روشنی کی کرن

پانچویں صدی ہجری اپنی 80ویں دہا ئی کے اختتام پر تھی اور اُندلس میں طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا ، بنیادی طور پر شہنشاہِ اندلس” معتمد“ تھا لیکن سلطنت کے طول و عرض میں کئی کٹھ پتلی حکومتیں قائم ہوچکی تھیں،جن کے فرمانروا ہر وقت اپنے زیرِ اقتدار رقبہ کو بڑھانے کی فکر میںرہتے تھے،اور اس مقصد کے حصول کے لیے اسلام تو کجا،انسانی اخلاقی تقاضوں کوبھی بالائے طاق رکھنے میں کوئی عارمحسوس نہ کرتے تھے، حکمرانوں کا یہ ٹولہ اندلس کی سرزمین پر بسنے والی قوم کے سیاہ و سفید کا مالک بن چکا تھا ۔اپنی کرسی بچانے کےلئے عیسائیوں کے پاس جان ومال اور عزّت وآبرو گروی رکھوادینا،عیسائیوں کو اپنے ملک کے باشندوں پر دراندازی کی کھلی اجازت دی دینا انکے لئے ایک عام سی بات تھی۔

حکمرانوں کو اس افسوسناک روش پر چلتا دیکھ کر عوام بُری طرح بے چین تھے ۔کچھ لوگ مایوس ہوکر ہجرت کرنے لگے ۔باقی رہ جانے والے کسی آسمانی مدد کے منتظر تھے ۔تا حال اُن کی اُمیدوں کا آخری سہارا علماء اور قضاة کیساتھ تھے ،جو ان مخدوش حالات میں بھی عوام کی رہنمائی کے بجا طور پر اہل تھے۔اسی دوران اند لس کے پڑوس میں واقع افریقہ کی صحرائے اعظم میں بربر قوم نے اسلام کا پرچم بلند کیا ہوا تھا اور المرابطون کے نام سے صحیح معنوں میں اسلامی حکومت قائم کرکے شہرت کے میدان میں پہلا قدم رکھ چکی تھی۔یہ قوم اپنے امیر یوسف بن تاشفین کے ماتحت ارضِ اسلام کی توسیع میں مصروف تھی۔

اندلس کے مسلمانوں نے اس موقع کو تائید ِایزدی جانا اور جھٹ سے اپنے دینی رہنماؤں (علماءاور قضاة)سے سفارش کی کہ ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اس خطّہ پر عیسائیوں کے بڑھتے ہوئے تسلّط کوروکنے کے لیے ضروری ہے کہ امیر المرابطین یوسف بن تاشفین سے مدد مانگی جائے اور حکمرانوں کو اس سے مدد لےنے پر مجبور کیا جائے ۔

چنانچہ علماءکی اِفہام و تفہیم کا شہنشاہِ اندلس معتمد پر کسی درجہ اثر ہو ااور اس نے امیر المرابطین سے مدد لینے پر اِظہارِ آمادگی کرلیا،بالآخر بطلیوس،غرناطہ،قرطبہ وغیرہ کے قضاة پر مشتمل وفد نے افریقہ کے صحراؤں کا رخ کیااور یوسف بن تاشفین نے مشورہ کے بعد ان کا ساتھ دینے کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہوئے قبول کرلیااور عیسائےوںسے مقابلہ کرکے انہیں شکست دی۔

