چائنہ، لارڈ نذیر اور سعودی عرب

شیخ شرف الدین سعدیؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک درویش تنگدستی میں مبتلا ہوا تو اُس نے اپنے ایک دوست کے گھر سے کمبل چرا لیا اور اُسے فروخت کر کے اپنی ضرورت پوری کر لی۔ لیکن اُس کا یہ گناہ ظاہر ہو گیا۔ اُسے گرفتار کر لیا گیا۔ قاضی نے مقدمہ کی کاروائی مکمل کرنے کے بعد اسلامی شریعت کے مطابق اُس کا ہاتھ کاٹنے کی سزا سنا دی۔ جس شخص کا کمبل چرایا گیا تھا جب اُسے پتا چلا کہ اُس کے دوست کا ہاتھ کاٹا جائے گا تو وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو ا اور سفارش کی۔ قاضی صاحب مہربانی فرما کر اسے سزا نہ دیجئے ۔ اس نے میرا کمبل چرایا تھا میں اسے معاف کرتا ہوں۔ قاضی نے جواب دیا تیرے معاف کر دینے سے بھی یہ شخص سزا سے نہیں بچ سکے گا۔ کیونکہ چور کو سزا دینا اسلامی شریعت کا منشاء ہے۔اُس شخص نے کہا یہ بات ٹھیک ہے کہ اسلامی شریعت کے مطابق چوری کی سزا ہاتھ کاٹناہے لیکن چوری کیا جانے والا مال اگر وقف ہو تو پھر یہ سزا نہیں دی جاسکتی۔ہم جیسے درویشوں کا مال وقف ہوتا ہے۔ ہم کسی کو بھی چیز کو اپنی ملکیت نہیں سمجھتے۔ قاضی نے اس بات سے اتفاق کیا اور چور کو معاف کر دیا۔ لیکن اُس نے ملامت کی تو نے چوری بھی کی تو اپنے ایک ایسے شریف دوست کے گھر کہ جس نے تجھے سزا سے بھی بچا لیا۔ اُس شخص نے فوراً جواب دیا۔ قاضی صاحب آپ نے بزرگوں کا یہ قول سنا ہو گا۔”کہ دوست کا گھر صاف کر دو لیکن دشمن کا دروازہ نہ کھٹکھٹاﺅ کہ وہ تمہاری مدد کرے گا۔“اس حکایت میں شیخ سعدی ؒ قارئین کو ایک ایسے نتیجے کی طرف لے گئے ہیں جو بظاہر اسلامی فلسفہ حیات سے ٹکراتا ہے یعنی اگر انسان کسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو دوستوں کے کپڑے اُتار لے اور دشمن کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے حکایت میں سوالی بن کر کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے مزمت کی ہے جو فلسفہ اسلام کے عین مطابق ہے۔ با الفاظِ دیگر خودار اور شریف لوگوں کے نزدیک بھکاری بن کر ہاتھ پھیلانا چوری کے گناہ سے بھی بُرا ہے۔

قارئین! موجودہ طوفانوں میں گھرے ہوئے پاکستان کے لیے اگرکوئی سُکھ اور عافیت کی جگہ ہے تو وہ صرف دو ممالک ہیں ایک تو ہمسایہ ملک چین کہ جس نے 1947ءسے لے کر آج تک مختلف بحرانوں میں ایک سچے دوست کی طرح پاکستان کی دامے، درمے، سخنے، قدمے ہر طرح مدد کی ،1962ءمیں بھارت کے ساتھ جنگ کے موقع پر چین نے پاکستان کو کھل کر کہا کہ وہ کشمیر کو قبضہ میں لے لے کیونکہ بھارت کو چین نے شکست دے دی ہے۔ لیکن افسوس اُس وقت کے سربراہ جنرل ایوب خان اس کی ہمت نہ کر پائے اور کشمیر آزاد نہ ہو سکا۔یہ ہمسایہ دوست ملک چین ہی ہے کہ جس نے ہر مشکل وقت میں سلامتی کونسل میں قراردادیں ویٹو کر کے پاکستان کی کھل کر مدد کی جس کی وجہ سے بین الاقوامی سامراج عالمِ اسلام کی پہلی اور واحد جوہری قوت کو مٹانے میں ناکام رہا۔ یہ چین ہی ہے کہ جو ریکوڈیک، گوادر، شاہراہِ ریشم سے لے کر پاکستان کے تمام بڑے پراجیکٹس میں مدد کر رہا ہے اور پاکستان کی معیشت کا پہیہ صحیح معنوں میں ہمارے اسی دوست کی مدد کی وجہ سے چل رہا ہے۔ دوسری جانب اگر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہم نے اپنے اس مخلص دوست کی بے کراں اور پُر خلوص محبتوں کا جواب کس طرح دیا ہے تو دکھائی دے گا کہ شیخ سعدیؒ کی حکایت کا وہی چور درویش وفا کا بدلہ جفا سے دے رہا ہے۔ امریکہ جو پوری دنیا کا لیڈر بننے کی کوشش کرتے ہوئے ہر ملک پر اجارہ داری کرنے کی کوشش کرتا ہے پاکستان نے ہمیشہ چین سے نظر بچاتے ہوئے انکل سام کی گود میں بیٹھنا پسند کیا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کے اس عظیم دوست نے ان غلطیوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا اور کبھی بھی پاکستان کو فراموش نہیں کیا۔ حتیٰ کہ جب پاکستان نے بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کر کے اپنے جوہری اثاثوں کا اعلان کیا تو پوری دنیا پاکستان کا بائیکاٹ کرنے پر تُل گئی لیکن آفرین ہے چین پر کہ جس نے اُس نازک وقت میں بھی دوستی نبھائی اور پاکستان کے کٹتے ہوئے ہاتھوں کو محفوظ کیا۔

