وزیر اعلٰی کی شہہ پر بہار میں محکمہ تعلیم کی بد عنوانی

اردو سیٹوں کی بندر بانٹ

عمومی طور پر بہار کے تعلیم یا فتہ طبقہ میں اسا تذہ کی تقر ری کی پیش نظر ایک دھو م ہے تو خصو صاً اہل ِ اردو میں ایک خاص قسم کی خوشی لہر ، کیونکہ کثیر تعداد میں اردو تربیت یا فتہ حضرا ت کی بحالی ہو گی اور چند کی حالیہ دنوں ہوئی بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ثنا خواں نتیش کی اردو دوستی کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابہ ملارہے ہیں تو بہت سے افراداردو کے روشن مستقبل کے تئیں نا زاں وفرحاں ہیں ۔ مگر سوال یہ ہے کہ بہا ر محکمہ تعلیم کی بد عنوانی کی داستان سامنے آئے گی تو ان کی خوشیا ں یو نہی سدا قائم رہےں گی ؟ کیاان کی خوشیا ں مزید دوبا لا ہو ں گی ؟ اردو سیٹوں کی بندر بانٹ کی حقیقت منظر عام پر آئے گی تو کیا صر ف خوشیوں کی فلک بو س عمارت ہی منہدم ہو گی یا پھر بہا ر ریاستی حکومت کا اردو دشمن چہر ہ بھی آشکا ر اہو جائے گا ؟۔

کچھ دنو ں میں 34ہزار 540تربیت یا فتہ حضرات کی تقر ری ہو گی ، وہ روز گا ر سے جڑ جائیں گے، جن میں سے 12,862اردو اساتذہ ہو ں گے ۔ ان اردو اساتذہ کی بحالی کا فیصلہ درا صل رابڑی -لا لو حکومت نے کیا تھا ۔ اب چو نکہ یہ معاملہ سپر یم کورٹ سے وابستہ ہے تو سپریم کورٹ نے 12ہزار862اردو اساتذہ کی تقرری کا فیصلہ دے دیا ہے ۔ اتنے اساتذہ کی بحالی سے جہاں اردو داں طبقہ میں خوشی کی لہر ہے تو وہیں اردو دشمن عنا صروں (خواہ داخلی ہو کہ خارجی )میں صف ماتم بچھ گئی ہے ، وہ حیران و پریشان ہیں ، ہکا بکا ہیں کہ آخر کیا کریں ؟کس طریقہ سے اردو سیٹوں کی کٹو تی ہو ں ؟چونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے تو راست طور پر اس میں کٹوتی کی بظاہر کو ئی گنجائش نہیں ہے ۔چنانچہ بہار محکمہ تعلیم نے لسانی فرقہ پرست عنا صر کے دلوں کو ٹھنڈک پہو نچانے کے لئے ایک کھیل کھیلا ہے ، کھل کر اردود شمنی کا ثبوت دیتے ہوئے اردو سیٹوں کی بندر بانٹ شرو ع کردی ہے ۔ واقعہ کچھ یو ں ہے کہ 12ہزار862کل سیٹوں میں سے 2056سیٹیں شیڈول کا سٹ طبقہ کے لئے مختص کردی ہے اور اسی طرح شیڈول ٹرائب کے لئے 132سیٹیں ۔صرف یہیں تک ہی بس نہیں بلکہ اردودشمنی کی پیا س بجھانے کے لئے 2310انتہائی پسماندہ اور 1543پسماندہ برادری کے لئے محفوظ کردی ہے ۔ اس محکمہ نے یہ بھی سوچا کہ آج معاشرہ میں عورتوں کو خوش رکھنے کا ایک رواج چل پڑ اہے ، تو ہم کیوں پیچھے رہیں ، چنا نچہ پسماندہ خواتین کے لئے بھی 380سیٹیں ریزرو کردی ۔ 12,862میں سے صرف 6441سیٹیں ہی جنرل طبقہ کے لئے بچ گئیں ہیں۔ اس ڈرامائی انداز کی بندر بانٹ پر بھی یہ محکمہ ”قناعت پسندی“کا مظاہر ہ کرلیتی تو اس سے وابستہ افراد کو ”قانع وصابر “کہہ لیتے ۔مگر نہیں ،انہوں نے اور بھی زیادہ بے صبر ی یا بے شرمی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اردو امیدواروں کے لئے جو شرائط عائد کی ہے ،وہ کچھ اور ہی پتہ دے رہی ہیں!!