آج مملکتِ خداداد پاکستان بھی تاریخ کے اسی دوراہے پر کھڑی ہے۔حکمرانوں کی عیّاشیوں اور خود غرضیوں نے قوم کو اِس نہج پر لا کھڑا کیا ہے کہ امریکیوں کے ناپاک ہاتھوں سے اس قوم کا کوئی فرد محفوظ نہیں۔ڈالروں کے عوض مسلمانوں کی عزّت و آبرو کا سودا تو ۱۱/۹ کے بعد ہی کیاجا چکا تھا۔پھر 2008 میں غیروں کے سنگ اپنوں سے جنگ کی داغ بیل بھی ڈال دی گئی۔2001 میں افغانستان پر امریکی حملہ کے وقت امریکی آقاؤں کیساتھ جو حلفِ وفاداری اٹھایا تھا،اسکے نتیجہ میں ابھی تک تقریبا 800 مسلمان چند ٹکّوں کے عوض امریکی عقوبت خانوں میں منتقل کیے جاچکے ہیں ،جن میں نجانے کتنی عافیہ صدیقی !!بھی شامل ہیں؟گوری چمڑے والے آقاؤں کے احکامات کی بلا چوں چراں بجا آوری میں وزیرستان، سوات، باجوڑ، اورکزئی ایجنسی میں اپنے ہی بھائےوں کے خون سے ہولی کھیلی ۔شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ڈرون حملوں میں شہید ہونے والے مسلمانوں کی تعداد(جن میں اکثر اہل ِ وطن ہیں) 2680 ہوچکی ہے۔یہ تو صرف اندرونِ پاکستان کی صورت حال ہے،ورنہ پاکستانی ائر بیسوں سے اُڑان بھرنے والے امریکی طیّاروں کی اندھا دھند بمباری کے نتیجے میں لقمہ اجل بننے والے معصوم افغان شہری تو اس سے کئی گُنا زیادہ ہیں۔پھر کیا اِن تمام قربانیوں کے عوض آقاؤں کی خوشنودی حاصل ہوگئی؟؟؟نہیں ،ہرگز نہیں! آج بھی ہم امریکہ کی نظروں میں معتوب ہیں۔ہماری وفاداریاں انکی نظر میں آج بھی مشکوک ہیں۔روزانہ اخبارات کی شہ سرخیوں پر ہمارے حکّامِ بالاکی جانب سے چھپنے والی بھیک اور امدادی التجاؤں کے جواب میں آقاؤں کی سرد مہری اور حقارت آمیز رویّہ غلاموں کی بے بسی کا منہ چڑا رہا ہے۔ اب تو شامتِ اعمال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ امریکی طیاروں کا رخ ہماری سرحدی چوکیوں کی طرف بھی ہونے لگا ہے۔ہلمند بارڈر پر جواتحادی افواج کبھی پاک فوج کیساتھ ملکر افغان مجاہدین کے تربیتی کیمپوں پر شب خون مارا کرتی تھیں،آج وہ ہمارے ہی ملک پر حملے کےلئے اپنا لاؤ لشکر ہلمندبارڈر کے ساتھ اکٹھا کرنے لگی ہیں۔چودہ سو سال پیشتر نازل ہونے والا ربّ ذو الجلال کایہ فرمان﴾لن ترضٰی عنک الیہود ولن نصٰریٰ حتّٰی تتّبع ملَّتہم ﴿(اے محمّدﷺ !یہود و نصاریٰ آپ سے کبھی خوش نہ ہوں گیں ،یہاں تک کہ آپ انکے مذہب کی پیروی کرلیں)آج کے مسلمانوں سے اپنی صداقت کا لوہا منوارہا ہے۔

آج مسلمانانِ پاکستان کی بھی وہی حالت ہے جو آج سے تقریباََ نو سو سال قبل اہلِ اندلس کی تھی،ہم بھی آج انکی طرح اپنے اوپر مسلّط حکمرانوں کی نا عاقبت اندیشی کے سبب دشمنوں کا تر نِوالہ بن چکے ہیں، لیکن اسکے ساتھ ساتھ ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان میں ایک روشنی کی کرن نمودار ہونے لگی ہے۔وہاں کے سرفروشان ِاسلام نے عظمت وشجاعت کی نا قابلِ فراموش داستان رقم کر ر ہے ہیں۔ طالبان کے نام سے مشہور یہ قوم امیر المومنین ملّا محمّدعمر مجاہد حفظہ اﷲ کی زیرِ قیادت 52 ممالک کی اتّحادی افواج کیساتھ براہِ راست نبرّد آزما ہے۔کیل ،کانٹے سے لیس ابرہہ کے لشکر پر ٹوٹی پھوٹی مشین گنوں کیساتھ قہرِالٰہی بنی ہوئی ہے اور بحمد اﷲفتح انکی قدم بوسی کر رہی ہے۔امریکہ شکست کھارہا ہے۔اسے نکلتے نہیں بن پڑ رہی،بس صرف آخری جھٹکے کی ضرورت ہے،جس کے بعد انشاءاﷲالعزیز اوجِ ثریّا سے گرنے والے اس بھاری بھرکم ہاتھی کی حالت شکست خوردہ ”سرخ ریچھ“ سے کم نہ ہوگی۔

آج ہمیں اندلس کی تاریخ سے سبق لینے کا موقع میسر ہے۔ان حالات میں ہمارے علماءکا فرض بنتا ہے کہ مسلمانانِ پاکستان کا مستقبل بچانے کےلئے حکمرانوں کو امیر المومنین کا ساتھ دینے اور امریکہ کی حمایت سے دست کش ہونے کا اعلان کرنے پر آمادہ کریں ۔ حکمرانوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ امیرِ اندلس کے اس قول کو نصب العین بنائیں جو اس نے ایسے ہی سنگین حالات کے پسِ منظر میں کہا تھا:”میں اپنے بعد میں آنے والی نسلوں سے یہ ملامت سننا نہیں چاہتا کہ میں ہی وہ شخص ہوں جس نے اندلس کو کفّار کے لیے شکار گاہ بنایا،مجھے گوارا نہیں کہ کل کو ہر مسجد کے منبر سے مجھ پر لعنت کی آواز بلند ہو،رہا اپنا ذاتی خیال تو وہ یہ ہے کہ افریقہ میں اونٹ چرانے کی خدمت کو اس سے بہتر سمجھوں گا کہ قشتالیہ میں سور چراؤں“۔
محمّد مبشر مقصود
(شریک کالم نگاری کورس)
(طالبعلم جامعہ دارالعلوم کراچی)
mubashir
About the Author: mubashir Read More Articles by mubashir: 8 Articles with 10450 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.