کے ہيں ميري صبح ِعروج ميں ابھي رنگ شامِ زوال کے

شام میں لیبیا کی کہانی دوہرائی جارہی ہے ۔کرنل معمرقذافی کی ہلا کت کا جشن طرابلس کی مانند شام کے شہر حمص میں منایا گیا ۔لوگ جوش وخوش کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے وہ نعرے لگا رہے تھے’’ آج ہمارے لئے مسرت و امید کا دن ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ اگلی باری بشار الاسد کی ہے‘‘۔شام کی قومی کونسل کےرہنما امر العزم نے کہا تھاجناب اسد کو ان لو گوں سے عبرت پکڑنا چاہئے جو ان سے پہلے جا چکے ہیں زین العابدین چونکہ تیونس سے بھاگ کھڑا ہوا اس لئے سعودی عرب میں حیات ہے ۔حسنی مبارک اس وقت تک مزاحمت کرتا رہا جب تک کہ فوج نے اسے اقتدار سے پر امن طریقے پربے دخل نہیں کر دیا نتیجہ یہ ہوا کہ جیل میں ہے اور عدالت میں اسپر مقدمہ زیرِ سماعت ہے ۔قذافی نے اسد کی مانند اپنی تمام تر قوت کے ساتھ بھڑ جانے کا فیصلہ کیااس لئے ہلاک ہو گیا ۔ العزم کے مطابق ’’الاسد قذافی کے انجام سے بھی سبق نہیں سیکھیں گے۔وہ قتل و غارتگری کرتے رہیں گے اس لئے کہ وہ اس کے سواکچھ اورجا نتے ہی نہیں‘‘۔

مذکورہ بالا بیان کی تصدیق کسی اور نے نہیں خود بشار الاسد نے کر دی۔ اے بی سی چینل پر اپنے ایک انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو اپنے لوگوں کے قتل پر کوئی احساسِ جرم ہوتا ہے؟تو انہوں نے جواب دیا میں کوئی قتل نہیں کر رہا ہوں۔ میں فوج کا کمانڈر نہیں ہوں ۔ہم تو حفاظت کر رہے ہیں ۔اول تو یہ وہی دلیل ہے جو احمق لوگ واقعۂ کربلا میں یزید کے حوالے سے دیتے ہیں چونکہ یزید کربلا میں موجود نہیں تھا اسلئے ساری ذمہ داری کمانڈر شمر کے سرجاتی ہے۔ تقریباً پانچ ہزار لوگوں کی موت کے باوجود بشار الاسد کا دعویٰ کے ہم تو حفاظت کر رہے ہیں مشکل سے سمجھ میں آتا ہے۔ مبادہ بشار کی مرادشامی عوام کے بجائے علاوی قبیلے سے ہو اس لئے کہ وہ شامی عوام کو اپنا سمجھتے کب ہیں؟ اور جہاں تک ان کے اپنے قبیلے کا سوال ہے اس کا قتل نہیں بلکہ تحفظ کیا جا رہا ہے اس لئے ندامت کی کیا حاجت؟

