اظہار خیال کی آزادی کا فتنہ کب تک؟

شاتم رسولﷺسلمان رشدی کے جے پور ادبی میلے میں دورے کی منسوخی پرادب کے نام پربے ادبی کرنے والے نام نہاددانشوروں کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آنے پر ملک میں اظہار خیال کی آزادی کے حق اور اس کی حدود پر بحث ایک بار پھر سے اس گرم ہوگئی۔ملک میں پابندی کے باوجود میلے میں شریک دو ادیبوں نے تقریب کے ایک سیشن کے درمیان سلمان رشدی کی متنازع کتاب ’سیٹنک ورسز‘ کے کچھ اقتباسات پڑھ کر سنائے ۔جے پور کے دربار ہال میں منعقدہ ’آف گڈز اینڈ مین‘ نامی سیشن کے دوران مصنف ہری کجرو اور امیتابھ کمار نے اس متنازع کتاب سے کچھ اقتباسات پڑھے۔ہری کجرو نے کہا کہ سلمان رشدی ’کچھ لوگوں‘ کے احتجاج کی وجہ سے جے پور نہیں آ پا رہے، یہ ادب کیلئے اچھی بات نہیں اور وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اسی لئے سیٹنک ورسز کے کچھ اقتباسات پڑھ کر وہ اپنا احتجاج درج کروا رہے ہیں۔اس تقریب میں اقتباسات پڑھے جانے کے بعد اس معاملے پرمزید ہنگامہ ہوگیا۔تمام میڈیا چینلوں میں یہ خبر دکھائے جانے کے بعد منتظمین نے میڈیا اداروں کو ایک ای میل کے ذریعے طفلانہ طور پر پلا جھاڑا کہ دونوں ادیبوں نے جو کچھ بھی کیا اس سے تقریب کے منتظمین متفق نہیں اور اس پورے عمل کیلئے دونوں مصنف خود ذمہ دار ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نہ صرف ان دونوں نام نہاد ’ادیبوں بلکہ سلمان رشدی کو مدعو کرنے والے کیا یہی منتظمین نہیں ہیں؟سلمان رشدی جے پور میں جاری سالانہ ادبی میلے میںنہ صرف مدعو تھا بلکہ افتتاحی لیکچر دینے والا تھا لیکن میلے کے انعقاد سے پہلے ہی سلمان رشدی نے ’خوف کے مارے‘یہ کہتے ہوئے منسوخ کیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں سے وابستہ ذرائع نے اسے بتایا کہ ہندوستان آنے کی صورت میں اس کی جان کو ممبئی کی مافیا سے خطرہ ہوسکتا ہے جبکہ ہفتہ کو ممبئی پولیس نے کہا کہ انہیں مصنف سلمان رشدی پر ہونے والے کسی حملے کے بارے کوئی خفیہ جانکاری نہیں ۔معاملے کے طول پکڑنے پر حکمران کانگریس پارٹی کے ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی نے واضح کیاکہ سیٹنک ورسز کے اقتباسات پڑھ کر یا تو مصنف سستی شہرت بٹورنا چاہ رہے تھے یا پھر بغیر وجہ ایک تنازعہ کھڑا کرنا چاہ رہے تھے‘لہٰذا قانون کو اس پر کارروائی کرنی چاہئے۔‘

الٹا چور کوتوال کو ڈاٹے کی مصداق بدنام زمانہ برطانوی مصنف سلمان رشدی نے راجستھان پولیس پر الزام عائد کیا کہ پولیس نے انہیں غلط معلومات دے کر جے پور ادبی میلے سے دو رکھا ہے۔سلمان رشدی نے فیس بک پر لکھا کہ ان پر حملے کی بات کے بارے میں اس سے جھوٹ بولا گیا ۔ اس نے لکھا ہے کہ ’مجھے لگتا ہے کہ مجھ سے جھوٹ بولا گیا ہے۔