بڑھتی ہوئی سمندری آلودگی؛انسانیت پر ایک نئی آفت

سمندرکی شکل میںدینا کے تین حصوں پر مشتمل پانی کا ذخیرہ جو حیات انسانی کیلئے ضروری ہے‘ ایک خاموش تباہی کی سمت بڑھ رہا ہے۔ عالمی حدت‘جاپانی جوہری پلانٹ کی تباہی کے بعداب اطالوی ساحل پر بڑے سیاحتی جہاز کوسٹا کنکورڈیا کے حادثے کو ماحولیاتی ماہرین سمندری حیات اور ساحلی علاقوں کے رہنے والوں کیلئے ایک بڑی آفت قرار دے رہے ہیں۔ بحری جہاز میں ایندھن کی بڑی مقدار موجود ہے۔اٹلی کے وزیر ماحولیات کوراڈو کلینیCorrado Clini کے مطابق اطالوی سمندی میں گہرے سمندر کے نیچے پتھریلی چٹان سے ٹکرانے والے سیاحتی بحری جہاز کوسٹا کنکورڈیا Costa Concordia جس کی لمبائی 290 میٹرجبکہ چوڑائی 15 سے 20 میٹر ہے‘ سمندری حیات کیلئے نقصان کا باعث بننے والے تیل کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ وزیر کے مطابق تیل کی ٹینکیوں میں 23 سو ٹن تیل موجود تھا اور اس میں سے اب تک نصف مقدار میں خارج ہو کر سمندری پانی کا حصہ بن چکا ہے۔ حادثے کے وقت تیل کے ٹینک بھرے ہوئے تھے۔گزشتہ جمعہ کی شام سیاحتی بحری جہاز کوسٹا کنکورڈیا نے روم کے شمال میں واقع بندر گاہ سے بحیرہ روم کیلئے ایک ہفتے کے سیاحتی دورے کا آغاز کیا تھا۔ روانہ ہونے کے بعد جہاز ابھی ساحلی پٹی کے قریب تھا کہ وہ زیر سمندر چھپی ایک چٹان سے ٹکرا گیا۔ یہ جہاز اِس وقت اسی چٹان پر دراز ہے لیکن سمندری پانی میں موجوں کی ہلچل کی وجہ سے اس بحری جہاز کے غرق ہونے کا خدشہ ہے۔ جہاز پر سوار 42 سو مسافروں کو بچا لیا گیا۔ اس حادثے میں کم از کم چھ افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ جہاز کے عملے کے بیشتر اراکین ابھی تک لاپتہ ہیں اور غوطہ خور ان کی تلاش میں مصروف ہیں۔

سیاحتی بحری جہاز جس سمندری علاقے میں حادثے کا شکار ہوا وہ جزیرہ گِگلیوGiglio کے قریب سمندری حیات کیلئے بنائے گئے پارک کی حدود میں واقع ہے۔ گِگلیو کا ساحلی علاقہ یوروپ میں سمندر میں بلندی سے جمپ لگانے والے شوقین حضرات کیلئے بیحد مقبول ہے۔ اٹلی کے ٹیکنو کریٹ وزیر اعظم ماریو مونٹی کی کابینہ کے رکن اور اطالوی وزیر ماحولیات کوراڈو کلینی کی مانیں تو بحری جہاز کایہ حادثہ جزیرہ گِگلیو کیلئے شدید خطرہ کا باعث بن گیا ہے۔کوراڈو کلینی نے متاثرہ علاقے کے دورے کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت اس کوشش میں ہے کہ گِگلیو کو ماحولیاتی پریشانی سے بچایا جائے جبکہ اس سلسلے میں کوششوں کو مزید استحکام دینے کیلئے جزیرے کے گردونواح میں ایمرجنسی کا نفاذ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس جہاز کے اندر تیل ذخیرہ کرنے کی بڑی سہولت موجود ہے۔ یہ تیل جہاز کے تہوں میں موجود بنکروں کے اندرونی حصوں میں جمع کیا جاتا ہے اور اس کو پمپ کر کے باہر نکالنا خاصا مشکل خیال کیا جا رہا ہے۔ اس کی ملکیتی کمپنی کے چیف ایگزیکٹوپیر لوگی فوس شی Pier Luigi Foschi بھی تسلیم کرتے ہیںکہ صورت حال ہنگامی کوششوں کی متتقاضی ہے۔ چیف ایگزیکٹو نے حادثے کو ’انسانی غلطی‘ قرار دیتے ہوئے اس کا ذمہ دار جہاز کے کپتان کو قرار دیا ۔