شام چونکہ سوویت خیمہ میں رہا اور اس نے گوں ناگوں مصلحت کی بنا پر امریکہ سے مصالحت نہیں کی اس لئے مغرب کے اکثر و بیشتر ممالک اس کے دشمن رہے ہیں اس کےباوجود اس کے بہت سارے ہمنوا بھی پائے جاتے تھے۔ پڑوسی ملکوں میں ترکی ،عراق اور ایران کی شام کے ساتھ گہری دوستی تھی ۔ لبنان میں جب تک اس کی فوج موجود تھی وہاں کی حکومت کیلئے اسے ناراض کرنا مشکل تھا۔حماس و حزب اللہ جیسی تحریکوں کی وہ حمایت کرتا تھا اور اسے ان تائید حاصل تھی ۔ عرب لیگ کے رکن کی حیثیت سے اسکے پاس ایک ڈھال موجود تھی ۔ اقوام ِ متحدہ میں روس اور چین جیسی بڑی طاقتیں اس کی ہمنوا تھیں جو اس کے خلاف پیش ہونے والی قرارداد کو ویٹو کرنے سے پس و پیش نہ کرتی تھیں۔غیر جانبدار ممالک نہ ہی بشار کی گرفت کرتے تھے اور نہ ہی تا ئید کرتے تھے لیکن رائے شماری کے وقت غیر حاضر ہو جاتے تھے ۔ مگر اب صورتحال بدل رہی ہے ایک ایک کر کے یہ سارے مکڑی کے جال کی مانند بکھرتے جارہے ہیں اور ۴۱ سالہ خاندانی اقتدار کے ارد گرد مشیت کا شکنجہ تنگ ہوتا جارہا ہے ۔قرآنِ حکیم میں خلقِ خدا کے اندر عدل و راستی کا حکم دینے کی خاطر اٹھنے والوں کے درپئے آزار ہوجانے والوں کو دردناک عذاب کی خوشخبری کے ساتھ یہ منادی بھی سنادی گئی کہ ان کا کوئی مدد گار نہیں ہوگا ۔ ارشاد خداوندی ہے : جو لوگ اللہ کے احکام و ہدایات کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اس کے پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں، جو خلق خدا میں عدل و راستی کا حکم دینے کے لیے اٹھیں، ان کو درد ناک سزا کی خوش خبری سنا دو ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو گئے، اور ان کا مددگار کوئی نہیں ہے (22-21 :3)

شام میں جیسے ہی احتجاج کا آغاز ہوا مغرب نے اسے اپنے لئے نعمت غیر مرتقبہ جانا جس کی مختلف وجوہات تھیں ۔ایران سے امریکہ کی پریشانی اور حزب اللہ و حماس سے اسرائیل کو خطرہ ان میں سب سے اہم تھا لیکن شام کے اپنے پڑوسیوں سے خوشگوار تعلقات مداخلت کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھے۔لبنان سے گوکہ شامی فوجوں کی واپسی ہو چکی اس کے باوجود حزب اللہ کی موجودگی اور اس پر لبنانی حکومت کا انحصارکسی بھی کارروائی کو ناکام بنانے کیلئے کافی تھا ۔ ایران نے آگے بڑھ کر یکے بعد دیگرے کئی فوجی اور معاشی معاہدے کرنے شروع کر دئیےتھے نیز اقوام متحدہ میں چین و روس دونوں نے شام کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا لیکن وقت کے ساتھ سب کچھ بدل گیا ۔ عرب لیگ جس نے آگے بڑھ کر شام کے مسئلہ کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا اور بیرونی مداخلت کے امکانات کو خارج کردیا تھا تاکہ بشار الاسد کو اصلاح کا موقع دیا جائے اور پرامن عوام پر مظالم کا سلسلہ بند ہو ۔شامی حکام نے اس کےفیصلے کو تسلیم کیا مگر جوروظلم جاری رکھا ۔ یہاں تک لیگ کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیااور اس نے اعلان کردیا کہ ۲۱ دسمبر کو ہونے والی اپنی نشست میں وہ اس معاملے میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کریں گے گویا بیرونی مداخلت کا راستہ ہموار ہو جائیگا۔ یہ افسوس ناک بات ہے بشارالاسد کی بہیمانہ رخ نے ازخود اس دروازے کو بند کر دیا جو نکاسی کے باعزت راستے کی جانب کھلتا تھا۔

