لارڈ نذیر احمد ....سوئی گیس کے بعد میرپور میڈیکل کالج

امام جلال الدین رومیؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عیسیٰ ؑ جنگل میں جا رہے تھے کہ ایک بیوقوف شخص اُن کے ساتھ ہو لیا۔جنگل میں ایک جگہ گہرے گڑھے میں ہڈیوں کا ڈھیر پڑا ہو اتھا۔ وہ بیوقوف ہڈیوں کا ڈھیر دیکھ کر رُک گیا اور حضرت عیسیٰ ؑ سے کہنے لگا۔ اے روح اللہ وہ کیا اسمِ اعظم ہے جس کو پڑھ کر آپ مردوں کو زندہ فرماتے ہیں۔ مجھے بھی اسمِ اعظم سکھا دیں تاکہ ان بوسیدہ ہڈیوں میں جان ڈال دوں۔ اس احمق کی بات سُن حضرت عیسیٰ ؑ نے کہا کہ خاموش ہو جا تیری زبان اُس اسم کے لائق نہیں۔وہ بضد ہوا اور کہنے لگا بہت اچھا اگر میری زبان اس اسمِ اعظم کے لائق نہیں تو آپ ہی ان ہڈیوں پر پڑھ کر دم کر دیں۔اُس نے یہاں تک اپنی بات پراصرار کیا کہ حضرت عیسیٰ ؑ سخت متعجب ہوئے کہ اور دل میں کہا کہ یا الٰہی یہ کیا بھید ہے اس احمق کی اتنی ضد کس لیے ہے کہ یہ دوسرے مردے کو زندہ کرنے کی فکر میں ہے۔ حق تعالیٰ نے حضرت عیسٰیؑ پر وحی نازل کی کہ اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ حماقت کو حماقت ہی کی تلاش ہوتی ہے اور بدنصیبی بدنصیبی ہی کا گھر ڈھونڈتی ہے۔ کانٹوں کا اُگنا اُن کے بوئے جانے کے عوض ہے۔ اتنے میں اُس بیوقوف نے ایک مرتبہ ان ہڈیوں پر اسمِ اعظم پڑھ کر دم کرنے کا تقاضا کیا۔ جب انہوں نے سمجھانے کی کوشش کی تو وہ ناراض ہو کر کہنے لگا اے روح اللہ اب آپ بھی اپنا معجزہ دکھانے میں بخل سے کام لینے لگے۔ شائد آپ کی زبان مبارک میں پہلی تاثیر نہیں رہی۔ یہ سن کر حضرت عیسیٰ ؑنے اُن ہڈیوں پر اسمِ اعظم پڑھ کر دم کیا۔ آن کی آن میں اُن ہڈیوں میں حرکت ہوئی اور ایک ہیبت ناک شکل کا قوی الجثہ شیر کھڑا ہوا اور اُس نے گرج کر جست لگائی اور اُس بیوقوف آدمی کو لمحہ بھر میں چیر پھاڑ کر برابر کر دیا۔ یہاں تک کہ کھوپڑی بھی پاش پاش کر ڈالی اور اُس کا خول ایسا خالی ہوا کہ جیسے اُس میں بھیجہ تھا ہی نہیں۔حضرت عیسیٰ ؑ یہ تماشا دیکھ کر حیران ہوئے اور شیر سے پوچھا اے جنگل کے درندے تو نے اس شخص کو اتنی تیزی سے کیوں چیر پھاڑا۔ شیر نے جواب دیا اس وجہ سے کہ اس احمق نے آپ کو خفا کر دیا تھا اور آپ کی توہین پر اُتر آیا تھا۔حضرت عیسیٰ ؑ نے اس سے پوچھا کہ تو نے اس کا گوشت کیوں نہ کھایا اور اُس کا خون کیوں نہ پیا۔ شیر نے کہا اے پیغمبرِخدا میری قسمت میں اب رزق نہیں ہے۔ اگر اس جہان میں میرا رزق ہوتا تو مجھے مردوں میں داخل ہی کیوں کیا جاتا۔

