ہندوستان میںسرمایہ کاری سے کیوں خوفزدہ ہیں صنعتکار

حالانکہ ہندوستان کا شمار دنیا کی تیز رفتارترین ترقی پذیر معیشتوں میں ہوتا ہے لیکن ہندوستان کے ایسے کئی نامور سرمایہ کارجنہوں نے اپنے ملک میں ہی کاروبار کر کے اربوں ڈالر کمائے، اب یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ شاید ان کیلئے ہندوستان کو خیرباد کہنے کا وقت آ گیا ہے۔ آخراس بیزاری کی وجہ کیا ہے جبکہ سستی لیبر سمیت متعدد پرکشش مواقع یہاں میسر ہیں؟دراصل ہندوستان ایشیاءکے ان6ممالک میں شامل ہے جو رشوت کے حوالے سے دنیا کے ہاٹ اسپاٹ بن چکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ صنعتکار ہندوستان میں سرمایہ کاری سے نہ صرف بچنے لگے ہیں بلکہ انھیں محسوس ہورہا ہے کہ بیرون ملک کوئی کاروبار کرنا یا نئی صنعتیں لگانا کہیں زیادہ آسان ہے۔

انہی صنعتکاروں میں اجے پیرامل بھی شامل ہیں جو نہ صرف ایک ایسے ارب پتی ہندوستانی صنعتکار ہیں بلکہ ملک میں سرمایہ کاری سے خائف ہیں۔ ان کی سمجھ نہیں آرہا ہے کہ وہ اپنی دولت کاآخر کیا کریں؟ پیرامل کے مطابق وہ اپنا سرمایہ اس طرح استعمال میں لانا چاہتے ہیں کہ ایک صنعتکار کے طور پر ان کا فیصلہ درست ہو اور نتائج بھی اچھے رہیں۔ خبر ایجنسی اے پی نے ہندوستان کے تجارتی اور کاروباری مرکز ممبئی سے اپنے مراسلے میں لکھا ہے کہ اجے پیرامل جیسے سرمائے کے پہاڑ پر بیٹھے ہیں اور وہ اپنے ہی ملک میں سرمایہ کاری بھی کرنا چاہتے ہیںلیکن‘ پیرامل کا کہنا ہے کہ وہ اب تک نئی سرمایہ کاری سے متعلق کوئی فیصلہ اس لیے نہیں کر پا رہے کہ مسئلہ کسی اچھے موقع کا نہ ہونا نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اصل مسئلہ ہندوستان ہے، جہاں کوئی بھی بڑی سرمایہ کاری شفاف نہیں ہوتی۔ اجے پیرامل کا مسئلہ ہندوستان کے لیے ایک پریشان کن معاملہ ہے۔ اس لئے کہ جنوبی ایشیا کے اس ملک میں بدعنوانی عام ہے، نوکر شاہی کی طرف سے ہر کام میں رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں اور سرکاری پالیسیاں غیر واضح ہونے کے علاوہ بار بار بدلتی رہتی ہیں۔اجے پیرامل نے اپنے صنعتی اور کاروباری اثاثوں میں سے ایک دوا ساز کمپنی گزشتہ برس مئی میں 3.8 بلین ڈالر کے عوض فروخت کر دی تھی۔ ان کے کاروباری ادارے سے یہ کمپنی امریکہ کی بہت بڑی فارماسیوٹیکل فرم ایبٹ لیبارٹریز نے خرید لی تھی۔ کافی لمبے قدکے حامل اور اچھی صحت کے مالک ہونے کے باوجود مند اجے پیرامل کہتے ہیں کہ وہ ہندوستان میں ہی سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں ہر جگہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پیرامل اپنے وطن میں ہی اپنے ایک کیمیکل پلانٹ کو وسعت دینا چاہتے تھے لیکن انہیں بتایا گیا کہ اس کام میں کم از کم پانچ سال لگیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ چین میں یہی پلانٹ دو سال میں لگایا جا سکتا ہے۔اس ارب پتی ہندوستانی صنعتکار کے مطابق انہیں اپنے وطن ہندوستان سے پیار ہے لیکن ان کے گاہک طویل عرصے تک ان کا انتظار نہیں کر سکتے۔

