توانائی کابحران اور تاریک مستقبل!

تعلیمی بورڈوں نے نسل ِنو کے مستقبل سے کھیلنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی،ذمہ داروں کے خلاف مقدمات عدالتوں میں ہیں ، متاثرین اور قوم پرامید ہے کہ ان کے خلاف ہونے والی کاروائی ثمربار ہوگی، سزا جرمانہ پر مشتمل ہو یا قید وغیرہ تک بھی نوبت آئے ، اس سے ایسے کرپٹ اور سازشی مافیا کی حوصلہ شکنی تو ضرور ہوگی ، مگر جن بچوں کا مستقبل ضائع ہوگیا ، ان کا ازالہ کون کرے گا ، ایک امتحان کی وجہ سے جو آگے بڑھنے اور ترقی کے زینے چڑھنے سے محروم رہ گئے ان کی دلجوئی کس کے ذمہ ہے؟ظلم کا ذمہ دار کوئی فرد ِ واحد ہو یا تمام بورڈوں کے چیئرمین، لیکن مظلوم کی دادرسی ضروری ہے، جس کا کوئی امکان بھی نہیں۔

لیکن اب طلبا وطالبات کے مستقبل سے کھیلنے کی دوسری گھناؤنی سازش جاری ہے، ابتدائی کلاسوں سے لے کر اوپر تک کے امتحانات کا موسم سر پر ہے ، راتیں طویل اور سرد ہیں، بچے آوارہ گردی سے بھی محفوظ ہیں، دوستوں کی محفلوں سے بھی کسی حد تک بچت ہے، ظاہر ہے گھرپر ہیں تو والدین انہیں پڑھنے کے لیے کہیں گے، کیونکہ موقع بھی ہے اوردستور بھی کہ آنے والے دنوں میں امتحانات ہونے والے ہیں، لیکن بچے کیسے پڑھیں کہ بجلی نے پھر آنکھ مچولی کھیلنے کا شوق شروع کررکھا ہے، کتابیں درست کرتے اور پڑھنے کا ماحول بناتے ہیں تو بجلی غائب ہوجاتی ہے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ آمد برق بیٹھے ہیں۔

لوڈشیڈنگ ایک ایسا عذاب ہے جو کسی وقت بھی ناز ل ہوسکتا ہے، کسی کو کوئی خبر نہیں کہ کس لمحے یہ محترمہ چلی جائے اور کب لوٹ آئے، ہاں البتہ اتناسب کو معلوم ہے کہ جب یہ جاتی ہے تو کم از کم دوگھنٹے نہیں آتی۔ بجلی جاتی ”برق رفتاری“ سے ہے اور آتی ریل گاڑی کی طرح ہے ، کہ آئے ، نہ آئے یا کتنی ہی تاخیر سے آئے۔شیڈول نامی کسی چڑیا سے یہ واقف نہیں، آپ کسی کام کو اس بھروسے پر موخر نہیں کرسکتے کہ استری فلاں وقت کرلیں گے یا بجلی سے متعلقہ دیگر امور فلاں وقت نمٹالیں گے۔ اس کا حل یہی ہے کہ جب آپ فرصت پائیں بجلی سے ہونے والے کام کررکھیں۔

جدید ٹیکنالوجی کو زندگیوں کا حصہ بنالینے کی وجہ سے اب اکثر کاروباری لوگ لوڈشیڈنگ کے دوران فرصت کی فراوانی کی وجہ سے حکومت کو فراوانی اور روانی کے ساتھ بددعائیں دیتے اور حسب ِ توفیق القابات اورمغلظات سے بھی نوازتے ہیں، ایسا کیوں نہ ہو کہ ان کے کاریگر تو شام کو اپنی مزدوری کا تقاضاکریں گے ، مگر بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان کا کام پورا نہیں ہواہوتا۔ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے تمام لوگ متاثر ہوتے ہیں، کیونکہ پورے معاشرے کی کڑیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کاروباری لوگوں سے لے کر بڑی بڑی صنعتوں تک سب ہی متاثر اور پریشان ہیں۔ زرعی ملک میں ڈیزل کی قیمت پٹرول سے بھی زیادہ ہے، اوراب سی این جی کی قیمتیں بھی امید ہے پٹرول کے برابر ہوجائیں گی، ٹرانسپورٹ کا کیا حال ہوگا، مسافر وں پر کیا بیتے گی؟

جن فیکٹریوں اور ملوں میں سیکڑوں مزدور کام کرتے ہیں، گیس اوربجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے کام ٹھپ پڑا ہے، تو مزدور کو لاکھوں روپے کہاں سے اداہونگے اور اس مل سے نکلنے والی پیداور کی قیمت کیا ہوگی ، جس میں سے مزدوروں کی تنخواہ کا حساب بھی لیا جائے گا؟جہاں صنعت کا پہیہ جام ہوجائے گا وہاں ترقی کے کیا امکانات رہ جائیں گے ؟ نہ کھیت کو پانی ملے گا ، نہ سستی کھاد دستیاب ہوگی، نہ مزدور کو روزگار میسر آئے گا ، نہ طالب علم کو روشنی نصیب ہوگی، تو ایسی قوم کا مستقبل کیسا ہوگا؟ہمیں بہرصورت امید کادامن دونوں ہاتھوں سے مظبوطی سے تھام کے رکھنا چاہیے، مگر سچ جانئے کہ ان المناک اندھیروں میں ہمیں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی ، اس کا دامن کیسے تھامیں؟کیا عوام کو گیس اور پٹرول کے ٹیکے لگانے والے حکمرانوں نے(کہ جن کے بچے برطانیہ یا امریکہ میں زیرتعلیم ہیں) کبھی ان بحرانوں سے نمٹنے اور اپنی عیاشیاں کم کرنے کے بارے میں بھی سوچا ہے؟؟
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428633 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.