اسے کیوں نہ کہیں اتر پردیش کی بساط پر موقع پرستوں کا کھیل؟

کولکتہ میں منعقد میلے میں بدنام زمانہ بنگلہ دیشی ادیب تسلیمہ نسرین کی کتاب کی مجوزہ اجراءکی منسوخی کے بعد یوپی چناؤ چھٹے مرحلے کیلئے نوٹیفکیشن آج نوٹیفکیشن کے اجراءکے ساتھ ہی 68اسمبلی سیٹوں میں پولنگ کا چھٹے مرحلے کا چناؤ عمل شروع ہوجائے گاجہاں 28فروری کوووٹ ڈالے جائیں گے ۔ انتخابی موسم میں سیاسی جماعتوں کا کردار ہی نہیں بلکہ چہرہ بھی اجاگر ہو جاتا ہے۔ الیکشن میں ہرسیاسی پارٹی دوسری پارٹی کو پٹخی دینے کے فراق میں غرق ہے جس کیلئے سیاسی جماعتیں ممکنہ ہتھکنڈے اپنا رہی ہیں۔ ان کی ذہنیت محض ذات ، مذہب اور علاقے پر آکر سمٹ جاتی ہے۔ بنیادی مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے ذات ، مذہب ،علاقائی عصبیت پر مبنی جوا کھیلا جاتا ہے۔حتی کہ ٹکٹ کی تقسیم ذات اور مذہب کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔موقع پرست عناصر انتخابی موسم میں ایک تیر سے دو شکار کھیلنے کیلئے کسی بھی حد کو عبور کرنے پر آمادہ ہیں‘خواہ اس سے اسے فائدہ ہو یا نہیں‘ جبھی تو سلمان رشدی کے جے پور آنے کے مسئلے پر ڈھل مل رویہ سامنے آ گیا۔ جے پور ادبی میلہ میں شرکت کرنے کا رشدی کا پروگرام جس طرح منسوخ کیا گیا ، اس کے پس پشت جہاں مسلم ووٹ کو مضبوط کیا گیا تو وہیں سلمان رشدی کے قبضے میں موجوداس اجازت نامے کو نظر انداز کردیا گیا جس کے ذریعے وہ ہندوستان آنے کیلئے ویزہ سے بے نیاز ہے۔ تسلیمہ نسرین کی ہندوستان میں موجودگی کانگریس کاہندوکارڈ ہے جبکہ مسلم احتجاج کے باوجود اگر رشدی کو جے پور کے پروگرام میں شامل ہونے دیا گیا تو مسلم ووٹر بدک جاتے۔کیا یہ سب اتر پردیش کے انتخابات میں مسلم ووٹ حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا گیا ؟یہی نہیں بلکہ چار سال کے بعد ایک گڑھے مردے کو اکھاڑا گیا۔ بٹلہ ہاؤس تصادم پر بھی سیاست شروع ہو گئی۔ دگ وجے سنگھ اپنے بیان پر قائم ہیں تو ان کی پارٹی اور حکومت نے ان کے بیان سے کنارہ کر لیا ۔ان حالات کے پس پردہ یوپی میں مسلم رائے دہندگان کو شیشہ میں اتارنے کی تدابیرکو نئی جہت ملی ہے۔ریاست کے مسلم ووٹروں پر سماج وادی پارٹی کی خاصی نظر ہے۔ بابری مسجد تنازع پر ملائم سنگھ یادو کے رخ نے مسلمانوں کے درمیان انہیں ہیرو بنا دیا۔ مسلم- یادو کے اتحاد کی وجہ سے وہ تین مرتبہ ریاست کے وزیر اعلٰی بنے لیکن جوہری معاہدے کے معاملے پر کانگریس کا ساتھ دینے کی وجہ سے مسلم ملائم سے بدک گئے جس کا خمیازہ انہیں لوک سبھا انتخابات میں بھگتنا پڑا۔ انہوں نے مسلمانوں میں اپنا رسوخ جمانے کے سلسلے میں اعظم خان کو پھر سے اپنے ساتھ شامل کیا ۔ملائم سنگھ کو علم ہے کہ بغیر مسلم حمایت کے چوتھی مرتبہ وزیر اعلٰی کی کرسی تک رسائی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ سماج وادی پارٹی کانگریس کے ساڑھے چار فیصد کا اعلان اور نو فیصد کے وعدے کو ایک طرف رکھتے ہوئے آبادی کی بنیاد پر ریزرویشن کی بات کر رہی ہے ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ مسلم ریزرویشن پرآندھرا پردیش میں ہائی کورٹ تین بار ریاستی حکومت کی کوشش ناکام کر چکا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو لگتا ہے کہ جب معاملہ عدالت میں اٹکے گا تو دیکھا جائے گا۔ ووٹروں کوبیوقوف بنا کرپہلے ووٹ توحاصل کر لئے جائیں۔

