جاوید ہاشمی فطرتاً باغی

ایک تقریب میں پرویزی آمریت کے باغی جاویدہاشمی شریک تھے ،اچانک وہاں چودھری شجاعت حسین بھی آگئے۔دونوں رہنما ﺅں نے ملتے وقت ایک دوسرے کیلئے بھرپور گرمجوشی کامظاہرہ کیا۔جاویدہاشمی نے چودھری شجاعت کومخاطب کرتے ہوئے کہا اگرآپ اپنے امیدوارسیّد مشاہدحسین کومیرے حق میں دستبردارکردیں توصدارتی الیکشن میں آصف زرداری کا مقابلہ کرتے ہوئے میری کامیابی یقینی ہوجائے گی۔ چودھری شجاعت حسین نے کہا اگرمیاں نوازشریف آپ کونامزدکردیں تومیں آپ سے وعدہ کرتا ہوں ہمارا امیدوار آپ کے حق میں دستبردار ہوجائے گا ۔ چودھری شجاعت حسین کے اس فوری اورمثبت جواب نے جاویدہاشمی کو حیرت زدہ کردیا۔جاویدہاشمی نے چودھری شجاعت سے کہا آپ مذاق تونہیں کررہے اس پر چودھری شجاعت نے بتایا کہ میں جانتاہوں میاں نوازشریف کسی قیمت پرآپ کو نامزدنہیں کریں گے اسلئے فوراوعدہ کرلیا اوربعدمیں وہی ہوا میاں نوازشریف نے مسلم لیگ ( ن) کے امیدوارکی حیثیت سے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سعیدالزمان کو نامزدکردیا اورجاویدہاشمی کی خواہش کابرامنایا اورمذاق اڑایاگیا۔

میں انتہائی وثوق سے کہتا ہوں اگرآصف زرداری کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن)نے جاویدہاشمی کواپناامیدوارنامزدکیا ہوتا تووہ بازی پلٹ دیتے اورآج ایوان صدرمیں ہوتے اورجمہوریت سمیت پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کوخطرہ ہوتا اور نہ پاکستان میں کرپشن کابازارگرم ہوتا۔ چاروں صوبوں کے سیاستدان اورمنتخب ارکان اسمبلی جاویدہاشمی کی طویل مگرصاف ستھری سیاسی جدوجہد اورقربانیوں کا حیااوراحترام کرتے ہیں،ان کافیصلہ یقینا جاویدہاشمی کے حق میں ہوتا۔ اپوزیشن لیڈربناتے وقت بھی مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اپنے باوفا،باصفااوربہادرساتھی جاویدہاشمی کی صلاحیتوں اورکمٹمنٹ پراعتما دکیا اورنہ ان کی قربانیوں کوقدرکی نگاہ سے دیکھا۔اگراس بے اعتنائی کو میاں نوازشریف کی سیاسی کمزوری اورغلطی کہا جائے توبیجانہ ہوگا۔اس وقت مسلم لیگ (ن) کی باگ ڈورمیاں شہبازشریف کے ہاتھوں میں تھی اوران کاچودھری نثارعلی خان کی طرف جھکاﺅکسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔میاں شہبازشریف میرٹ کی رٹ توبہت لگاتے ہیں مگرا ن کاہرفیصلہ پسندناپسند کاآئینہ دارہوتاہے ۔بلاشبہ اپوزیشن لیڈر کامنصب جاویدہاشمی کاحق تھا اوروہ بجاطورپراس کے اہل بھی تھے مگرانہیں اس حق سے بھی محروم کردیا گیا ،وہ یقیناپارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے زیادہ موثراورفعال ثابت ہوتے۔جاویدہاشمی کاقصور صرف یہ تھاکہ وہ قومی سیاست کی ایک قدآورشخصیت تھے اورپرویزی آمریت کیخلاف اعلان بغاوت اورمزاحمت نے ان کی شہرت اورعزت کوچارچاند لگادیے تھے۔ہمارے ہاں قائدین اپنے ساتھیوں کی خود سے زیادہ پذیرائی برداشت نہیں کرتے ۔مسلم لیگ (ن) کے رہنماﺅں کاکہنا ہے کہ عمران خان نے تحریک انصاف میں نئے آنیوالے افراد کو آگے جبکہ پرانے ساتھیوں کوپیچھے کردیا ہے توکیا یہ سب کچھ مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی میں نہیں ہورہا۔ جماعت اسلامی اورمتحدہ قومی موومنٹ کے سوا کسی سیاسی جماعت کے پاس ڈسپلن اور مضبوط تنظیمی ڈھانچہ نہیںہے،مگرجماعت اسلامی کوابھی قاضی حسین احمد کی ضرورت تھی۔

