اصغر خان کی پٹیشن کا فیصلہ کب ہو گا؟

تحریک استقلال کے چیئرمین ائر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے اپنی جماعت کو عمران خان کی تحریک انصاف میں ضم کر کے اس میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے۔ عمران خان کے ساتھ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک کی اقتصادی حالت انتہائی خراب ہے اور تحریک انصاف ہی ملک کے آئندہ معاملات سنبھال سکتی ہے۔پریس کانفرنس میں عمران خان کو آئندہ انتخابات میں متوقع دھاندلی سے خبردار کرتے ہوئے اصغر خان کا کہنا تھا ماضی کے تمام انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔اس تناظر میں انہوں نے ایک بار پھر چیف جسٹس پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی پٹیشن کا فیصلہ کیا جائے کیونکہ اس سے سیاست میں ایجنسیوں کے سیاسی کردار کو کم کیا جا سکتا ہے۔

چند سال قبل کسی انگریزی معاصر میں ایک سینئر کالم نگار کے حوالے سے رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ 1996 میں بزرگ سیاستدان اصغر خان نے سابق آرمی چیف اسلم بیگ، ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل اسد درانی اور مشہور زمانہ مہران بنک سکینڈل کے مرکزی کردار یونس حبیب کےخلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ مذکورہ کرداروں نے عوامی سرمائے کی مجرمانہ تقسیم کرتے ہوئے اس کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا ۔ پٹیشن کی سماعت کے دوران جہاں آئی ایس آئی کی طرف سے مختلف شخصیات کو رقوم کی ادائیگی کا تذکرہ آیا وہیں جنرل اسلم بیگ کی طرف سے یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ آئی ایس آئی میں ایک سیاسی شعبہ بھی موجود ہے۔ رپورٹ میں پیپلز پارٹی کے ان مخالف سیاستدانوں کو بھی بے نقاب کیا گیا جنہوں نے بے نظیر حکومت کو گرانے کے لیے آئی ایس آئی سے رقوم وصول کیں تاکہ وہ 1990میں ہونے والے انتخابات سے قبل نواز شریف اور آئی جے آئی کو فائدہ پہنچا سکیں۔اصغر خان کی دائر کردہ پٹیشن کی آخری سماعت جنرل پرویز مشرف کی طرف سے اقتدار پر شب خون مارنے سے صرف ایک دن قبل 11اکتوبر 1999کو ہوئی جس کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ سعید الزمان صدیقی نے عدالت میں یہ اعلان کیا کہ انہوں نے اصغر خان کی پٹیشن پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے ۔ بعد ازاں یہ کیس سرد خانے کی نذر ہو گیا اور آج تک معرض التوا میں چلا آ رہا ہے۔ انہی دنوں جسٹس سعید الزمان صدیقی کا ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا اصغر خان کی پٹیشن کا فیصلہ آج بھی بڑی اہمیت حامل ہے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ میرا فیصلہ آ جاتا تو ملکی تاریخ بدل جاتی لیکن اتنا ضرور ہے کہ میرے فیصلے سے آئی ایس آئی کا سیاست میں کردار ضرور کم ہو جاتا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ سپریم کورٹ چاہئے تو اس کیس کو دوبارہ چلا کر اور وکلا کے دلائل سن کر فیصلہ دے سکتی ہے۔

اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں کہ پاکستان کی سیاست کا ستیاناس بلکہ سوا ستیاناس کرنے میں خفیہ ایجنسیوں نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔یہ بات زبان زد عام ہے اور موجودہ حالات نے بھی ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں حکومتیں بنانے اور توڑنے کا مقدس کام ہمیشہ خفیہ ایجنسیاں ہی کرتی ہیں۔یہ انہی ایجنسیوں کی کارستانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج تک ملک میں کبھی بھی سیاسی استحکام نہیں آیا اور معاشی استحکام تو ویسے بھی سیاسی استحکام کا مرہون منت ہوتا ہے۔ اقتدار کے پر اسرار کھیل میں انٹیلی جنس ایجنسیاں سیاسی کٹھ پتلیوں کو کس طرح نچاتی ہیں اور ان کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں اس کی چند جھلکیاں انٹیلی جنس بیورو کے سابق ڈائریکٹر جنرل مسعود شریف نے ایک انٹرویو میں دکھائی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس کا کیا حق بنتا ہے کہ وہ حکومت بنائے یا ختم کرے ۔ جمہوریت کا مستقبل اس وقت تک محفوظ نہیں ہو سکتا جب تک سول انٹیلی جنس ایجنسیاں مضبوط نہیں ہوتیں۔ اپنے انٹرویو میں انہوں نے کہا میں تو کہتا ہوں ڈی جی آئی ایس آئی اور ایم آئی جمہوری حکومتوں کو توڑنے کی سازش میں شریک ہوتے ہیں کیونکہ پاکستان میں آخری فیصلہ ہمیشہ انٹیلی جنس کا ہوتا ہے۔کئی سال پہلے ایک انٹرویو میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہرالقادری نے بھی کہا تھا کہ ایجنسیاں سیاستدانوں کی فائلیں تیار رکھتی ہیں اور بوقت ضرورت حکومتیں بنانے اور توڑنے کے لیے انہیں استعمال کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی سے کشمیر تک اور پشاور سے کوئٹہ تک ایسے لوگ ایجنسیوں کو مل جاتے ہیں جن کا نظریہ اور عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ جس کو ایجنسیوں کی چھتری دستیاب ہو گی وہی انتخابات میں کامیاب ہو گا لہذا ایجنسیوں کے اشارے پر کام کرنا چاہئے اسی لیے ساری سیاست جہنم میں چلی گئی ہے۔ اب مولانا فضل الرحمن نے پچھلے ہفتے سکھر میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں انتخابی نتائج کا تعین پہلے ہی کردیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات طے شدہ ہوتی ہے کہ الیکشن میں کس جماعت کو کتنی سیٹیں ملنی ہیں اور کس امیدوار کو جتوانا ہے اور کس کوہروانا ہے۔ یہ افسوسناک بات ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے ایک ایسے مرحلے پر نام نہاد جمہوریت پر کاری ضرب لگائی ہے جب موجودہ ملکی حالات اس بات کی چغلی کھارہے ہیں کہ یہاں فوج اور خفیہ ایجنسیوں کا سیاسی کردار ناقابل یقین حدتک مضبوط ہے۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ انتخابات کے حتمی نتائج آئی ایس آئی کے سیف ہوم اسلام آبادسے جاری ہوتے ہیں جس کی تصدیق جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمداپنے ایک انٹرویو میں بھی کرچکے ہیں۔

ہماری قومی تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ یہاںخفیہ ایجنسیوں نے اپنی حقیقی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی طرف اتنی بھر پور توجہ نہیں دی جتنی سیاسی سرگرمیوں اور دیگر ناپسندیدہ کارروائیوں کی انجام دہی پر اپنی توانائیاں صرف کیںاور ملک کا قیمتی سرمایہ بھی ضائع کیا ۔ان تمام باتوں کے تناظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خفیہ اداروں کی بے لگامی کو کنٹرول کیسے کیا جائے اور ان کا رخ قومی مفاد کے منافی سرگرمیوں سے ملک کے لیے سودمند اقدامات کی طرف کیسے موڑا جائے؟ اس کے لئے ایک طریقہ مولانا طاہر القادری کا ہے کہ سیاسی و جمہوری قوتیںمتحد ہوکر پارلیمنٹ کو مضبوط کریں اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے استعمال سے گریز کریں جبکہ دوسرا طریقہ جسٹس سعید الزماں صدیقی والا ہے کہ عدلیہ اصغر خان کی پٹیشن پر ازخود کارروائی کرتے ہوئے کیس کی سماعت کرے اور اصغر خان اپنی درخواست کی دوبارہ پیروی شروع کریں اور سپریم کورٹ جلدازجلد سماعت مکمل کرکے فیصلہ سنائے تاکہ آئی ایس آئی کو غیر آئینی اور غیر قانونی سرگرمیوں سے باز رکھا جاسکے ۔اگر سپریم کورٹ جسٹس سعید الزماں صدیقی کا لکھا ہوا فیصلہ ہی سرسری سماعت کے بعد سنا دے اور آئی ایس آئی کے علاوہ دیگر ایجنسیوں کو تنبیہہ کرے کہ وہ آئندہ اپنے متعین کردار سے ہٹ کر کوئی کارروائی کرنے سے گریز کریں تو یہ بھی قرین انصاف اور قابل تحسین اقدام ہوگا۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بے راہ روی کو روکنے کے لئے جو اقدام اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے وہ یہ کہ ان اداروں کا کڑا احتساب کر کے ان کی نگرانی کا سخت ترین نظام وضع کیا جائے تاکہ آئندہ یہ امریکہ یا کسی اور غیر ملکی اشارے پر پاکستان میں اپنی من پسند حکومتیںتشکیل دینے کے گندے کام سے باز رہیں۔ یہ کام انتہائی مشکل ضرور ہے کہ بڑے بڑے پھنے خان قسم کے لوگوں کا پتہ ان کے آگے پانی ہوجاتا ہے مگر ناممکن نہیں ۔ بہتر ہو گا کہ یہ کام بھی عدلیہ ہی کرے کہ اس کی حیثیت شاک ایبزار برکی ہے اور ویسے بھی سیاستدانوں سے ایسے کسی اقدام کی توقع عبث ہے کیونکہ موجودہ سیاسی کلاس میں سے اکثر و بیشتر نے اپنی پیشانی پر ضمیر برائے فروخت کا لیبل سجا رکھا ہے۔
Ghulam Mehdi
About the Author: Ghulam Mehdi Read More Articles by Ghulam Mehdi: 11 Articles with 7323 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.