گزشتہ دنوں ایک اشتہا ر میں محکمہ نے اردو والوں کےلئے جو شرائط طے کی ہے اس سے اردو دشمنی کا مکروہ چہر ہ بالکل بے نقاب ہوگیا ہے ، اگر اساتذہ کی بحالی میں ان شرائط کو سامنے رکھیں گے تو بمشکل تما م کل ہزار دو ہزار افراد بھی نہیں مل پائیں گے ، ان شرائط میں سب سے مضحکہ خیز شرط 200نمبر کی اردو پڑھنے والے ہی نوکری کے مجاز ہوں گے ،بقیہ دیگر ڈگری یا فتاؤں کی کوئی اہمیت نہیں ، دوسالہ ٹیچر ٹریننگ سر ٹیفکٹ بھی قابل قبو ل نہیں ، بس یہا ں تو 200نمبر کا ہی پتہ چلے گا ۔حالانکہ محکمہ کے افراد اس سے بخوبی واقف ہیں کہ انٹر میڈیٹ میں وہی طلبا ء200 نمبر کی اردو پڑھتے ہیں جہیں اردو سے آنر س اور ایم اے تک کی تعلیم حاصل کرنا ہوتی ہے ۔جب ہنگامہ بپا ہوا ، محکمہ کو اس بے شرمی اور اردو دشمنی پر عار دلائی گئی توبات کو گول مول بناکر بی ایڈ (ٹیچر ٹریننگ سرٹیفکٹ) والوں کو درخواست دینے کی اجازت ملی ۔

یوں تو آزادی کے بعد سے ہی اردو دشمنی کا سلسلہ چل پڑا ہے ،آزادی کے بعد کی دو دہا ئیوں میں اردو کو لسانی تعصب کی کند چھڑی سے ذبح کرنے کی کوشش کی گئی ، مگر وہ سخت جان نکلی اور بموقعہ غالب صدی 1969میں آنجہانی اندارا گاندھی نے اسے دوسری زبان کا درجہ دیا۔ملک کی کئی ریاستوں میں اردو اکادمیوں کا قیام عمل میں آیا ، تاکہ اردو کو فروغ ہو ، اس کا دائرہ وسیع ہو ۔اردو کی بد قسمتی ہی کہئے کہ ان اکادمیوں سے آج اردو کا دائرہ سمٹتا ہی نظر آرہا ہے ، ان سے وابستہ افراد اردو کا گلہ گھوٹنے کے درپہ ہیں ۔اتر پر دیش اردو اکا دمی میں کیسی کیسی بد عنوانیاں ہیں ، وہ تو اہل اردو پر مخفی نہیں ۔بہا رمحکمہ تعلیم بھی اردو دشمنی کا ثبوت دے رہی ہے ، مگر اکا دمی کے ذمہ داران کے کانو ں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہیں ۔ یا یو ں کہئے کہ شاید انہیں اس معاملہ میں سانپ نے سونگھ لیا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج تک ان کے کا ن کھڑے نہیںہوئے ۔ چنانچہ محکمہ ان کی متواتر خاموشیوں سے تقویت حاصل کرکے اب سپریم کورٹ کو جو فہرست پیش کرنے جارہا ہے یا شاید حالیہ دنو ں میں کرچکا ہے ،اس میں 7,738اردونشستوں کو غیر اردووالوں میں تقسیم کی اطلاع دی ہے ۔ اس کا مطلب بالکل واضح کہ بہار میں حکومت تو اردو کی اشاعت کیلئے کوشاں ہے ، اساتذہ کے لئے سیٹیں ہیں مگر اردو والے ہیں نہیں ؟؟۔سبحان اللہ!!

