کتنوں کی لے گا جان آخر یہ ہیڈ فون؟

ہیڈ فون لگا کر گھومنا پھرنا یا جاگنگ کرنا اب ایک عام سی بات ہوتی جارہی ہے۔آج کل کے موبائل معاشرے میں اگر آپ کسی پارک کے پاس، یا پارک میں ، یا پھر سڑک کنارے کسی شخص کو اپنے آپ سے باتیں کرتا ، کبھی ہنستا اور کبھی غصہ کرتا دیکھیں تو کہیں غلطی سے پا گل نہ سمجھ بیٹھئے گا کیونکہ وہ ہینڈ فری لگا کر کسی سے موبائل پر بات کر رہا ہو گا۔ چلیں چھوڑیں کام کی بات کرتے ہیں، اکثر اوقات کسی فون نمبر سے ایس ایم ایس موصول ہوتا ہے اور کسی اچھی آفر کے ساتھ بیلنس ، یا کارڈ چارج کرنے کو کہا جاتا ہے یا پھر کبھی مس کال جو ابھی تک کسی کی نہیں ہوئی ، موصول ہوتی ہے اور بات اپنے انجام پر بیلنس بڑھانے اور کارڈ چارج کروانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ گھر سے باہر نکلنے پر اکثر ایسے نوجوانوں سے واسطہ پڑتا ہے جو ہیڈ فون پہنے میوزک میں مگن اپنے منزل کی جانب رواں ہوتے ہیں۔ اس دوران موسیقی کے دلدادہ صحیح اندازہ نہیں کر پاتے کہ انہیں کن خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ محض دہلی میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے کم و بیش ہر اس خطہ میں جہاں سیل فون یا میوزک پلئیروغیرہ استعمال ہوتے ہیں‘ ہیڈ فون لگا کر گھومنا اب ایک فیشن بنتا جا رہا ہے۔ہوتا تو یہ کہ اسے صرف ایک کان میں ایسے مواقع پر لگایا جاتا جہاں بغیر اسے لگائے کچھ سن پانا مشکل ہوتاہے۔دوسرے اس کے استعمال سے فون سے نکلنے والے مضرات سے بھی حفاظت ہوجاتی ہے۔اسے یو بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک انڈے کو دو سیل فونوں کے درمیان ایڈجسٹ کر کے ایک سیل فون سے دوسرے پر 65 منٹ کی ایک کال کی گئی۔ابتدائی پندرہ منٹ کچھ نہیں ہوا لیکن 25 منٹ کے بعد انڈہ گرم ہونا شروع ہو گیا جبکہ 65 منٹ بعد انڈہ پک گیا۔اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ سیل فون سے نکلنے والی مائکرو ویو ریڈی ایشن جب ایک انڈے کا یہ حال کر سکتی ہیں تو سیل فون پر طویل گفتگو کرنے پر دماغ پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہوں گے؟

یہی وجہ ہے کہ موبائل فون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ موبائل فون سے جوشعائیں نکلتی ہیں وہ نہایت دراز اورسخت ہوتی ہیںجس کو دماغ برداشت نہیں کرسکتا۔ ان لہروں سے نہ صرف سرطان کے خدشات بڑھ جاتے ہیں بلکہ اس کے اثرات انسان کے تمام خلیوں پر ہوتے ہیں۔سیل فون کے ستعمال کے بارے میں والدین کو مشورہ دیتے ہوئے ڈاکٹر نور کا کہنا ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ سیل فون کو سر کے قریب نہ لائیں بلکہ ا سپیکر یا پھر ہیڈ فون کااستعمال کریں اور سیل کو تکیے کے نیچے قطعی نہ رکھیں۔اسی ضرورت کے تحت ہیڈ فون جیسے آلات کی ضرورت محسوس کی جا سکتی ہے لیکن محض فیشن کی وجہ سے گزشتہ برسوں کے دوران حادثات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ دہلی میں کتنی ہی موتیں محض اس وجہ سے ہوگئیں کہ مرنے والوں نے ریلوے لائن پار کرتے وقت ہیڈ فون یا ہینڈ فری سے اپنے دونوں کانوں کو بند کیا ہوا تھا اور انھیں حادثہ سے قبل پتہ ہی نہیں چل سکا کہ وہ موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔یہ صورتحال محض ہندوستان کے دارالخلافہ دہلی میں ہی نہیں بلکہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی ہے جہاں اس نوعیت کے حادثات میں زخمی اور ہلاک ہونے والوں کی شرح تین گناہ بڑھ گئی ہے۔

ایک تازہ جائزے کے مطابق امریکہ میں ہیڈ فون لگا کر پیدل چلنے والوں کی ہلاکتیں گزشتہ چھ برسوں کے مقابلے میں تین گناہ بڑھ گئی ہیں۔ ساتھ ہی زخمیوں کی تعداد میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ایسی ہلاکتوں کو ہیڈ فون ہلاکتوں کا نام دیا جا رہا ہے۔ جائزے میں مزید بتایا گیا ہے کہ 2004میں امریکہ میں ہیڈ فون اموات کی تعداد سولہ تھی جبکہ2011کے دوران یہ تعداد بڑھ کر 47 تک پہنچ گئی ہے۔ سڑک پر ہیڈ فون لگا کر گھومنے کو’ اندھے پن‘ سے تعبیر کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آلہ محض بے توجہی کی وجہ بنتا ہے بلکہ قوت سماعت پر بھی اس کے منفی اثرات پڑتے ہیں۔ اس رپورٹ میں ایم پی تھری پلیئر ، آئی پوڈ اور موسیقی کے دیگر آلات استعمال کرنے والے افراد کی بات کی گئی ہے تاہم موبائل ٹیلی فون پر میوزک سننے والوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔

میری لینڈ یونیورسٹی کے محققین کے مطابق زیادہ تر افراد ٹریفک حادثات کا شکار ہوتے ہیں۔ اونچی آواز میں میوزک سننے کی وجہ سے نہ تو گاڑیوں کا ہارن سنائی دیتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے فرد کی آواز ان کے کانوں تک پہنچ پاتی ہے۔ میری لینڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر رچرڈ لیشن شٹائن کہتے ہیں کہ لوگوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ ہیڈ فون لگا کر میوزک سننے کے کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ گاڑی چلاتے ہوئے موبائل فون کے ذریعے پیغام لکھنا کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ اس قسم کی حرکتیں کرنے سے باز نہیں آتے جبکہ رپورٹ کے مطابق مرنے والوں میں نصف سے زیادہ تیس سال سے کم عمر کے مردوں کی ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق گھونے پھرنے کے دوران اگر کوئی ہیڈ فون استعمال کرتا ہے تو اسے دوگنی احتیاط کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ ٹریفک سگنل پر کھڑے ہو کر کوشش کرنی چاہئے کہ آنے والی گاڑی کے ڈرائیور سے نظریں ملائی جائیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ آنے والے گاڑی کا ڈرائیور آپ پر توجہ نہ دے رہا ہو۔ اس رپورٹ میں مزید واضح کیا گیا ہے کہ شہری علاقوں میں ہیڈ فون کی وجہ سے حادثات زیادہ رونما ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ نہ صرف ٹریفک سے بھری ہوئی سڑکیں ہیں بلکہ پیدل چلنے والوں کی اچھی خاصی تعداد بھی ہے۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116000 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More