حکایتی طرز تحریر، ایک مؤثر ذریعہ اظہار

تحریری ادب میں تفہیم کیلئے اسلوب نگارش کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ بعض اہل قلم حضرات کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ مشکل سے مشکل اور الجھی ہوئی بحثوں کو اس خوبصورت انداز میں الفاظ کا جامہ پہناتے ہیں کہ بات بھی قاری کی سمجھ میں آجاتی ہے اور عبارت بھی بوجھل نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس بسا اوقات معلومات یا پیغام تو انمول ہوتا ہے لیکن اسلوب کی جزالت اور مشکل نگاری کا شوق پیغام کے انتقال میں بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ ادبی تاریخ شاہد ہے کہ سہل نگاری کی بنیاد پر تخلیق پانے والا لٹریچر بہ نسبت گرانڈیل اور بھاری بھر کم تراکیب پر مشتمل ادبی مواد کے زیادہ طویل العمر ہوتا ہے اور اس کی مقبولیت کا گراف بھی بلند تر رہتا ہے۔

گذشتہ دنوں حکایتی ادب کی تخلیق اور اس کی افادیت سے متعلق ایک تحریر نظر سے گزری۔ اس تحریر میں بہت خوبصورت انداز میں مذکورہ موضوع پر گفتگو کی گئی۔ اس کے بعد بعض ادب دوست احباب کی محفل میں بھی یہ موضوع زیر بحث رہا۔ مختلف نکتہ ہائے نظر سامنے آئے مگر اس بات پر سب لوگ متفق تھے کہ حکایتی انداز تحریر میں پہنچایا گیا پیغام قاری کے ذہن میں نفوذ کے اعتبار سے تیز تر ہوتا ہے۔ اسی دوران ایک کتاب ہاتھ لگی، اس کتاب میں عیسائیت اور اسلام کے بنیادی عقائد سے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔ "ازابیلا" نامی اس کتاب میں مندرجہ بالا دقیق علمی موضوع کو بہت آسان انداز میں سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ازابیلا ایک لڑکی ہے۔ اس کا باپ اندلس کا لاٹ پادری ہے۔ یہ الٰہیات کی طالبہ ہے، لیکن کسی وجہ سے اسلامی تعلیمات اس کے دل میں گھر کر جاتی ہیں۔ پھر اس کے بعد مسلمان اہل علم اور عیسائی ماہرین علم کلام کے مابین مناظرے اور علمی مباحثے ہوتے ہیں۔ تقابل ادیان کے طالب علم اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ الٰہیات اور بنیادی عقائد سے متعلق مباحث انتہائی وقیع اور دقیق ہوتی ہیں۔ لیکن مصنف کا کمال دیکھئے اس نے اس مشکل اور پیچیدہ موضوع کو قاری کی ذہنی سطح سے دور نہیں جانے دیا۔ میں جب یہ کتاب پڑھ کر فارغ ہوا تو پتہ چلا کہ اس موضوع پر کتنی اہم نوعیت کی معلومات سے ابھی تک بے خبر تھا۔ دوران مطالعہ مجھے کسی بھی جگہ رکنے یا نظر ثانی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ یہ سب مصنف کی سلیس تحریر، آسان ترین الفاظ کے چناؤ اور روزمرہ کے محاورات کے برمحل استعمال کی وجہ سے ہوا۔خاص طور پر واقعاتی ترتیب اور مسحور کن تسلسل کتاب کے اختتام تک مجھے اپنی گرفت میں لئے ہوئے تھے۔ یہ جان دار حکایتی اسلوب کا اثر تھا۔

