صداؤں کا پنجرہ

رات کے تین بجے ہیں۔ پورا رہائشی کمپلیکس تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔ جس طرح سیلاب زدگان کو بڑے بڑے وعدوں کے بعد معمولی سی اِمداد ملتی ہے بالکل اُسی طرح نائٹ بلبس کی خفیف سی روشنی فلیٹوں کی کھڑکیوں سے جھانک رہی ہے۔ تمام فلیٹوں کے مکین ”گہری نیند میں سوتے ہوئے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں!“ حفاظت کرنے والی ذات تو بس اللہ ہی کی ہے اِس لیے چوکیدار بھی بے فکری کے ساتھ غنودگی میں ڈوبے ہوئے ہیں! ایسے میں ایک توانا چیخ اُبھرتی ہے اور پورے ماحول کو سُکوت اور سُکون کی قید سے رہائی دِلا دیتی ہے!

کوئی صاحب کمپاؤنڈ کے وَسط میں کھڑے ہوکر کِسی سلیم کو آواز دے رہے ہیں۔ جس تواتر سے ہمارے ہاں حکومتیں ناکام ہوتی رہی ہیں بس کچھ ایسے ہی تواتر سے سلیم کو آواز دی جارہی ہے! فلیٹوں کی کھڑکیاں کھلنے لگتی ہیں۔ پروجیکٹ میں خیر سے کوئی درجن بھر سلیم رہتے ہیں۔ ہر سلیم اِس گمان میں مبتلا ہے کہ شاید اُسے یاد کیا جارہا ہے۔ مگر کِھڑکی کھول کر کمپاؤنڈ میں جھانکنے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ ہنگامہ کسی اور ہی سلیم کو بیدار کرنے کے لیے برپا کیا جارہا ہے! اب کیفیت یہ ہے کہ مُغالطے کا شِکار ہونے والا ہر سلیم اُس سلیم کو دل ہی دل میں یا ”زیر لب کے نیچے“ گالیاں دے رہا ہے جس سے مِلنے کی چاہ میں رات کے پچھلے پہر یہ میلہ منعقد کیا جارہا ہے!

خدا خدا کرکے پروجیکٹ کے مکینوں کا نصیب جاگا یعنی وہ سلیم بھی بیدار ہوا جس کے لیے صَدائیں لگائی جارہی ہیں۔ اُس نے فلیٹ کی کھڑی کھولی، کمپاؤنڈ میں جھانکا اور جوابی صدا لگاتے ہوئے سوال داغا۔ ”ابے سلمان، تو؟ خیریت تو ہے؟“

سلمان صاحب مطلوبہ بندے کی شکل دیکھ کر سُکون کا سانس لیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ”ہاں خیریت ہے۔“
اب سلیم نے پوچھا۔ ”خیریت ہے تو پھر اِس وقت؟“

سلمان صاحب آمد کا سبب بیان کرتے ہیں۔ ”بس یار! لائٹ گئی ہوئی تھی۔ میں نے سوچا تجھے ساتھ لے لوں۔ ذرا پانچ نمبر تک جانا ہے۔“

”کیوں؟ پانچ نمبر کیوں جانا ہے؟ کوئی ایمرجنسی ہے؟“

”کچھ نہیں یار۔ نیند نہیں آ رہی۔ بیٹھے بیٹھے بور ہو رہا تھا۔ بس، ذرا چائے پی کر آتے ہیں!“

مُلاحظہ فرمائیے۔ رات کے تین بجے ہوٹل پر چائے پینا ہے اور پوری بلڈنگ کے مکینوں کو جگاکر خون کے گھونٹ پینے پر مجبور کردیا!

ہم ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جس کی فضاؤں میں آکسیجن کم اور بلا ضرورت لگائی جانے والی صدائیں زیادہ ہیں! اور ایسے میں آپ جو کچھ بھی کہنا چاہتے ہیں وہ صدا بہ صحرا ہے یعنی کوئی سُنتا ہی نہیں۔ گویا صداؤں کا ایک پنجرہ ہے اور ہمیں قیدی بن کر رہنا ہے۔

ضروری نہیں کہ دھوکا دینے والی صدا زور دار ہو۔ بعض معصوم سی صدائیں بھی اِنسان کو مُغالطے کے کنویں میں دھکیل دیتی ہیں۔ کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ کِسی نے اِنتہائی مِسکین اور بکری کی طرح مِنمِناتی ہوئی آواز میں ہم سے کچھ کہنے کی کوشش کی اور جب ہم نے از راہِ ہمدردی پلٹ کر دیکھا تو اپنے مُقابل اچھے خاصے ہٹّے کٹّے یعنی بھینس کے کٹّے جیسے تگڑے نوجوان کو پایا! اور جب قدرے گھبراکر پوچھا کیا بات ہے تو معلوم یہ ہوا کہ جناب عالی اللہ کے نام پر کچھ مانگ رہے ہیں! اور ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ موصوف صرف مانگ رہے ہیں، جَھپٹّا نہیں مار رہے! لحیم شحیم وجود کو بروئے کار لاتے ہوئے اگر حضرت چھینا جھپٹی پر اُتر آئیں تو کوئی کیا بگاڑ لے گا؟