دوسری جانب عالمی سطح پربڑھتی ہوئی حدت کے سبب سطح سمند میں نمایاںتبدیلیاں محسوس کی جارہی ہیں جس سے نہ صراف جزائر کیلئے خطرہ لاحق ہوگیا ہے بلکہ دنیا بھر میں سمندکے کنارے آباد ی کیلئے بھی مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔یہ وجہ ہے کہ بحیرہ عرب خشکی کی جانب بڑھتا چلا آ رہا ہے۔پاکستان کے جنوبی صوبے کے بڑے علاقے سمندری پانی سے پہلے ہی تباہ ہو چکے ہیں جو کہ دریائے سندھ کے طاس میں پانی کے بالائی بہاؤ میں 57 کلومیٹر تک آگے آ چکا ہے۔ سمندر کے آگے بڑھنے کے عمل سے لاکھوں ایکڑ قیمتی زرعی اراضی تباہ ہو جاتی ہے، دریا میں موجود نباتات اور حیوانات صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں، آب اندوخت تہیں زہر آلود ہو جاتی ہیں اور ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔بین الاقوامی یونین برائے تحفظ فطرت میں پاکستان کے ساحلی علاقوں کے ماحولیاتی نظام پر کام کرنے والے ایک سینئر مشیر طاہر قریشی کے مطابق 2003 میں سر انجام دیے جانے والے ایک سروے سے پتہ چلا کہ سمندر کا پانی نہ صرف دریا کے مرکزی بہاؤ تک پہنچ چکا ہے بلکہ محض سات سال پہلے تک سمندر نے 54 کلومیٹر تک تجاوز کیا ‘ 2010 میں یہ 57 کلومیٹر کے نشان تک پہنچ چکا ہے جبکہ دریائے سندھ کا ڈیلٹا دنیا کا پانچواں بڑا ڈیلٹا ہے۔سینٹرل ایشیا آن لائن سے گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ سمندر ایک خاموش ماحولیاتی تباہی کا باعث بن رہا ہے جس کا اثر بدین اور ٹھٹھہ کے اضلاع پر پڑا ہے۔ اس کا شکار ہونے والے علاقوں میں وہ سرسبز و شاداب علاقے شامل ہیں جہاں کبھی کیلے، پپیتے، ناریل اور گنے کے کھیت موجود تھے۔1960 تک زراعت، ماہی گیری اور مویشی بانی اس علاقے کی گزر بسر کے تین اہم ذرائع تھے۔ سندھ کے کاشتکار اپنے برآمدی معیار کے سرخ چاولوں پر فخر کیا کر تے تھے۔ سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح اور مینگروو جنگلات میں کمی کا سبب ماحول میں آنے والی تبدیلیاں ہیں اور ان دونوں کے باعث سمندر کا پانی خشکی کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ مینگروو کے جنگلات سمندری لہروں کی توانائی کو جذب کرتے ہوئے سمندر کے پانی کو خشکی میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق، ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ انسانی ترقی بھی سندھ ڈیلٹا کے مینگروو جنگلات میں کمی کا سبب ہے جو 1970 کے 260,000 ہیکٹر کے مقابلے میں 2001 میں محض 86,000 ہیکٹر تک محدود رہ گئے ہیں۔
 
Fatima Zara
About the Author: Fatima Zara Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.