عرب لیگ کی اس اہم نشست سے قبل عراقی حکومت کے دفاعی مشیر فلاح الفیاض نے دمشق کا دورہ کیا ۔ یہ وہی فیاض ہیں جنہوں نے ابھی حال میں وزیر اعظم نور المالکی کے ساتھ امریکہ کا دورہ کیا تھا جس مکمل انخلا پرمہر تصدیق کی گی ۔ فلاح نے اپنے دورے کے اختتام پر بتلایا کہ میں مثبت گفتگو کر کے قاہرہ عرب لیگ کی نشست میں جارہا ہوں۔ہم اپنا موقف واضح کر چکے ہیں ۔ہم موجودہ کشمکش کا ایک ایسا پرامن اخاتنم چاہتے ہیں جس میں شامی عوام کے جمہوری انقلاب کی خواہش کا احترام کیا جائے ۔اس تبدیلی میں نہ تو بیرونی مداخلت کا عمل دخل ہو اور نہ ہی اس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ تصادم کو فروغ ملے ۔ نوری المالکی کے ایک اور مشیر علی الموسوی نے گزشتہ ہفتہ صاف طور پر یہ اعلان کیا کہ ان کی حکومت کئی ماہ قبل اسد کو استعفی دینے کیلئے کہہ چکی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شامی عوام آزادی اور جمہوریت کا حق ہے ۔ہم یک جماعتی آمریت کے مخالف ہیں جس میں اظہار رائے کی آزادی نہیں پائی جاتی ۔ الموسوی کایہ بیان حکومت عراق کے ماہِ اگست میں اختیار کئے جانے والے موقف کے خلاف ہے جبکہ امریکہ نے الاسد کو اقتدار چھوڑنے کے لئے کہا تھا۔ نورالمالکی نے اس وقت کہا تھا کہ ہمارے دشمن اس بات منتظر ہیں مسلم ممالک اندرونی خلفشار کا شکار ہو کر کمزور ہو جائیں اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ صہیونی اسرائیل کو ہوگا۔وزیراعظم نورالمالکی نے اس موقف کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا کہ ہم حزب اختلاف اور دمشق حکومت کے درمیان گفتگو کا آغاز کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایک ایسا حل نکالا جاسکے جو دونوں فریقوں کیلئے قابلِ قبول ہو ۔ انہوں نے یہ بھی بتلایا کہ امریکہ اور یوروپ بشارالاسد کے بعد اقتدار پر قابض ہوجانے والوں کے بارے میں فکر مند ہیں اس لئے وہ عراق کی جانب سے کی جانے والی پیشقدمی کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔

موجودہ بیان میں دونوں میں متحارب فریقوں سے گفتگو کا ذکر اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ اب بشار الاسد کا یہ حامی بھی پالا بدل چکا ہے ۔ عوام کی خواہشات کا پاس و لحاظ یقیناً بشار کے خلاف جاتا ہے اور جمہوری طریقے کا اشارہ بھی موجودہ اقتدارکی بیخ کنی کیلئے کافی ہے ۔مغرب کی فکرمندی بھی واجب ہے اس لئے کہ تیونس ، مراقش اور لیبیا کے بعد اب مصر بھی اسلام پسندوں کا خیر مقدم کررہا ہے ۔ عرب لیگ کی میٹنگ میں شام نے پھر ایک بار اپنے اڑیل رخ کو نرم کرتے ہوئے تفتیشی وفد کے معائنہ پر رضامندی ظاہر کر دی ہے لیکن اس سے مسئلہ حل ہونے کے بعد بگڑ جائیگا۔اول تو احتجاجیوں کے حوصلے بلند ہوں گے اور ان کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔ دوسرے شامی حکومت کا ان پر ہاتھ ڈالنا پہلے کی طرح آسان نہ ہوگا نیز جب وفد وہاں سے لوٹ واپس آئیگا تو اس کی رپورٹ یقینا ً بشار کے خلاف ہوگی ۔ اگر اس وقت تک بشار کو عقل آجائے تو وہ زین العابدین کی پیروی کرے گا ورنہ پھر قذافی کا انجام سے دوچار ہو جائیگا ۔ دمشق کے اقتدار کی حالت فی الحال ایک چلتی پھرتی لاش کی سی ہے اور وہ کب تک اس حالت نزع میں مبتلا رہے گی یہ کہنا مشکل ہے لیکن اس میں شک نہیں کے نزع کے بعد یقیناً موت کا مرحلہ آتا ہے ۔