اتر پردیش میں مسلم آبادی تقریبا اٹھارہ فیصد ہے۔ یہ ووٹر جدھر جھک جائیں ، اس پارٹی کا بیڑا پار ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس ، سماج وادی اور بہوجن سماج پارٹی کے درمیان مسلم ووٹروں کومتوجہ کرنے کا زبردست مقابلہ چل رہا ہے۔ کانگریس نے مسلم ، برہمن اور دلت اتحاد کی بدولت تقریبا چار دہائی تک اتر پردیش میں حکومت کی لیکن سماج وادی اور بہوجن سماج پارٹی کے زیر اثر مسلم ووٹر کانگریس سے کھسک گئے۔ خاص طور پر بابری مسجد کے انہدام کے بعد لیکن اس مرتبہ کانگریس کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتی ہے۔ایک سو تیرہ نشستوں پر مسلم ووٹر فیصلہ کن کردار میں ہیں۔ ریاست کے رامپور ، مرادآباد ، بجنور ، سہارنپور ، بریلی ، مظفرنگر ، میرٹھ ، بلرام پور ، سدھارتھ ، جیوتی با پھلے نگر ، شراوستی ، باغپت ، بدایوں ، لکھنو ، بلند شہر اور پیلی بھیت میں ان کی آبادی بیس سے انچاس فیصد ہے۔ ان علاقوں میں جس پارٹی کو مسلم ووٹوں کا تیس فیصد مل جائے تو اس کی قسمت سنور جاتی ہے۔ 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں ان کا ساتھ ملا تو کانگریس کی سیٹیں اکیس ہو گئیں۔ لوک سبھا انتخابات کے بعد سی ایس ڈی ایس کی طرف سے کئے گئے سروے کے مطابق کانگریس کو پچیس فیصد مسلمانوں نے ووٹ دیا تھا جبکہ بی ایس پی کو اٹھارہ فیصد اور سماج وادی پارٹی کو تیس فیصد۔

سن 2007 کے اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو گیارہ فیصد اور 2002 اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں پندرہ فیصد ووٹوں کا اضافہ ہوا جبکہ بی ایس پی کو 2002 کے اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں آٹھ فیصد اور 2007 کے اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں ایک فیصد کا فائدہ ہوا۔ سماج وادی پارٹی سے مسلم بنیاد میں دراڑ پڑ گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ 2007 میں سماجوادی پارٹی کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ سماج وادی پارٹی کو 2002 کے اسمبلی انتخابات میں مسلم ووٹروں کے چوون فیصد ، 2007 کے اسمبلی انتخابات میں سنتالیس فیصد اور 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں محض تیس فیصد ووٹ ملے۔ یعنی 2002 کے مقابلے میں 2009 میں تقریبا چوبیس فیصد مسلم ووٹروں نے سماج وادی پارٹی سے رخ موڑ لیا تھا۔نہ تو بی جے پی کو مسلم ووٹوں کی ضرورت ہے نہ ہی مسلم ووٹر بی جے پی کو پسند کرتے ہیں۔ اس کے باوجود تین فیصد مسلم ووٹروں نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا۔ اس بار بی جے پی نے صرف ایک مسلم امیدوار کھڑا کیا ہے۔یہ بھی صاف ہے کہ بغیر مسلم حمایت کے کانگریس اپنی گمشدہ طاقت پھر سے نہیں حاصل کر سکتی۔ لوک سبھا انتخابات جیسی کامیابی دہرانے کیلئے کانگریس نے ریزرویشن کا داؤ توکھیلا ہی ہے ، اس مرتبہ مسلم امیدوار کھڑے کرنے میں بھی اس نے کوئی کوتاہی نہیں برتی ہے۔ پچھلی بار کانگریس کے چھپن مسلم امیدوار تھے تو اس مرتبہ اکسٹھ ہیں۔ اس تعداد میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا تھا لیکن راشٹریہ لوک دل کے ساتھ اتحاد کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔ اب بھلا مایاوتی کیوں پیچھے رہتی۔

اس مرتبہ اس نے برہمنوں کی بجائے مسلم رائے دہندگان سے زیادہ توقعات وابستہ کررکھی ہیں۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں بی ایس پی کے اکسٹھ مسلم امیدوار تھے ، اس بار پچاسی ہیں۔ کانگریس کے ریزرویشن کارڈ کھیلنے سے پہلے ہی بی ایس پی ریزرویشن کا یہ پانسہ پھینک چکی تھی۔ مایاوتی نے اس ریزرویشن کے مطالبہ کرتے ہوئے مرکز کو خط لکھاتھا۔سماج وادی پارٹی جو مسلم حمایت کے بل بوتے اقتدار میں آنے کا خواب دیکھ رہی ہے ، اس نے چوراسی مسلم امیدوار کھڑے کئے ہیں یعنی بی ایس پی سے محض ایک امیدوار کم ہے جبکہ پچھلی مرتبہ اس نے ستتاون مسلم امیدوار ہی کھڑے کئے تھے۔ 403 اسمبلی سیٹوں میں سے 100 سے 125 سیٹوں پر مسلم ووٹروں کا اہم رول ہوتا ہے لیکن گزشتہ انتخابات میں محض چون مسلم امیدوار ہی جیت سکے جس میں علاقائی پارٹیوں کا اور امیدواروں کا کردار زیادہ اہم ہے جن کی ولادت کا مقصد ہی ووٹوں کو کاٹنا ہوتا ہے۔ ان میں سے انتیس بی ایس پی سے جیتے تھے جبکہ سماج وادی پارٹی سے صرف انیس ؛ چھ امیدوار دیگر جماعتوں سے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ پچھلی بار کانگریس کے ٹکٹ پر ایک بھی مسلم امیدوار نہیں جیت سکا تھا۔

کانگریس پارٹی اتر پردیش میں عوام کو خواب دکھا رہی ہے۔ جو کام وہ چالیس سال میں نہیں کرسکی اسے اب دس سال میں کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ لیکن اس الیکشن میں سب سے اہم مسئلہ بن گیا ہے مسلم ووٹروں کو آمادہ کرنے کا۔ مسلم ووٹ حاصل کرنے کیلئے جہاں کانگریس ، سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی جان توڑ کوشش کر رہی ہیں وہیں بی جے پی نے اس کے برعکس اوبی سی اور رام مندر کا مسئلہ اچھال دیا ۔اوبی سی کی 47 فیصد ریزرویشن میں اقلیتوں کو ساڑھے چار فیصد ریزرویشن دئے جانے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کے پیچھے مسلم ووٹروں پر گہری نظر ہے۔ وزیر قانون سلمان خورشید کو محسوس ہوا کہ اتنے پر تو کام نہیں بننے والا لہٰذا ضابطہ اخلاق کو نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے ساڑھے چار فیصد سے بڑھا کر نو فیصد کرنے کا وعدہ کر دیا۔ حالانکہ اس مسئلے پر سلمان خورشید کو الیکشن کمیشن سے نوٹس مل چکا ہے لیکن اتر پردیش میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے کانگریس کوئی کسراٹھا کر نہیں رکھنا چاہتی ہے۔