بہاراردو اکا دمی خاموش تماشائی ہے تو افسوس !مگر وزیر اقلیتی فلاح نے زبان کھول کر محکمہ کے کا لے کارتوں پر پرداداری کی جو کو ششیںہیں وہ افسوس صد افسو س ہے !!یعنی ان کا بھی یہی راگ کہ 50نمبرکی اردووالے اردوکی معنویت کو کیا جانے ، انہیں اردو کی شیرنی کا کیا اتا پتہ ،اردو کے پیچ وخم کو کیسے وہ برداشت کرپا ئیں گے ؟اس مطلب صرف یہ سمجھئے ! ”پہو نچی وہیں پہ خاک جہا ں کا خمیر تھا “۔یعنی زعفرانی رنگ اب بہار پر بھی چڑھنے لگا ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ اپنے کومحب اردوکہنے والوں کو کیا سمجھائیں ، ان کی عقلوں کو کس طرح مہمیز کریں ؟ کیسے اردو کی روٹیاں کھا نے والوں سے کہا جائے کہ اردو کے تعلق سے ہوش کے ناخن لیجئے ! تملق سے باز آئیے ! ورنہ وہ دن دور نہیں کہ محکمہ کی یہ سازش کامیا ب ہو جائے ، لسانی فرقہ پرست اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا کر 7ہزار778نشستوں کو نگل کر ڈکا ر تک نہ لیں ۔ تب ہمیں غیر ت آئے گی ، کف افسوس ملیں گے تویہی افراد بڑے مزے سے طعنہ دیتے ہوئے کہیں گے”اب پچھتائے کا ہوت ،جب چڑیا چگ گئی کھیت“۔

اس کو اردو کی بد قسمتی کہیں یا خوش قسمتی کہ ملک کے تمام عہدیدار اردو کی اشاعت و ترقی کے تئیں منہ کھولتے ہیں ، اسے جائز مقام دلانے کا وعدہ کرتے ہیں ، اس کی شیرینی اوراس سے شیفتگی کا دم بھر تے ہیں ، مگرسب گھر یا لی آنسوں بہا کر نہ جانے کہا ں چلے جاتے ہیں ۔

سال رواں کی ہی بات ہے کہ مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل کپل سبل نے اردو قومی کونسل کے سالانہ اجلاس میں اردو کے تعلق سے اپنے صدارتی خطبہ میں جو کہا ہے ، وہ بھی حقائق کے مد نظر اسی قبیل سے ہے ۔ وہ فرماتے ہیں ”ہندوستان ایک ایسا سیکو لر ملک ہے ، جس میں اردو کبھی مر نہیں سکتی (مگر خوب کراہ سکتی ہے )لیکن اسے روزگار سے جو ڑنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ پوری توانائی سے زندہ رہ سکے ، تعلیمی میدان میں دنیا میں بڑی تیز رفتا ر تبدیلیاں ہو رہی ہیں ، اس لئے اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبا ءبھی دوسرے طلبا ءکے ساتھ چل سکیں اور ان کو کسی محرومی کا احساس نہ ہو ۔اردو کے فروغ کے لئے آپ لو گ بہتر مشورہ دے سکتے ہیںاور مفید و اچھے مشوروں کے لئے ہماری حکومت پابند ہے ،تاکہ اردو کو فروغ دینے کے ساتھ اردو تعلیم کے ذریعہ نئی نسل کو باروز گا بنایا جاسکے “۔

