کِنّے کِنّے جانا اے بِلّو دے گھر

ایک چوہا اپنے بِل میں گھُسابیٹھاتھا۔تھوڑی دور ایک بلّی اس کے باہر نکلنے کا انتظار کر رہی تھی۔ بلّی کو بہت بھوک لگی تھی لیکن چوہا باہر نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔آخر کار بلّی کو ایک ترکیب سوجھی ۔اس نے چوہے کو آواز دے کر کہا کہ ”بھانجے ! اگر تم اس بِل سے نکل کر اُس بِل میں چلے جاؤ تو میں تمہیں 500 روپے انعام دوں گی “۔یہ سُنتے ہی چوہے نے بِل سے سر باہر نکالا لیکن پھر فوراََ ہی اندر کر لیا ۔ بِلّی نے پوچھا ”بھانجے ! کیا ہوا ؟۔“چوہا بولا ”خالہ ! پیسے بوہتے تے پینڈاا تھوڑا،کوئی چکر اے “۔(خالہ ! پیسے زیادہ اور فاصلہ کم ہے،یقیناََ کوئی چکر ہے۔)

محترم عمران خاں آج کل قوم کو ذوالفقار علی بھٹو کے روٹی ، کپڑا اور مکان سے بھی زیادہ سہانے خواب دکھلانے میں مصروف ہیں ۔اُن کے دِل خُوش کُن بیانات سے یوں لگتا ہے کہ جیسے موسمِ گُل بامِ وطن سے بغل گیر ہونے کو ہے ۔۔۔۔۔ مگر کیسے؟ ۔۔۔۔۔ میں نے بھی ایک رات ”احمقوں کی جنّت میں گزاری ۔ہُوا یوں کہ مجھے کام وام تو کوئی تھا نہیں اس لئے تخیل کی ”پست پروازی“ سے میں وزیرِ اعظم بن بیٹھی میں نے سوچا کہ میں کرپشن کا خاتمہ کر دوں گی ، مہنگائی پر ضربِ کلیمی لگاؤں گی اور قرضہ خوروں کو اُلٹا لٹکا دوں گی ۔دودھ اور شہد کی نہروں کو ”آخرت “ کے لئے چھوڑتے ہوئے مُلک کو تیل ، گیس ، سونے ، تانبے ، کوئلے ، اور لوہے کی دولت سے مالا مال کر دوں گی ۔تعلیم مکمل مفت اور عالمی معیار کے ہسپتالوں کا ایسا جال بچھادوں گی کہ پھر کسی کو چھینک آنے پر دبئی نہ جانا پڑے ۔قلعہ بند پولیس کو باہر نکال کر عوام کی حفاظت پر مامور کر دوں گی اور صنعتی لحاظ سے ملک کو کم از کم جاپان کے ہم پلہ ضرور کر دوں گی ۔بیرونی ممالک میں رکھی گئی ساری دولت واپس لا کر پاکستان کو امریکہ کے برابر کھڑا کرکے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کروں گی ۔چوری ، ڈاکہ ، اغوا برائے تاوان ، کاروکاری ، رشوت ، سفارش ، جنسی تشدد اور فسق و فجور کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکوں گی ۔پٹوار خانے بند اور پولیس ، کسٹم ، انکم ٹیکس وغیرہ میں کرپشن کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنا دوں گی۔ریلوے ، پی۔آئی۔اے ، سٹیل مِل اور ان جیسی دیگر پچاس کارپوریشنوں کو سونے کے انڈے دینے والی مُرغیوں میں ڈھال کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ٹیکس فری بجٹ پیش کیا کروں گی ۔جاگیر دارانہ نظام کو اپنی عظمتوں کے کلہاڑے سے پاش پاش کر دوں گی اور فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے ”افلاطونی“ قانون سازی کروں گی ۔عورت کے حقوق کا ایسا تحفّظ کروں گی کہ پھر کسی ”وینا ملک“ کو کسی دشمن مُلک میں چند ٹکوں کی خاطر ”برہنہ“ نہ ہونا پڑے ۔کشمیر تو خیر آزاد کرواؤں گی ہی لیکن کوشش یہ ہو گی کہ لگے ہاتھوں دِلّی کے لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرا کر ”سقوطِ ڈھاکہ“ کا بدلہ بھی لے لوں۔مُلک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کو ہمالیہ سے اونچا کر دوں گی اور نظامِ عدل ایسا بناؤں گی کہ زنجیرِ عدل کے ہلتے ہی انصاف سنہری سِکّوں کی مانند چھن چھن کرتا جھولی میں آگرے ۔۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر ایسا نظام ترتیب دوں گی کہ فوج پھانسیوں اور ”جلاوطنیوں“ جیسے گھٹیا کام کرنے کی بجائے صرف سرحدوں پہ رہے اور کبھی شہروں کا رُخ کرنے کی جرات نہ کرے۔یوں تو میں نے اور بھی بہت کچھ سوچ رکھا تھا لیکن اچانک سوال دامن گیر ہُوا کہ ایسا کیوں کر ممکن ہو گا ؟۔میں نے فوراََ ”خیالی پلاؤ“ پکانا چھوڑ کر ”خیالی گھوڑے“ دوڑانے شروع کر دیئے،رات کا ایک پہر گذرا ، پھر دوسرا ، تیسرا اور جب آخری پہر آیا تو میں صرف سوئس بینکوں سے پیسے واپس لانے میں بھی کامیاب نہ ہو سکی ۔اس لئے میں ”وزارتِ عظمیٰ“ کو ” لات مار “ کے سو گئی اور اگلے دن دوپہر تک سوتی رہی ۔

سوچتی ہوں کہ ”پینڈا تھوڑا تے پیسے بوہتے“ لگتا ہے یہ بھی خاں صاحب کا کوئی چکر ہے اور پاکستان میں چکر تو صرف ”کُرسی“ کا ہوتا ہے جس کی بھُوک سے سبھی نڈھال ہوتے ہیں ۔ اسی کُرسی کی بھوک نے آج قصور میں خاں صاحب کے جلسے میں کارکنان کو اپنی کرسی کے ساتھ ساتھ دوسروں کی کرسیاں بھی لے اُڑنے پر مجبور کر دیا ۔ اللہ کرے خاں صاحب کے من کی مراد پوری ہو لیکن یہ جو اُنہوں نے لوٹوں کا ”مینا بازار“ سجا رکھا ہے وہ مقرّر کسی ”چکر“ کی نشاندہی کرتا ہے ۔بِلاخوفِ تردیدیہ ”کرسی“ ہی کی برکت ہے کہ آج ”مشرف“ کی فوج کا تیس افراد پر مشتمل ہراول دستہ بھی خاں صاحب کے ساتھ آن ملا اور ساتھ ہی ابرار الحق بھی ۔میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب میں خاں صاحب کے ہر جلسے میں ضرور شرکت کروں گی کیونکہ مجھے وہ روح پرور منظر دیکھنے کا بڑا شوق ہے جب سٹیج سے یہ ”ترانہ “ پاک وطن کی فضاؤں کو معطر کرے گاکہ
ٹکٹ کٹاؤ ، لین بناؤ
کِنّے کِنّے جانا اے بِلّو دے گھر
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 866 Articles with 562301 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More