لکھنو میں لگا جھٹکا تو دہلی بھی ہلے گی

اتر اکھنڈ اور پنجاب میں انتخابات کا عمل ختم ہوچکا ہے شدید سردی کے دوران بھی دونوں ریاستوں میں 70سے 77فیصد کے درمیان رائے دہندگان نے امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ اے وی ایم مشینوں کے سپرد کردیا ۔جس سے توقع کی جارہی کہ اتر پردیش میں اس مرتبہ پہلے سے زیادہ رائے ہندگان انتخابی مراکز پر مجتمع ہونگے۔کانگریس پارٹی نے بابر ی مسجدمعاملے کے ساتھ مفت بجلی ، ایس ٹی ایس پی اور پسماندہ طبقات کیلئے تعلیم کا وعدہ کے ساتھ اپنا چناؤ منشوربھی جاری کردیا ہے ۔منی پور میں 28جنوری کو ہی ووٹنگ ہوچکی ہے۔ شمال مشرق کی اس چھوٹی سی ریاست میں 82فیصدی رائے دہندگی کا ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے جبکہ کئی دہشتگردانہ تنظیموںنے بائیکاٹ کرکے آخری لمحات تک دباؤ قائم کر رکھا تھا ۔اب پورے ملک کی نگاہیں یوپی اسمبلی انتخاب پرمرکوز ہیں۔ یہ انتخاب مرکز میں بر سر اقتدار یوپی اے اتحاد کیلئے خصوصی اہمیت کا حامل ہوگیا ہے ۔اگر لکھنﺅ میں کانگریس متعینہ نتائج سے محروم رہی تو اس کا اثر دہلی کے اقتداراور سیاسی منظر نامہ پرلازمی طور سے پڑے گا۔یوپی میں7مرحلوں میں انتخابات ہونے ہیں ۔8فروری سے 4مارچ تک رائے دہندگان اے وی ایم مشینوں میں امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ محفوظ کریں گے ۔یہی وجہ ہے کہ اس انتخاباب میںکانگریس نے اپنا پورا زور لگا دیا ہے۔پارٹی کے ولی عہد راہل گاندھی انتخابی مہم میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں ۔یوپی کے انتخاب میںپارٹی نے راہل کو جس طرح مرکزی حیثیت بخشی ہے۔ اس سے یہ بھی تذکرہ چل پڑا ہے کہ خاطر خواہ نتائج نہ نکلنے پر اس کا ٹھیکر ابھی راہل کے ہی سر پھوٹے گا ۔کانگریس کی معاون پارٹی این سی پی کے سر براہ نے کھل کر اظہار خیال کردیا ہے۔مرکزی وزیر شرد پوار نے ایک ٹی وی انٹرویومیں ایسی صاف رائے زنی کی ہے جس سے کانگریس کے کئی بڑے لیڈر بھی پریشان ہوئے ہیں ۔یوپی انتخاب کے سلسلے میں پوار نے کہہ دیا ہے کہ راہل گاندھی نے انتخابی مہم کی کمان اپنے ہاتھ میں لے کر جرات مندانہ قدم اٹھایا ہے لیکن اس میں خطرہ بھی ہے ۔اگر نتائج کا نگریس کی منشاءکے مطابق نہ آئے تو راہل کی حکمت عملی مشکلوں سے دوچار ہوسکتی ہے۔پوار کی یہ پیش گوئی کانگریس قائدین ہضم نہیں کر پارہے ہیں۔پارٹی کے چیف سکریڑی اور راہل کے خاص مشیر دگ وجے سنگھ نے کہا ہے کہ شرد پوار کو اس قسم کی رائے زنی سے اجتناب برتنا چاہئے تھا ۔دگی نے دعویٰ کیا ہے کہ 6مار چ کو جب نتائج منظر عام پر آئیں گے تو بہتیروں کو حیرت ہوگی۔اسی دن پوارجیسے لیڈروں کو پتہ چل جائے گا کہ راہل گاندھی کی محنت کتنی رنگ لائی ہے۔ مرکزی وزیر زراعت پوار نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ 2014میںوہ لوک سبھا کا انتخاب نہیں لڑیں گے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ اب سیاست میں نوجوانوں کو زیادہ مواقع ملنے چاہئیں۔