قرآن۔ ۔ ۔ تذکرۂ میلادِ اَنبیاء

جب دیگر اَنبیاء کرام کے واقعات کی یاد مناتے ہوئے ہم مختلف اَعمال بہ طور عبادت بجا لاتے ہیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کیوں نہ منائی جائے! قرآن حکیم کا بہ غور مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ مقربانِ اِلٰہی کے واقعاتِ ولادت بیان کرنا سنتِ اِلٰہیہ ہے۔ ذیل میں ہم قرآن حکیم میں مذکور واقعاتِ میلاد بیان کریں گے :

میلاد نامہ کا پس منظرعرب ممالک میں اَئمہ و محدثین اور علماء حق نے آقا علیہ السلام کے میلاد کے موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ اہلِ عرب کے ہاں میلاد کے بیان کو عرفِ عام میں ’’مولد، ‘‘ ’’موالید‘‘ یا ’’مولود‘‘ پڑھنا کہتے ہیں۔ اس لیے ایسی کتابوں یا مضامین کو جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے واقعات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکات کا تذکرہ ہو ’’مولود‘‘ کہا جاتا ہے۔ عرب ممالک میں اہلِ محبت مسلمانوں کے ہاں اکثر و بیشتر اب بھی یہی طریقہ رائج ہے کہ جب ماہ ربیع الاول آتا ہے تو وہ محافلِ میلاد میں ذوق و شوق سے مولود خوانی کرتے ہیں۔ حجاز مقدس میں آج بھی نثر و نظم کی صورت میں مولود کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں۔ مدینہ طیبہ، مکہ معظمہ، شام، مصر، عراق، عمان، اُردن، عرب امارات، کویت، لیبیا اور مراکش جیسے عرب ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا کے ہر ملک میں اَئمہ و محدثین کے تصنیف کردہ مولودبہت مقبول ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واقعاتِ ولادت کے بیان کو جسے اہلِ عرب مولد یا مولود کہتے ہیں، اُردو میں ’’میلاد نامہ‘‘ کہا جاتا ہے۔

تذکارِ اَنبیاء سنتِ اِلٰہیہ ہےبعض تجدد پسند ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت تو ہو چکی اور اس کے آثار و واقعات بھی رونما ہو چکے، فی زمانہ اس کے ذکر و بیان کی کیا ضرورت ہے؟ لہٰذا اب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور اُسوۂ حسنہ ہی بیان کیا جائے۔ یہ سوچ غیر قرآنی ہے جس کا اِزالہ اَز حد ضروری ہے۔

قرآن و سنت کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے محبوب اور برگزیدہ بندوں کا ذکر کرنا نہ صرف عبادت ہے بلکہ یہ خالقِ کائنات کی سنت بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ خود قرآن مجید میں جابجا اپنے صالح و مقرب بندوں بالخصوص انبیاء علیہم السلام کا ذکر بالالتزام فرماتا ہے کیوں کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے مقبول اور منتخب بندے ہوتے ہیں۔ قرآن حکیم میں ان کی ولادت اور سیرت دونوں مذکور ہیں۔ قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام کے تذکار اللہ تعالیٰ کی سنت اور حکم کے طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن مجید حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اَقدس سے کئی بار تلاوت کیا گیا۔ اس بناء پر انبیاء کرام علیہم السلام کی ولادت باسعادت کے واقعات اور ان کی جزئیات تک کا ذکر کرتے رہنا سنتِ الٰہیہ بھی ہے اور خود سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی۔ انبیاء علیہم السلام کے حالات و واقعات کا ذکر کرنا کتنا باعثِ خیر و برکت ہے اس کی تفصیل قرانی آیات کی روشنی میں ہمارے سامنے ہے۔ یوں تو قرآن مجید نے انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کی امتوں کے حالات و واقعات کو جا بجا تفصیل سے بیان کیا ہے مگر کئی مقامات ایسے بھی ہیں جہاں انبیاء و مقربین کے ذکر کو ہی عنوانِ کلام بنایا گیا۔ اس حوالے سے بطور نمونہ چند آیات درج ذیل ہیں :

1۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الانعام میں انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :

وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا وَكُلاًّ فضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَO وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍO

’’اور اسماعیل اور الیسع اور یونس اور لوط (کو بھی ہدایت سے شرف یاب فرمایا) اور ہم نے ان سب کو (اپنے زمانے کے) تمام جہان والوں پر فضیلت بخشیo اور ان کے آباء (و اجداد) اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے بھی (بعض کو ایسی فضیلت عطا فرمائی) اور ہم نے انہیں (اپنے لطفِ خاص اور بزرگی کے لیے) چن لیا تھا اور انہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرما دی تھیo‘‘

القرآن، الأنعام، 6 : 86، 87

2۔ قرآن حکیم کی چودھویں سورت کا نام ہی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے خلیل اِبراہیم علیہ السلام کے نام پر رکھا۔ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹوں حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہما السلام کے حوالہ سے فرمایا :

الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِO

’’سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحق (دو فرزند) عطا فرمائے، بے شک میرا رب دعا خوب سننے والا ہےo‘‘

ابراهيم، 14 : 39

3۔ سورئہ مریم اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کے اَذکار سے بھری پڑی ہے، اس میں انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر تواتر کے ساتھ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کے ذکر سے آغاز کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا :

ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّاO إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّاO

’’یہ آپ کے رب کی رحمت کا ذکر ہے (جو اُس نے) اپنے (برگزیدہ) بندے زکریا پر (فرمائی تھی)o جب انہوں نے اپنے رب کو (ادب بھری) دبی آواز سے پکاراo‘‘

مريم، 19 : 2، 3

4. وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيًّاO

’’اور (ہم نے) اپنے لطفِ خاص سے (انہیں) درد و گداز اور پاکیزگی و طہارت (سے بھی نوازا تھا)، اور وہ بڑے پرہیزگار تھےo‘‘

مريم، 19 : 13

5. وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّاO

’’اور (اے حبیبِ مکرم!) آپ کتاب (قرآن مجید) میں مریم کا ذکر کیجئے جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر (عبادت کے لیے خلوت اختیار کرتے ہوئے) مشرقی مکان میں آگئیںo‘‘

مريم، 19 : 16

6. وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّاO

’’اور آپ کتاب (قرآن مجید) میں ابراہیم کا ذکر کیجئے، بے شک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھےo‘‘

مريم، 19 : 41

7. وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مُوسَى إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولاً نَّبِيًّاO

’’اور (اس) کتاب میں موسیٰ کا ذکر کیجئے، بے شک وہ (نفس کی گرفت سے خلاصی پا کر) برگزیدہ ہو چکے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھےo‘‘

مريم، 19 : 51

8. وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولاً نَّبِيًّاO وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّاO

’’اور آپ (اس) کتاب میں اسماعیل کا ذکر کریں، بے شک وہ وعدہ کے سچے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھےo اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے حضور مقامِ مرضیّہ پر (فائز) تھے (یعنی اُن کا رب اُن سے راضی تھا)o‘‘

مريم، 19 : 54، 55

9۔ حضرت اِدریس علیہ السلام کے حوالہ سے فرمایا :

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّاO وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّاO

’’اور (اس) کتاب میں اِدریس کا ذکر کیجئے، بے شک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھےo اور ہم نے انہیں بلند مقام پر اٹھالیا تھاo‘‘

مريم، 19 : 56، 57

10۔ اِسی طرح سورۃ الانبياء بھی انبیائے کرام کے محبوب تذکروں سے بھرپور ہے، حتیٰ کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے مسلسل تذکرے سے قبل آیت نمبر 50 میں تمہیداً یہ کلمات ارشاد فرمائے گئے :

وَهَذَا ذِكْرٌ مُّبَارَكٌ أَنزَلْنَاهُ أَفَأَنتُمْ لَهُ مُنكِرُونَO

’’اور یہ (قرآن) برکت والا ذکر ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، کیا تم اس سے انکار کرنے والے ہوo‘‘

الأنبياء، 21 : 50

11۔ ’’ذکرِ مبارک‘‘ کا عنوان دے کر اگلی آیت سے جد الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر شروع کیا گیا۔ ارشاد فرمایا :

وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِه عَالِمِينَO

’’اور بے شک ہم نے پہلے سے ہی ابراہیم کو ان کے (مرتبہ کے مطابق) فہم و ہدایت دے رکھی تھی اور ہم ان (کی اِستعداد و اہلیت) کو خوب جاننے والے تھےo‘‘

الأنبياء، 21 : 51

12۔ پھر ان کے تفصیلی تذکرہ کے بعد حضرت لوط، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام کا ذکر ہے، جس کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے :

وَكُلًّا جَعَلْنَا صَالِحِينَO

’’اور ہم نے ان سب کو صالح بنایا تھاo‘‘

الأنبياء، 21 : 72

13۔ پھر آیت نمبر 73 میں ان کے دیگر فرائضِ منصبی کے باب میں فرمایا گیا :

وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَO

’’اور ہم نے انہیں(اِنسانیت کا) پیشوا بنایا وہ (لوگوں کو) ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ہم نے ان کی طرف اَعمالِ خیر اور نماز قائم کرنے اور زکٰوۃ ادا کرنے (کے احکام) کی وحی بھیجی، اور وہ سب ہمارے عبادت گزار تھےo‘‘

الأنبياء، 21 : 73

14۔ اس کے بعد آیت نمبر 76 سے لے کر آیت نمبر 84 تک حضرت نوح، حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور حضرت ایوب علیہم السلام کا تذکرہ ہے۔ آخر میں حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں فرمایا :

فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَى لِلْعَابِدِينَO

’’تو ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور انہیں جو تکلیف (پہنچ رہی) تھی سو ہم نے اسے دور کر دیا اور ہم نے انہیں ان کے اہل و عیال (بھی) عطا فرمائے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور (عطا فرما دیے) یہ ہماری طرف سے خاص رحمت اور عبادت گزاروں کے لیے نصیحت ہے (کہ اللہ صبر و شکر کا اجر کیسے دیتا ہے)o‘‘

الأنبياء، 21 : 84

15۔ پھر اگلی آیات میں حضرت اسماعیل، حضرت ادریس اور حضرت ذو الکفل علیہم السلام کا یوں تذکرہ فرمایا :

وَإِسْمَاعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا الْكِفْلِ كُلٌّ مِّنَ الصَّابِرِينَO وَأَدْخَلْنَاهُمْ فِي رَحْمَتِنَا إِنَّهُم مِّنَ الصَّالِحِينَO

’’اور اسماعیل اور ادریس اور ذو الکفل (کو بھی یاد فرمائیں)، یہ سب صابر لوگ تھےo اور ہم نے انہیں اپنے (دامنِ) رحمت میں داخل فرمایا، بے شک وہ نیکوکاروں میں سے تھےo‘‘

الأنبياء، 21 : 85، 86

16۔ اس کے بعد آیت نمبر 87 تا آیت نمبر 90 میں حضرت یونس (جنہیں ذوالنون کے لقب سے یاد فرمایا گیا ہے)، حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہم السلام کا ذکر فرمایا اور آخر میں حسبِ سابق ان کے قلبی احوال اور روحانی کیفیات یوں بیان فرمائیں :

إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَO

’’بے شک یہ (سب) نیکی کے کاموں (کی انجام دہی) میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں شوق و رغبت اور خوف و خشیت (کی کیفیتوں) کے ساتھ پکارا کرتے تھے، اور ہمارے حضور بڑے عجز و نیاز کے ساتھ گڑگڑاتے تھےo‘‘

الأنبياء، 21 : 90

17۔ اللہ رب العزت نے اپنے محبوب و مقرب اور برگزیدہ بندوں کے ذکر کی مقصدیت اور غرض و غایت کے حوالے سے یوں ارشاد فرمایا :

إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغًا لِّقَوْمٍ عَابِدِينَO

’’بے شک اس میں عبادت گزاروں کے لیے (حصولِ مقصد کی) کفایت و ضمانت ہےo‘‘

الأنبياء، 21 : 106

18۔ پھر اس سورت میں مقبولانِ حق کے ذکر کا سارا سلسلہ محبوبانِ عالم کے سرتاج رحمتِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جا کر ختم ہوا۔ آیت نمبر 107 کا اختتام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکرِ جمیل سے کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَO

’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کرo‘‘

الأنبياء، 21 : 107

19۔ اس کے بعد اس سورت میں کسی اور نبی اور رسول کا ذکر نہیں فرمایا گیا کیوں کہ تذکرۂ محبت اپنے معراج اور نقطۂ کمال کو پہنچ چکا۔ ذکرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جس آیتِ کریمہ پر سورۃ الانبياء ختم فرمائی وہ ذکرِ رحمان ہے۔ ارشاد فرمایا :

قَالَ رَبِّ احْكُم بِالْحَقِّ وَرَبُّنَا الرَّحْمَنُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَO

الأنبياء، 21 : 112

’’(ہمارے حبیب نے) عرض کیا : اے میرے رب! (ہمارے درمیان) حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے، اور ہمارا رب بے حد رحم فرمانے والا ہے اسی سے مدد طلب کی جاتی ہے ان (دل آزار) باتوں پر جو (اے کافرو!) تم بیان کرتے ہوo‘‘

20۔ اللہ تعالیٰ نے سورئہ ص میں اِرشاد فرمایا :

وَاذْكُرْ إِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَذَا الْكِفْلِ وَكُلٌّ مِّنْ الْأَخْيَارِO

ص، 38 : 48

’’اور (اسی طرح) اسمٰعیل اور الیسع اور ذو الکفل کا ذکر کیجئے، اور یہ سبھی نیک لوگوں میں سے تھےo‘‘

ہم نے صرف پانچ سورتوں میں سے چند منتخب آیات بیان کی ہیں ورنہ قرآن مجید میں بے شمار ایسے مقامات ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور مقرب بندوں کے تذکرے فرمائے ہیں اور یکے بعد دیگرے سب کے روحانی مشاغل و معمولات کا ذکر کیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے مقربین کی دعاؤں اور مناجات کے کلمات۔ جن سے وہ اللہ کو پکارتے تھے ۔ بھی من و عن بیان کر دیے، ان کی عبادت گاہوں اور ان کے خاص اَوقاتِ دعا، اَندازِ دعا اور مقاماتِ دعا و گریہ تک بیان فرما دیئے۔ اس پر مستزاد ان پر اپنی غیبی نوازشات کے ساتھ ان کی آزمائشیں، ریاضات، مجاہدات، ان کی ثابت قدمی اور اُولو العزمی بیان فرما دی۔ الغرض ان کے ذکر کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا۔ اس بیان سے ہمیں بار بار اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ یہ سب التزام عبادت گزاروں اور اِطاعت شعاروں کے لیے ہے۔ جو کوئی اللہ کی اطاعت و عبادت اور محبوبیت و مقرّبیت کی راہ تک رسائی حاصل کرنا چاہے تواس کے لیے یہی تذکرے نشانِ منزل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے لے کر آج تک تاریخِ اسلام کے ہر دور میں حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ سیرت اور حسنِ صورت کا بیان کرنا ہر صاحبِ ایمان و محبت کا شیوہ رہا ہے۔ ائمہ و محدثین، علماء کاملین اور اولیاء و عارفین سب اپنے اپنے ذوق اور بساط کے مطابق ذکرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل کا اہتمام کرتے چلے آرہے ہیں اور ہر دور میں اس حوالے سے صدہا کتب تصنیف و تالیف کی جاتی رہی ہیں تاکہ اس سنتِ الہٰیہ پر عمل کی برکات دوسروں کو بھی نصیب ہوں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کا میلاد بیان کیا ہے۔ قرآن مجید کی کئی شانوں میں سے ایک شان یہ بھی ہے کہ یہ میلاد نامۂ انبیاء علیہم السلام ہے اور میلاد پڑھنے والی ذات خود ربِ کائنات ہے۔ لہٰذا اس اعتبارسے محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد پڑھنا سنتِ الٰہیہ ہے۔



لنک:
https://www.minhajbooks.com/english/control/btext/cid/5/bid/79/btid/267/read/txt/باب%20دوم.html