ہم میں سے بہت سے لوگ سماجیات پر لکھتے ہیں۔ وہ اپنی تحاریر کو معاشرتی برائیوں کے سد باب کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ پاکیزہ اخلاقی اقدار کو سوسائٹی میں فروغ دیا جائے۔ چنانچہ اس ضمن میں وہ مقدور بھر کوششیں بھی کرتے ہیں، لیکن ایک عرصے سے یہ بات مشاہدے میں آرہی ہے کہ ہمارا مشکل نگاری کا ذوق بعض اوقات ہمارے مقصودی مرکزی خیال کو بے جان کر دیتا ہے اور قاری اس تحریر سے یا تو اکتا جاتا ہے یا پھر پوری طرح استفادہ نہیں کر پاتا اور قلم کار کو متوقع رد عمل نہیں ملتا۔ اس حوالے سے ہمیں اپنے پانچوں حواس کو کام میں لا کر عہدِ موجود کے افراد کی نفسیات کو جانچنا ہو گا۔ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ لوگ کہانی اور حکایت کے انداز کے رسیا ہوتے ہیں۔ وہ غیر محسوس طریقے سے کہانی میں موجود سبق کو جذب کر لیتے ہیں۔ حکایتی طرز کی تحریروں پر مشتمل جرائد اور پرچے اسی وجہ سے مقبول ہوتے ہیں۔ یہ قاری کو بہت جلدی اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک ادب دوست صاحب سے گفتگو جاری تھی۔ حکایتی طرز کی تحاریر کی کشش اور مقناطیسیت کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے اپنے بچپن کا واقعہ سنایا۔ ان کا کہنا تھا "بچپن کی بات ہے کہ ہمارے ہاں باقاعدگی سے ایک اخبار آیا کرتا تھا۔ اخبار کی خبریں چونکہ پھیکی اور روکھی ہوتی تھیں، اس لئے میں ان کی جانب کوئی خاص توجہ نہ دیتا تھا البتہ ہر جمعہ کے دن اس اخبار کے ساتھ ایک رسالہ بھی آتا تھا۔ اس میں مختلف اخلاقی اور اصلاحی طرز کے مضامین ہوتے تھے لیکن یہ مضامین روایتی انداز کے برخلاف مختلف کرداروں، کہانیوں اور حکایتوں کی صورت میں ہوتے تھے۔ رسالہ جونہی پہنچتا تو گھر میں موجود تمام بہن بھائیوں میں چھینا جھپٹی شروع ہو جاتی۔ کوئی کسی سلسلے کا عاشق تھا تو کوئی کسی مضمون کا رسیا (یاد رہے کہ یہ رسالہ مختلف مستقل سلسلوں کے تحت کہانیاں چھاپتا تھا)۔ میں نے اس جھگڑے کا ایک حل سوچا۔ وہ یہ کہ ہاکر چونکہ دن کے گیارہ بجے آتا تھا اس لئے میں گیارہ بجے سے دو گھنٹے قبل ہی گھر کے باہر گلی میں ادھر ادھر گھومنے لگتا اور ہاکر کا انتظار کرتا رہتا۔ چنانچہ ہاکر کبھی قبل از وقت بھی آجاتا تھا۔ میں رسالہ وصول کر کے گھر کے باہر ہی پڑھ لیتا اور پھر جا کر دوسروں کی اس رسالہ تک رسائی ممکن ہوتی ۔ اب میں سوچتا ہوں کہ اس کشش کا بنیادی سبب سوائے اس کے حکایتی طرز اور کہانی نویسی کے کچھ نہ تھا"۔

آج بھی ہم اگر اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں تو بہت جلد اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ جتنے بھی بچوں کے یا پھر عمومی رسالے مقبول ہیں ان میں سے اکثر میں زیادہ تر تحریریں حکایتی اسلوب میں ہوتی ہیں۔ مختلف ڈائجسٹیں جنہوں نے خواتین کو اپنے سحر میں گرفتار کر رکھا ہے سب کی سب داستان سرائی کی بنیاد پر اپنے قارئین کے حلقے میں روز بروز وسعت پیدا کر رہی ہیں۔ کالم نویسی کے میدان میں بھی کرداروں پر مبنی تحاریر ماضی قریب میں بھی مقبول رہی ہیں اور آج بھی ریٹنگ کے اعتبار سے اس اسلوب کے حامل لوگوں کا گراف بلند دیکھا جارہا ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ بعض سنجیدہ نوعیت کے سیاسی، مذہبی یا پھر معیشت سے متعلقہ مضامین میں مذکورہ طرز کی گنجائش کم ہوتی ہے اور یہ مضامین زیادہ تر دستاویزی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کا سادہ اور سلیس ہونا ہی ان کا حسن ہے۔ ہماری گفتگو کا موضوع اخلاقی، اصلاحی اور سماجی مسائل سے متعلقہ تحریریں ہیں کیونکہ انہی میں مذکورہ اسلوب کے پھلنے پھولنے کی وسیع تر گنجائش ہوتی ہے۔

ہاں! کسی بھی اصلاحی خیال کو کرداروں کے سانچے میں ڈھالتے ہوئے اس کردار کے جملہ شخصی پہلوؤں کا ملحوظ رکھنا ازحد اہم ہوتا ہے۔ ہم دوران تحریر انتہائی بیداری کے ساتھ کردار کے لطیف احساسات اور مکالموں کے دوران اس کی کیفیات یہاں تک کہ حرکات سکنات، اس کے سراپے، گفتگو کے انداز، غرض کسی بھی پہلو کو نظر انداز نہیں کر سکتے، وگرنہ واقعاتی تسلسل اور اس کے امپیکٹ میں خلل آجائے گا۔ مکالموں میں روز مرہ میں بولے جانے والے جملے، مشہور تشبیہات اور عام فہم مگر مقبول محاورات انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی رعایت تحریروں کی جان داری اور اثرپذیری کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔

اگر فکری و اصلاحی موضوعات میں دل چسپی رکھنے والے اہل قلم اس جانب خاطر خواہ توجہ دیں اور معاشرے کی اصلاح، سماجی برائیوں کی حوصلہ شکنی سے متعلق مضامین کو جدید حکایتی اسلوب اور عصر حاضر کے لب و لہجے میں ڈھال کر پیش کریں تو نہ صرف یہ کہ جاندار ادب تخلیق ہو سکتا ہے بلکہ اس کے دور رس اور مثبت نتائج بھی متوقع ہیں۔
Farhan Fani
About the Author: Farhan Fani Read More Articles by Farhan Fani: 22 Articles with 22497 views Reading and Writing... View More