میں بے حد ناراض اور غصے میں ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہی پولیس ہری کجرو، امتاو کمار اور رچر جوشی کو گرفتار کرنا چاہتی ہے۔‘وہیں جے پور ادبی میلے کے منتظمین کا کہنا ہے کہ سلمان رشدی سے جھوٹ بولا گیا یا نہیں اس کے بارے میں وزارت داخلہ وضاحت دے ’ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں کہ سکتے ہیں۔‘وہیں راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے ریاستی حکومت کے موقوف دوہراتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے سلمان رشدی کے حفاظت کے سبھی انتظامات کئے گئے تھے لیکن رشدی نہیں آیا تو اس میں حکومت کیا کرسکتی ہے؟

اظہار خیال کی آزادی کی آڑ میں یہ پہلا فتنہ نہیں ہے بلکہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے موجودہ دور میں سوشل ویب سائٹوں نے بھی یہی انداز اختیا کیا ہے۔ماضی میںجب گوگل متعارف ہوا تو بہت آسانی ہو گئی توفیس بک اور ٹوئٹر کا وجودمنظر عام پر آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اظہار خیال کی آزادی میں اِن سائٹوں نے اہم کردار ادا کیا ہے‘کیونکہ اس کے ذریعہ ایک دوسرے سے وابستگی اور پیغامات دینے میں سہولت بھی ہے اور فائدے بھی،یہی وجہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل فیس بک پر اپنے خیالات کا اظہار بڑی بے باکی سے کر رہی ہے۔ ساتھ ہی یہ افراد اپنی ’ذہانت‘ کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔اس کے برعکس شر پسند ذہن رکھنے والے ’اظہار خیال کی آزادی‘کے نام پر فیس بک اور ٹوئٹر کے استعمال سے فساد برپا کر نے میں مصروف ہیں جبکہ اظہار خیال کے معنی یہ نہیں کہ کسی دوسرے فرد یا طبقے کی دل آزاری کی جائے۔انٹر نیٹ کی مذکورہ سائٹوں پر ایسی متعدد تصاویر اور بیانات ہیں جن سے مخصوص افراد اور فرقے کے لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہے ۔مسئلہ جب تک مسلم طبقہ کا رہا تو حکومت خاموش رہی لیکن جب سیاسی قائدین کے قابل اعتراض خاکے شائع ہوئے تو’ شر پسندمواد‘کی روشنی میں وزیر مواسلات کپل سبل کو کہنا پڑا کہ اظہار خیال کی آزادی یا صحافتی آزادی میں مداخلت نہیں کی جا رہی ہے لیکن ایسے بیانات جو شر انگیز ہوتے ہیں ان پر پابندی لگانا ضروری ہے۔اس سلسلے میں سبل نے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹوں کو متنبہ کر دیا ہے کہ یا تو وہ خود ہی اشتعال انگیز مواد پر پابندی عائد کر دیں بصورت دیگر حکومت اس ضمن میں اقدام کرے گی۔

اسی اظہار خیال کی آزادی کو ہتھیار بناتے ہوئے گزشتہ جولائی میں ممبئی بم دھماکے کے دو روز بعد سبرامنیم سوامی نے ایک انگریزی اخبار میں لکھے گئے اپنے کالم میں اس کیلئے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔سبرامنیم سوامی کے مذکورہ مضمون کا عنوان تھا’ہاوٹووائپ آوٹ اسلامک ٹیرز‘یعنی ’اسلامی دہشت گردی‘ کو کیسے ختم کیا جائے؟ یہ مضمون انگریزی اخبار ڈی این اے میں شائع ہوا تھا۔