مرکزی وزیربرائے فروغ انسانی کا کانگریس میں کیا مقام ہے، کیا اہمیت ہے اور وہ کتنے با اختیا ر ہیں وہ سب کو معلوم ہے ، خود مو صوف بھی اس سے آشنا ہو ں گے ، یہی وجہ ہے کہ یہ سوالات ذہنو ں میں گردش کرنے لگتے ہیں کہ فی الحال مزید مشوروں کی کیا ضرورت ؟ پہلے تو ان کے جواب مطلو ب ہیں ،عثمانیہ یو نیورسٹی حیدرآبا د کا اردو کے تعلق سے کیا امتیا ز ہے تھا اوراب کیا ہے ، کس نے اس کی امتیازی شان کو ختم کرنے کا بیڑہ اٹھا یا ہے ؟ کیوں اس کی امتیا زی شان ختم کرنے کی سازش ہورہی ہے؟ 1977میں کا نگریس نے ”گجرال اور سردار جعفر ی کمیٹی “بنائی ، ان دونوں کے سفارشات پر کتنا عملدرآمد ہو ا؟جب آپ کی حکومت اردو کے فروغ پر پابند ہے تو ایسا کیوں ؟ آزادی کے بعد کتنی اردو انجمنوں نے کتنی مرتبہ سفارشات کو دہرایا ، مگر کتنا ان پر عمل ہو ا ، کتنے مطا لبے پورے ہوئے ؟گذشہ برسوں کے جتنے سفارشات ہیں ان پر عمل درآمد کے بعد مشورہ طلب کیا جائے تو اچھا بھی لگے گا، ورنہ ؟بہار میں اردو سیٹوں کی بندر بانٹ کے لئے پر تو لے جارہے ہیں ، کیا یہ حقیقت آپ کی نظروں میں عیا ں نہیں ؟کیا بہار کے اقلیتی فلاح کے وزیر کی طرفداری سے آپ واقف نہیں؟ایک مرکزی وزیر تعلیم ہو نے کے نا طے آپ کا فریضہ بنتا ہے کہ ذرا اس مسئلہ کو ٹھنڈے دماغ سے لیں ۔

بالعموم ریاست کے اردوں داں اس دشمنی پر خاموش ہیں مگر 23دسمبر 2011کو ایک خوش کن خبر آئی کہ اس اردو دشمنی پر چند افراد نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔ راشٹریہ جنتادل (آرجے ڈی )کے سربراہ نے این ڈی اے حکومت پر سخت تنقید کی بوچھاڑکرے ہوئے کہا ہے کہ 12862اردو اساتذہ کی تقرری ہونی تھی تو صرف 4827ہی کو کیوں ملازمت کیوں فراہم کی جارہی ہے ۔ لالو یادو کے علاوہ بہار اسمبلی کونسل کے اپوزیشن لیڈر غلام غوث نے بھی حکومت کی اردو دشمنی پر سخت برہمی کااظہار کیا ہے ۔ انہوں نے کہاہے کہ اردو سیٹوں کی ایسی بندربانٹ سے معلوم پڑتا ہے کہ آرایس ایس کے دباؤ میں آکر حکومت یہ ننگا ناچ کررہی ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ 13454اردو اساتذہ کی اسامیاں ہیں جن کے مقابلہ جو بھرتی ہوئی یا مستقبل قریب میں ہونے کی امید ہے وہ ”نا“ کے برابر ہے ۔ اسی کے ساتھ انہوں نے 10جنوری 2012کو ایک احتجاجی مظاہرہ کرکے موجودہ ریاستی حکومت کے متعصبانہ رویہ کو چیلنج کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے ۔

دیر آید درست آید کے مصداق دشمنان ِ اردو کے خلاف جو اقدام اردو داں کرنے جارہے ہیں وہ قابل تحسین ہے ۔ بعید ازامکان نہیں کہ ان کی یہ کوشش رنگ لائے اوراردو اساتذہ کو اپنا جائز حق مل جائے ۔ یہ سچ ہے صد فیصد سچ کہ اگر حق لینے والا سرسے کفن باندھ لے تو ضرور کامیابی ملتی ہے ۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92339 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More