جاویدہاشمی نے اس وقت مسلم لیگ (ن)کی صدارت کابوجھ اپنے کندھوں پراٹھایا جب پاکستان میں پرویزی آمریت کاسورج سوا نیزے پرتھا اورشریف خاندان کے افراداپنی رضامندی سے جلاوطنی قبول کرنے کے بعد سرورمحل میں مسرور تھے۔پرویزرشید بھی چوری چھپے لندن چلے گئے تھے،خواجہ احمدحسان نے مسلم لیگ (ن) لاہور کی صدارت چھوڑدی تھی اورمیاں شہبازشریف کے منع کرنے کے باوجود پرویزمشرف کے صدارتی ریفرنڈم کے جلسہ میں سٹیج پرچلے گئے تھے مگرآج یہ دونوں حضرات میاں شہبازشریف کے دست وبازوبنے ہوئے ہیں ۔اس وقت بڑے بڑے نامورسیاستدانوں اورجرنیل زادوں نے میاں نوازشریف سے منہ موڑ لیا تھاجوان دنوں پھران کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ضمیر کے قیدی جاویدہاشمی کوفوج کیخلاف بغاوت کے ناکردہ گناہ کی پاداش میں گرفتارکرلیا گیا اورانہیںجیل کی کال کوٹھڑی میں بدترین تشدد کانشانہ بنایا گیا۔جاویدہاشمی اس وقت بھی کوٹ لکھپت جیل میں تھے جس وقت ان کی حقیقی بھانجی اوران کے شوہرملتان میں پی آئی اے کاطیارہ تباہ ہونے سے مارے گئے تھے ۔وہ اس وقت بھی پس زندان تھے جس وقت ان کی بیٹی کواپنے پیاگھرجاناتھامگر اس وقت اچانک انہیں کسی باضابطہ درخواست کے بغیرزبردستی پیرول پررہاکردیا گیا تھا۔جس دن انہیں آخری بار کوٹ لکھپت جیل سے رہا کیا گیا تو وہ بذریعہ سڑک ملتان روانہ ہوئے جہاں قدرت نے ان کے حقیقی بھائی مختارہاشمی کوزندگی کی قیدسے رہا کردیا۔پرویزمشرف کے دورمیں جاویدہاشمی کی زندگی میں کئی ڈیزاسٹرآئے مگران کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ایک اندازے کے مطابق وہ پرویزمشرف کے دورآمریت میں مجموعی طورپر تقریباً پانچ سے چھ برس تک جیل میں رہے ۔اس دوران ان کے ضمیر کی بولی بھی لگائی گئی اورانہیں توڑنے کیلئے ان پرظلم کے پہاڑبھی توڑے گئے مگرانہوں نے اپنے حق میں لگائے جانیوالے نعرے ''ایک بہادرآدمی ہاشمی ہاشمی'' کی لاج رکھ لی اورآمر کے سامنے ڈٹ گئے ۔ روشن خیال پرویزمشرف کی سیاہ آمریت کاظلم و ستم اورقیدتنہائی کاطویل دوربھی جاویدہاشمی کونہ توڑپایا مگراپنوں کی بے اعتنائی انہیں موت کے پنجوں تک لے گئی ،انہیں برین ہیمرج ہوگیامگران کے اہل خانہ اورکروڑوںمداحوں کی دعاﺅں کے نتیجہ میں اﷲ تعالیٰ نے ان کی زندگی بچالی۔