سبرامنیم نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ دہشت گردانہ کاررائیوں سے نمٹنے کیلئے ہندووں کو متحد ہوکر جواب دینا چاہئے اور اگر ضرورت پڑے تو مسلمانوں کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کر دیا جانا چاہئے۔اپنے مضمون میں سوامی نے لکھا تھا کہ مندروں کی جگہ بنی ہوئی تمام مساجد کو منہدم کردینا چاہئے اور اس بات کی وکالت کی تھی کہ جو لوگ اپنے آباو اجداد کو ہندونہیں مانتے انہیں بھی ووٹ دینے کے حق سے محروم کر دینا چاہئے۔سبرامنیم سوامی نے اس موقف کی بھی وکالت کی تھی کہ ہندوستان میں اسلامی دہشت گردی قومی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔سبرامنیم سوامی امریکہ کی ہاروڈ یونیورسٹی میں اقتصادیات کے ماہر کی حیثیت سے درس دیتے آتے ہیں۔اِن کے اس مضمون کے بعد ہاروڈ کی پروفیسر ڈائنااک کہتی ہیں کہ ’سبرامنیم سوامی نے ایک خاص مذہب کے تمام افراد کو نیچا دکھا کر ان کی عبادت گاہوں پر حملے کی وکالت کرکے ہر طرح کی حدیں پار کردی ہیں۔لہذا یونیورسٹی کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا رشتہ کسی بھی ایسے فرد سے وابستہ نہ کرے جو کسی بھی ا قلیتی طبقے کے خلاف نفرت پھیلانے کا کام کرتا ہو۔اس کا خاطر خواہ اثر بھی ہوا ۔ ‘بیشتر اساتذہ اور یونیورسٹی اسٹاف نے اس فیصلے کی حمایت کی اور آخر کارمتعصبانہ ذہنیت کی عکاسی کرنے والے آرٹیکل کی پاداش میں سوامی کے ذریعے پڑھائے جانے والے ’کورسز‘کو نہ صرف ختم کردیا گیابلکہ اِن کی2 مضامین کو بھی ہٹا دیا گیانیزسبرامنیم نہ صرف مذکورہ یونیورسئی میں درس و تدریس سے محروم ہوگئے ۔

منافرتی تحریر و تقریر پر قدغن یوروپ کے بیشتر ممالک میں رائج ہے جو کہ آزادی اظہار کے بنیادی مطلق اصولوں کے خلاف ہے۔ اسی طرح فرانس، آسٹریا اور جرمنی میں ایسی تحریرو تقریر جو ہالوکاسٹ یا دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے قتل عام کا انکار کرئے، قانونا منع ہیں۔آئرلینڈ میں مذہبی سب و شتم یا بلاسفیمی قانونا جرم ہے۔ لیکن امریکہ میں جس کو ہمارئے یہاں کے ٹی وی دانشور مطلق یہودی نواز سمجھتے ہیں ،درحقیقت اس بات کی قانونا اجازت ہے کہ ہالوکاسٹ ( دوسری جنگ عظیم میں نازی جرمنوں کے ہاتھوں یہودیوں، روسیوں، معذوروں، بے خانماں لوگوں کے قتل عام ) کا انکار کر سکیں۔ امریکی(اور دیگر مغربی ) ادیبوں نے ہالوکاسٹ کے خلاف کتابیں لکھی ہیں اور ڈیوڈ ڈیوک جیسے لوگ آزاد گھومتے ہیں جو کھلے عام اس انسانی سانحے کو فراڈ قرار دیتے ہیں، یہ آزادی اظہار کی ایک تلخ لیکن حقیقی مثال ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں بھی آزادی رائے کے قانون کو مطلق آزادی حاصل نہیں مثلا جہاں نفرت آمیز، نسلی، جنسی و سیاسی تنقید، تحریر و تقریرکی عمومی طور پر پوری آزادی ہے وہاں فحاشی، بچوں سے متعلق جنسی مواد اور کوئی ایسی تحریر و تقریر جوامن عامہ کیلئے لازمی خطرے کا باعث ہو قانونا ممنوع ہے لہٰذاگالی دینے پر بھی فردپر قانونا جرمانا ہو سکتا ہے۔ کوئی امریکی صدر کی شان یا ہجو میں جو چاہے کہے لیکن کسی بھی قسم کی پر تشدد دھمکی فردکوفورا جیل کا منہ دکھا سکتی ہے۔ یہی وہ ختلاف اقدار اور تفاوت ہے جو مغرب اور اسلامی اقدار کو آزادی اظہار کے بارے میں جداگانہ تشخص دیتا ہے۔اظہار رائے کی آزادی صرف رائے کی آزادی کا نام نہیں بلکہ تحریر و تقریر و عمل کی آزادی کا بھی نام ہے جسے امریکہ میں پہلی ائینی ترمیم کی حمایت حاصل ہے۔ عمل کی آزادی کی بنیادی شرط یہ رکھی جاتی ہے کہ اس سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے۔ اس ضمن میں برطانیہ میں عوامی مقامات پر شراب نوشی کی مثال دی جاسکتی ہے جو کہ قانونا جائز ہے جبکہ امریکہ میں یہ قطعی خلاف قانون ہے کہ عوامی مقامات جیسے سڑک، پارک وغیرہ پر مے نوشی کی جائے۔ اکثر برطانوی نژاد امریکی اسے بنیادی حقوق کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ نجی ادارے اپنے قوانین بھی رکھتے ہیں جو آزادی اظہار میں مزید قدغنیں لگانے میں قانونا آزاد ہیں مثلا کوئی ایسا لفظ یا فقرہ جس سے کسی ملازم کی دل آزاری ہوتی ہواسے نجی اداروں میں ادا کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔ کسی کو رنگ، نسل، زبان، جنسی میلان یا مذہب کی بنیاد پر تفریق کا نشانہ بنانا تو ممنوع ہے ہی لیکن اسے اس تناظر میںمحض مخاطب کرنا بھی کسی کو نوکری سے محروم کر سکتاہے لیکن اسی کی دوسری منفی حد فرانس میں عوامی مقامات پر حجاب پر عائد پابندی ہے جو آزادی اظہار کے بنیادی اصولوں کی نفی ہے۔ غرضیکہ جس آزادی اقدار و اظہار پر مغرب فخر کرتا ہے‘یہاں اسی پر کئی بنیادی قدغنیں بھی لگائی جاتی ہیں لیکن عمومی رجحان یہی ہے کہ یہ ایک آزاد ملک ہے اور یہاں ہر فرد کو اپنے نظریہ، عقیدے کی مکمل آزادی ہے اور آزادی اظہار کا مکمل حق حاصل ہے۔ یہ بات وسیع پس منظر میں بہت حد تک درست ہے اور دعوت دین کے لئے رحمت کا باعث بھی۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ مسلم ممالک میں توآزادی رائے کاعشر عشیر بھی حاصل نہیں۔کوئی مغرب کو نصیحت کرنے چلے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ اول تو اسلامی نظام بیشتر مسلم اکثریتی ممالک میں اپنی اصل روح کے ساتھ موجود نہیں ورنہ عوام الناس کو حکمرانوں سے انکے اعمال کا جواب طلب کرتے دیکھتے دوم یہ کہ آزادی رائے بھی مغرب کی طرح مطلق نہیں بلکہ اسلامی اقدار کی پابند ہے۔ آزادی رائے کے نعرے تلے مادر پدر آزاد نہ ہونگے مثلا فحاشی ، عریانی اور بیہودہ مواد کی تقسیم بیشتر مغربی ممالک میں آزادی اظہار کے تحت بالغان کیلئے جائز ہے لیکن یہ اسلام میں سراسر نا جائز ہوگی۔دراصل آزادی اظہار کسی بھی جگہ لا محدود نہیں۔ فرق صرف اس بات کا ہے کہ معاشرہ کس بات کوبرداشت کرتا ہے اور کس بات کو برا جانتا ہے، یہ فرق ہر اس معاشرے میں پایا جاتا ہے کہ جہاں معروف و منکر کی حدود انسان کی بنائی گئی ہوں۔ جہاں انبیاءؑ کی تعظیم کی جاتی ہے اور انکی تضحیک ایک قابل تعزیز فعل ہے، یہی اصول شائد مغربی معاشرے میں بھی نافذہونگے۔

