یومِ منانے کی ہدایت

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کائنات کا عظیم ترین واقعہ ہے۔ جس دن حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس جہانِ رنگ و بو میں تشریف آوری ہوئی، فرحت و اِنبساط کے اِظہار کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی دن نہیں ہو سکتا۔ غم ہو یا خوشی، یہ انسان کا خاصہ ہے کہ وہ ان کیفیات کو اپنے اوپر طاری کر لیتا ہے۔ غم اور خوشی، خوف اور سکینت یا امید اور ناامیدی زندگی کے وہ پہلو ہیں جو انسان کے تصور و تخیل میں جاگزیں ہو کر اس کی انفرادی اور اجتماعی شخصیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے گزشتہ اُمتوں پر انعامات فرما کر انہیں خوشی اور انبساط کی دولت سے مالا مال کر دیا، مگر ساتھ ہی اُن کی سرکشی پر عذاب کی وعید بھی سنائی اور نافرمان قوموں کو درسِ عبرت بنا دیا۔

ہدایت ہو یا گمراہی، ان کا تعلق انسان کے نفسیاتی حقائق سے ہے۔ جب تک دل کے اندر حسنِ نیت کا پھول نہ کھلے اور انسان کے وجود میں کیفیت کی خوشبو نہ مہکے اس وقت تک عمل کا گلشن بے بہار رہتا ہے۔ جب کیفیت انسان کے دل و دماغ میں جاگزیں ہوجائے اور انسان صاحبِ حال ہوجائے تو اَفکارِ ہدایت اور اَنوارِ رضا کا نزول ہونے لگتا ہے۔ پھر وہ نور عطا ہوتا ہے جس کے تتبع میں انسان زندگی کا سفر طے کرتا ہے۔

ان کیفیات سے مستفیض ہونے کے لیے یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ کیفیت کا چشمہ نسبت و تعلق سے پھوٹتا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام بیٹے کی جدائی کے غم میں بینائی سے محروم ہوگئے تھے۔ اللہ کے یہ نبی غم کی کیفیت میں ڈوبے رہتے۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنا قمیض بھیجا تو اسے آنکھوں پر لگانے سے حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹ آئی، اور غم خوشی میں بدل گیا۔ پہلے صبر طاری تھا اب شکر طاری ہوگیا۔ یہ سارا کمال نسبت کا تھا، قمیض کو حضرت یوسف علیہ السلام سے نسبت تھی۔ ہماری زندگی کے کئی واقعات ایسے ہیں جن کا محور یہی نسبت ہے۔ ہمارے گھروں میں کون کون سی اَشیاء برسوں سے چلتی آرہی ہیں، ہم انہیں بہ حفاظت رکھتے ہیں اور اپنے والدین یا بزرگوں اور اَقرباء کی نشانیاں دیکھ دیکھ کر جیتے ہیں۔ ان کے لمس سے وجود میں کیفیت کا ایک باغ کھل اٹھتا ہے۔ ہمارے غم اور خوشیاں بھی اِسی طرح نسبت و تعلق سے وجود پاتی ہیں، ہماری کیفیات کا دھارا نسبت کے چشمے سے ہی پھوٹتا ہے۔

احادیثِ مبارکہ میں ایسے کئی واقعات مذکور ہیں جن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سے اُمت کو یہ تعلیم ملتی ہے کہ جب کبھی خوشی کا لمحہ یاد کرو تو اس لمحے کی کیفیات اپنے اوپر طاری کرلو اور جب کوئی لمحۂ مصائب و آلام یاد آئے تو غم کی کیفیات میں ڈوب جاؤ. جب ان لمحات پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں سمٹی ہوئی کیفیات اس نسبت سے جنم لے رہی ہیں جو ان لمحات کو کسی ہستی سے تھی۔ احادیثِ مبارکہ میں مذکور ایسے چند واقعات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں :

1۔ یومِ موسیٰ علیہ السلام منانے کی ہدایتجب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودِ مدینہ کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے بتایا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فتح اور فرعون کو اس کے لاؤ لشکر سمیت غرقِ نیل کرتے ہوئے بنی اِسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات عطا فرمائی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے اس دن روزہ رکھا، لہٰذا ہم بھی اس خوشی میں روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (ایک نبی ہونے کی حیثیت سے) میرا موسیٰ پر زیادہ حق ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا ہونے والی نعمتِ خداوندی پر اِظہارِ تشکر کے طور پر خود بھی روزہ رکھا اور اپنے تمام صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1900
2. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ تعالي : وهل أتاک حديث موسي، 3 : 1244، رقم : 3216
3. بخاري، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب اتيان اليهود النبي صلي الله عليه وآله وسلم حين قدم المدينة، 3 : 1434، رقم : 3727
4. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 795، 796، رقم : 1130
5. أبوداود، السنن، کتاب الصوم، باب في صوم يوم عاشوراء، 2 : 326، رقم : 2444
6. ابن ماجة، السنن، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 1 : 552، رقم : 1734
7. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 291، 336، رقم : 2644، 3112
8. أبو يعليٰ، المسند، 4 : 441، رقم : 2567

اِس سے واضح ہوتا ہے کہ بنی اِسرائیل اپنی قومی تاریخ میں وقوع پذیر ہونے والے خوشی کے واقعہ کی یاد روزہ رکھ کر مناتے تھے، اور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی خوشی کے ان لمحات کو یاد کرتے ہوئے روزہ رکھا۔

