شجرتعلیم کایوں بھی پھل لاتا ہے

بہار کے ایک چھوٹے سے گاﺅں چمن پورا کے ایک اسکول کے چھ بچوں نے ایک بین اقوامی باوقار تعلیمی مقابلہ ”انٹرنیشنل میتھ میٹکس اولمپیاڈ “ میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس مقابلے میں کامیابی کودنیا بھر میں قدر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

یوپی کی سرحد سے متصل ضلع گوپال گنج کا یہ گاﺅں شمالی ہند کے ہزارہا گاﺅں کی طرح پسماندہ ہے۔ آس پاس کا علاقہ بھی تعلیم کوروشنی سے محروم اور غریبی کی مار سے چور ہے۔ اس کے باوجود بین الاقوامی نقشہ پر’چمن پورہ‘ کا اس طرح ابھر آنا کچھ کہتا ہے۔ یہ کارنامہ دراصل اسی گاﺅں کے ایک نوجوان انجنیرچندر کانت سنگھ کی حوصلہ مندی، منصوبہ سازی اور مل جل کر مہم سر کرنے کی کہانی بیان کرتا ہے۔

کامیابی کی کئی مشکل منزلیں عبور کرلینے کے باوجود چندر کانت نے اس گاﺅں کو بھلا نہیں دیا جس میں 36سال پہلے وہ پیدا ہوئے۔ان کو اتفاق سے کم سنی سے پڑھنے کا شوق ہوگیا تھا چنانچہ ماحول سازگار نہ ہونے کے باوجود کیروسین لالٹین کی روشنی میں گاﺅں کے پرائمری اسکول سے پانچویں کا امتحان پاس کرلیا۔ نمبر اچھے آئے اس لئے میرٹ کی بنیاد پر سیوان کے ڈی اے وی کالج میں داخلہ مل گیا۔ قسمت نے ساتھ دیا۔ کالج کی تعلیم کے بعد باوقار برسا انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی میں داخلہ مل گیا ۔ بی ٹیک کیا۔ آئی آئی ٹی ممبئی سے ایم ٹیک بھی کرلیا۔ ایک سال ٹاٹا اسٹیل کمپنی میں کام کیا۔ وہاں سے جرمنی کی مشہو ر بوش کمپنی میں چلے گئے اور اپنی صلاحیتوں کی بدولت کچھ نئی ایجادات بھی کرلیں۔ اب بنگلور کی ایک موٹر ساز کمپنی کے شعبہ ریسرچ سے وابستہ ہیں۔

تین سال قبل جب چندرکانت جرمنی میں تھے ، ایک خبر پر ان کے دماغ میں ایک شعلہ سا لپکا۔ وہ خبریہ تھی ممبئی میں راج ٹھاکرے کی ایم این ایس نے بہار یوں کے خلاف ایک تحقیر آمیز مہم چھیڑ رکھی ہے۔چندر کانت کہتے ہیں، ’ممبئی کی خبروں سے بہت تکلیف ہوئی۔ سوچا بہار کے بچوں کو باہر جانے سے روکنے کے لیے کچھ کیا جانا چاہئے۔ سب سے پہلے خیال آیا کہ اپنے گاﺅں کے سرکاری پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر سے مدد لی جائے۔ میں نے ان کو پیش کش کی ایک ٹیسٹ کے ذریعہ چھ بچوں کو چن لیں ، میں ان کی تعلیم کا خرچ اٹھاﺅں گا، مگر انہوں نے ٹیسٹ ہی نہیں لیا۔“

اس کوشش میں ناکامی کے بعدانہوں نے مسٹر سوریہ نارائن سے ، جو آئی آئی ٹی ممبئی میں ڈین تھے،مشورہ کیا۔انہوں نے کہامنصوبہ ایسا بناﺅ جس کا فائدہ زیادہ بچوں کو پہنچے اور جو اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے ۔ ڈونیشن پر انحصار نہ کرو۔ چندرکانت نوکری چھوڑ کر گاﺅں میں نہیں رہ سکتے تھے۔ غور و خوض کیا تو ایک راستہ نکل آیا۔وہ راستہ یہ تھا ’انفارمیشن ٹکنالوجی ‘سے کام لینے کا، جس کا خواب اب سے چوتھائی صدی قبل راجیو گاندھی نے دیکھا تھا اور جس کی اس وقت شدید مخالفت ہوئی تھی۔مسٹر نارائن کے مشورے کی روشنی میں انہوں نے ایک تفصیلی پروجیکٹ تیار کیا جس میں ایک اسکول ، ایک انجنیرنگ کالج اور ایک تحقیق و ترقی کا مرکز (R&D Centre) کا قیام شامل ہے۔اس کی تکمیل کی مدت دس سال تھی اور خرچ کا تخمینہ30کروڑ روپیہ تھا۔ ایک سو صفحات کے اس بلوپرنٹ کو انہوں نے اپنے 3000 دوستوں کو بھیجا، جن میں سے 8 تعاون پر آمادہ ہوگئے۔ان اساسی ممبران نے ایک ٹرسٹ قائم کیا۔ ریاستی سرکار نے بھی منظوری دیدی۔پہلے مرحلے میں ساتویں کلاس تک کا ایک پبلک اسکول قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔زمین کے لئے گاﺅں والوں سے رابطہ کیا گیا اور بازار بھاﺅ سے 30فیصد رقم زیادہ دیکر زمین خریدی گئی۔تین ماہ میں ایک سو لوگوں نے چھوٹے بڑے قطعات فروخت کردئے اور اس طرح کل ملا کر 13 ایکڑ زمین حاصل ہو گئی۔

