ایسا ہے ہمارا نظامِ تعلیم!

حال ہی میں بین الاقوامی سطح پر ۱۵سال کی عمر کے طلبہ کی نثرخوانی، ریاضی کی مہارت اور سائنسی مسائل کے حل پر مبنی ایک ٹیسٹ ہوا تھا جس میں دنیا کے ۷۳ ملکوں کے ۵لاکھ طلبہ نے شرکت کی تھی … اور ہندوستان اس ٹیسٹ میں ۷۲ویں مقام پر رہا۔

گزشتہ کئی برسوں سے ہندوستان میں تعلیم کے شعبے میں ’’بظاہر غیرمعمولی ‘‘ ترقی نظر آرہی ہے۔ ہندوستان کے انجینئروں کی پوری دنیا میں مانگ ہے۔ ملک کے اساتذہ دیگر ممالک میں تدریسی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں ، اتنا ہی نہیں دیگر ممالک کے خلائی اداروں تک میں ہندوستانی سائنسداں اپنی موجودگی کو ثابت کرتے ہیں۔ لیکن کیا موجودہ شعبوں میں ہندوستانیوں کی موجودگی ، ہمارے تعلیمی نظام کی بدولت ہی ہے یا اُن کی خود اپنی کوشش ، جدوجہد اور محنت کا ثمرہ ہے؟ ہوسکتا ہے یہ سوال کچھ عجیب لگے ، اور اس کی وجہ چاہے جو بھی ہو ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام کا معاملہ ’’ ہیں کواکب کچھ ، نظر آتے ہیں کچھ ‘‘ والا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی ملک کی مجموعی صورت ِ حال کا جائزہ لینا ہو تو اُس ملک کی خواتین کی صورتِ حال کو دیکھنا چاہئے ۔ اگر اس مقولے پر عمل کرتے ہوئے یہ کہا جائے کہ کسی ملک کی تعلیمی صورت ِ حال کا جائزہ لینا ہو تو اس ملک کے طلبہ کی صلاحیتوں کی جانچ کیجئے ، تو غلط نہ ہوگا ۔

ہوسکتا ہے کہ تعلیم کے شعبے میں اندرونِ ملک بہت کام ہورہا ہو لیکن اگر آپ بہت مختصراً اس شعبے کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو حال ہی میں شائع ہونے والی اس خبر کو پڑھئے جسے اس ’’قابل‘‘ سمجھا ہی نہیں گیا کہ وہ موضوعِ بحث بنے۔ ہندوستان جہاں بڑے بڑے آئی آئی ٹی ادارے موجود ہیں ، کے طلبہ دنیا کے دیگر ملکوں کے طلبہ کے مقابلے میں نثر خوانی، ریاضی کے پیچیدہ اصولوں اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے مسائل حل کرنے میں ۲۰۰؍ پوائنٹس پیچھے ہیں اور اس طرح ہندوستان کا نمبر دنیا کے ۷۳ملکوں کی اس فہرست میں ’’نیچے سے دوسرے ‘‘ یعنی ۷۲ویں نمبر پر ہے ۔ اس فہرست میں ہندوستان نے اگر کسی کو پیچھے چھوڑا ہے تو وہ ایک چھوٹا سا ملک کرغیزستان ہے۔

بین الاقوامی تجارتی ادارے آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (او ای سی ڈی) سکریٹریٹ کی جانب سے عالمی پیمانے پر ’’پروگرام فار انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ اسیسمنٹ‘‘ کا انعقاد کیا گیا تھا تاکہ دنیا بھر کے وہ طلبہ جن کی عمر ۱۵سال تک ہے ، کی تعلیمی صلاحیتوں اور قابلیتوں کی جانچ کی جاسکے ۔ دو گھنٹے کے ٹیسٹ پر مبنی یہ سروے مختلف جگہوں پر ہوا جس میں دنیا بھر کے ۷۳ ممالک کے ۵ لاکھ طلبہ کو شامل کیا گیا اور نثر خوانی ، سائنس اور میتھیمیٹکس کے پیچیدہ سوال اور مسائل کی جانچ کی گئی ۔ سروے کے نتیجے کے متعلق نثرخوانی میں شنگھائی (چین ) کے طلبہ نے بازی ماری اور ٹاپ پوزیشن حاصل کی ۔ اسی طرح ان ہی طلبہ نے ریاضی کے انتہائی مشکل ترین اور پیچیدہ سوال کو بھی حل کرکے اپنی ذہنی صلاحیت کا لوہا منوایا نیزسائنس میں بھی سرِ فہرست رہے ۔ واضح رہے کہ جہاں ہندوستانی طلبہ عالمی سطح پر ہونے والے اس ٹیسٹ میں پہلی مرتبہ شامل ہوئے وہیں چین کے طلبہ بھی پہلی بار ہی شریک ہوئے ہیں لیکن ہندوستانی طلبہ ، ٹاپ رہنے والے چینی طلبہ سے ۲۰۰ پوائنٹس پیچھے رہے ۔ صلاحیت کی جانچ والے اس سروے میں ماہرین کے ذریعے یہ بات بھی سامنے آئی کہ ہندوستان کے آٹھویں جماعت کے طلبہ کی ریاضی کی صلاحیت ، ساؤتھ کوریا کے جماعت سوم کے یا شنگھائی کے جماعت دوم کے طلبہ کے مساوی ہے۔