قارئین! حماقتوں کے بڑے بڑے تماشے ہم نے دیکھے اور سُنے ہیں لیکن محسن کشی کی جیسی مثالیں ہمارے ملک کے اندر آج کل پیدا کی جارہی ہیں اُن کی نذیر پیش کرنا مشکل ہے۔براہِ راست موضوع کی طرف آتے ہوئے ہم یہ کہتے چلیں کہ آزادکشمیر اور پاکستان میں قائدِ اعظم محمد علی جناح ، لیاقت علی خان سے لے کر حکیم محمد سعید، ڈاکٹر عبد القدیر خان، ڈاکٹر عطا الرحمان اور لارڈ نذیر احمد تک اپنے محسنوں کے ساتھ ہمارا قومی رویہ اور سلوک محسن کشوں اور احسان فراموش کرنے والے لوگوں جیسا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنی زندگیاں اس قوم کے لیے وقف کیں اور ان کے شب و روزاس وطن کی خوشحالی اور حفاظت کی خاطر گزرے۔ ہم نے اُن کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا۔آج کے موضو ع کے حوالے سے ہم کہتے چلیں کہ لارڈ نذیر احمد ہی وہ شخصیت ہیں کہ جنہوں نے میرپور کی دھرتی پر جنم لینے کے بعد برطانیہ پہنچ کر پہلے تاحیات مسلمان رکن کی حیثیت سے ہاﺅس آف لارڈز میں گزشتہ کئی سالوں کے دوران پاکستان اور تحریکِ آزادی کشمیر کے لیے آواز بلند کی اور اُسکے ساتھ ساتھ وطن کی مٹی کو بھی فراموش نہ کیا اور اُن کے اندر ہمیشہ یہ تڑپ رہی کہ مادرِ وطن میں غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہموطنوں کے لیے سُکھ کے کچھ لمحات کہیں نہ کہیں سے ضرور کشید کئے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب جنرل مشرف اقتدار پر قابض تھے تو اُنہوں نے تارکینِ وطن کے نمائندہ کی حیثیت سے جنرل مشرف سے میرپور میں سوئی گیس کے منصوبہ کی منظوری لی اور افتتاح کروایا۔آج جب میرپور میں ”بے نظیر بھٹو شہید میرپور میڈیکل کالج“ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے منظور کر لیا ہے تو ہر کوئی وزیرِ اعظم آزادکشمیر چودھری عبد المجید کو خراجِ تحسین تو پیش کر رہا ہے لیکن ہر کسی کے علم میں یہ بات ہونا چاہےے کہ اس منصوبہ کی حتمی منظوری بھی لارڈ نذیر احمد نے میڈیکل کالج ایکشن کمیٹی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر ریاض احمد کے ہمراہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری سے ایوانِ صدر میں ہونے والی ایک اعلیٰ سطحی ملاقات میں لی تھی۔دو سال قبل ایکشن کمیٹی کی اس تحریک میں ڈاکٹر سی ایم حنیف، ڈاکٹر ریاست علی چوہدری، ڈاکٹر اکرم چوہدری، ڈاکٹر طاہر محمود ، چوہدری سعید، سہیل شجاع مجاہد، راجہ خالد، چوہدری شوکت، چوہدری نعیم،سہیل شاہین، ناہید طارق اور دیگر درجنوں تنظیموں کے نمائندے شامل تھے۔اگر کریڈٹ اور ڈس کریڈٹ کی گیم میں ہم لارڈ نذیر احمد کو فراموش کرنے کی کوشش کریں تو یہ احسان فراموشی کے مترادف ہو گا۔صدرِ پاکستان آصف علی زرداری سے ہونے والی اس ملاقات میں لارڈ نذیر احمد نے اُنہیں تارکینِ وطن کے نمائندہ کی حیثیت سے دس لاکھ سے زائد کشمیریوں کے جذبات سے آگاہ کیا جو دیارِ غیر میں رہ کر وطن کی خوشحالی کے لیے محنت مزدوریاں کر رہے ہیں۔آصف علی زرداری نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ لارڈ صاحب ہم نے یہ میڈیکل کالج آپ کو دے دیا ہے اور اس کا افتتاح کرنے کے لیے میں آپ کے ساتھ میرپور میں خود موجود ہوں گا۔آج سیاسی افراتفری کے عالم میں لارڈ نذیر احمد اور آصف علی زرداری شائد حریفوں کی شکل میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آکھڑے ہوئے ہیں اور اس اختلاف کی وجہ ڈاکٹر ذو الفقار مرزا کی بغاوت اور نعرہِ مستانہ ہے کہ جس کے مطابق کراچی میں ہونے والی قتل و غارت گری کا ذمہ دار اُن کے خیال میں الطاف حسین اور اُن کا گروپ ہے۔ہم اس حوالے سے آج کے کالم میں کوئی بات نہیں کریں گے ہاں اتنا ضرور کہیںگے کہ ہمیں اُمید ہے آصف علی زرداری ، چوہدری عبد المجید اور دیگر جیالے اتنی وسعتِ قلبی ضرور رکھیں گے کہ وہ سیاسی اختلاف کے باوجود لارڈ نذیر احمد کے کردار کو نظر انداز کرنے کی کوشش نہیں کریں گے ۔اور اگر ایسی کوئی کوشش کی گئی تو یقین رکھئے کہ وہ آج کی بیان کردہ حکایت کے احمق والی کوشش ہو گی۔جس کا انجام ان کی اپنی سیاسی موت ہو گا۔قارئین! قومیں حالات کے مد و جزر سے گزرتے ہوئے اپنی منزل تک تبھی پہنچتی ہیں کہ جب وہ اپنی ترجیحات طے کر کے اُس کی طرف جستجو کا سلسلہ جاری رکھتی ہیں۔وزیر اعظم چوہدری عبد المجید کی طرف سے مظفر آباد اور میرپور میں میڈیکل کالجز کے قیام کے سلسلہ میں ذاتی دلچسپی لینا انتہائی خوش آئند اقدام ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ آزادکشمیر میں تعلیمی انقلاب کی بنیاد رکھیں گے اور اس کے لیے دیگر اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی قائم کریں گے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے راقم سے FM93ریڈیو میرپور آزادکشمیر پر براہِ راست انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ جلد ہی میرپور میں خواتین یونیورسٹی کی داغ بیل بھی ڈال دی جائے گی۔اس انٹرویو میں ایکسپرٹ جرنلسٹ کے فرائض راجہ حبیب اللہ خان اور محمد رفیق مغل نے ادا کئے جبکہ دیگر مہمانوں میں پرنسپل بےنظیر بھٹو شہید میرپور میڈیکل کالج پروفیسر ڈاکٹر میاں عبد الرشید، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر ریاست علی چوہدری اور وائس پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر اشرف نظامی شامل تھے۔چوہدری عبد المجید نے انٹرویو میں واضح طو ر پر اعلان کیا کہ میرپور میڈیکل کالج کو جلد ہی پانچ ہزار کنال سے زائد اضافی اراضی دی جارہی ہے تاکہ اس کو میڈیکل یونیورسٹی کے طور پر اپ گریڈ کیا جاسکے، اس کالج کے ساتھ ایک ہزار بستروں پر مشتمل ٹیچنگ ہاسپٹل بھی بنایا جائے گا اور آنے والے دنوں میں بےنظیر بھٹو شہید کے وعدہ کے مطابق انٹرنیشنل ایئر پورٹ بھی میرپور میں قائم کیا جائے گا۔