2. یومِ نوح علیہ السلام کی یاد مناناامام احمد بن حنبل (164۔ 241ھ) اور حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث روایت کی ہے جس میں یومِ عاشورہ منانے کا یہ پہلو بھی بیان ہوا ہے کہ عاشورہ حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں پر اﷲ تعالیٰ کے فضل و انعام کا دن تھا۔ اس روز وہ بہ حفاظت جودی پہاڑ پر لنگر انداز ہوئے تھے۔ اِس پر حضرت نوح علیہ السلام کی جماعت اس دن کو یوم تشکر کے طور پر منانے لگی، اور یہ دن بعد میں آنے والوں کے لیے باعثِ اِحترام بن گیا۔ اِس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اُس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔

1. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 359، 360، رقم : 8702
2. عسقلاني، فتح الباري، 4 : 247

3۔ یومِ تکمیلِ دین بہ طورِ عید مناناحضرت کعب اَحبار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا : میں ایسی قوم کو جانتا ہوں کہ اگر ان پر یہ آیت نازل ہوتی تو وہ اسے عید کے طور پر مناتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : کون سی آیت ؟ حضرت کعب اَحبار رضی اللہ عنہ نے کہا :

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِينًا.

المائدة، 5 : 3

’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اِسلام کو (بہ طور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔‘‘

اِس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

إني لأعرف في أي يوم أنزلت : (اَلْيوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِينَکُمْ)، يوم جمعة ويوم عرفة، وهما لنا عيدان.

1. طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 253، رقم : 830
2. عسقلاني، فتح الباري، 1 : 105، رقم : 45
3. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 14

’’میں پہچانتا ہوں کہ کس دن الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ نازل ہوئی : جمعہ اور عرفات کے دن، اور وہ دونوں دن (پہلے سے) ہی ہمارے عید کے دن ہیں۔‘‘

اﷲ ربّ العزت کی طرف سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دین کی تکمیل کا مژدہ ملنے والے دن کو بہ طور عید منانے کے خیال کا حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ کی طرف سے اِظہار اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تائید و توثیق اِس اَمر کی دلیل ہے کہ ہماری قومی و ملی زندگی میں ایسے واقعات، جن کے اَثرات کا دائرہ قومی زندگی پر محیط ہو ان کی یاد ایک مستقل event یعنی عید کے طور پر منانا نہ صرف قرآن و سنت کی رُوح سے متصادِم نہیں بلکہ مستحسن اور قومی و ملّی ضرورت ہے۔

لمحاتِ مسرّت کی یاد منانے کے ضمن میں مذکور واقعات کی تفصیل کتاب ھٰذا کے باب پنجم میں ملاحظہ فرمائیں۔

4۔ مقامِ حجر سے گزرتے وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایاتسن 9 ہجری میں تبوک کے سفر کے دوران میں مسلمانوں نے قومِ ثمود کے دو کنوؤں کے نزدیک پڑاؤ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس مقام کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے فرمایا کہ اِس جگہ سیدنا صالح علیہ السلام کی قوم نے اونٹنی کو ہلاک کر دیا تھا اور نتیجتاً عذابِ الٰہی کا شکار ہو گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو صرف ایک کنویں سے اپنی ضروریات کے لیے پانی حاصل کرنے کا حکم دیا اور دوسرے کنوئیں کا پانی استعمال کرنے سے منع فرما دیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس کنویں سے پانی لینے کا حکم دیا اس سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور ایک پورا دن اس اونٹنی کے لیے خاص تھا مگر قومِ ثمود کو یہ گوارا نہ تھا کہ اس ایک دن میں صرف اونٹنی ہی پانی پئے۔ لہٰذا انہوں نے اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ کر اسے ہلاک کر ڈالا۔ یہ واقعہ رُونما ہوئے صدیاں بیت چکی تھیں اور وہاں حضرت صالح علیہ السلام تھے نہ اُن کی اونٹنی صدہا سال گزر جانے کے بعد اس کنویں کے پانی میں بھی خاصا تغیر آچکا ہوگا لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کنویں کو اتنی اہمیت دی۔ سبب صرف یہ تھا کہ اسے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی سے نسبت تھی جو برکت کا باعث تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اس برکت سے فیض حاصل کرنے کی ہدایت فرمائی۔ جب کہ قومِ ثمود کے زیر اِستعمال رہنے والے دوسرے کنویں کا پانی استعمال کرنے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو روک دیا کیوں کہ قومِ ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹی کو آپ کی طرف سے وعیدِ عذاب سنائے جانے کے باوجود ہلاک کر دیا تھا۔ اِس قبیح عمل پر اللہ تعالیٰ نے اس نافرمان قوم پر عذاب نازل کیا اور وہ سب ہلاک ہوگئے۔ اسی نسبت کے پیش نظر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کنویں کا پانی استعمال کرنے سے منع فرما دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حکم سے پہلے بعض صحابہ رضی اللہ عنھم اس کنویں کے پانی کو اِستعمال کر چکے تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا تو عرض کرنے لگے : آقا! ہم تو آپ کے منع کرنے سے پہلے ہی اس کا پانی استعمال میں لا چکے ہیں، ہمیں تو اس کی خبر ہی نہ تھی کہ یہ کنواں عذاب میں مبتلا ہونے والی قوم کا تھا۔ اس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے برتنوں میں ذخیرہ شدہ پانی ضائع کر دیں اور اگر اس پانی سے کھانا وغیرہ پکایا ہے تو اسے بھی ضائع کر دیں، اور اپنے برتن اُس کنویں کے پانی سے بھر لیں جو حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی وجہ سے باعثِ برکت ہے اور اُسی پانی سے اپنا کھانا وغیرہ بنائیں۔

لنک:
https://www.minhajbooks.com/english/control/btext/cid/5/bid/79/btid/267/read/txt/باب%20دوم.html