مئی 2009 میں اسکول کی تعمیر شروع ہوئی۔ گاﺅں میں بجلی نہیں ہے اس لئے دو جنریٹر خریدے گئے۔ ڈیڑھ سال کے اندر اسکول میں 45کمرے بن گئے۔ جن میں دو منزلوں پر دس کمروں میں ہمہ وقت انٹرنیٹ کنکشن کے ساتھ بڑے بڑے ایل سی ڈی مانیٹر نصب ہیں۔ ایک لائبریری قائم ہو گئی۔ ایک بڑی کمپیوٹر لیب بنائی گئی جس میں 17کمپیوٹر ہیں۔ دفاتر اور ٹیچرس کی رہائش گاہوں میں بھی انٹرنیٹ کنکشن فراہم ہیں ۔ بچوں کے کھیلنے کے لیے والی بال ، بیڈمنٹن، کرکٹ پچ وغیرہ بھی ہیں۔ سوئمنگ پول بنایا جارہا ہے۔

ٹیچرس کاانتخاب ریاست سے ہی کیا گیا ۔ ان میں سے 16کو ماﺅنٹ کارنیوال اور آئی آئی ٹی بنگلور کے اعلا اساتذہ نے دو ماہ کی ٹریننگ دی جس میں پاور پائنٹ اور فلیش ٹکنالوجی کا استعمال سکھایا گیا۔تربیتی کورس میں ایسے اسباق بھی شامل تھے جو بچوں میں مل جل کر کام کرنے اور ان کا حوصلہ بڑھانے میں کارگر ہیں۔

مسٹر سنگھ خود بنگلور سے ’اسکائی پی‘Skypeکے ذریعہ بچوں کو حساب پڑھاتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ تصویروں کی مدد سے سبق زیادہ آسانی سے ذہن نشین ہوجاتا ہے اور دیر تک یادرہتا ہے۔ انکی ہی طرح دوسرے ٹرسٹی بھی مختلف مقامات سے اسکائی پی کی مدد سے کلاسیں لیتے ہیں۔ انجنیر پنکچ کمار جو این ٹی پی سی میں کام کرتے ہیں سنگرولی (ایم پی) سے فزکس پڑھاتے ہیں۔ مسٹر سنجے رائے کوروا (یو پی ) سے کیمسٹری پڑھاتے ہیں۔ کسی کلاس روم میں بلیک بورڈ نہیں ہے۔ اسباق کے لئے یاتو ایل سی ڈی اسکرین استعمال کی جاتی ہے یا پروجیکٹر۔ٹیچرس کے حاضری بایومیٹرک کیمرے سے اور طلباءکی حاضری کمپوٹر پر درج کی جاتی ہے۔

اگرچہ چند طلباءریاست سے باہر کے ہیں مگر زیادہ تر قرب و جوار کے 50گاؤں سے آتے ہیں۔ تین سال میں طلباءکی تعداد 500 ہوگئی ہے۔اسکول کی ساکھ کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ درخواست دینے والے صرف 10% بچوں کو ہی داخلہ مل پاتا ہے۔ پہلی کلاس کی فیس 300 روپیہ ماہانہ ہے۔ ہر اگلی کلاس میں ایک سو روپیہ کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہاسٹل کا خرچہ 4000 روپیہ ماہانہ ہے۔ لیکن داخلہ کے لئے صرف بچہ کا ذہین ہونا شرط ہے ،اس کو مالی حالت داخلہ میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ چنانچہ طلباءمیں مزدوروں، رکشہ چلانے والوں اورچھوٹے کاشتکاروں کی بچے بھی ہیں اور نمایاں ہیں۔

حساب کے بین اقوامی اولمپیاڈ مقابلے میں ایک ہی اسکول کے چھ بچوں کی کامیابی ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ ان میں ایک تیسری کلا س کا طالب علم سنی کمار اورنگ آباد(مہاراشٹرا) کا ہے ،جس کے والد چھوٹے موٹے کام کرکے گزارہ کرتے ہیں۔ دیگر بچوںمیں سویتنک (درجہ۴)، اتل (درجہ ۵) آفتاب عالم (درجہ ۶) اتسو (درجہ ۷)اور آریان (درجہ ۸) شامل ہیں۔ یہ خوشی کی بات ہے ان میں ایک نام آفتاب عالم بھی شامل ہے۔ مگر آفتاب عالم اکیلا ہی کیوں ہے؟ ایسے تعلیمی ادارے بہار اور یوپی میں مسلمان کیوں قائم نہیں کرسکتے؟