پوار کے اس موقف سے سیاسی اٹکلوں کا ایک دور شروع ہوگیا ہے ۔حالانکہ پوار کے بھتیجہ اور مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلی اجیت پوار نے کہا ہے کہ اپنی عمر کے مد نظر ان کے قائد نے اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ پھر بھی وہ لوگ چاہیں گے کہ راجیہ سبھا میں آکر وہ پارٹی کو رہنما ہدایت دیتے ہیں ۔سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ آخر ایسے نازک موقع پر پوار نے یہ کیا سلسلہ چھیڑ دیا جبکہ پوار بھی 71کے ہی ہوئے ہیں۔ ان سے زیادہ عمر والے کئی وزیر مرکز میں بڑی بڑی وزارتیں سنبھالے ہوئے ہیں ۔خود وزیر اعظم منموہن سنگھ پوار کے مقا بلے میںزیادہ عمر رسیدہ ہیں ۔یاممکن ہے پوار نے اپنے ریٹائر منٹ کا اعلان کرکے کوئی اہم سیاسی پیغام عام کرنے کی سعی کی ہو ۔پارلیمنٹ کے گذشتہ اجلاس میں غذائی تحفظات کا مشہور زمانہ قانون ایوا ن میں پیش کیا گیا تھا ۔اس قانون کو ایوان کی ایڈ ہاک کمیٹی کے پاس غور کرنے کیلئے بھیجا گیا ہے یہ قانون کانگریس سر براہ سونیا گاندھی کی دین ہے جس کے منظور ہونے پر غرباءکو نہایت ارزا ں شرح پر اناج ملنے کی گارنٹی ہوجائے گی ۔اندازہ کے مطابق ا س قانون کے تحت ملک کی 64فیصدی آبادی کو سستا غلہ ملنے کا انتظام ہوجائے گا ۔خط افلاس سے نیچے زندگی گذارنے والے کنبوں کو تو معمولی قیمت پر ہی ہر مہینے 35کلو میسر ہونے کی صورت پیدا ہوجائے گی لیکن اس سہولیت کو وزیر زراعت برداشت نہیں کررہے ہیں۔ان کی مخالفت کی بدولت یہ قانون طویل عرصہ تک لٹکا رہا ۔جب سونیا گاندھی نے زور ڈالا تو پوار نے ٹوکا ٹاکی بند کی تھی ۔حا لانکہ جس کا بینہ میٹنگ میں اس قانون کو منظوری ملنی تھی ‘اس میں بھی پوار نے بعض چبھتے ہوئے سوال کئے تھے۔اب یہ قانون پارلیمنٹ میں پیش ہوچکاہے ۔اسمبلی انتخاب میں کانگریس نے تحفظات خوراک گارنٹی کے انتظام کو بھی اپنی ایک بڑی کامیابی بتایا ہے لیکن انتخابی مہم میںاسے استعمال کرنے پر پوار نے ایک مرتبہ پھر اپنا اعتراض درج کروایا ہے۔

انہوں نے میڈیاکو انٹریو میں کہا ہے کہ تحفظات خوراک انتظامات کو پورا کرنے کیلئے اتنا غلہ کہا ںسے آئے گا؟ اگر اس پر صحیح معنوں میں عمل در آمد کرنا ہے تو غذائی پیداوار میں اضافہ کا انتظام کرنا ہوگاجس کیلئے ضروری ہے کہ زراعتی شعبہ میںمعقول سرمایہ کاری ہواور وزار ت زراعت کا بجٹ بھی وسیع ہو پوارنے غلہ فراہمی پر جو سوالیہ نشان قائم کیاہے اس غذاتی تحفظات قانون نافذ ہونے پر پھر اشکال پیدا ہوگیا جبکہ قانو ن بننے سے قبل ہی حکومت کے وزیر زراعت ہاتھ کھڑے کررہے ہیں ۔فی الحال پوار کے اس اعتراض پر کانگریس کے کسی سینئر لیڈر نے رسمی طور پر مخالفت درج نہیں کروائی ہے لیکن غیر رسمی گفتگو میں متعدد قائدین نے کہا ہے کہ یوپی کے انتخابی ماحول میںپوار کی جلی کٹی اتحادی دھر م کے خلاف ہے۔