مغرب میں ‘آیکنوکلاسٹ’ طبقے کی بہتات نہیں تو قابل توجہ موجودگی ہے جو معاشرے کی تمام حدود و قیود کو پامال کرنے کے درپے رہتا ہے۔ مثلا فری ٹاپ، نامبلا، اسکیپٹک سوسائیٹی وغیرہ۔مذہب کو تفنن کا نشانہ بنانا اور اس پر آوازے کسنا برطانیہ میں تو عوامی مزاج کا حصہ ہے جس کی بنا پر سابق وزیر اعظم ٹونی بلئیر کو اپنے عملی کیتھولک ہونے کا اعلان وزارت عظمی سے مستعفی ہونے کے بعد کرنا پڑا کیونکہ انکے بقول مذہبی افراد کو پاگل یا ‘نٹس’ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح دائیں بازو کے قدامت پسند جو مسلمانوں سے نالاں رہتے ہیں، بائیں بازو کے افراد جو مذہب سے ہی عمومی طور پر بیزار ہیں اور ملحدانہ خیالات کے حامی لوگ مختلف حیلوں سے آزادی اظہار کی آڑ میں نفرت و تفنگ کے تیر چلاتے ہیں اور چونکے انہیں اس بات کا علم ہے کہ یہ مسلمانوں کو یہ امر انتہائی ناگوار گذرتا ہے، اس کو بار بار کرنے پر مصر نظر آتے ہیں۔

اس امرمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ انسانی فطرت بنیادی طور پر حلم اور اچھائی کی طرف مائل ہوتی ہے اور مغرب میں عمومی طور پر لوگ اس قسم کی لغویات کے حامی نہیں ہوتے۔ عام طور پر لوگ اختلاف کے باوجود دل آزاری سے حد درجہ پرہیز کرتے ہیں لیکن ہر دوسرے معاشرے کیطرح یہ خاموش اکثریت میں ہیں۔ اسی وجہ سے معمولی ‘فرنج’ طبقات کو واضع ہونے کا موقع مل جاتا ہے جیسے ‘ساوتھ پارک’ کی طرح کے شو ہیں جن کا مقصد ہی ہر بات کا مذاق اڑانا ہے چاہے وہ کوئی فرد ہو یا مذہب، نظریہ ہو یا مقدس ہستی۔ اس کے خالقین میٹ اور ٹرے اپنے آپ کو ملحد گردانتے ہیں اورریٹنگس کے علاوہ انکا کوئی خدا نہیں۔ ان لوگوں سے کسی قسم کے سنجیدہ مکالمے کی توقع کرنا فضول ہے۔ یہ لوگ اظہار رائے کی آزادی کے قوانین کافائدہ اٹھا کر لوگوں کی دل آزاری کرتے ہیں جس کی لپیٹ میں مسلمان، عیسائی، مورمن، ساینٹولوجسٹ، یہودی، ملحدین، سیاستدان، اکابرین وغیرہ سب آتے ہیں اورسب کو تضحیک و فضیحت، سب و شتم میں برابر کا حصہ ملتا ہے۔ یہ نہ توکوئی یہودی و صیہونی سازش ہے اور نا کوئی کانسپیریسی پلاٹ، حقیقت کو آنکھیں کھول کر دیکھنے اور اپنے تمام مسائل کیلئے’کانسپیریسی تھیوریز’ اور صیہونی سازشوں کو الزام دینے سے اجتناب کی اشد ضرورت ہے۔