کبھی کبھی صدائیں کچھ اِس انداز و ادا سے دھوکا دیتی ہیں کہ دھوکا کھانے پر بھی رشک آنے لگتا ہے! اہل وطن نے طے کرلیا ہے کہ کسی کو بُلانا ہے تو اِس طرح بُلانا ہے کہ ایک زمانہ متوجہ ہو۔ اگر کِسی کو بس سے اُترنا ہو تو ڈرائیور کی توجہ پانے کے لیے کچھ اِس طرح صدا لگائی جاتی ہے کہ تمام مسافر حیرت زدہ ہوکر متوجہ ہوتے ہیں کہ کہیں اُنہیں تو یاد نہیں کیا جا رہا! بعض اصحاب منزل سے تین اسٹاپ پہلے ہی صدا لگانا شروع کرتے ہیں۔ جوں جوں منزل قریب آتی جاتی ہے، دِل کی دھڑکن تیز ہوتی جاتی ہے، ”صدائی والیوم“ بڑھتا جاتا ہے، عوامی جلسے کا سا ماحول بس کی فضا پر طاری ہونے لگتا ہے! اور تمام مسافر یہ تماشا بلا ٹکٹ دیکھتے ہیں!

بس میں سفر کے دوران بعض مہربان موبائل فون پر گفتگو کرتے ہوئے بھی ”صدا بازی“ کا شاندار مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں۔ گفتگو کی مارکیٹ میں متعارف کرایا جانے والا یہ نیا اور منفرد انداز ہے جو ابھی ترقی یافتہ ممالک میں بھی رائج نہیں ہوا! بیچ بازار میں مجمع لگاکر منجن بیچنے والوں کی ذہنیت اور مہارت سے متاثر ہوکر اپنایا جانے والا گفتگو کا یہ انداز ٹی وی چینلز کے ”انکشاف بدوش“ پروگراموں سے کسی طور کم نہیں۔ اگر کوئی صاحب اپنے عزیز سے بھی گفتگو فرما رہے ہوں تو بس کے مسافروں کو چند ہی لمحات میں موصوف کے رشتہ داروں کی تمام خصلتوں کا پتہ چل جاتا ہے!

بازار میں کِسی کو آواز دینا ایک زمانے کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ بعض بازاروں میں صرف خواتین خریداری کرتی ہیں۔ ایسے میں اگر کِسی کو آواز لگائی جائے تو پل بھر میں بدحواسی پھیل جاتی ہے۔ خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ کوئی گڑبڑ ہوگئی ہے، ہنگامہ شروع ہوگیا ہے۔ اور پھر بھگدڑ کا سماں پیدا ہونے لگتا ہے۔ بے چارے ”دُکندار“ خاصی مغز ماری کے بعد خواتین کو قائل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ ہوا کچھ بھی نہیں، اوپر کے فلیٹ والے مقبول بھائی اپنی بیوی سے کہہ رہے ہیں کہ دُکان پہ کھانا ذرا جلدی بھجوا دینا!

شادی کی تقریبات میں بعض افراد کِسی کو بلانے میں ایسی عجلت اور بدحواسی کا مظاہرہ کرتے ہیں گویا لڑکے والوں کا لڑکی والوں سے (یا اِس کے برعکس) جھگڑا ہوگیا ہے! اگر خواتین کے پورشن سے کوئی اپنی بیوی کو بُلانا چاہتا ہے تو (شالا نظر نہ لگے!) کچھ اِس انداز سے بُلاتا ہے گویا ٹرین چھوٹنے والی ہے یا اگر محترمہ فوری باہر نہ آئیں تو قیامت آجائے گی! اور اگر دس بارہ صداؤں کے بعد بھی محترمہ باہر نہ آئیں تو چند لمحوں کے لیے تو قیامت آ ہی جاتی ہے اور میاں بیوی کے جھگڑے میں کسی کی محفل برباد ہونے سے بال بال بچتی ہے!

ہماری گلیاں بھی صداؤں سے سدا آباد رہی ہیں۔ گھر کی دہلیز تک خدمات فراہم کرنے والے فضاءکو غیر آباد نہیں ہونے دیتے۔ مختلف اشیاءبیچنے اور خریدنے والے وقفے وقفے سے گزرتے ہیں اور سُکون کے چند لمحات گزارنے کے آپ کے عزم کو متزلزل کرتے رہتے ہیں!

پھیری لگانے والوں کی صدائیں بھی بہت دھوکے باز ہوتی ہیں۔ کسی پھیری والے کی صدا سُن کر آپ انگور خریدنے گھر سے باہر آئیں تو یہ دِل خراش حقیقت سامنے آتی ہے کہ فروخت تو کچھ بھی نہیں کیا جارہا، بُھوسی ٹکڑے البتّہ خریدے جارہے ہیں! اور اگر کبھی ٹھیلے والے کی صدا سُن کر آپ کو یاد آ جائے کہ اہلیہ نے کاٹھ کباڑ ٹِھکانے لگانے کا حکم دیا اور آپ ٹین ڈبّے لیکر گھر سے نِکلیں تو ٹھیلے پر خَربُوزے منہ چڑا رہے ہوتے ہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 485852 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More