قارئین وزیر اعظم آزادکشمیر چوہدری عبد المجید خود کو گڑھی خدا بخش اور نوڈیرو کے شہید وں کامجاور کہتے ہیں اور اُنکا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ بی بی شہید کے ہر وعدے کو پورا کریں گے۔ ہم آج کے کالم میں اُن سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ لارڈ نذیر احمد سے سیاسی اختلاف جس کی کوئی بنیادنہیں اُسے ختم کر دیں اور مل جُل کر تحریکِ آزادی کشمیر کے لیے کوششیں کریں۔لاکھو ںکشمیری شہداءکا خون چوہدری عبد المجید اور پیپلز پارٹی کے تمام جیالوں کو آواز دے رہا ہے کہ تمہاری پارٹی کی بنیاد ذو الفقار علی بھٹو شہید نے کشمیر کے نام پر رکھی تھی۔ ہمیں فراموش مت کرو۔ بقول علامہ اقبالؒ

جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہو گا، یہی ہے اِک حرفِ محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی اُسی کا مشتاق ہے زمانہ
مِری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیحِ روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
نہ تھا اگر تو شریکِ محفل قصور میرا ہے یا کہ تیرا
مِرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مئے شبانہ
ہوائیں اُن کی ، فضائیں اُن کی سمندر اُن کے جہاز اُن کے
گِرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر؟ بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
ہوا ہے گو تُند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں اندازخسروانہ

قارئین!ہمیں اُمید ہے کہ قومی مقاصد کی خاطر ہم چھوٹے چھوٹے سیاسی اختلافات کو نظر انداز کر دیں گے اور پوائنٹ سکورنگ سے بچتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم بہن بھائیوں کی خاطر اتحاد اور اتفاق کا راستہ اختیار کریں گے۔سوئی گیس کے منصوبے کے بعد میرپور میڈیکل کالج کی منظوری پوری کشمیری قوم کے لیے خوشی کی خبر ہے۔خوشی کے ان لمحات میں ہم اپنے محسن لارڈ نذیر احمد کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں۔ رہی بات چوہدری عبد المجید وزیرِ اعظم آزادکشمیر کی تو اُنہیں ہم اتنا ہی کہتے ہیں۔
”ویلڈن سر“

آخر میں حسبِ روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔
”ماں نے بیٹے کو کہا کہ کل تمہارا جغرافیہ کا پیپر ہے۔ سبق یاد کرو کچھ سمجھ نہ آئے تو مجھ سے پوچھ لینا۔ بیٹے نے کچھ دیر بعد آواز دی ۔ امی دریائے نیل کہاں ہے؟
ماں نے کام کرتے ہوئے بے دھیانی سے جواب دیا۔ ”بیٹا غسل خانے میں صابن کے ساتھ پڑا ہے۔“

قارئین! ہمارے قائدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ کون سی چیز کہاں پر ہے اور کس شخصیت کا کیا مقام ہے۔ورنہ حالت دریائے نیل اور صابن والے نیل جیسی ہو سکتی ہے۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 338291 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More