ارفع کریم اور بے شمار مگر گم نام "ارفعیں"

نا امیدیوں کے جھکڑ، مایوسیوں کے طوفان اور نوع بہ نوع خدشات کی آندھیاں صرف اس عہد کا خاصہ نہیں، بلکہ اس سے پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور رہتے زمانوں تک ہوتا رہے گا۔ ایک مکمل اور مثالی انسان وہ ہوتا ہے جو ان طوفانوں کے مقابلے میں اس دیے کی طرح سینہ سپر ہوجائے جو پیہم تندی باد مخالف کے تھپیڑے کھانے کے باوجود بھی اپنی ٹمٹماہٹ برقرار رکھے۔ حالات سے لڑتے ہوئے تاریکیوں کے عہد میں اپنی ہمت کے بقدر اجالوں کی داستانیں رقم کرتا چلا جائے۔ ہم دراصل مایوسیوں میں جینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ وہ قومیں جو ہزار پریشانیوں، المیوں اور دکھوں کے بیچوں بیچ سے خوشی کے پہلو کشید لیتی ہیں، ہمیں ان کے لیول تک پہنچنے کے لئے ابھی بڑی مدت درکار ہے۔ خیر ایسے مکمل اور غیرمعمولی انسان ہر عہد میں پیدا ہوتے رہتے ہیں اور کم و بیش ہر بڑا آدمی عمومی بے اعتنائی اور عدم توجہی کا شکار ضرور ہوا ہے۔

انہی بڑے آدمیوں میں سے ایک پاکستان کی کم عمر بیٹی ارفع کریم تھی۔ 20 ویں صدی کی نویں دھائی کے وسط میں اس بچی نے اس دنیا ئے رنگ و بو میں آنکھ کھولی۔ اس کے خاندان کے افراد کے بقول اس کی عادات بچپن سے ہی حیران کن تھی۔ وہ تھی تو ننھی منی سی گڑیا مگر اس کی سوچ و فکر اور نگاہ بہت دور تک رسائی رکھتی تھی۔ وہ عام بچوں کی طرح کھیلنے کودنے کے باوجود کچھ کر گزنے کا عزم اپنے دل میں رکھتی تھی۔ چپکے چپکے عزم و ارادے کا یہ پودا ارفع کے دل میں پختہ تنے کا روپ دھارتا گیا۔ یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک گمنام گاؤں میں خاموشی سے پروان چڑھ رہی تھی اور کسی اونچی اڑان کیلئے بھرپور تیاری میں محو تھی۔ 2004 کی ایک روشن صبح سے قبل پاکستانی قوم اس انمول ہیرے سے کلی طور پر ناواقف تھی کیونکہ ہمارا عمومی مزاج یہ بن چکا ہے کہ جب تک مغرب کی دانش گاہوں سے کسی کے ٹیلنٹ کا اعتراف نہ ہوجائے اس وقت تک ہم اپنے دیسی جوہر کو جوہر تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ اس سے من حیث القوم ہماری خود اعتمادی کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔چنانچہ جب نوسالہ ارفع کو دنیا کی کم عمر ترین مائیکروسوفٹ پروفیشنل ایکسپرٹ ہونے کا اعزاز ملا تو ہم بھی اس سے واقف ہوئے۔

اس کے بعد اخبارات، جرائد، رسائل اور دیگر میگزینز نے اس کے انٹرویو شائع کیے۔ مختلف ٹی وی چینلز نے ارفع کو اپنے پروگراموں میں بلا کر اس کی حیرت ناک کارکردگی کے حوالے سے سوالات کیے اور ارفع کے خیالات و عزائم لوگوں تک پہنچائے۔ اس کے علاوہ ارفع کو بہت سے ایوارڈز اور اعزازات سے بھی نوازا گیا اور بجا طور پر یہ اس کی مستحق بھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں سے جو یہ کہتے ہیں کہ "ہم پاکستانیوں نے ارفع کی قدر نہ کی" کلی طور پر اتفاق مشکل ہے۔ اس کے علاوہ مائیکروسافٹ کے مالک بل گیٹس نے اسے خصوصی طور پر ملاقات کیلئے امریکا بلوایا اور اس کی ذہانت اور فطانت کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔

ارفع کریم پاکستان کے ٹیلنٹ کی علامت کے طور پر ابھری اور پوری دنیا میں ہماری قوم کا سر فخر سے بلند کیا۔ گذشتہ دنوں میں نے ارفع کی زندگی میں اور موت کے بعد اخبارات میں چھپنے والے 2 درجن سے زائد انٹرویوز، کالم، مضامین کا جائزہ لیا۔ کم و بیش ہر قلمکار نے ارفع کو پاکستان کی باصلاحیت بیٹی قرار دے کر اس کی مثالی کامیابیوں کو سراہا۔ اس کی زندگی کی یادوں، باتوں اور معصوم مسکراہٹوں کا ذکر کیا۔چھوٹی سی ارفع کی لمبی لمبی امیدوں، تمناؤں اور خواہشوں کا تذکرہ کیا۔ اس معصوم پری کے پراعتماد لہجے اور متاثر کن انداز گفتار کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ غرض ننھی ارفع کو خوب خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ دوسری جانب ان تعریفی و توصیفی کلمات کے بیچوں بیچ یہ شکوہ بھی نمایاں دکھائی دیا کہ حکومت نے بیرون ملک علاج کیلئے ائیر ایمبولینس کی کیوں منظوری نہ دی۔۔۔؟ جبکہ بڑے سیاسی راہ نماؤں اور قدکاٹھ کے حامل افراد اس سہولت سے پوری طرح مستفید ہوتے ہیں۔ ابھی چند دن قبل بزرگ سیاستدان پیر صاحب پگاڑا مرحوم کو بھی حکومت کی جانب سے ائیر ایمبولینس کی سہولت دی گئی۔ اگر ارباب حل و عقد یہ بھی کر دیتے تو یہ اعتراض بھی جاتا رہتا۔ باقی موت کا وقت تو متعین ہے۔ وہ ہر حال میں آنی ہے۔ ہمارے ذمہ علاج کے ممکنہ اسباب اختیار کرنا ہے، باقی فیصلہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔

ان الفاظ سے ارفع پری کو عقیدت کا سلام پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس جانب توجہ دلانا مقصود ہے کہ ہمارے ملک کے شہروں کی طرح دور دراز دیہاتوں، قصبوں اور پسماندہ علاقوں میں بے شمار "ارفعیں" موجود ہیں۔ یہ وہ ذہین بچے ہیں جن کی صلاحیتوں سے ابھی تک ہمارا خبر سے پہلے سرخی جما دینے والا الیکٹرانک میڈیا بے خبر ہے۔ یہ غربت و مطلوبہ وسائل سے عدم یابی کی وجہ سے اپنے بنیادی حق سے محروم ہیں۔ ان کے ٹیلنٹ کے بارے میں پرنٹ میڈیا سے وابستہ لوگ بھی زیادہ واقف نہیں ہے۔ ان گمنام بچوں میں بہت سے ابھی تک اپنی پوشیدہ صلاحیتوں سے خود بے خبر ہیں۔ مناسب راہ نمائی اور بہتر گائیڈ لائن انہیں میسر نہیں۔ کہتے ہیں کہ کچھ سیکھنے اور یاد رکھنے کے حوالے سے بچپن کا زمانہ موزوں ترین ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں کے کچے مکانوں میں رہنے والے یہ بچے ناقص تعلیمی نظام کے باعث ضائع ہو رہے ہیں۔ ان کی سوچ و فکر کی صحیح خطوط پر پرداخت کیلئے مطلوبہ اسباب ناپید ہیں۔ انہیں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کیلئے کوئی بھی مناسب فورم میسر نہیں۔ وہ اپنے بچپن کے انتہائی قیمتی ایام بے فائدہ قسم کی سرگرمیوں میں گزار رہے ہیں۔

بہت سے بچے ایسے ہیں جو آنکھ کھولنے کے بعد سے اپنے والدین کو کسی وڈیرے، کسی جاگیردار کے زرخرید غلام کی حیثیت سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ وہ اس بات سے قطعی طور پر بے خبر ہیں کہ اس وڈیرے کی سلطنت سے باہر بھی کوئی دنیا ہے۔ ان کے نزدیک وہ چوہدری یا وڈیرہ ان کا "سب کچھ " ہے۔اس مخصوص ماحول میں پرورش پانے والے بچے صرف اس سطح تک سوچ سکتے ہیں کہ جس طرح ہمارے والدین جاگیردار کی خدمت کرتے کرتے پگھل چکے ہیں، بالآخر ہمارا مقصد زیست بھی یہی ہے۔ وہ عزت نفس، آگے بڑھنے کے جذبات، بڑی بڑی تمناؤں اور دنیا کو فتح کرنے کی سوچوں سے کوسوں دور زندگی گزار رہے ہیں۔ ٹیلنٹ ان میں بھی ہے، ان کی ظاہری ساخت میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں۔ ان میں بھی وہ سب کچھ کرنے کی صلاحیت ہے جو نارمل حالات میں نمو پانے والا بچہ کر سکتا ہے۔ لیکن ان کی فکر کون کرے
گا؟ انہیں زیور تعلیم سے آراستہ ہونے کا حق کون دلائے گا؟ انہیں کسی پتھر دل جاگیردار کی نسل در نسل غلامی سے کون نکالے گا؟