کانگریس کے بعد یوپی اے کی سب اہم اتحادی ترنمول کانگریس ہے جس کی سربراہ ممتا بنرجی حالیہ مہینوں میں متعدد موضوعات پر کانگریس سے ناراض چل رہی ہیں ۔مغربی بنگال میں تر نمول اور کانگریس کی مشترکہ حکومت ہے لیکن کئی وجوہ سے دونوںپارٹیوں درمیان رشتے خراب ہوئے ہیں ۔گذشتہ دنوں ممتا نے کانگریس کو خبر دار کیاتھا کہ وہ چاہے تو انکی حکومت سے الگ ہوجائے کیونکہ ان کی حکومت کانگریس کی حمایت کے بغیر بھی آسانی سے چلے گی۔ ریاست سے لیکر مرکز تک ترنمول کئی معاملات پر خفا ہے۔ پارلیمنٹ کے گزشتہ اجلاس میں ترنمول کے تیوروں کی بنیا د پر ہی لوک پال قانون راجیہ سبھا میں معلق ہوگیا تھا ۔اس سے قبل خوردہ شعبہ میں ایف ڈی آئی کے فیصلہ سے ممتا نا راض تھیں جسکی وجہ سے حکومت کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا تھا۔پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ پر بھی تر نمول نے تیوریا ں چڑھائی ہیں جس سے متاثر ہوکر حکومت کویو ٹرن لینا پڑا ۔حالانکہ ترنمول کا اثر مغربی بنگال تک محدودرہا ہے لیکن کانگریس کو سبق سکھانے کیلئے اس پارٹی نے اتر پردیش میں بھی سو سے زیادہ امیدوار میدان میں اتار دئے ہیں ۔کئی سیٹوں پر تر نمول نے ا ن لوگوں کو ٹکٹ دئے ہیں جو بعض وجوہ سے کانگریس سے ناراض ہوگئے تھے جس کی وجہ سے ترنمول کے امیدوار کانگریسیوں کا درد سر بڑھا رہے ہیں ۔یوپی کے اہم انتخابی مقابلے میںسماجوادی ‘بی ایس پی ،بی جے پی اور کانگریس ہی ہیں ۔تازہ ترین انتخابی رجحانات سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ اہم مقابلہ سماجوادی اوربی ایس پی کے درمیان ہوگاحالانکہ کانگریس کے اہم قائدین غیر رسمی مذاکروں میں کہتے ہیں کہ ان کا نشانہ 100 تک پہنچ گیا تو بڑی کامیابی ہوگی جبکہ دگی جیسے لیڈر کانگریس کیلئے ڈینگیں مارنے میںکسی تعلق سے کام نہیں لے رہے ہیں لیکن مرکزی وزیر غلام نبی آزاد نے گذشتہ دنوں غیر رسمی طور پر یہ کہہ دیا ہے کہ یوپی میں کانگریس اقتدار میں نہیں آنے والی ہے۔اور اگریہ کہ اسے 100سیٹیں مل جائیں تو بڑی بات ہوگی ۔کانگریس کی حکمت عملی طے کرنے والے 2014کے لوک سبھا انتخابات میں راہل گاندھی کو پارٹی کی جانب سے ممکنہ وزیر اعظم کے طور پر بھی پیش کیا جارہا ہے لیکن یوپی کے نتائج ان کے سیاسی کیریئر کیلئے نہایت اہم سمجھے جانے لگے ہیں ۔جس طرح ترنمول اور این سی پی جیسی اتحادی جماعتیں کا نگریس قیادت کو بات بات پر آنکھیں دکھانے لگی ہیں اس سے یوپی کے انتخابات کے بعد کانگریس کو دہلی کا گھر محفوظ رکھنے کیلئے کچھ مزید انتظامات کرنے پڑ سکتے ہیں لیکن یوپی اے کانگریس حکومت کیلئے نئے اتحادیوں کی تلاش اسی صورت میں کر سکے گی جب یوپی میںخاطر خواہ کامیابی نصیب ہوجائے بصورت دیگر لکھنو کی گدی کیلئے جاری یہ انتخابی مقابلہ دہلی کی سیاست میںدھماکہ خیز ہلچل پیدا کر سکتا ہے۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 115867 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More