کیامتحدہونے کاوقت اب بھی نہیں آیا؟

اعجاز احمد قاسمی

اطلاعات کے مطابق چنیوٹ کے معروف عالم دین مولاناقاری فیض احمدسلیمی صاحب جوکہ بلال مسجد کے امام وخطیب ہیں اور جامعہ خدیجہ الکبریٰ کے مہتمم بھی ہیں، کو24دسمبر کی شام نماز عشاء سے قبل پولیس کی وردیوں میں ملبوس نامعلوم افراد جوکہ پراڈو گاڑی میں سوار تھے، اغواء کرکے لے گئے ۔ جب چنیو ٹ کے تھانہ سٹی سے رابطہ کیاگیاتوانہوں نے مولانافیض احمدسلیمی کی گرفتاری کی تردید کی اورایسے کسی بھی واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ ایک ہفتہ سے زائد کاعرصہ گزرنے کے باوجودابھی تک نہ تو مولانافیض احمدسلیمی کورہاکیاگیاہے اورنہ ہی ان کے بارے میں کچھ بتایاجارہاہے ۔ تھانہ سٹی چنیوٹ کاعملہ مولاناکے اغواء کی رپورٹ درج کرنے سے بھی گریزاں ہے۔یہ اپنی نوعیت کاپہلاواقعہ نہیں، بلکہ پوراملک ایسے بے شمار واقعات سے بھراپڑاہے۔دیوبندمکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لاتعداد علمائے کرام اورعام افراداسی طرح غائب کردیے جاتے ہیں، جن میں سے بعض سال سال دودوسال کے بعد رہاہوتے ہیں اوربعض کو چند ماہ بعد ہی کسی نہ کسی کیس میں ملوث کرکے چالان کرکے جیل بھیج دیاجاتاہے۔یوں تودیوبندمکتب فکر کے خلاف حکومتی سطح پر کی جانے والی سازشوں کی ایک لمبی تاریخ ہے مگر علمائے کرام وکارکنان کی ناجائز گرفتاریاں، مراکز پر حملے، جلاؤ گھیراؤ حتیٰ کہ علماء و عام افراد کاقتل عام اوردیگر کارروائیوں میں تیزی ایک دہائی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے۔بظاہر یوں محسوس ہوتاہے کہ دیوبند مکتب فکر کے خلاف حالیہ سرگرمیاں نائن الیون کے بعد شروع ہوئیں مگر حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے 2001ء کے اختتام تک بھی دیوبند مکتب فکر تقریبا ً ہمیشہ ہی حکومتی عتاب کاشکار رہاہے۔ تاریخ ہند پرنظر رکھنے والوں پر یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دیوبندی اکابر نے کبھی بھی انگریز کی غلامی کوقبول نہیں کیا۔انگریز سرکار کی علانیہ مخالفت، تقریر وتحریر کے ذریعے اس کی مذمت، برصغیر پر انگریزی قبضے کے خلاف عوامی شعور بیدار کرنااورکسی بھی ناانصافی کے خلاف خاموش نہ رہنااس مکتب فکر کے اکابر کا وطیرہ رہاہے اور اب بھی ہے۔ملک وقوم اوراسلام کے خلاف ہونے والی کوئی بھی استعماری سازش ہو، سرکار کی طرف سے اسلام دشمنی پر مبنی کوئی پالیسی بنے یاکسی این جی اوز کی طرف سے توہین اسلا م کی جائے، غرضیکہ کسی بھی غیر اسلامی ،غیر شرعی، سماج دشمن کارروائی کے خلاف علمائے دیوبند صف آراء ہونے میں دیرنہیں لگاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں کوئی بھی حکومت ہو،حکمران چاہے کسی بھی ذہنیت کے حامل ہوں، ان کی طرف سے کسی قسم کی اسلام بے زاری کا واقعہ رونما ہونے کی دیر ہوتی ہے اِدھر سے علمائے حق دشمنان دین کوللکارتے ہوئے میدان عمل میں کود پڑتے ہیں۔یہی وہ جرم ہے جس کی سزا ہمیشہ علمائے دیوبند اور ان کے پیروکاروں کوملتی ہے۔کچھ عرصہ قبل میرے لیے نہایت ہی واجب الاحترام میرے بھائی جان جناب حافظ محمدابوبکر صاحب بھی اسی طرح کے حکومتی جبر کا نشانہ بنے اورایک ماہ تک غائب رکھنے کے بعد خطرناک مقدمہ میں ملوث کرکے جیل کی کال کوٹھری میں بند کردیے گئے۔ حافظ ابوبکر کی قید کے دوران ہمارے ساتھ جس طرح کے حالات پیش آئے، میں وہ تمام حالات امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمة اللہ علیہ کی بیٹی کی لکھی ہوئی کتاب ''سیدی وابی ''میںپڑھ چکاتھا۔ صرف ایک چھوٹی سی مثال سے ہی اندازہ کیجیے کہ قیام پاکستان سے قبل جب حضرت شاہ جی انگریزی قید میں تھے توان کوپندرہ روز بعد گھر والوں سے ملاقات کی اجازت تھی یعنی ایک جمعرات چھوڑ کر دوسری جمعرات کو ملاقات کی اجازت دی جاتی تھی اورملاقات کی اجازت بھی ہوم سیکرٹری کے تحریری آرڈر سے وابستہ تھی ۔