جاویدہاشمی بلاشبہ مسلم لیگ (ن) کا افتخاراورغرورتھے ،ان کاجانامسلم لیگ (ن) اوربالخصوص میاں نوازشریف کیلئے ایک بہت بڑادھچکا ہے۔استحصال اورآمریت کیخلاف بغاوت کرناجاویدہاشمی کی فطرت میں ہے۔جس نے پرویزمشرف کی آمریت کونہیں ماناوہ کسی سیاستدان کی ڈکٹیٹرشپ کوکیوں مانے گا۔ان کے جانے سے مسلم لیگ (ن)میں اسٹیبلشمنٹ کے حامیوں کوتقویت ملے گی اورانہیں اب جاویدہاشمی کی مزاحمت یاتنقید کاسامنا نہیں کرناپڑے گا ۔پاکستان میں جاوید ہاشمی کے پائے کادوسرا کوئی لیڈرنہیں ہے۔وہ ایک باکردار،باضمیراورباصلاحیت سیاستدان اورایک حساس دانشور ہیں،ان کافوجی آمرپرویزمشرف کے ساتھ حلف اٹھانے سے انکارآج بھی قوم کیلئے سرمایہ افتخار ہے۔ان کی دونوں کتب''ہاں میں باغی ہوں''اور''تختہ دار کے سائے تلے'' جوانہوں نے جیل سے لکھیں سیاسی ادب کابیش قیمت اثاثہ ہیں۔ یہ سوچنایاکہنا کہ جاویدہاشمی کے جانے سے مسلم لیگ (ن) کوکسی قسم کاکوئی فرق نہیں پڑے گامحض خوش فہمی ہے۔ایک ہزارراناثناءاللہ پرایک جاویدہاشمی بھاری ہے۔جاویدہاشمی جہاں سے اورجہاں گئے وہاں بہت فرق پڑے گا۔جاویدہاشمی کاتحریک انصاف میں جاناپاگل پن نہیں بلکہ ایسے انمول انسان کی قدر نہ کرنا اوراسے دیوار سے لگاناپاگل پن ہے۔ جاویدہاشمی کی آمریت کیخلاف مزاحمت اوراستقامت اپنی مثال آپ ہے،وہ قومی سیاست میں اپنا فعال کرداراداکرنے کیلئے کسی پارٹی منصب کے محتاج نہیں ہیں۔ انہوں نے زندگی بھراسٹیبلشمنٹ کی ڈکٹیشن قبول کی اورنہ ان کی مرضی کے مطابق کوئی قدم اٹھایا۔ جاویدہاشمی بلاشبہ ایک قومی اثاثہ ہیں ، ان کے تحریک انصاف میں جانے سے اب کوئی عمران خان پر اسٹیبلشمنٹ کاحمایت یافتہ ہونے کے حوالے سے انگلی نہیں اٹھاسکتا۔مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ہاتھوں استعمال ہونے اورپھر استحصال کانشانہ بننے والے کارکنوں کی دعائیں اوروفائیں جاویدہاشمی کے ساتھ ہیں۔ جاویدہاشمی کے حالیہ فیصلے کی آڑ میں ان کی شخصیت پرتنقیدکرنیوالے سیاسی بونے ہیں۔مسلم لیگ (ن) میں جاویدہاشمی کی کمی کوئی پوری نہیں کرسکتا،اگرقائدین کوا س بات کاادراک یااحساس نہیں توپھریقینا ان میں سیاسی بصیرت کافقدان ہے۔ پارٹی میںمسلسل حق تلفی کے باوجود جاویدہاشمی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ساتھ وفاداراور مخلص رہے اور اعلیٰ ظرف ہونے کاثبوت دیا ۔ شریف خاندان کی جلاوطنی کے بعد اورخودپابندسلاسل ہونے کے باوجوداگرجاویدہاشمی مسلم لیگ (ن) کاپرچم سربلندنہ کرتے توپرویزمشرف اس قومی جماعت کاشیرازہ بکھیر نے میں کامیاب ہوجاتا،مگرجاویدہاشمی نے میاں نوازشریف کی امانت میں خود خیانت کی نہ کسی دوسرے کونقب لگانے دی۔

عمران خان واقعی خوش نصیب ہیں جو بیٹھے بٹھائے ملتان کے دوسیّدزادے اوردومنجھے ہوئے سیاستدان انصاف کی تحریک سے آملے ہیں اوراب یہ تحریک قومی سیاست میں ایک تاریخ رقم کرے گی۔عمران خان ان دونوں سیّدزادوں کوکس طرح ایک ساتھ لے کر چلتے اوران کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار ر کھتے ہیں ،اب یہ عمرا ن خان کی سیاسی صلاحیتو ں کاامتحان ہے ۔جاویدہاشمی کے آنے سے تحریک انصاف ایک سنجیدہ سیاسی جماعت بن کرابھری ہے۔اب ملک بھر سے جاویدہاشمی کے مداحوں سمیت سیاستدان اورسیاسی کارکن جوق درجوق تحریک انصاف کارخ کریں گے۔جاویدہاشمی کی تازہ بغاوت سے مسلم لیگ (ن) کابندٹوٹ گیا ہے ،اب کئی ارکان قومی وصوبائی اسمبلی اوراہم عہدیدارتحریک انصاف میں چلے جائیں گے۔عمران خان کی اس کامیابی کے پیچھے ان کے مثبت رویے اورمستقل مزاجی سے زیادہ مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کی قیادت کامنفی رویہ کارفرما ہے۔ موروثی سیاست کے سبب دونوں حکمران پارٹیوں کاگراف دن بدن گرتااورعمران خان کاراستہ ہموارہوتاجائے گا۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126821 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.