یہ ہے ہمارے نظامِ تعلیم کا نتیجہ۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یقیناً اس ٹیسٹ میں اُن ہی طلبہ کو شامل کیا گیا ہوگا جو ذہین ترین ہوں گے ، جن کی ریاضی اور سائنس کی صلاحیت بہترین ہوگی ۔ لیکن جب ۷۳ ملکوں کے طلبہ کے سامنے ہمارا ۷۲واں نمبر آسکتا ہے تو کیا ہمیں اپنے نظامِ تعلیم کے تئیں مطمئن ہوجانا چاہئے؟ ہندوستان کی اس کارکردگی پر او ای سی ڈی کے سکریٹری جنرل اینجل گوریا کا کہنا ہے کہ’’ بہتر تعلیمی نتائج مستقبل کی اقتصادی ترقی کے لئے مضبوط پیش گوئی ہوتے ہیں ۔‘‘ کیا یہ بات ایسی نہیں تھی کہ اسے بھی میڈیا کے ذریعے بحث کا موضوع بنایا جائے ؟ کیا میڈیا کا کام صرف کرپشن، انشن، الیکشن اور مسلمان تک محدود رہ گیا ہے؟

آئیے ایک نظر اپنے نظام تعلیم پر بھی ڈالتے ہیں۔ ہمارے ملک میں تعلیم کے نام پر قانون اور پالیسیوں کا شور تو بہت مچتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیشتر کا نتیجہ ناکامی کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔ حکومت نے ۲۰۰۱ء میں ’’سب کے لئے تعلیم ‘‘ (سروسکشا ابھیان‘‘ کے نام سے دستور میں۸۶ ویں ترمیم کی جس کے مطابق ہر ریاست ۶ سے ۱۴ بر س تک کے بچوں کومفت تعلیم فراہم کرائے ۔ اس مد میں حکومت نے ۲۰۵ ملین روپئے کی رقم مختص کی ۔ جامعہ ملیہ کے پروفیسر جانکی راجن اس سلسلے میں اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :’’ اس ملک کے اسکول کے بارے میں ہر آدمی واقف ہے اور سب نے دیکھا ہے کہ یہاں ہرطبقے کے لیے الگ الگ اسکول ہیں جو جس لحاظ کا ہے اس کے بچوں کے لیے اسی سطح کا اسکول ہے۔ اگرمعاملہ ٹاٹا ،برلا کے بچوں کے پڑھنے کاہے تو وہ ایئرکنڈیشن بس میں اسکول جائیں گے، ایئرکنڈیشن کلاس روم میں بیٹھیں گے پھر اسی ایئرکنڈشن بس سے ایئرکنڈیشن گھر میں لوٹیں گے۔ پھر اس سے نیچے کاطبقہ ہے سرمایہ داروں کا تو ان کے بچے کیلئے بہترین اسکول سالانہ فیس تقریباً ۶۰ہزار روپے ۔ پھر اس سے نیچے کے لیے الگ طرح کااسکول جس کا ہر بچے پر سالانہ خرچ تقریباً ۳۰ ہزار روپے۔ مرکزی حکومت کے ملازموں کے لیے مرکزی اسکول ہے۔ان کے جوماتحت ہیں ان کے لیے ریاستی حکومت کے اسکول اور پھر صفائی ملازمین کے لیے ایم سی ڈی کا اسکول، اس سے بھی نیچے ہیں افن کیلئے سروسکشاابھیان ہے۔

مرکزی اسکول میں ایک بچے پر سالانہ ۲۰ ہزار روپے خرچ۔ ریاستی حکومت کے ماتحت اسکول میں ایک بچے کاسالانہ خرچ ۵ہزار۔ ایک ایم سی ڈی کے بچے کیلئے ۱۲۰۰ اور سروسکشا میں ۸۴۰ روپے سالانہ کی شرح سے خرچ ہوتا ہے۔ اب ذرا بتائیے کہRight to equality مساوات کا حق ہے کہاں؟ کہاں گیا مساوات کا نعرہ۔ جس بچے کو جتنی زیادہ ضرورت ہے اس کو اتنا ہی کم دیاجاتاہے۔‘‘

سروسکشا ابھیان اور اسکولوں میں ’’ایکٹویٹیز‘‘ کے نام پر جو سرگرمیاں جاری ہیں ان سے بھی پڑھائی بڑی حد تک متاثر ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال اسکولوں کا تعلیمی کارڈ ہے۔ اساتذہ کو طالب علم کے تعلیمی کارڈ پر ہر مضمون کے بارے میں کچھ نہ کچھ درج کرنا ہوتا ہے۔ فرض کیجئے اگر ایک کلاس میں ۵۰ بچے ہیں اور ۸ مضامین ہیں تو سوچئے ذرا معلم کا کتنا وقت اس تعلیمی ریکارڈ کو بنانے میں صَرف ہوتا ہے؟ دوسری جانب جماعت نہم تک طلبہ کو پاس کرنا بھی ضروری ہے خواہ طالب علم کی اہلیت ہو یا نہ ہو۔ اس پس منظر میں جب مذکورہ سروے کے نتائج دیکھیں، جس میں ماہرین نے بتایا ہے کہ ہندوستانی بچوں کی نثرخوانی ، ریاضی اور سائنس کے مسائل حل کرنے کی ذہنی صلاحیت ساؤتھ کوریا کے جماعت سوم کے بچوں کی صلاحیت کے برابر ہے ، تو اس میں کیا غلط ہے ؟

حقیقت یہ ہے کہ تعلیم کے نام پر اسکولوں میں غیرضروری سرگرمیوں کو فروغ دیا جارہا ہے جس سے طلبہ مرکز یعنی اصل تعلیم سے پیچھے رہ جاتے ہیں ۔
Raeesa Munawar
About the Author: Raeesa Munawar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.