قدرت کا یہ عجیب کر شمہ ہے کہ جس عراق کے اثرات کو زائل کرنے کی خاطر نو سال قبل امریکہ نے فوج کشی اور اربوں ڈالر کے ساتھ ساتھ اپنی عزت و ناموس کو خاک میں ملا دیا۔ وہاں خود اس کے اپنے اعتراف کے مطابق کرائے کے فوجیوں کے علاوہ ۴۵۰۰ سے زیادہ باقائدہ فوجی ہلاک ہوے نیز تیس ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ دس لاکھ سے زیادہ فوجی ان نو سالوں میں عراق آئے گئے اس کےباوجود عراق دنیا کے حصہ میں ایک اہم ترین فریق بن کر سامنے آگیا ۔ ۲۰۰۸تک تو امریکی انتظامیہ عراق سےانخلاء کا ٹائم ٹیبل دینے کیلئے تیار نہیں تھا اور یہ کہتا پھرتا تھا کہ ہمارا قیام عراق میں تقریباً دائمی ہوگا۔چار بڑی فوجی چھاؤنیوں پر ہمیشہ ہی ہمارا تسلط برقرار رہے گا اور ہمارے فوجیوں کو وہاں کے قانون میں ابدی امان حاصل رہیگی۔یہ سارے دعویٰ وقت کے ساتھ غلط ثابت ہو چکے ہیں ۔ اپنی متعینہ مدت سے قبل آخری حملہ آور فوجی وہاں سے نکل چکا ہے اور مہم کے خاتمے کا باقائدہ اعلان ہوچکا ہے۔ایک طرف بغداد میں تعمیر ہونے والا دنیا کا سب سے بڑا امریکی سفارتخانہ اپنی کم مائیگی پر رو رہا ہے دوسری جانب شام کے معاملے میں عراق سب سے بڑا ثالث بنا ہوا ہے ۔عراق کو دوسرے ممالک پر جو فوقیت حاصل ہوئی ہے اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں اول تو اس کے بیک وقت ایران اور اس کےسب سے بڑے دشمن امریکہ کے ساتھ تعلقات کا استوار ہیں دوسرے اس کے حکمراں شیعہ فرقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے باوجودوہ عرب لیگ کا اہم رکن ہے۔ گویاوہ تمام عناصر جن کی بنیاد پر امت میں تفریق پیدا کرنے کی کو شش کی جاتی ہیں۔ عراق میں وہ تمام بیک وقت پائے جاتے ہیں ۔ایسے میں مختلف لوگوں کو اعتماد میں لے پائیدار امن کی جانب پیش قدمی اس کیلئے سہل تر ہے ۔

شام کے معاملے میں پہلے کڑا رخ اختیار کرنے والے روس وچین کو مشترکہ طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کرنے پر تیار کرلیا گیا ہے ۔جس کا مسودہ پیش کیا جاچکا ہے ۔ اس مسودے میں گو کہ فی الحال معاشی پابندیوں اور فوجی مداخلت کا ذکر نہیں ہے پھر بھی حقوقِ انسانی کی پامالی کو تسلیم کیا گیا ہے اور تشدد کو روک تھام کیلئے اقدامات پر زور دیا گیا ہے ۔روس کی جانب سے دکھلائی جانے والی یہ لچک ہوا کے رخ میں تبدیلی کا پتہ دیتی ہے ۔ اب شام کے خلاف پیش کی جانے والی خود اسکی قرارداد کو ویٹو کرنے کا موقع روس وچین کے پاس موجود نہیں ہے ۔ ویسے لیبیا کے معاملے میں ساری دنیا نے یہ دیکھ لیا کہ کس طرح روسی حکام اپنا رخ بدلتے ہیں۔ روس کے شام میں اس قدر مفادات ہیں کہ اپین تنصیبات کی حفاظت کیلئے اسے نئے حکمرانوں سے خوشگوار تعلقت رکھنے ہی ہوں گے ۔اقوام متحدہ میں روس کے نمائندے وٹالی چرکین نےیہ تو تسلیم کیا کہ شامی حکومت کی جانب سے قابلِ لحاظ زیادتی ہوئی ہے لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ انتہا پسندوں نے اس کا فائدہ اٹھایا ۔چرکین کے مطابق حکومت مخالفین کی خونریزی کا بھی ان کے مسودے میں ذکر ہے ۔بہرحال تشدد کا خاتمہ، انسانی حقوق کی بحالی، دستوری و دیگر اصلاحات کے حق میں یہ ایک مضبوط قرارداد ہوگی تاکہ اس کی مدد سے عرب لیگ تعمیری، مثبت و پر امن کردار ادا کر سکے ۔

