکٹرم کی تقسیم میں قیمت طے کرنے کا معاملہ وزارت پر چھوڑ دینا چاہئے۔مارن کی اس خط کے بعد وزراءکے گروپ کا ٹرم آف ریفرینس تبدیل کیا گیا تھا اور اسپیکٹرم کی قیمت طے کرنے کا حق وزارت کو ہی دے دیا گیاتھا۔ یہ اس بات کاواضح ثبوت تھا کہ 2001 کی قیمت پر اسپیکٹرم دینے پر حکومت رضامندنہیں تھی لیکن اتحاد کی مجبوری کی وجہ سے حکومت کوقائم رکھنے کے پیش نظرگویا جان بوجھ کر مکھی نگلنی پڑی۔ بعد میں وزارت خزانہ کے سیکرٹری نے اس وقت کے کابینہ سیکرٹری کو باقاعدہ خط لکھ کراپنا احتجاج بھی درج کروایا تھا لیکن اس وقت سب کچھ ہو چکا تھا۔واضح ہوگیا کہ مرکزی حکومت کو سارے گھوٹالے کی سن گن تھی۔ ٹرائل کورٹ کے جج او پی سےنی کا فیصلہ بھی اس جانب اشارہ کرتا ہے۔ فیصلے کے پیراگراف 66 میں جسٹس لکھتے ہیں کہ کابینہ کے نوٹ کے مطابق اسپیکٹرم کی قیمت میں وزیر خزانہ اور وزیر مواصلات، دونوں مل کر طے کریں۔ اسی کے مطابق چدمبرم اور راجہ اس نتیجے پر پہنچے کہ سال 2001 کی قیمت کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں ہے یعنی 2008 میں بھی 2001 کی قیمت پر ہی اسپیکٹرم کو فروخت کیا جائے اور دونوں وزراءکے اس فیصلے کو بعد میں وزیر اعظم کو بتایا گیا ۔حالانکہ جج سےنی نے اپنے فیصلے میں مزید یہ کہہ کر اس وقت کے وزیر خزانہ پی چدمبرم کو ساتھ میں ملزم بنانے سے انکار کر دیا کہ راجہ کے ساتھ بیٹھ کر فیصلہ کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چدمبرم راجہ کے ساتھ کسی مجرمانہ سازش میں شامل تھے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر ایک سرکاری ملازم کوئی فیصلہ کرتا ہے اور اس سے حکومت کے خزانے کو نقصان ہوتا ہے تو بھی یہ نہیں کہہ سکتے ہے کہ وہ فیصلہ گھوٹالے کے مقصد سے کیا گیا تھا۔

فاضل جج کا فیصلہ دستیاب ثبوتوں کی بنیاد پر ہے لیکن کیا اس وقت حکومت کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے تھا کہ جو کچھ راجہ کر رہے ہیں‘ وہ غلط ہے اور اسے روکنے کا طریقہ ہونا چاہئے؟ اور یہ بات ڈی ایم کے کو بتانی چاہئے تھی کہ ہم آپ کی حمایت حکومت چلانے کیلئے لے رہے ہیں، گھوٹالہ کرنے دینے کیلئے نہیں؟سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ صاف ہے کہ گھوٹالہ ہوا جبکہ گہرائی سے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سب کچھ حکومت کے نوٹس میں بھی تھا لیکن کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ایسی صورت میںیو پی اے حکومت اپنی ذمہ داری سے بالکل نہیں بچ سکتی۔اس پورے قضیہ کا خطرناک ترین پہلو یہ ہے کہ غلطی کا احساس ہونے کے باوجود بھی متعلقہ عناصر نے اپنی چوک تسلیم نہیں کی بلکہ یہ جتانے کی کوشش کی کہ جیسے کہیں کچھ ہوا ہی نہیں جبکہ دیانتداری کا تقاضہ پورا کیا جاا تو صورتحال مختلف ہوتی۔ دوسری جانب ہندوسان میں اتحاد کی ایک اور مجبوری سامنے آئی۔یہ الگ بات ہے کہ حکومت کو نیچا دکھانے کے فراق میں حزب مخالف کے زعفرانی عناصر اس مسئلہ کو عدالت تک لے گئے اور بعد میں عدالت نے یہ ثابت کیا کہ وہ حکومتوں کے دباؤ میں فیصلہ نہیں کرتی۔یعنی ٹیلی کام گھوٹالہ اتحاد کی ان کمزوریوں اور مجبوریوں پر سوالیہ نشان قائم کرتا ہے جوعوام کیلئے پریشان کن ہے۔ ساتھ ہی یہ گھوٹالہ کا یہ انکشاف اس اعتماد کو تقویت بخشتاہے کہ اگر عاملہ اور مقننہ اپنا کام ٹھیک سے کرنے میں ناکام ہیں تو ذرائع ابلاغ اور عدلیہ اس ملک کو بدعنوانوں کے ہاتھوں یرغمال بننے سے بچا سکتے ہیں۔ان تمام مایوسیوں کے درمیان عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کیا ملک میںجمہوریت زندہ ہے؟
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 115858 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More