قارئین! اسی طرح جب ہم اپنے دوست ملک سعودی عرب کی طرف دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک جس اسلامی ملک نے پاکستا ن کی سب سے زیادہ مالی امداد کی ہے وہ سعودی عرب ہے۔بھارت کے ساتھ جنگوں کے موقع پر سعودی عرب نے اپنے خزانوں کے دروازے کھول دیئے اور پاکستان کو کسی بھی معاشی بحران میں گرفتار نہ ہونے دیا۔ اسی طرح جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے اور امریکہ اور یورپ نے پاکستان پر معاشی پابندیاں لگائیں تو پاکستان کے دیوالیہ ہوجانے کا اندیشہ تھا۔اُس موقع پرسعودی عرب نے ایک مرتبہ پھر اپنے خزانوں کے منہ پاکستان کے لیے کھول دیئے اور مالی امداد کے ساتھ ساتھ خطیر مقدار میں مفت تیل پاکستان کو فراہم کیا۔ یہاں ہم اپنے پڑھنے والوں کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ سعودی عرب ہی وہ عظیم ملک ہے کہ جس نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو فنانس کیا اور اربوں روپے ایٹمی پروگرام کی ترویج و ترقی کے لیے بغیر کسی حساب کے پاکستان کے حوالے کیئے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی بم صرف ایک ملک کا بم نہیں ہے بلکہ پوری اسلامی دنیا کی حفاظت کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود اسرائیل اور امریکہ کی کھلی مخالفت کے سعودی عرب کی تمام حکومتوں نے پاکستان کی امداد ڈنکے کی چوٹ پر کی ہے۔اب یہاں پر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ سعودی عرب جیسے دوست کے ساتھ بھی پاکستان کا جوابی رویہ ایک وفادار اور سچے دوست والا نہیں ہے۔انکل سام اور بین الاقوامی استعمار کے اشاروں پر پاکستان بارہا سعودی عرب کے خلاف بھی استعمال ہو رہا ہے۔یہ علیحدہ بات ہے کہ چونکہ سعودی عرب کے ساتھ پاکستانی عوام کعبتہ اللہ اور روضہ رسول ﷺ اور دیگر مقدس مقامات کی وجہ سے جنون کی حد تک محبت اور عقیدت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی بھی پاکستانی حکومت کو کھل کر یہ جرات نہیں ہو سکی کہ وہ سعودی عرب مخالف سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔

قارئین! یہاںپر ہم اپنے کالم کی شخصیت کی طرف چلتے ہیں ۔لارڈ نذیر احمد میرپور آزادکشمیر کی دھرتی پر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم یہیں سے حاصل کی اور اُس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ چلے گئے۔وہیں پر انہوںنے ملازمت اختیار کی، سیاست میں حصہ لیا اور ترقی کرتے کرتے ایک دن ایسا آیا کہ ایک پسماندہ اور غریب علاقے اور گھرانے سے تعلق رکھنے والا یہ عظیم انسان برطانوی ہاﺅس آف لارڈز کا پہلا تاحیات مسلمان رکن بن گیا۔لارڈ نذیر احمد نے لارڈ بننے سے پہلے اور بعد پاکستان اور کشمیر سے اپنی غیر مشروط محبت کا اظہار اس طرح کیا کہ جب بھی پاکستان پر مشکل وقت آیا تو لارڈ نذیر احمد شیر کی طرح ہاﺅس آف لارڈز میں بھی بولا اور پوری دنیا میں پاکستان کے حق میں لابنگ کی۔کشمیر کی آزادی کے لیے لارڈ نذیر احمد نے برطانیہ سے لے کر امریکہ تک اور یورپ سے لے کر افریقہ تک تمام بین الاقوامی فورمز پر لاکھوں کشمیری شہداءکا کیس پیش کیا اور امن دوست ممالک اور قوتوں کو بھارت کے گھناﺅنے چہرے سے آگاہ کیا۔اُن کی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان کا امیج پوری دنیا میں بہتر ہو ا اور دنیا کو یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ پاکستان انتہا پسند ملک نہیں ہے بلکہ روشن اسلامی روایات رکھنے والا ترقی پسند امن دوست ملک ہے اور اسی طرح کشمیر میں جاری تحریکِ آزادی ایک قوم کی آزادی کی جنگ ہے نہ کہ دو ہمسایہ ممالک پاکستان اور بھارت کا کوئی بارڈر ایشو۔غرض یہ کہ لارڈ نذیر احمد نے پاکستان کی تمام سیاسی اور فوجی حکومتوں کے ادوار میں اپنی مثبت سرگرمیوں کے ذریعے پاکستانیت اور کشمیریت کا حق ادا کر دیا لیکن دیکھئے کہ دو دوست ترین ممالک کی طرح ہم نے پاکستان کے سب سے بڑے دوست کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ڈاکٹر ذو الفقار مرزا بقول خود ایسے ثبوت لے کر برطانیہ گئے کہ جن کے مطابق ایم کیو ایم کے مقتول رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں الطاف حسین ملوث ہیں۔ انہوں نے لارڈ نذیر احمد سے درخواست کی کہ وہ برطانوی حکام سے اُن کی ملاقاتیں کروا دیں کیونکہ پاکستان میں خون کی جو ہولی کھیلی جارہی ہے اُس کا کھرا برطانیہ میںمقیم الطاف حسین کے گھر تک آتا ہے۔اس پر لارڈ نذیر احمد نے سکاٹ لینڈ یارڈ اور دیگر ذمہ دار اداروں سے اُن کی ملاقات کروا دی۔جس سے یہ خطرہ پید اہو گیا کہ الطاف حسین پر فردِ جرم عائد ہو سکتی ہے۔پاکستان میں یہاں تک خدشہ محسوس کیا گیا کہ اگر ایسا ہو گیا تو وفاقی حکومت کو رخصتی مل سکتی ہے۔اس پر کہا یہ جاتا ہے کہ پہلے آزادکشمیر کے وزیرِ اعظم چوہدری عبد المجید اور بعد ازاں رحمان ملک اور آصف علی زرداری نے لارڈ نذیر احمد کو فون کر کے اُنہیں استدعا کی کہ وہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزاکا ساتھ نہ دیں اور اُن کی مدد نہ کریں کیونکہ اس کی وجہ سے پاکستانی حکومت کے لیے سیاسی مسئلے کھڑے ہو رہے ہیں۔لارڈ نذیر احمد نے جواب دیا کہ وہ ڈاکٹر ذو الفقار مرزا کا ساتھ اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق دے رہے ہیں نا کہ کسی کو خوش کرنے کے لیے اس پر برافروختہ ہو کر آزادکشمیر کابینہ نے لارڈ نذیر احمد کو ”ناپسندیدہ شخصیت“ قرار دے کر اُن کی شہریت منسوخ کرنے کی کارروائی کا اعلان کیا۔صد افسوس کہ ہم نے اپنے چونسٹھ سالہ دور میں ابھی تک کچھ نہیں سیکھا۔وفاﺅں کا بدلہ جفاﺅںسے دینا ہم جیسے سخت دلوں کی پرانی روش ہے۔بقول غالب
عہدے سے مدحِ ناز کے باہر نہ آسکا
گر اک ادا ہو تو اُسے اپنی قضا کہوں
حلقے ہیں چشم ہائے کشادہ بسوئے دل
ہر تارِ زلف کو نگہِ سُرمہ سا کہوں
میں ، اور صد ہزار نوائے جگر خراش
تُو ، اور ایک وہ نہ شنیدن کہ کیا کہوں
ظالم مرے گماں سے مجھے منفل نہ چاہ
ہَے ہَے خُدا نہ کردہ ، تجھے بے وفا کہوں

ہماری حکومتِ پاکستان اور آزادکشمیر سے گزارش ہے کہ وہ اپنے دوستوں کو گنوانے سے گریز کریں۔کیونکہ سچے دوست مشکل سے ملتے ہیں اور اگر وہ روٹھ جائیں تو بعد میں بے شک اُنہیں منا بھی لیا جائے لیکن شیشے میں آئی ہوئی بال برابر لکیر بھی عمر بھر دور نہیں ہوتی۔ یہی ہماری آج کی درخواست اور التجا ہے۔

آخر میںحسبِ روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔
ایک ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں ایک لڑکا داخل ہوا اور پوچھنے لگا ڈاکٹر صاحب آپ کے پاس درد کی دوا ہے۔
ڈاکٹر نے پوچھا بالکل ہے یہ بتاﺅ کہ درد کہاں ہے
لڑکے نے جواب دیا۔
ڈاکٹر صاحب ابھی تو درد نہیں ہے آدھے گھنٹے بعد درد ہو گا جب ابو میرا رزلٹ دیکھیں گے۔

قارئین! عاقبت نا اندیش حکومتیں جو جو غلط اقدامات اُٹھاتی ہیں اُن کے نتیجے بعد میں نکلتے ہیں۔ لارڈ نذیر احمد کے ساتھ بھی جو سلوک کیا گیا اُس کا رزلٹ آنا ابھی باقی ہے۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 338079 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More