بشارالاسد کا سب سےمضبوط قلعہ آج بھی ایران کی حکومت ہے لیکن اب اس میں بھی شگاف پیداہو گیا ہے ۔ایک خبر کے مطابق دمشق میں واقع حکومت مخالف قومی رابطہ کمیٹی سے ایرانی حکام دو مرتبہ ملاقات کر چکے ہیں ۔ یہ کمیٹی بیرونی مداخلت کے بغیر اصلاحات کی علمبردار ہے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ ایران نے بشارالاسد کے سب سے بڑی مخالف جماعت شامی قومی کونسل سے بھی تیونس رہنما راشد غنوشی کے توسط سے رابطہ قائم کیا ہے ۔ ویسے ابھی تک اس جانب کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی ہے بلکہ پیرس میں رہنے والے انقلابی رہنما برہان غالیون نے سی این این پر ایک ملاقات میں ایران کو انتباہ کرتے ہوئے کہا تھا ’’مجھے امید ہے ایران شام کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایک ایسے اقتدار کی حمایت کر کے خراب نہیں کرے گا جسے خود شام کی عوام نے مسترد کر دیا ہے اور جو اپنی عوام پر مظالم ڈھا رہا ہے ۔ یہ دسمبر کے اوائل کی بات ہے ایسا لگتا ہے وقت کے ساتھ ایرانی حکومت اپنی غلطی کا احسا س ہوتا جارہا ہے۔ اس لئے کہ عراق کی موجودہ حکومت ایران کی تائید کے بغیر عراق کی بابت اس قدر کھل کر پیش قدمی نہیں کر سکتی۔

اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ حماس کا صدر دفتر دمشق میں واقع ہے لیکن فی الحال حماس نے بھی بشارالاسد سے فاصلہ بنالیا ہے ۔؁۱۹۹۹ کے بعد سے جب اردن نے انہیں ملک بدر ہونے پر مجبور کردیا تھاسیکڑوں فلسطینی دمشق میں رہتے بستے تھے لیکن اب وہ سب بکھر گئے ہیں اور اب صرف دس فیصدحما س کارکن صدر دفتر میں موجود ہیں۔ اس دوران حماس نے ترکی، قطر اور اردن میں اپنے دفاتر قائم کر لئے ہیں اور وہ اپنا صدر دفتر مصر لیجانے کی تیاری کر رہے ہیں جہاںاخوان الالمسلمون کو انتخابات میں کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ یہ اندازہ بھی لگایا جارہا ہےکہ مصر کی فوجی حکومت نے الفتح سےمفاہمت کی شرط پر انہیں اپنا دفتر قائم کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔حماس کے ایک کارکن کے مطابق مارچ کے مہینے میں جب بشارالاسد نے حماس رہنما خالد مشعل پر حمایت کیلئے دباؤ دالا تو انہوں نے اس کا انکار کر کے دفتر کو منتقل کرنے پر رضامندی ظاہر کردی لیکن پھر بشار الاسد نے اپنا ارادہ بدل دیا اس لئے کہ اس میں اسکی اپنی ساکھ بگڑتی تھی ۔ بشارالاسد کےا خوان پر مظالم اور حماس کی حمایت نیز ایک کٹر سیکولر اور سوشلسٹ نظریہ کا حامی ہونے کے باوجود اسلامی جمہوریہ سے دوستی ایک تفصیل طلب موضوع ہے جس کا احاطہ اس مضمون میں ممکن نہیں ہے ۔ بشارالاسد کیلئے اس نازک گھڑی میں اگر کوئی سب سے اچھی نصیحت ہو سکتی ہے تو ترکی وزیر اعظم رجب طیب اردغان کی ہے جس میں انہوں فرمایا"ہماری خواہش یہ ہے کہ اسد حکومت جوتلوار کی دھار پر گامزن ہے اس پگڈنڈی پر نہ قدم رکھے جو آگے چل کر معدوم ہوجاتی ہے اور جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی " انہوں نے یہ بھی کہا کہ’’ کوئی اقتدار دارورسن کی بنیاد پر قائم نہیں رہ سکتا ۔ مظلوموں کے لہو پر مستقبل کی تعمیر ممکن نہیں ہے‘‘ اگر بشار الاسد اس عمدہ نصیحت پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو اس میں انہیں کا بھلا ہے ورنہ تاریخ کا کوڑہ دان اس جیسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے ۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1224189 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.