بالکل اسی طرح 65سال بعد مجھے یہ تجربہ ہواکہ جب حافظ محمدابوبکر امریکی ایجنٹوں کی قید میںتھے توہمیں بھی ایک جمعرات چھوڑ کر دوسری جمعرات کو ملاقات کی اجازت ملتی تھی اوروہ بھی ہربار ہوم سیکرٹری کی طر ف سے جاری کردہ تحریری اجازت نامہ کی مرہون منت ہواکرتی تھی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ امیر شریعت کے داماد کو بھی ان کے اہل خانہ میں شمار نہیں کیاجاتاتھااوراسی طرح کی صورت حال کاسامناہمیں بھی کرناپڑا۔حافظ صاحب کی بیوی کوبھی ملاقات کی اجازت نہیں تھی، کیونکہ ہوم سیکرٹری کی طرف سے جاری ہونے والے آرڈر میں ان کانام شامل نہیں تھا۔ ہوم سیکرٹری پنجاب کی طرف سے جاری کیے گئے آرڈر میںصرف چاربھائیوں اور دو بچوں کا نام لکھاگیاتھا، اس لیے صرف یہ چھ افراد ہی ہرپندرہ روز بعد حافظ صاحب سے ملاقات کرپاتے۔ باقی افراد مثلاًبھانجے، بھتیجے وغیرہ تودور کی بات والدہ، بہنیں اور بیوی کوبھی اہل خانہ شمار نہ کیاجاتاتھا۔یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے،ورنہ دوران قید پیش آنے والے دیگر واقعات کا ان صفحات میں احاطہ کرناناممکن ہے۔بس اتناسمجھ لیجیے کہ جوکچھ ''سیدی وابی'' میں لکھا گیا ہے آزاد ہونے کے بعد ہمارے موجودہ ملک میں اللہ کے نام لیواؤں کے ساتھ اس سے بھی بدتررویہ روا رکھا جاتا ہے۔ایک معروف مدرسے کے ناظم صاحب نے بتایا کہ ہمارے مدرسے کے سامنے والی آبادی کابجلی کا ٹرانسفارمر تین چار روز سے خراب تھا،وہاں کے لوگوں نے احتجاج کرکے روڈ بلاک کرکے ٹریفک روک دیا۔ تھوڑی دیر بعد علاقے کے ڈی ایس پی نے میری طرف پیغام بھیجا کہ آپ کے مدرسے کے بچے روڈ بند کیے ہوئے ہیں اگر فوری طور پر روڈ نہ کھولاگیا کیاتوآپ کانام فورتھ شیڈول میں ڈال دیاجائے گا۔ ناظم صاحب فرماتے ہیں کہ اس موقع پر میں بذات خود مدرسے میں موجود تھا۔مدرسے کا گیٹ بند تھا، تمام کلاسیں اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئی تھیں اورہماراایک بھی طالب علم اس احتجاج میں شریک نہ تھا۔ اس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ ہمارے حکمران اور ان کے کارندے مدارس والوں کے خلاف کس قدر گندا ذہن رکھتے ہیں ۔ ملک میں روزانہ درجنوں جلوس نکلتے ہیں اوراحتجاج کیاجاتاہے مگر کسی کو فورتھ شیڈول کی دھمکی نہیں ملتی، بلکہ حکام موقع پر جاکر احتجا ج کرنے والوں کی بات سنتے ہیں،ان کے ساتھ مذاکرات کرتے ہیں اور احتجاج کرنے والوں کے مسائل کاحل نکالاجاتاہے، جبکہ علماء کے خلاف فورتھ شیڈول کی یہ قانونی شق بطور دھمکی استعمال کی جاتی ہے۔کوئی ان ظالموں کوروکنے والانہیں،کوئی ان سے یہ پوچھنے والانہیں کہ یہ دورخی کیوں اختیار کرتے ہو؟ کوئی بھی نہیں جو ان سے سوال کرے کہ بے گناہوں کوگرفتار کرکے کئی کئی ماہ تک پابند سلاسل کیوں رکھتے ہو؟کوئی ان سے پوچھے کہ بے گناہوں پرجھوٹے مقدمات کیوں بناتے ہو؟کوئی بھی نہیں جو ان سے جواب طلبی کرسکے۔میں اس تمام صور ت حال کا کچھ نہ کچھ ذمہ دار خود علماء کوسمجھتاہوں اوروہ اس لیے کہ ہمارے ہاں کسی ایک ڈاکٹر کے ساتھ زیادتی ہویاکسی ٹیچر کے ساتھ ،کسی وکیل کی توہین کی جائے یاکسی کلرک کے ساتھ کوئی بدتمیزی کرے ،حتیٰ کہ رکشا ڈرائیوروں کے اند ربھی اتنااتفاق ہوتا ہے کہ کسی ایک کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر باقی سارے مل کر شور مچاتے ہیں اورحکام کا گریبان پکڑنے کو تیار ہوجاتے ہیں، مگر علمائے دین اس معاملے میں اجتماعی غفلت اور سستی کا شکار ہیں۔ کسی ایک کی ناجائز گرفتاری، قید وبند کی صعوبتوں اورجھوٹے مقدمات میں ملو ث کردیے جانے کے باوجودسب علمائے کرام مل کر احتجاج کیوں نہیں کرتے؟اپنی آواز بلند کیوں نہیں کرتے؟حکام کے گریبان کیوں نہیں پکڑتے؟اگر ہمارے علمائے کرام آپس میں اتحاد واتفاق کی فضا قائم کرلیںتوحکومت علمائے کرام کو تحفظ فراہم کرنے پر مجبور ہوجائے گی ۔ بصورت دیگر مسجد باب الرحمت پرحملہ ،جامعہ فاروقیہ کے تقدس کی پامالی ، علمائے کرام کی ناجائز گرفتاریاں اور علمائے کرام جیسے واقعات توہوتے رہیں گے۔کیاہے کوئی جو تمام علمائے کرام کوایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکے؟
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 282392 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More