خادم اعلٰی کی ناک کے نیچے کیا ہو رہا ہے؟

پاکستان کے حکمران طبقات میں عوام کے مسائل کو حل کرنے اور ان کی مشکلات کو رفع کرنے کی حس ہمیشہ مفقود رہی ہے۔ ایسا کرنے کے دعوے، وعدے اور نعرے بہت لگائے جاتے ہیں مگر عملی طور پر ان لوگوں کی کارکردگی صفر ہے۔ وزیر اعلٰی پنجاب جو خادم اعلٰی کہلوانا پسند کرتے ہیں اوران حکمران طبقات میں سب سے زیادہ سخت گیر منتظم ہونے کی شہرت بھی رکھتے ہیں ان کی تمام تر بھاگ دوڑ کے باوجود ان کے صوبے میں عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں بلکہ پہلے سے بھی بڑھ گئے ہیں۔سروسز ہسپتال سرکاری افسروں کی رہائشی کالونی جی اوآرون اور وزیر اعلٰی پنجاب کے دفتر سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہے، اس کے گائنی وارڈ میں چند روز پہلے انسانیت کو سسکتے دیکھاتو خادم اعلٰی کی خدمت کا بھرم کھل گیا۔ 22اور 23 نومبر کی درمیانی شب میری بیوی کو حمل کے ابتدائی ایام میں ہونے کے باعث کچھ تکلیف کا سامنا کرنا پڑا توہسپتال میں کام کرنےوالے اپنے کسی جاننے والے کے مشورے پر سروسز ہسپتال لے جانا پڑا۔ ہسپتال پہنچ کر میں تو وارڈ کے باہر رک گیا مگر اندر جا کر میری بیوی نے جو منظر دیکھا تو اسے ایسے لگا جیسے وہ کسی قصاب خانے میں آ گئی ہے۔ لیبر روم میں کئی خواتین زچگی کے آخری مراحل تک پہنچ چکی تھیں مگر ان کو اس مشکل سے نکالنے کے لیے وہاں موجود ڈاکٹرز اور نرسیں اپنی روایتی بے حسی کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔صورتحال اس حد تک ناگفتہ بہ تھی کہ ایک خاتون جوعین ڈلیوری کے قریب تھی اس کی حالت غیر ہو رہی تھی مگر اس کو اٹھا کر بیڈ پر لٹانے کی توفیق کسی ڈاکٹر، نرس یا لیبر روم کے دوسرے عملے کو نہیں ہوئی حالانکہ وہ سب کھلی آنکھوں سے اس کی پریشانی کو دیکھ رہے تھے اوریہ وہ وقت ہوتا ہے جب بچہ جننے والی خاتون چند لمحوں کے لیے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہوتی ہے۔اسی طرح ایک اور مریضہ جو چلنے کے قابل نہ تھی اس کی رشتہ دار خواتین بمشکل اسے لیبر روم لانے میں کامیاب ہو گئیں اور جب وہاں موجود ڈاکٹر سے کہا گیا کہ وہ اس مریضہ کا چیک اپ کرے تو ڈاکٹر نے شہنشاہانہ جواب دیتے ہوئے کہا وہ مریضہ خود چل کرمیرے پاس آ جائے میں وہاں نہیں جا سکتی۔ لیبر روم میں سٹاف اور بیڈز کی کمی کا مسئلہ تو اپنی جگہ قابل توجہ ہے مگر اس کا یہ مطلب تو بالکل نہیں کہ وہاں موجود طبی عملے کا رویہ بھی مریضوں سے اس حد تک ظالمانہ ہو۔

میری بیوی کا مسئلہ دوسری خواتین سے ذرا مختلف تھا مگر اسے کافی دیر صرف اس لیے انتظار کرنا پڑا کہ آپریشن تھیٹر میں جگہ کم تھی اور بچے جننے والی خواتین کی تعداد زیادہ تھی۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ اسے لیکر آپریشن تھیٹر تک گئے اور کوئی بیڈ خالی نہ ہونے کی وجہ سے کافی دیر تھیٹر کے باہر بٹھا کر واپس بھیج دیا گیا ۔لیبر روم کے عملے کی تاخیر اس حد تک بڑھ گئی کہ اس کی طبیعت بگڑنا شروع ہوگئی۔ انہوں نے ایک مرتبہ اسے آپریشن تھیٹر کے باہر آدھ گھنٹہ تک بٹھائے رکھا جس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہوگئی تب” قصابوں“ کے اس ٹولے کو ہوش آیا اور وہ اسقاط حمل کے لیے میری بیگم کو آپریشن تھیٹرلے گئے۔ آپریشن کے وقت ایک بار پھر انہوں نے ہمارے لیے مشکلات پیدا کردیں۔ پہلے کہا گیا کہ آپریشن کے لیے خون کا بندوبست کیا جائے اس کے بغیر آپریشن نہیں کیا جاسکتا۔ میں اورمیرے دونوں چھوٹے بھائی مسلم عباس ملک اور اکبر عباس ملک خون کے حصول کے لیے بھاگ دوڑ کرتے رہے تمام دوستوں کو فون بھی کیا مگر اے پازیٹو کی ایک بوتل بھی دستیاب نہ ہوسکی۔ کچھ دیربعد پھر کہا گیا کہ فی الحال خون کی ضرورت نہیں لہذا ہم تینوں بھائی تھک ہار کربیٹھ گئے۔جب آپریشن کے لیے بیگم کو تھیٹر میں لے کر جانے لگے تو کہا گیا کہ خون کی فوری اور اشد ضرورت ہے ۔اس وقت رات کے ساڑھے تین بج چکے تھے کسی دوست اورخون فراہم کرنے والے کسی ادارے سے بھی رابطہ کرناممکن نہ تھا۔ میں اور اکبر سروسز ہسپتال کے بلڈ بنک اور لیبر روم کے درمیان شٹل کاک بن کر رہ گئے جبکہ ہسپتا ل کے عملے کا وہ رکن اور مسلم گائنی وارڈ میں پریشانی کے عالم میں دوستوں سے رابطہ کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہے مگر ہر طرف سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ وقت کم تھا اور خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے میری بیوی کی حالت مزید خراب ہوتی جارہی تھی ۔ رات پونے چار بجے لیبر روم عملے کی طرف سے کہا گیا بچہ توختم ہو چکا ہے اور تاخیرہونے کی وجہ سے بچے کی ماں کی جان کو بھی خطرہ ہے ۔ بالآخر چار بجے خون لگائے بغیر یہ کہہ کر آپریشن کیا گیا کہ بعد میں خون لگوا لیجئے گا۔ آپریشن کے بعد مریضہ کو گائنی ٹو وارڈمیں شفٹ کردیا گیا جہاں کچھ نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔سرکاری ہسپتالوں میں ایک دیرینہ مسئلہ یہ ہے کہ نوجوان ڈاکٹروں سے چوبیس چوبیس اور چھتیس چھتیس گھنٹے مسلسل ڈیوٹی لی جارہی ہے جس کی وجہ سے ان کی قوت برداشت اور استطاعت روز بروز کم ہوتی جارہی ہے اور وہ پوری دلجمعی سے اپنے فرائض ادا نہیں کررہے۔ اسی صورتحال کا سامنا گائنی ٹو میں کرنا پڑا ۔ مریضوں کا بروقت معائنہ نہ کرنا اور تکلیف کی صورت میں ڈاکٹروں کا بے اعتناعی سے خواتین مریضوں کے ورثا کو ڈانٹ کرکمرے سے باہر نکال دینااس وارڈ میں معمول بن چکا ہے۔ ڈاکٹروں کا سخت رویہ تو اپنی جگہ ناپسندیدہ ہے مگر ڈیوٹی پر موجود نرسوں کا رویہ بھی قابل رشک نہیں ہے ۔ڈاکٹروں اور نرسوں کا رویہ تو سب سے زیادہ شائستہ ہونا چاہیے اور انہیں مریضوں اور انکے لواحقین کے ساتھ شیرینی بھرے لہجے میں گندھی گفتگو کے ساتھ بات کرنی چاہیے مگر ہمارے ہاں اس کے بالکل الٹ ہورہا ہے۔

سہ پہر پونے ایک بجے بتایا گیا کہ اب مریضہ کو خون لگانے کی ضرورت بالکل نہیں ایک ڈرپ لگا کر آپکی مریضہ کوفارغ کر دیا جائے گا۔جب میں ٹیکہ اورڈرپ کا سامان لیکر آیا تو ڈرپ لگانے کے لیے کوئی نرس دستیاب نہیں تھی۔ پورا وارڈ چھان مارنے کے باوجود ڈیوٹی نرس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ کافی دیر کے بعد وہ ’محترمہ‘ تشریف لے آئیں اور ڈرپ لگا دی ۔ڈرپ ختم ہونے پرایک بار پھران’ محترمہ‘ کی ضرورت پڑی تو وہ پھر ڈیوٹی سے غائب پائی گئیں۔ ایک بار پھر انکی تلاش کا کام شروع ہوا اور وارڈ کے تمام کمرے چھان مارنے اور دیگر عملے سے پوچھنے کے باوجود اس کا سرغ کہیں نہ ملا۔ تنگ آکر ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر مائرہ سے اس نرس کی گمشدگی کی شکایت کی تو انہوں نے حسب توقع تلخ لہجے میں کہا اگر وہ ڈیوٹی سے غائب ہے تو پھر میں کیا کروں اورڈرپ اتارنا میرا کام نہیں ہے۔ان سے پوچھا گیا کہ مذکورہ نرس کی ’غیبت ‘کی شکایت کس سے کی جائے تو انہوں نے کہا مجھے نہیں معلوم آپ جہاں مرضی شکایت کریں۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنی صحافتی شناخت کے ساتھ ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو شکایت کی کہ میری بیوی کی ڈرپ ختم ہوچکی ہے وہ درد سے کراہ رہی ہے جبکہ اسے بیت الخلاءجانے کی حاجت بھی ہورہی ہے مگر ڈیوٹی پر موجود نرس کافی دیرسے غائب ہے ۔ ڈی ایم ایس صاحبہ نے اپنے دفتری عملے کے ایک فرد کو ساتھ بھیج کرمسئلہ حل کرنے کی ہدایت کی۔اس دوران گمشدہ’ محترمہ‘ بھی ڈیوٹی پر واپس آچکی تھیں۔ شکایت سن کران کا پارہ آسمان پرچڑھ گیا اورکہنے لگیں کہ مریض دیکھنے کے علاوہ ہمیں کوئی اور کام نہیں ہے؟ کوئی موصوفہ سے کہتا اگر ڈیوٹی اوقات میں آپ نے اورکام کرنے ہیں تو پھر نوکری چھوڑ کر اپنے باقی کام نمٹائیں۔ساتھ ہی اس نے تحکمانہ اوردھمکی آمیز لہجے میں بتایا کہ اس کے بہنوئی ایک مقامی انگریزی روزنامے کے ایڈیٹر ہیں اور اسکی رشتے کی کئی بہنیں بھی میڈیا سے تعلق رکھتی ہیں لہذا آپ اپنی صحافیانہ شناخت ظاہر کرکے مجھ پر رعب نہ جمائیں۔ وقت کم تھا میں اس اکھڑ مزاج نرس کو یہ نہ بتاسکا کہ گزشتہ رات جب میری بیوی کی طبیعت سخت ناساز تھی اور آپریشن تھیٹر میں بیڈ نہ ملنے کے باوجود انتظار کرنا مناسب سمجھا مگر کسی پر اپنی صحافتی شناخت ظاہر نہ کی ۔ اگر میں چاہتا تو اپنی دونوں صحافتی شناختیں، کالم نگار اورایک نجی ٹیلی ویژن چینل کا نیوز ایڈیٹر ہونا ،ظاہر کرکے خصوصی سلوک کا مستحق قرار پاسکتا تھا۔یہ تو ہسپتال کے ڈاکٹروں اورنرسوں کا رویہ تھا مگریہاں کے انتظامی معاملات میںبھی اچھا خاصہ بگاڑدیکھنے کو ملا۔ گائنی وارڈ میں بچوں کے کپڑے بیچنے ، جوس ، کھانے پینے کی اشیاءاور دوسری چیزیں فروخت کرنے کے لیے مرد و خواتین پھیری والے وارڈ عملے کی ملی بھگت سے بلا روک ٹوک دندناتے پھر رہے تھے جس کی وجہ سے وارڈ میں موجود خواتین مریضوں کو تکلیف اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔سروسز ہسپتال میں اس طرح کا سلوک دیکھ کر وہ وقت یاد آ گیا جب چار سال قبل ایک سرکاری ادارے میں نوکری حاصل کرنے کے بعد مجھے اسی ہسپتال سے میڈیکل فٹنس سر ٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے ملتان سے کئی بار لاہور آنا پڑا ۔ہسپتال کے عملے نے سر ٹیفکیٹ جاری کرنے کے لیے بیس ہزار طلب کیے جو میں نہ دے سکا نتیجے کے طور پرمجھے ان فٹ قرار دیکر رپورٹ متعلقہ محکمے کو بھیج دی گئی اس طرح میری سرکاری نوکری ختم ہو گئی۔ان گزارشات کا مقصد صرف یہ ہے کہ خود کو خادم اعلٰی کہلانے والے میاں شہباز شریف صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں اصلاح احوال کے لیے بھی کچھ اقدامات کریں تاکہ یہاں علاج کی غرض سے آنے والے مریض ڈاکٹروں اور نرسوں کی بے اعتنائی کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جانے سے بچ جائیں۔
Ghulam Mehdi
About the Author: Ghulam Mehdi Read More Articles by Ghulam Mehdi: 11 Articles with 7311 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.