ارفع چلی گئی مگر مجھے قوم کی وہ "ارفعیں" نہیں بھولتیں جن کی پیدائش کو بہت سے لوگ پسندیدہ خیال نہیں کرتے۔ ان کی تعلیم و تربیت پر بیٹوں کی سی توجہ نہیں دی جاتی اور والد کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ "ویسے بھی یہ پرائے گھر کی امانت ہے اس پر اخراجات کا کیا معنی۔۔۔؟" بہت سے تو انہیں علم و آگہی کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے اور بے شمار ایسے ہیں جو انہیں واجبی سی تعلیم دلوا دیتے ہیں۔ مجھے بتائیے یہ صریح ناانصافی نہیں۔۔۔؟ اس معاملے میں والدین بھی برابر کے قصوروار ہیں۔

باقی رہی حکومت تو اس کے کیا کہنے؟ آپ پاکستان کے بجٹ کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ ہم کس حد تک تعلیم و تعلّم میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بجٹ میں تعلیم کیلئے مختص فنڈز دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ترقی یافتہ قومیں تعلیمی شعبے کو بہت زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ اس شعبہ میں روز افزوں ترقی کیلئے وسیع بنیادوں پر پروگرام تشکیل دیے جاتے ہیں۔ جدید عہد کے تقاضوں کے مطابق اساتذہ کو ریفریشنگ کورس (Refreshing Courses) کرائے جاتے ہیں۔ بچوں کے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کیلئے فورم مہیا کیے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں جن دیہی علاقوں میں کسی نہ کسی شکل میں تعلیمی ادارے موجود ہیں وہاں بھی ایک عام بچہ صرف اس حد تک تعلیم حاصل کر سکتا ہے کہ وہ مناسب مزدور جو اپنے دستخط کر سکتا ہو یا زیادہ سے زیادہ کلرک بھرتی ہو جائے، اور جن علاقوں میں اسکول زمین پر نہیں بلکہ سرکاری
کاغذوں میں موجود ہیں وہاں کے نونہالوں کا خدا ہی حافظ ہے۔۔۔

برسوں پہلے اقبال نے کہا تھا:
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کِشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

اعتراف کہ ہماری مٹی زرخیز ہے۔ دلیل بھی بجا کہ جب بھی اس کے کسی حصے کو ذرا سی نمی بھی ملی اس نے اپنے سینے سے جواہر اگل کر دنیا کو ورطہ حیرت کر دیا۔ ارفع، علی معین، سنبل سید، ملالہ یوسف زئی اس کی وہ مثالیں ہیں جن تک کیمرے کی رسائی ہو سکی۔ بے شمار وہ ہیں جنہیں ابھی تک کسی غیر ملکی دانش گاہ کی جانب سے اعترافی سرٹیفکیٹ نہیں مل سکا۔ اس لئے ہمارے ارباب قلم و کیمرہ غیر معینہ مدت تک انتظار کریں۔ چند دن قبل راقم ایسے ہی دو غیر معمولی صلاحیت کے حامل بچوں سے مل چکا ہے۔ ان کو ایک مستقل کالم میں خراج تحسین پیش کروں گا۔ مشاہدہ تو یہ ثابت کر چکا ہے کہ زرخیز مٹی اور "ذرا سی نمی" کے امتزاج کا نتیجہ کس درجہ حیران کن اور امید افزاءہوتا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنے ملک کی زرخیز مٹی کو یہ "نمی" کون فراہم کرے گا؟ کون قوم کے تمام بچوں کو ان کا بنیادی حق تعلیم کا حصول دلائے گا۔۔۔؟ کون مرد قلندر ہو گا جو بچوں کو کسی وڈیرے کی چاکری اور اپنی جان سے سخت تر مزدوری کے کاموں سے نکال کر کسی دانش گاہ میں بٹھائے گا۔۔۔؟

ارفع کریم بھی ایک دیہی علاقے میں پیدا ہوئی۔ اس نے عزم، حوصلے اور دنیا کو فتح کرنے کے جذبے کی لازوال تاریخ رقم کی۔ اس نے نہایت کم عمر میں پوری دنیا کے سامنے پاکستان کے امیج کو بلند کیا۔ اس نے بتا دیا کہ اقبال کے دیس میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، بس ذرا سی نمی کی ضرورت ہے۔

کاش کہ اس قوم کو کوئی راہ نمائے کامل مل جائے، جو قوم کا درد رکھتا ہو، جس کی دلچسپیوں کا محور قوم کی سر بلندی، ترقی اور پیش قدمی ہو۔ جس کا دامن کرپشن، لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانی کے سیاہ دھبوں سے پاک ہو۔ جو اس قوم کے موتیوں اور جواہرات کو تلاشنے اور انہیں صحیح مقام دینے کی تڑپ رکھتا ہو۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو ہمارے ہر شہر، ہر قصبے، ہر گاؤں اور گوٹھ سے سینکڑوں "ارفع" پیدا ہوں گے۔ ہم دنیا میں فخر کے ساتھ سر بلند کر سکیں گے۔ کاش اے کاش ایسا ہو جائے۔
Farhan Fani
About the Author: Farhan Fani Read More Articles by Farhan Fani: 22 Articles with 22323 views Reading and Writing... View More