اجے پیرامل کی طرح ہندوستان کے بہت سے نامور سرمایہ کار اب اندرون ملک کی بجائے بیرون ملک سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ اس کا ثبوت ہندوستانی مرکزی بینک کے تازہ اعداد و شمارسے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی بحران کے باوجود ہندوستان میں ملکی معیشت متاثر کن رفتار سے ترقی کر رہی ہے۔ 2008 میں ہندوستانی سرمایہ کاروں نے جتنی سرمایہ کاری بیرون ملک کی تھی، اس سے دگنی سرمایہ کاری غیر ملکی کمپنیوں نے ہندوستان میں کی تھی جس کی مالیت 3 بلین ڈالر رہی تھی‘ لیکن محض2 سال بعدیعنی 2010 کے دوران غیر ملکی اداروں نے جتنا سرمایہ ہندوستان میں لگایا، اس کی مالیت 20 بلین ڈالر رہی اور ہندوستانی سرمایہ کاروں کی طرف سے بیرون ملک کی جانے والی سرمایہ کاری اس سے بھی دگنی ہو کر 40 بلین ڈالر کے قریب ہو چکی تھی۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ محض2 سال کے اندر اندر ہندوستان میں سرمایہ کاری کا رجحان قطعی طور پرالٹ گیاہے۔

ہندوستان کے ایک بہت بڑے مینوفیکچرنگ گروپ گودریج اینڈ بوائیس Godrej & Boyce کے چیئرمین جمشید گودریج اجے پیرامل کی بیزاری کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر آپ ایک دیانتدار تاجر ہیں تو آپ کیلئے ہندوستان میں کوئی بھی کام شروع کرنا نہایت مشکل ہو گا۔اس سلسلے میںبدعنوانی پر نظر رکھنے والی بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے جاری کردہ ایک سروے کے مطابق جنوبی ایشیا میں ہر تیسرے فرد کو اپنے جائز کام کروانے کے لیے افسران کو رشوت دینا پڑتی ہے۔جرمنی کی تنظیم ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے کھٹمنڈو میں قائم دفتر سے جاری ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق رشوت کے حوالے سے افریقہ کے بعد جنوبی ایشیا دنیا کا ہاٹ اسپاٹ بن چکا ہے۔جنوبی ایشیا کے 6 ممالک میں کروائے گئے اس سروے میں ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا اور مالدیپ کے 7 ہزار8 سو افراد نے حصہ لیاجن میں سے 40 فیصد کا کہنا تھا کہ انہیں گزشتہ بارہ مہینوں کے دوران کسی نہ کسی صورت میں سرکاری ملازمین کو رشوت دینا پڑی۔ سروے کے مطابق رشوت وصول کرنے والوں میں پہلے نمبر پر اس خطے کے پولیس اہلکار آتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سروے میں شامل پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان سے تعلق رکھنے والے دو تہائی افراد کو گزشتہ برس رشوت خوری میں مبتلابدعنوان پولیس اہلکاروں کی جیب گرم کرنی پڑی۔جنوبی ایشیا میں اس واچ ڈاگ کی سینئر کوآرڈینیٹر رخسانہ ننایاکر کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیاءمیں رشوت ایک معمول ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنی حکومتوں سے اس کے خلاف اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے ناراض ہیں۔اس سروے کا نام ’روزمرہ کی زندگی اور کرپشن‘ رکھا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کے 62 فیصد افراد کے خیال میں گزشتہ چند برسوں کے دوران رشوت لینے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے جبکہ اس رجحان میں اضافے کے سبب سب سے زیادہ مایوس پاکستان اور ہندوستانی باشندے نظر آتے ہیں۔سروے میں شامل 80 فیصد افراد نے کہا ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کیلئے تیار ہیں اور اس سلسلے میں کی جانے والی کسی بھی کوشش کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ ننایاکر کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا کی حکومتیں اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ عوام بڑھتے ہوئے کرپشن سے آجز آ چکے ہیں اور اس کے سدباب کیلئے کارروائی کے منتظر ہیں۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116443 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More