مسلم ریزرویشن پر بی جے پی اپنی گوٹیں کھیلنے سے کب چوکنے والی ہے۔ اقلیتوں کیلئے اعلان کئے گئے ساڑھے چار فیصد ریزرویشن کے خلاف احتجاج کے پیچھے بی جے پی کی نظر ہے اوبی سی پر۔ وہ یہ احساس کروانا چاہتی ہے کہ اوبی سی کوٹے سے اقلیتی ریزرویشن ملے گا تو کہیں نہ کہیں اوبی سی کا حق مارا جائے گا۔ اب تو بی جے پی نے اپنے منشور میں یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ اگر بی جے پی اقتدار میں آتی ہے تو محروم طبقے کے 47 فیصد ریزرویشن کے تحت دئے گئے 4.5 فیصد اقلیتی ریزرویشن کو ختم کر دے گی۔ یہی نہیں بلکہ اپنے روایتی حامیوں کو آمادہ کرنے کیلئے اس نے پھر سے رام جنم بھومی کا مردہ کھڑاکیا ہے۔ انتخابات کے دوران ہی بی جے پی کو رام مندر بنانے کا خواب نظر آتا ہے۔ اب وہ ایک بار پھر کہہ رہی ہے کہ پارٹی اقتدار میں آئی تو رام مندر کی تعمیر میں آنے والی تمام رکاوٹیں دور کرے گی۔گویابدعنوانی کے معاملے سے پھسل کر بی جے پی ذات کی سیاست میں پھنس گئی ہے جس شخص کی کرسی بدعنوانی کی وجہ سے گئی اور جسے مایاوتی نے ٹھکرا دیا ، اس شخص کے ذریعے بی جے پی اتر پردیش میں اقتدار حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ریزرویشن کے علاوہ اس انتخاب میں اور بھی متعدد چنگاریوں کو ہوا دی گئی۔ بی ایس پی ترقی کے نام پر انتخابات کے ٹھیک پہلے ترپ کا پتہ پھینک چکی ہے۔ ایک ریاست کے قیام میں برسوں لگ جاتے ہیں لیکن مایاوتی نے ایک نہیں بلکہ چار ریاستیں بنانے کی تجویزریاستی اسمبلی سے پاس کروا دی۔ منظوری کیلئے وہ یہ تجویز مرکز کے پاس بھیج چکی ہیں۔ اتر پردیش کا دوبارہ قیام کرکے چار ریاستیں بنیں یا نہ بنیں ، انتخابی موسم میں اس موضوع کو بھنانے کا موقع تو مایاوتی کو مل ہی گیا ۔انتخابی بساط میں کوئی بھی پارٹی پیچھے نہیں رہنا چاہتی ہے۔ ان کے اعلان ئے اور وعدے بھلے ہی عجیب و غریب ہوں ، اور انہیں پورے کرنے کی راہ میں خواہ جتنی بھی آئینی رکاوٹیں درپیش ہوں لیکن پارٹیوں کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔فی الحال13اضلاع پرمشتمل ان 68حلقوں میں 28فروری کوانتخاب ہوں گے یہ حلقے سہارنپور ، میرٹھ ، علی گڑھ اور آگرہ ڈویژن میں ہیں۔یہ علاقہ حساس مغربی یوپی اور راشٹریہ لوک دل اور سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کی ایک مضبوط بیلٹ تصور کی جاتی ہے ۔توقع کی جاتی ہے کہ 21.18ملین ووٹر 211317پولنگ اسٹیشنوں میں چھٹے مرحلے کے دوران 23448الیکٹرونک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے جبکہ ٹیم انا نے لوک پال بل پراترپردیش میں اپنی مہم کے شروع کردی ہے ۔ اقتدار کے ندیدوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی بھی طرح ووٹ حاصل کرلیں۔صاحب بصیرت غور کریں توایسے عناصر ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے نظر آئیں گے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اصل میں انتخابات کا مقصد کیا ہے ؟اقتدار کی تبدیلی کا مطلب متبادل نہیں ہے جبکہ عوام ایسے اختیارات چاہتے ہیں جس سے باطل پر ضرب پڑ سکے۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 115846 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More