اگر ان افراد کی آواز کو دبانے یا سینسر کرنے کی بات کریں تو یہ آزادی رائے کی مغربی اقدار پر حملہ تصور ہوگا۔ جس طرح ہم مسلمانوں کو اپنی اقدار پیاری ہیں اسی طرح دین مغرب بھی اپنی بالادستی چاہتا ہے اور یہیں پر ان تہذیبی اقدار کا تصادم ہوتا ہے۔عام تاثر ہے کہ سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے افراد کو مغربی ممالک اسلام دشمنی میں پناہ دیتے ہیں جبکہ ظاہری طور پرحقیقت یہ ہے کہ انکو انکی اظہار رائے پر مبینہ عقوبت و ایذا رسانی ‘پرسیکیوشن’ سے بچنے کیلئے پناہ دی جاتی ہے۔اسی طرح جیسے دیگر ہزاروں افراد اسایلم یا سیاسی پناہ گزینی کی درخواست پر بیرون ملک جاتے ہیں۔ قادیانی بھی اسی رعایت کا فائدہ اٹھا کر اپنے آپ کو مظلوم اقلیت جتا کر ہمدردیاں اور ویزے سمیٹتے ہیں ۔ شاتم الرسول تھیو وین گوہ کے واصل جہنم کئے جانے جیسے واقعات آزادی مذہب و اظہار کی ہمدردی کے ان مغربی جذبات کو تقویت دیتے ہیں اور اس ضمن میں افراد، ادارے اور حکومتیں اظہار رائے کی آزادی کو بچانے کی کوششوں کیلئے مختلف اقدامات کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ویب لنک
<https://nihadawad.blogspot.com/2010/05/by-nihad-awad-muslim-response-to-draw.html>کا حوالہ بھی سامنے آیا ہے۔

یہاں دیکھنا یہ ہے کہ یہ منافرت کہاں سے پیدا ہوئی؟کون لوگ ہیں جو اس کو ہوا دے رہے ہیں اور وہ کون لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ملک میں امن و سکون کا ماحول ختم کر دیا جائے؟توجہ طلب پہلو یہ بھی ہے کہ یہ لوگ جو سیاست کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں اور مختلف جماعتوں میں سرکردہ حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر وہ اپنی قلم یا زبان سے منافرت پھیلاتے پھریں تو کس طرح ممکن ہے کہ وہ امن و امان کے قیام میں کوئی کردار ادا کر سکیں گی؟غورطلب پہلو یہ بھی ہے کہ ان منافرت کے ان پرستاروں کوسیاسی میدان میں شکست کون دے گا؟ یعنی وہ کون لوگ ہوں گے جو منافرت کے خلاف ووٹ دینے سے لے کر ووٹ مانگنے تک میں آپسی خیر سگالی کا اظہار کرسکیں ؟کیا ووٹ بینک کی یہ موقع پرست سیاست رنگ،نسل ،ذات اور مذہب کی ہی بنیادوں پر ہوتی رہے گی ؟کیا اس کا کوئی متبادل نہیں؟ یہ درست ہے کہ بظاہرتمام سیاسی جماعتیں اور قائدین انتخابات کے موسم میں آپسی بھائی چارے اورفردو ریاست کی فلاح و بہود کی بات کرتے ہیںلیکن جب وعدے پورے کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ نہ صرف گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیتے ہیںبلکہ بھول جاتے ہیں کہ اقتدار میں وہ کن بنیادوں پر آئے تھے۔آج وطن عزیزمیں چند مقامات سے مسلم قیادت بھی ابھر رہی ہے لیکن اس قیادت کو موجودہ گمراہ کن سیاست سے اپنے آپ کو الگ رکھنا اسی صورت میں ممکن ہوگا جب وہ داعیانہ ذمہ داریوں کے ساتھ آگے بڑھیں کیونکہ فکر و عمل میں ہم آہنگی درست یقین کے بغیرممکن نہیں۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116580 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More