اس کامیاب تجربہ کے کئی اہم پہلو قابل توجہ ہیں۔ ملک کی پسماندگی کے لئے سب سے زیادہ رونا کثرت آبادی کا رویا جاتا ہے،حالانکہ افرادی قوت دنیا کا سب سے بیش قیمت سرمایہ ہے، شرط یہ ہے کہ مناسب تعلیم اور تربیت کے ذریعہ صلاحیتوں کو نکھاردیا جائے۔ مشکل یہ ہے کہ ہمیں بچہ کا کھانے والا ایک منھ تو دکھائی دیتا ہے، اس کی دس انگلیاں دکھائی نہیں دیتیں جن کو ہنر سکھاکر سو نے کا بنایاجاسکتاہے۔ دنیا میں صرف معدنیات اور اشیائے صرف (consumer products) کی ہی نہیں، باصلاحیت افراد کی بھی زبردست مانگ ہے۔ اس کے باوجود تعلیم وتربیت کے سیکٹر پر اتنی بھی توجہ نہیں دی جاتی جتنی اسلحہ سازی پر۔ گوپال گنج کا تجربہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے بچوّں میں ذہانت اور صلاحیت کی کمی نہیں ہے۔ کمی ہے تو ان کو نکھارنے والوں کی۔اس طرح کے ادارے ان ٹکسالوں سے کم بیش قیمت نہیں جن میں سکے ڈھلتے ہیں۔

اس تجربہ کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اعلا تعلیمی ادارے شہروں سے دور ہٹ کر گاؤں میں بھی قائم کیے جاسکتے ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ وہ دوردراز علاقوں میں کامیابی کے پرچم بلند نہ کرسکیں۔ تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ کام شروع کرنے سے پہلے جامع منصوبہ سامنے ہونا چاہئے اور چند لوگوں کی ایک ٹیم بناکر اس کو نافذ کیا جانا چاہئے۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ جو لوگ اپنے وطن سے دورخوشحال ہیں ان کو کچھ خیال اپنے وطن کابھی رکھناچاہئے۔ ہمارے یہاں یوپی میں صرف ضلع اعظم گڑھ میں تو ایسی مثالیں ملتی ہیں مگر یہ رویہ عام نہیں ہے۔جہاں ادارے ہیں وہاں بھی ہم ان سے استفادہ حاصل نہیں کر پاتے۔اس کی ایک مثال میرے سامنے ہے۔گزشتہ چند سالوں میں کئی بار مجھے اپنے آبائی گاﺅں سے چند کلومیٹر فاصلے پر ایک گاﺅں رٹھورا(ضلع باغپت، یو پی) میں ایک گرلس انٹرکالج کے جلسوں میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ کالج امریکا میں مقیم ڈاکٹر جگبیر سنگھ نے اپنی والدہ ہوشیاری دیوی کے نام سے قائم کیا ہے۔ ان کو احساس تھا کہ ان کی والدہ اگرچہ ناخواندہ تھیں، مگران کی تعلیم پر بڑی توجہ دی تھی۔ عرصہ کے بعد وطن آنا ہوا تو خیال آیا کہ بچیوں کی تعلیم کا وہاں کوئی نظام نہیں ہے۔ ان کو ورثہ میں ایک چھوٹا سا قطعہ آراضی ملاتھا جس کی آمدنی سے اب وہ بے نیاز تھے۔ کچھ آراضی گاﺅں پنچائت نے دیدی اور انہوں اپنے وسائل کو بروئے کار لاکر لڑکیوں کا ایک بڑا سااسکول قایم کردیا۔ ڈاکٹر صاحب کھلے ذہن کے آدمی ہیں۔سال میں دو تین مرتبہ خود آتے ہیں اور انٹرنیٹ کے ذریعہ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں ۔ان کو یہ احساس ہوا کہ اگرچہ رٹھورا میں مسلم آبادی 20% ہے مگر مسلم طالبات اکا دکا ہیں۔ مجھے مدعو کرنے کا مقصد یہی تھا کہ مسلمانوں کو بچیوّں کی تعلیم کی طرف متوجہ کیا جاسکے۔پتہ یہ چلا کہ مقامی مسجد کے امام صاحب بچیوں کو پڑھانا مناسب خیال نہیں فرماتے۔ ممکن ہے ان کے پیش نظر کچھ ایسی مصلحت ہو جس پر ہماری کوتاہ نظر نہ گئی ہو۔ بہر حال تعلیم سے بے توجہی کم از کم شمالی ہند کے مسلمانوں میں اب بھی عام ہے اور اعلا تعلیمی اداروں کے قیام میں بھی برادران وطن سے پیچھے ہیں حالانکہ اس دنیا میں بااختیاری کا واحد ذریعہ اعلا تعلیم و تربیت ہی ہے۔ (ختم)

(مضمون نگار آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ کے نائب صدر ہیں)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 162925 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.